مسرور جہاں

0
332

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

بیگم فرحت شرف الدین چودھری

’’ بزم اردو‘‘ کی پہلی صدر

سابق صدر و جنرل سکریٹری بزم اردو
نعمت اللہ بلڈنگ،امین آباد ،لکھنؤ

۲۳؍ستمبر ۹۱۰۲؁ کے اخبارات میں مسرور جہاں کی تصویریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں تو دیکھ کر دل دھڑکا،مسرور جہاں رات کے آخری حصہ میں اللہ کے حضور حاضر ہو چکی تھیں۔(انا للہ و انا الیہ راجعون)پچھلے پچاس سالوں کے حالات یاد آ نے لگے۔مسرور جہاں کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا اور خاندان میں علم و ادب کا چرچا رہتا تھا اور اسی پس منظر میں پرورش پائی تھی ،ان کے دادا پروفیسر مہدی حسین ناصر پسندیدہ شخصیت کے مالک تھے،والد ناصر حسین کا ہمیشہ درس و تدریس سے واسطہ رہا۔ان کے چھوٹے بھائی وقار ناصر کہنہ مشق شاعر اور ادیب ہیں۔ محترمہ مسرور جہاں نے طالب علمی کے زمانے سے لکھنا شروع کر دیا تھا مگر اس زمانے کے دستور کے مطابق خواتین کے نام کم ہی چھپتے تھے۔اس لئے یہ فرضی ناموں سے اپنی تحریریں چھپواتی تھیں۔شرفاء میں پردہ کا رواج بھی عام تھااور خواتین ڈولیوں،پالکیوں میں چاروں طرف سے چادر بند سفر کرتی تھیںاور یہی رواج تانگوں اور رکشوں تک میں رہا۔مرحومہ میں لکھنؤ کی تہذیب رچی بسی تھی۔پرانے لکھنؤ کے نوابوں ،تعلقداروں اور جاگیر داروں کی حویلیوں کی حالات سے واقف تھیں۔لکھنؤ میں نواب آصف الدولہ کے دور میں ہی بڑے بڑے نامور شعراء دوسرے شہروں سے ہجرت کر کے یہاں آ چکے تھے۔حتی کہ میر تقی میر بھی اپنی تمامتر خود داری کو بالائے طاق رکھ کر لکھنؤ پہونچ گئے۔شعرو شاعری کے لئے لکھنؤ کہکشاں بنا ہوا تھاجو پہلے سے ہی گہوارہ علم و ادب تھا۔یہ شہر دنیا بھر میں رواداری،نفاست،تہذیب و تمدن، شائستگی، نزاکت، و ضعداری اور تکلف کے لئے مشہور ہے۔یہاں ہمیشہ علمی و ادبی سرگرمیاں رہتی ہیں۔۔گلی گلی شعرا ملیں گے۔کسی نہ کسی کونہ میں مشاعرہ کی رعنائیوں سے سابقہ پڑے گا۔اور یہ سب کچھ پرانے خاندانوں کے طفیل ہے۔یہاں ابھی اودھ کی پرانی تہذیب کی روح زندہ ہے۔
محترمہ مسرور جہاں بھی ان تمام خوبیوں کا پرتو تھیں۔مسرور جہاں کے انتقال کے وقت میری ہی طرح ۸۳ سال کی تھیں۔مگر وہ علم کا بحر بیکراں تھیںاوران کی شہرت چوٹیوں پر تھی۔وہ ۱۹۶۰ سے برابر لکھ رہی تھیں۔لگ بھگ ۵۰۰ ؍افسانے اور قریب ۶۰؍ ناول ان کے شائع ہو چکے تھے۔ان کی تحریریں پنجابی،ہندی،تامل،تیلگو اور ملیالم وغیرہ میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔محترمہ نگہت سلطانہ عابدی نے’’ مسرور جہاں اور فن‘‘پر ڈی لٹ کی اور تاشقند یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ان کے افسانوں پر روسی زبان میں پی ایچ ڈی کی ہے۔
مسرور جہاں نے آخری وقت تک لکھا۔ان کی تحریروں میں ایسے کردار ملتے ہیں کہ قاری سمجھتا ہے کہ وہ ا ن کرداروں سے پہلے سے واقف ہے ۔ارد گرد کے ماحول ،روز مرہ کے مشاہدات سے جو نتیجے اخذ کرتی ہیں ان کو چابکدستی سے سادہ تحریروں میں ڈھال دیتی ہیں۔ان کا دل ہمدردی سے لبریز ہے۔آس پاس کی غریب اور متوسط بستیوں کے خاندان کے افراد کا ان کے یہاں آنا جانا بھی رہتا تھا اس لئے وہ ان کے درد و غم سے واقف رہتیں اور یہی سب ان کی تحریروں میں ملتا ہے۔نوابوں اور تعلقداروں کی حویلیوں کے اندرونی حالات سے بخوبی واقف تھیں ۔ان کی تحریروں میں عورت کے استحصال کے قصے ملیں گے۔جہیز کی مانگوں کی وجہ سے لڑکیاں روایت سے بغاوت کی طر ف مائل ملتی ہیں۔اکثر لڑکیوں کو حسب نسب کی وجہ سے ،کسی کسی میں بچپن میں رشتہ طے ہو جاتے اور بڑے ہو کر حالات بدل جاتے۔پڑھی لکھی کی شادی عمر دراز کاروباری سے ہو جانے پر ترک تعلقات کی نوبت ،توہم پرستی،بغیر مرضی کے شادی ہو جانا۔ساس نندوں کی وجہ ناچاقی،یہ سب حالات اور ہر طرح کے ماحول کو دیکھا اور انہی حالات کی منظر کشی منفرد انداز میں پیش کی۔محترمہ کی عبارت آرائیگی میںسادگی ہے اس لئے قاری کو ان کی تحریر متاثر کرتی ہے۔محترمہ مسرور جہاں کی اپنی زندگی بھی درد و غم سے بھری ہوئی ہے۔ان کی شادی کے بعد شوہر کا نو عمری میں انتقال ہو گیا تھا۔ان کی جوان لڑکی اللہ کو پیاری ہو گئی،اکلوتے جوان لڑکے کا انتقال ہو گیا۔وہ خود تصویر غم بن گئیں۔ان حادثات کا بھی ان کی تحریروں میں اثر ملے گا۔
مرحومہ کو اردو زبان سے والہانہ محبت تھی اور اردو کی بقا اور فروغ کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں۔ان کی کو ششیں اس طرح بار آور ہوئیں کہ شہر لکھنؤ کی مشہور اردو نواز ہستی محترمہ زیبا صلاح الدین،اردو کی ادبی تنظیم بنانے کے لئے آگے آئیں اور محترمہ ریحانہ رحمن اور شاہینہ حسن کو ساتھ لے کر شہر کا دورہ کیا اور محترمہ مسرور جہاں سے مشورہ کر کے ایک نشست اپنی قیام گاہ نعمت اللہ روڈپر ۲۱؍جنوری ۱۹۷۲ء؁ کو رکھی اور ۴؍بجے شام کو چند خواتین جن میں محترمہ مسرور جہاں،محترمہ ریحانہ رحمن،محترمہ غزالہ نسیم ،محترمہ سرور جمال،بیگم شرف الدین ،بیگم ساجدہ شفاعت،محترمہ نجمہ حسین،محترمہ شمیم آرا اور شاہینہ حسن وغیرہ شامل ہوئیں۔محترمہ مسرور جہاں بہت ہی زیرک،ذہین اور دور اندیش تھیں،انھوں نے ایک تنظیم بنانے اور تنظیم کاترقی پسند نام ’’بزم اردو‘‘ تجویز کیا تاکہ ضرورت پر مردوں کو بھی مدعو کیا جا سکے۔نام کو سب نے پسند کیا اور متفقہ طور پر مسرور جہاں کو بزم اردو کا پہلاصدر چن لیا۔دستور العمل وغیرہ سب طے ہو گیا۔رجسٹریشن بھی کرا لیا گیا اور پورے ایک مہینہ بعد یعنی ۲۱؍فروری ۱۹۷۲ء؁ کی شام کو ایک بڑے جلسہ کا اہتمام چودھری شرف الدین نعمت اللہ روڈ کی قیام گاہ پر ہوا ۔جس میں شہر کی سو(۱۰۰) سے اوپر خواتین شریک ہوئیں۔اسی بلڈنگ کے ایک کمرہ میں ایک لائبریری کا افتتاح محترمہ حامدہ حبیب اللہ (جو ا س وقت صوبائی منسٹر بھی تھیں)کے ہاتھوں عمل میں آیااور لائبریری کا انتظام محترمہ صوفیہ فاروقی(ہمشیرہ ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی)کو سونپا گیا۔اس کے بعد محترمہ مسرور جہاں ،بیگم زیبا صلاح الدین اور محترمہ سرور جمال تینوں ایک ہی رکشہ پر بیٹھ کر شہر میں خواتین سے چندہ وصول کرنے ،کتابوں کا انتظام کرنے لگیں۔اس موقع پر محترم نسیم انہونوی نے اپنے پاس سے سو کتابوں کا تحفہ دیا۔اس وقت خواتین میں بڑا جوش و خروش تھا۔یہ طے ہوا کہ مسلم آبادی میں بچوں کے لئے غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کو مفت تعلیم کا انتظام کیا جائے۔محترمہ صبیحہ انور کو جو بڑی پر جوش کارکن تھیں یہ کام سونپا گیا۔مگر جاہل خاندان کے بچوں نے کوئی دلچسپی نہیںدکھائی۔’’بزم اردو‘‘نے شہر لکھنؤ کے کرامت حسین مسلم گرلز کالج،تعلیم گاہ نسواں اور کشمیری محلہ مسلم گرلز کالج کی لڑکیوں میں اردو کے لئے دلچسپی بڑھانے کے لئے بیت بازی اور کوئیز کے پروگرام کرانا شروع کئے، جس سے اردو کے لئے سرگرمیاں بڑھیں۔ کالج کی استانیاں لڑکیوں کو مقابلہ کے لئے تیار کرتی تھیں۔جس دن پروگرام ہوتا اس دن نعمت اللہ بلڈنگ کا وسیع ہال بھر جاتا ۔اس پروگرام میں انعامات بھی رکھے جاتے۔ایک ونر شیلڈ بیگم حامدہ حبیب اللہ کے نام سے بھی شروع کی تھی۔
میرے سامنے ۴۸ ؍سالوں کی یادوں کی ایک بارات ہے جس کو قلم بند کرنا اور ایک نشست میں پڑھنا محال بھی ہے اور وقت کی تنگدامانی بھی آڑے آ رہی ہے۔اس لئے مختصر عرض ہے کہ بزم اردو میں ہندوستان کی نامورہستیاں شرکت کر چکی ہیں۔حیدرآباد سے محترمہ رفیعہ منظورالامین تشریف لائیںتو بزم کی ممبر بن گئیں۔رتن سنگھ،عابد سہیل،بشیشر پردیپ،صالحہ عابد حسین،رضیہ سجاد ظہیرشامل محفل ہو چکی ہیں۔محترمہ عصمت چغتائی صاحبہ بزم اردو کے زیر انتظام اردو اکادمی میں جناب کیفی اعظمی کی زیر صدارت نشست میں شامل ہوئیں۔محترم آنند نارائن ملا ہمیشہ بزم کی جدوجہد میں پیش پیش رہے،جناب نذیر بنارسی،میکش الہ آبادی بھی شریک ہوئے۔مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے جو بزم اردو کی نشست میں شامل ہوتے رہے ان میں محترمہ عزیز بانو داراب وفاؔ،تسنیم فاروقی،امین سلونوی،عمر انصاری،عرفان صدیقی،مسیح الحسن،بیگم فاطمہ حسن،گوپی چند نارنگ،صہبا لکھنوی،پرکاش چندر،رام لعل،قرۃ العین حیدر،شہناز سدرت،طلحہ پروین،بیگم نورالدین،نزہت پروین،طلعت نجمہ حسین،طاہرہ نسیم،صفیہ ظفر،ڈاکٹر عابدہ ماتوی،اختر یزداں محسن،صفیہ قدوائی،عشرت نسیم،صابرہ حبیب،جہاں آرابیگم،صباح الدین عمر،یاسمین قدوائی،حسن کمال،منظر سلیم،ریحانہ سہیل، شمس الرحمن فاروقی، قدسیہ ہاشمی، سروپ رانی بخشی،عطیہ پروین،علی جواد زیدی،جیلانی بانو،لیلی لکھنوی،پاکستان سے مشفق خواجہ،آمنہ مشتاق،جمیل جالبی،صغیرہ نسیم، قدسیہ انصاری،فردوس حیدر،انتظارحسین، عبد القوی ضیاتشریف لا چکے ہیں۔عفت موہانی اور جرمنی سے انریکا تشریف لائیں،شیوانی صاحبہ شکنتلا ورما،چندر کلا سریواستو،یاد دہلوی،قمر جہاںبنارس یونیورسٹی،طلعت شمسی شامل ہوئیں۔
راقم الحروف جب ۱۹۹۷ میں بزم اردو کی جنرل سکریٹری تھی تو بزم اردو کا ’’’جشن سیمیں‘‘منایا گیا۔اس موقع پر سونیئر بھی شائع کیا گیا۔جس کو محترمہ صبیحہ ناز لاری نے بڑی محنت سے ترتیب دیا۔اس میں معیاری مضامین چھاپے گئے،جس میں محترمہ زیبا صلاح الدین،بیگم اقتدار علی،مسرور جہاں،بیگم فرحت شرف الدین،صبیحہ انور،عائشہ صدیقی،صفیہ ظفر،ڈاکٹر صفیہ نسیم کے مضامین تھے۔بزم اردو کو یہ بھی فخر حاصل ہے کہ پروفیسر انیس اشفاق نے اپنا پہلا افسانہ بزم اردو میں پڑھ کر سنایااور اسی طرح فاطمہ وصیہ جائسی نے بھی اپنی پہلی غزل بزم اردو میں سنائی۔
اس وقت بزم کی پرانی ساتھیوں میں محترمہ ریحانہ رحمن،عائشہ صدیقی،محترمہ صبیحہ انور،محترمہ رخسانہ لاری ام ہانی،محترمہ طاہرہ رضوی،محترمہ نگہت خان موجود ہیں۔بزم اردو کو اس وقت چلانے والوں میں محترمہ ریحانہ رحمن،محترمہ شہلا عمر صدیقی ،تبسم قدوائی،اور مجلس عاملہ کے ممبران بڑی حسن و خوبی سے کام کر رہے ہیں۔پچھلے مہینہ میں ایک بہت ہی کامیاب جلسہ کیا گیا تھا جس میںممبئی کی مشہور شاعرہ عائشہ صاحبہ نے شرکت کی تھی۔اس سے ایک دن پہلے خادمہ کو ایواڈ سے نوازا گیا تھا۔آپ سبھی خواتین سے درخواست ہے کہ’’ بزم اردو‘‘ کی ممبر بن جائیں اور اردو زبان و ادب کی ترقی کے لئے کام کریں۔
٭٭٭
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here