مدد ہے یا دکھاوا

0
550

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

سیدہ تبسم منظور ناڈکر

آج پوری دنیا ایک وبا کی زد میں ہے۔یہ پریشانی بھی ہے۔۔۔امتحان بھی۔۔۔ آزمائش بھی اور عذاب بھی ہے اور اس میں سب کی ہوڑ لگی ہے۔سوشل میڈیا پر ہر چھوٹی سے چھوٹی خبر کو بڑا بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ہر گروپ پر واٹسپ، ایف بی ہر جگہ۔ اس پر بھی لوگوں کی جی نہیں بھرتا اور وہ سب پرسنل پر بھی بھیجا جاتا ہے۔اللہ اکبر! سر چکرا کر رہ جاتا ہے۔سوشل میڈیا کا استعمال ضروری غیر ضروری باتوں کے لئے بھی کیاجارہا ہے۔ دیکھنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ کسی کی مدد کرکے لوگ تصویریں نکالتے ہیں پھر میڈیا پر ان تصویروں کو اپ لوڈ کردیتے ہیں۔ یہ مدد کررہے ہیں یا دکھاوا؟؟؟
ہمارے اس مضمون کو لکھنے کا مقصد معاشرے میں یہ جو نیا فیشن چل پڑا ہے اس کے برے اثرات کی نشاندہی کرنا ہے کسی کی دل آزاری نہیں ۔آج کے دور میں انسان نیکی کر کے چیخ رہا ہے ، چِلا رہا ہے اور ہر طرف شوآف کررہا ہے۔ اس حرکت کی طرف لوگوں کی توجہ دلانا ضروری سمجھتی ہوں جس میں بھوکوں، مجبوروں اور محتاجوں کے لئے، یتیم بچوں کے لئے امداد فراہم کرنے کے بعد ان کی تصویروں کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے ان کی رسوائی اور بے بسی کا سامان کیا جاتا ہے۔ انہیں بے عزت کیا جاتا ہے ۔
آپ ان تصویروں کو غور سے دیکھیں تو آپ کو خود ہی سمجھ آجائے گا ۔دینے والے کے چہرے پر خوشی ہوتی ہے تو لینے والے کی نظریں جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ جب بھی ایسی تصویریں نظروں سے گزرتی ہیں جن میں کسی ادارے یا این جی او کے ذمہ داران کوامدادی پروگرام کر کے کھانے پینے کی اشیاء، اناج کے پیکٹ،بچوں کو کتابیں، یونیفارم لیتے ہوئے کیمرے کے سامنے کھڑے ہوئے دکھایا جاتا ہے تودل درد سے کراہ اٹھتا ہے۔ بچے تو بیچارے خوشی خوشی کھڑے بھی ہوجاتے ہیں الگ الگ پوز دینے کے لئے۔ یتیم بچیوں، بیوہ عورتوں یا غریب خواتین، کمزور اور بوڑھے مردوں کو کمبل، کپڑے، راشن، بڑی بڑی ہستیوں کے ہاتھوں سے دیتے ہوئے دکھایا جاتا ہےاور تصویریں کھینچوا کر سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہے۔حد تو یہ ہے مفت کے کیمپ منعقد کرکے معصوم بچوں، عورتوں۔بوڑھوں کو قطار میں بٹھا کر تصویریں اتاری اور سوشیل میڈیاپر پوسٹ کی جاتی ہیں۔
ہمیں لگتا ہے کہ صدقات و خیرات اور امداد جیسے نیک کاموں کی تشہیر کرنے کے اس بے ہودہ طریقہ پر ہر غیرت مند کا دل درد سےکڑھتا ہوگا۔ آج کرونا وائرس کے چلتے ہر جگہ ایسی تصویریں نظر آرہی ہے۔ کیا یہ مستحقین کی رسوائی کا سامان نہیں ہے؟ کیا دکھاوا کر کے ثواب ملے گا؟؟؟
ذرا ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ ان تصاویر کو سوشل میڈیا پر کتنے ہی گروپوں میں شیئر کیا جاتا ہے اور گروپ در گروپ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ایسے میں ان محروم اور لاچار لوگوں کی عزتِ نفس کو کتنی ٹھیس لگتی ہوگی جب ان کی غربت و افلاس کا ڈھنڈورا ان تصویروں کے ذریعے اپنوں اور غیروں میں پیٹا جاتا ہے۔ سچ کہیں تو یہ کسی کی غریبی اور مفلسی کا استحصال کرتے ہوئے اپنی خیرخواہی، اپنی سخاوت اور دریا دلی کا دکھاوا کرنےجیسا ہے۔ بعض لوگ غریبوں کو راشن کی صورت میں زکوٰۃ دیتے ہیں اور بعض مالی مدد کرتے ہیں۔ یقینی طور پر معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے لیکن آج کے دور میں غریبوں کی مدد کرنے کے معاملے میں یہ ایک خرابی پیدا ہوگئی ہے جس کے باعث مدد، صدقہ یا زکوٰۃ دینے والا اپنے ثواب کے بجائے عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے۔
یہ خرابی ریاکاری اور دکھاوا ہے!!!!!
چیزیں، سامان یا راشن تقسیم کرتے وقت دکان، فیکٹری، آفیس یا گھر کے آگے بھیڑ لگوا کر اور زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کی جاتی ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ چیزیں دیتے وقت تصاویر اور ویڈیو بنوا کر پھر ان کو سوشل میڈیا پر اس کی دھوم مچاکر واہ واہی لوٹی جاتی ہے۔یہ انتہائی برا فعل ہے۔
اسلام محتاجوں،غریبوں ، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد اور دلجوئی کرنا سکھاتا ہے ۔ دوسروں کی مدد کرنے، ان کے لئے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء مہیا کرنے کو اسلام نے ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کا طریقہ بتایاہے ۔ رب کائنات نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مددکرے۔ ایک دوسرے کے کام آنا اوراپنی کمائی اور اللہ تعالی کی طرف سے عنایت کردہ مال و دولت کو غریبوں مسکینوں کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنا انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثال سمجھا جاتا ہے۔کیوں کہ اسلام انسانوں کی بھلائی، خیرخواہی اور ہمدردی کے جذبات کو فروغ دینے والا مذہب ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے ” ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر، اللہ کی کتاب پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں، ،یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوٰة کی ادائیگی کرے، جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔‘‘(سورة البقرة آیت177 )
ایک اور آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے” آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجئے جو مال خرچ کرو وہ ماں باپ کے لئے ہے اور رشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے اور تم جو کچھ بھلائی کروگے اللہ تعالی کو اس کا علم ہے۔‘‘( سورة البقرہ آیت 215)
ایک اور آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے ” کہہ دیجئے! کہ میرا رب اپنے بندوں میں جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کرتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ کر دیتا ہے، تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کروگے، اللہ اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔‘‘(سورۃ سبا آیت 39)
اسی طرح اللہ کی را ہ میں اچھی اور پسندیدہ چیز صدقہ کرنے سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ”جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کروگے ہرگز بھلائی نہ پاؤگے،اور جو تم خرچ کرو اسے اللہ تعالی بخوبی جانتا ہے۔‘‘(سورۃ آل عمران آیت 92)
قرآن پاک میں ایک اور آیت میں ارشاد ہے،’’جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھُپے کھُلے خرچ کرتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے، اور نہ انہیں خوف ہے نہ غمگینی۔”
(سورۃالبقرہ آیت 274)
سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ آپؐ نے غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کے ساتھ بھی بہترین سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان لوگوں کے ساتھ نہایت عمدہ سلوک کرتے، ان کی خبر گیری کرتے اور صحابہؓ کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ اس وقت تک کھانا تناول نہ فرماتے، جب تک یہ یقین نہ کر لیتے کہ اصحابِ صفّہ نے کھانا کھالیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ غرباء، مساکین، محتاجوں اور یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ ان سے سختی اور تکبّر کے ساتھ بات کرنے اور سخت لہجہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے ،’’جب یہ تم سے سوال کریں، تو ان سے ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو۔‘‘(سورۃ الضحیٰ آیت 5)
قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ہے،’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو۔ جس طرح وہ شخص، جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے اور نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے، جس پر تھوڑی سی مٹّی ہو، پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے۔‘‘ (سورۃالبقرہ آیت 264)
مسند احمد میں حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا ،جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا ،جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔‘‘
گویا دکھاوے کی عبادت ہو یا نیکی اس کو شرک کے ساتھ مقام دے دیا گیا ـلیکن ہمارے سماج میں دکھاوے کی رسم کا بھرپور انتظام کیا جاتا ہے جیسے تقسیم راشن کی تقاریب باقاعدہ فوٹو سیشن کے ساتھ منعقد کی جاتی ہیں۔ ایک آٹے چاول کی بوری کو دو چار لوگ پکڑ کر کسی غریب کے ہاتھ میں پکڑاتے ہیں جو اپنی نیکی کی تشہیر تو کرتے ہی ہیں ساتھ میں کسی غریب کی عزت کا جنازہ بھی نکالتے ہیں ۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ اپنے اطراف میں زیادہ مستحقین کو چپکے سے راشن دے دیا جائے تاکہ ان کی خوداری مجروح نہ ہو۔صدقہ خیرات انسان کو مصائب سے بچاتے ہیں اور دوسروں کی مدد کا ایک اہم ذریعہ ہیں لیکن دکھاوے اور تکبر سے دیئے جانے والے صدقہ،خیرات اگر دوسرے کی تنگ دل کا باعث بنے تو ایسی نیکی دوسروں کو آزار دینے کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ـ ہم مدد زکوٰۃ خیرات کسی بھی شکل میں دیتے ہیں تو دیتے ہوئے تصویر نہ لیں تاکہ کچھ واہ واہی کے بدلے نیکی ضائع نہ ہو اور کسی مفلس کی دل آزادی نہ ہو اورنہ ا سے شرمندگی اٹھانی پڑے۔ خودنمائی اور دکھاوے سے بچا کر دینا ہے تو ایسے دیں کہ دوسرے ہاتھ کو اس کا علم نہ ہو۔ فرض سمجھ کر عاجزی سے دیں۔ مدد کر کے احسان نہ کریں کیونکہ راہ خدا میں خرچ کرنے کی توفیق سبھی کو نہیں ملتی ۔اللہ اپنے کچھ بندوں سے کام لیتا ہے اسلئے کسی کی امداد کرتے ہوئے تصاویر کو سوشل میڈیا پر ڈال کر تماشہ نہ بنائیں۔
(موربہ) ممبئی
نائب ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال اسٹار نیوز ٹو ڈے

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here