9807694588(موسی رضا۔)
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
غلام علی اخضر
انسان کی زندگی کو کند ن بنانے میںوالدین کے بعد اگر کسی کا سب سے زیادہ اہم رول ہوتا ہے تو وہ استاد ہے، اگر ہم یہ کہیں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ استاد ہی اصل میں انسان کی زندگی کو اس لائق بناتا ہے کہ وہ خود کو دنیا کے سامنے بہترین اور علم و ہنر سے مزین کامل انسان کے طور پر پیش کرسکے۔ یوں تو میری تعلیمی زندگی کو پروان چڑھانے میں بہت سے اساتذہ کا تعمیر ی اور تحریکی عمل اور محنت کا حصہ رہا ہے۔ جن کا ہم حق ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ اس دوران میں کچھ ایسے اساتذہ بھی ملے جن کی تنخواہ کے جائز ہونے میں میں ہمیشہ شک میں رہتا تھا ۔ خیراس جواز اور غیر جواز کے درمیان ایسے بھی استاذ ہوتے ہیں جو ہماری تعلیمی زندگی میں داخل ہونے کے ساتھ حقیقی زندگی میں بھی داخل ہوجاتے ہیں، ان کی شخصیت ہمیں اس قدر متاثر کرتی ہے کہ ہم انھیں بھول نہیں پاتے ، ان کی یادیںکتابوں کی طرح عزیز ہوکر ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہتی ہیں، ایسے اساتذہ کا احترام شاگرد دل و جان سے کرتے ہیں اور ان کی محبت ہمارے دلوں سے گزرتے وقت کے ساتھ دُھمل ہونے کے بجائے روز بروز اور بھی پروان چڑھتی جاتی ہے۔ وہ ہمیں اس وقت بہت یاد آتے ہیں جب وہ ہم سے کہیں دور چلے جاتے ہیں۔ ان کا ریٹائز منٹ ہمیں بہت دکھ دیتا ہے۔ان کے ساتھ گزرا ہوا ہر پل ہمیں ماضی کے بہترین لمحات کانغمہ سناتاہے۔ ان کا مشفقانہ انداز شاگردہمیشہ اپنی یادوں کی نگری میں محفوظ رکھتے ہیں۔ ایسے ہی باکمال اور گوناگوں شخصیت کے مالک استاذی پروفیسر ابن کنول کی ذات ہے۔ ان سے ہماری کئی یادیں وابستہ ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم ایم اے کے طالب علم تھے اور سینئر احباب کو الوداعی تقریب دے رہے تھے۔ اس وقت شعبہ کے صدر ابن کنول تھے۔ تقریب شروع ہوئی اور صدرشعبہ استاتذہ کے ساتھ شریک محفل ہوئے۔ناچیز کو اس میں نظامت کی ذمے داری سونپی گئی تھی جس میں اور بھی احباب تھے۔صدر شعبہ ہمارے ساتھ پورے پروگرام میں آخر تک جمے رہے۔ جب دیکھتے کہ ماحول کچھ پھیکا پڑرہا ہے وہ خود اٹھ کر طنزو ظرافت بھرے جملے سے محفل کو زعفران زار بنادیتے ، انھیں محفل کو گل گلزار بنانا خوب آتا ہے۔ جس کا اندازہ سمیناروں میں مقالہ اور خاکے پڑھتے وقت شائقین کرسکتے ہیں۔ پرچہ پڑھنا بھی ایک آرٹ ہے، میں نے کئی ایسے اشخاص کو دیکھا ہے کہ وہ باصلاحیت معلم ہونے کے باوجود سمینار میں پرچہ پیش کرنے کی جمالیات کو ملحوظ خاطر رکھنے سے قاصررہتے ہیں۔ ۱۴ستمبر ۲۰۲۲ کو مجھے غالب اکیڈمی میں محسن قوم حکیم عبدالحمید پر خاکہ ان کی زبانی سننے کا موقع ملا۔ ہر لفظ کافی چست اور درست تھا۔ ہر لفظ پرکشش اور تجسس سے پُر ہو کر مکمل وجود کے ساتھ فضا میں گردش کرتا اور ہم اس سے محظوظ ہو تے۔ اندازہ بیان مسحور کن تھا۔ پورے خاکہ کو سامعین نے بڑی دلچسپی کے ساتھ سنا۔سامعین کے درمیان مقالہ یا کسی تحریرکوپیش کرتے وقت آواز کے زیر و بم کا خاص خیال رکھنا چاہیے یہ سامعین کی توجہ کھینچے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اور یہ کمال استاد میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔
مجھے الوداعی تقریب میں اس وقت حیرت ہوئی اور بے حد خوشی بھی جب میری نظامت کے دوران وہ اٹھ کر میرے کاندھے پر ایک دوست کی طرح ہاتھ ڈال کر سامعین سے محو گفتگو ہوئے۔ وہ طلبہ کو کبھی ناخوش یا کسی مشکل میں ڈالنے کے قائل نہیں ہیں۔ اسی طرح ایک بار کا واقعہ ہے کہ اپنے ریسرچ کے دوران ایک روز جب میں ان کے گھرپر جارہا تھا،بٹلہ ہائوس میں مجھے ایک پپیتا بہت اچھا لگا جسے میں نے استاذ کی خدمت میں پیش کرنے کی غرض سے خرید لیا۔ ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا علیک سلیک کے بعد انھوںنے پانی پیش کیا اور ڈرائی فروٹس سے بھرا ڈبہ سامنے رکھ دیا۔ پانی پینے کے بعد میں نے انھیں پپیتا پیش کیا ۔ انھوں نے کہا، یہ کیا ہے؟ اور برہم ہوگئے ۔ بولے آپ طالب علم ہیں، آپ کماتے نہیں ہیں، یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جب کمائیے گا تو پھر کھلائیے گا۔ خیر میری درخواست پر انھوں نے قبول کرلیا مگر یہ بھی ہدایت دی کہ آئندہ ایسا نہیں کیجیے گا۔انھوں نے قریب دہلی یونی ورسٹی میں ۳۷؍سال (۱۹۸۵۔۲۰۲۲) تک تدریس کی خدمت انجام دی۔اس دوران وہ اردو ادب کی ترویج و اشاعت اوراس کی نمائندگی کے لیے مختلف ممالک کا دورہ بھی کیے، جس میں امریکہ، ماریشس، انگلینڈ، سعودی عرب، دبئی، پاکستان، ازبکستان اور روس قابل ذکر ہیں۔ وہ اپنے ہر طلبہ سے یکساں محبت کرتے ہیں۔جب اور جس وقت طلبہ ان سے رابطہ کرتے ہیں وہ ان کی رہنمائی کے لیے حاضر رہتے ہیں ۔ میں نے جب بھی کسی خلجان کو دور کرنے کے لیے رابطہ کیا،حتیٰ کہ۱۱ ؍۱۲ بجے رات کو انھوں نے ہماری رہنمائی کی۔ ایک روز جب میں یونیورسٹی contingent billپر سائن کرانے کی غرض سے حاضر ہوا تو ان کے روم میں پہلے سے کئی پی ایچ ڈی کے شاگرد موجود تھے۔ میںسلام کرتا داخل ہوا، انھوں نے اپنے قریب کی ایک خالی کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ گفتگو جاری رہی پھر استاذ محترم نے کہا کچھ اور رہ گیا ہے دستخط کرانے کے لیے کیا؟ میں نے مسکراکر بل سامنے پیش رکھ دیے۔ ان کی آنکھیں کچھ نم ہوئی جارہی تھیں۔ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ انھیں طلبہ کی جدائی اور ۳۷سال کایہ رشتہ بے حد اندر سے بے چین کررہا ہے۔ لیکن وہ مسکراتے ہوئے بات کرتے رہے۔ انھوں نے کنٹن جَنسی فارم اور بل پر دستخط کرنے کے دوران ہی بتایا کہ میرے دور میںتو اتنے رجسٹر پُر کرنے ہوتے کہ اس جھمیلے کی وجہ سے میں نے لیا ہی نہیں تھا۔مجھے ایسا لگتا رہا تھا کہ ان کی آنکھیں در و دیوار سے چمٹ رہی ہے ۔ ان کے ذہن میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ چند دن کے بعد پھر شاگردوں کی ایسی محفل نہیں رہے گی۔ خیر! دستخط کرنے کے بعد وہ روم سے نکلے توسابق طالب علم محمد عارف اقبال کو پروفیسر ابوبکر عباد کے ساتھ تصویر کھنچواتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا ’ہاں ہاں تصویر لیجیے، یہ تو دن بدن[ابوبکرعباد] اسمارٹ ہوتے جارہے ہیں‘‘۔ پھر پروفیسرابوبکر عباد نے بھی انھیں فوٹو گرافی کے اس موسم میں بھیگ جانے کی دعوت دی، اور ابن کنول سر بھی اس میں شریک ہوگئے۔ میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ مجھے ایم اے کے دوران جن اساتذہ کے پڑھانے کا انداز اور طریقہ متاثر کیا ان میں پروفیسر ابوبکر عبادقابل ذکر ہیں جو مجھے بہت محبوب تھے۔ اگر کسی طالب علم نے تدریس کے دوران انھیں کوئی ایسی بات کہی جو قابل قبول ہے تو بڑی محبتوں سے قبول کرتے تھے۔ بڑی محبت ، محنت اور دلجمعی سے وہ کلاس لیتے اور بچوں کے سوالات کا اطمینان بخش جواب بھی دیتے۔ وہ اکثر کھڑے ہو کر ہی پڑھاتے۔
استاذ محترم کو عام طور سے لوگ ابن کنول کے نام سے ہی جانتے ہیں بہت کم لوگ ہیں جو اصل نام سے واقف ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں گزرے ہوئے لمحات کے ساتھ ان کی شخصی اور ادبی خدمات پر بھی نظر ڈالی جائے:
استادکا اصل نام ناصر محمود کمال ہے۔ والد محترم قاضی شمس الحسن کنول معروف شاعر تھے۔ پیدائش ۱۵؍اکتوبر ۱۹۵۷ء کو بہجوئی ضلع مرآباد میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گنور بدایوں کے ایک اردو میڈیم اسلامیہ اسکول میں ہوئی۔ مزید تعلیم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (۱۹۶۲۔ ۱۹۷۸ء)سے پھر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری دہلی یونیورسٹی سے حاصل کی ۔فکشن کی دنیا میںستر کے بعد لکھنے والوں میں ایک اہم ہے جنھوں نے اردو کے بیشتر اصناف پر طبع آزمائی کی۔ افسانہ، خاکہ، ڈرامہ،سفرنامہ، انشائیہ،تحقیق، تنقید، شاعری،تدوین متن، اورمضمون کی صورت میں ان کے قلم سے بہت سی قیمتی تحریریں وجود میں آچکی ہیں جو ارباب علم و ادب کے نزدیک قدر کی نگاہ سے دیکھی جارہی ہیں۔
’’تیسری دنیا کے لوگ‘‘(۱۹۸۴ء)’’بند راستے‘‘ (۲۰۰۰)’’پچاس افسانے‘‘ (۲۰۱۴ء)ان کے کامیاب اور بہرین افسانوں کا مجموعہ ہیں۔ ’’ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں‘‘(۱۹۸۸)جس کادوسرا ایڈیشن ۲۰۰۵ء میں ’’بوستان خیال ایک مطالعہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ’’ریاض دلربا‘‘ (تحقیق-۱۹۹۰ء) اردو قاعدہ سے متعلق ۱۹۹۳ء میں ’’آئو اردو سیکھیں ‘‘کے نام سے قلم بند کیا۔ تنقیدکے میدان میں بھی انھوں نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایاہے۔اس حوالے سے ’’داستان سے ناول تک‘‘ (۲۰۰۱) کافی مشہور و معروف ہے۔ خاص کر طلبہ اسے درسیات کے طور پر پڑھتے ہیں۔’’ تنقید وتحسین‘‘ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو۲۰۰۶میں شائع ہوا۔۲۰۱۹ء میں تنقید پر ایک اور کتاب’’اردو شاعری‘‘کے نام سے لکھی اور ۲۰۱۱ میں ’اردو افسانہ‘ کے نام سے افسانوی تنقید پر۔ ’’انتخاب سخن‘‘ ۲۰۰۵ء جو اردو شاعری کا انتخاب ہے اور’’ منتخب غزلیا ت ‘‘۲۰۰۵ء،منتخب نظمیں۲۰۰۵ اور اصناف پارینہ بہترین کام ہے۔ ایک کتاب’’تحقیق و تدوین‘‘ کے نام سے ۲۰۰۷ء میں مرتب کی۔ اسی طرح ۲۰۰۷ میں ہی میر امن پر مونوگراف لکھا۔ ۲۰۰۸ء میں’باغ و بہار‘(مقدمہ و متن) ’’پہلے آپ‘‘ (ڈرامہ)۲۰۰۸ء ۔ ’’نظراکبرآبادی کی شاعری‘‘۲۰۰۸ء ۔ اپنے والد محترم جناب کنول ڈبائیوی کا کلیات مع مقدمہ ۲۰۱۰ میں ’’مضراب‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ ۲۰۱۵ء میں ’’تنقیدی اظہار‘‘ ۲۰۱۶ء میں’’ فسانہ عجائب‘‘ (مرتب) ’’اردو لوک ناٹک: روایت اور اسالیب‘‘ کو تریب دیا۔ اھل الکہف الحکم(افسانے) عربی مترجم: پروفیسر احمد القاضی،ازہر یونیورسٹی مصر۔
وہ کورونائی دور جس میں بیشتر افراد اپنی جان کی امان مانگ رہے تھے اور قرنطیر میں اس قدر ڈرکر دبک گئے تھے کہ ان کا دماغ تک مائوف ہوا جارہا تھا۔ ایسے وقت میںبھی ادیبوں نے چہار دیواری کے دروں بیٹھ کر اپنی فنکارانہ صلاحیت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ جس سے کورونائی اور غیر کورونائی/ ادبی اور غیر ادبی تحریریں وجود میں آئیں۔ ’’بزم داغ‘‘، ۲۰۲۰ ڈراموں کا مجموعہ، ’’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی‘‘ خاکوں کا مجموعہ۲۰۲۰،’’ تبریک‘‘ تقاریظ کا مجموعہ ،’’ بساط دل‘‘۲۰۲۱ انشائیوں کا مجموعہ۔ تاریخ اشاعت سے آپ اندازہ کرسکتے ہیںکہ وبائی دور کو ابن کنول نے کس طور سے استعمال کیا۔سفرنامہ پر مشتمل’چارکھونٹ‘ کے نام سے حال میں ہی چھپ کر منظر عام پر چکا ہے۔
استاذ محترم کو ادبی خدمات پر مؤقر شخصیات کے ہاتھوں انعام سے نواز بھی گیا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں ’سرسید ملینیم ایوارڈ‘ فکشن کی بہترین پیش کش کے لیے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ہاتھوں ملا۔ ادبی خدمات پر ہریانہ اردو اکادمی سے ۲۰۰۷ء میں کنور مہیندر سنگھ ایوارڈ گورنر ہریانہ اخلاق الرحمان قدوائی کے ہاتھوں سے ملا۔ ’بند راستے ‘ ۱۹۷۹ء میں دہلی یونیورسٹی کی طرف سے کھٹپال گولڈ میڈل سے جسے جناب بی ۔ ڈی۔ جٹی نے پیش کیا تھا۔ ۲۰۱۷ء میں مغربی بنگال اردو اکادمی نے عبدالغفور نساخ ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ اسی طرح بہار، بنگال، دہلی اور اترپردیش کے اکادمیان اور مختلف اداروںنے آپ کی کتابوں پر انعامات سے بھی نوازا ہے۔نثری خدمات پر غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی نے ۲۰۲۲ ’غالب ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ سنگم تنظیم لکھنؤ نے حالیہ میں اودھ رتن ایوارڈ سے نوازا۔
اس طرح استاذی پروفیسر ابن کنول کی ذات گنجینۂ علم و فن، شفقت و محبت اور ادب کی مایۂ ناز شخصیت بن کرسامنے آتی ہے، ان کے اندرایک خاص بات یہ بھی ہے کہ حاسدین حسد کرتے رہیں مگر وہ خاموشی سے کام کرتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ درس تدریس کا میدان ہو یا علم ادب کا ہر جگہ کامیاب نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭٭