محبت بھری آنکھیں

0
302

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

محمد جنید البرکات

آج حامد صبح سے کچھ کھویا کھویا سا لگ رہا تھا ،ماں نے آواز دی بیٹا ناشتہ لگ گیا ہے جلدی سے ناشتہ کر لو تجھے اسٹیشن جانا ہے حامد محویت کو توڑتے ہوئے لان سے اندر کی طرف آیا اور ٹیبل پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا اتنے میں سو نی بھی تیار ہو کر آ گئی وہ بھی سلام کر کے ٹیبل پر بیٹھ گئی ،سونی حامد کے پھوپھی کی لڑکی تھی ،یہ لو گ گا وںمیں رہتے تھے سونی یہاں شہر میں اپنے ماموں کے ہاں پڑھائی کرنے آئی تھی حامد اور سونی ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے ، اب سونی کی پڑھائی مکمل ہوچکی تھی، اس لئے وہ گھر جا رہی تھی سونی جب ٹیبل پر بیٹھی تو حامد اس کو کنکھیوں سے دیکھنے لگا سونی منہ تک نوالہ لے جاتے ہوئے رک گئی، اور بولی اس طرح کیا دیکھ رہے ہو؟ اس سے پہلے کبھی دیکھا نہیں کیا ،حامد بولا دیکھا تو بہت ہوں لیکن اب نہ دیکھ پاؤں گا اس لیے سوچا جی بھر کر دیکھ لو اس کو سن کر سونی نے اپنا سر جھکا لیا اور پھر کھانے لگی ،حامد بھی بے دلی سے نوالہ منہ میں رکھتا اور اس کو دیکھتا ہی چلا جا رہا تھا کچھ دیر یوں ہی خاموشی چھائی رہی اتنے میں ماں نے آواز دی کیا تم لوگ ابھی تک ناشتہ نہیں کر چکے ؟ارے جلدی کرو ٹرین کا وقت ہو رہا ہے، گاڑی کے آنے سے پہلے اسٹیشن پہنچ جاو تاکہ آرام سے گاڑی پر بیٹھ سکو ماں کی بات سنکر جلدی جلدی دونوں نے اپنا ناشتہ ختم کیا اور ایک دوسرے سے بغیر کچھ بولے اٹھ کر بیسن کی طرف ہاتھ دھونے چلے گئے ۔آج حامد کو سونی کے ساتھ بتائے پانچ سال کے ہر ہر پل یاد آرہے تھے اسکول جاتے ہوئے آپس میں ہنسی مذاق کرنا گھر پہ بات بات پر جھگڑنا ایک دوسرے کا مذاق اڑانا اور بات بات پر سونی کو چھیڑنا جب سونی کھانا بناتی تو حامد اس کھانے میں ضرور کمی نکالتا اور بڑی منت و سماجت کے بعد کھاتا ہے اسکول جاننے کے لئے بھی حامد بہت ناٹک کرتا کبھی کہتا ہے گاڑی ٹھیک نہیں ہے، رکشے سے چلی جاؤ میں گاڑی ٹھیک کرا کے آتا ہوں جب سونی رکشہ کر کے اسکول کے لئے چل دیتی تو یہ بھی پیچھے پیچھے اس کو چڑھاتا ہوا آتا ہے جس کو دیکھ کر سونی اور جل جاتی جب سے اس نے سنا کہ سونی اب اپنے گھر جا نے والی ہے ،بڑا بے چین لگ رہا تھا رات بھر اس کو نیند نہیں آئی وہ پریشان تھا کہ یہ کیسا درد ہے جو سینے سے اٹھ کر سینے ہی میں دب جاتا ہے رات بھر درد کی کسک میں سو نہ سکا سونیی سے اس کا کون سا رشتہ ہے جو اس کے جانے پر حامد اتنا بے قرار ہے خود اس کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیونکہ اس سے پہلے سونیی کے لئے ایسے احساس اور جذبات کبھی ابھر کر نہیں آئے تھے حامد اپنے حال و ماضی کے درمیان تطبیق دے رہا تھا ،کہ ایک مرتبہ پھر اس کے کان میں ماں کی آواز گونجی بیٹا جلدی کر سنی تیار ہوچکی ہے ماں کی آواز سن کر موٹا اپنے خوابوں کی دنیا سے اٹھ کر علم حقیقت میں آیا تو اسے احساس ہوا کیوں بیسن میں ہاتھ ملنے آیا تھا اور اپنے ماضی کو لے کر وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا خیر جلدی جلدی ابھی تیار ہو گیا ماں نے بڑے پیار سے سونی کے ماتھے پر بوسہ لیتے ہوئے خوب دعائیں دیں اور حامد کو سمجھایا کہ آرام سے لے جانا گاڑی پر صحیح سے بٹھا کر آنا دونوں راستے بھر خاموش ایک پرسکون دریا کی طرح ااپنے منزل کی طرف رواں تھے کب اسٹیشن آگیا معلوم نہیں چلا بائیک روکنے کے بعد خاموشی سے حامد نے سونی کا بیگ پکڑا ، اور پلیٹ فارم کی طرف بڑھا گیا سو نی بھی پیچھے پیچھے ہولی ابھی ٹرین کے آنے میں دیر تھی دونوں خاموشی سے بیٹھے اپنے یادوں میں مشغول تھے ہاں بیچ بیچ میں ایک دوسرے کو دیکھ لیتے تھے کچھ دیر بعد ٹرین آئی حامد کا نپتے ہوے ہاتھوں سے سونی کا سامان اٹھا کر اس کے سیٹ پر رکھا اور چپ چاپ چل دیا اتنے میں پیچھے سے آواز آئی السلام وعلیکم حامد یہ سونی کی آواز تھی حامد نے جو پلٹ کر دیکھا تو دیکھتا رہ گیا ڈبڈباتی ہوئی آنکھیں وہ آنکھیں کیا تھی، حامد نے کئی بار ان کو دیکھا تھا لیکن شاید اس احساس سے نہیں دیکھا تھا جس جذبات کے ساتھ آج دیکھ رہا ہے آج اس کو سونی کی آنکھوں میں تنوع دکھائی دے رہا ہے وہ اپنی بھیگی بھیگی آنکھوں سے سونی کی نم آنکھوں کو الوداع کہہ رہا تھا وہ مغموم آنکھیں ، محبت سے لبریز آنکھیں، ویران ہوتی ہوئی آنکھیں، ڈوبتے ہوئے سورج کی طرح سرخ آنکھیں، وہ شام کی طرح بے رنگ اور اجڑی ہوئی آنکھیں حامد انہی دنوں میں کھویا ہوا تھا گاڑی چل دی حامد اب بھی پلیٹ فارم پر کھڑا سونی کو دیکھے جا رہا تھا گاڑی نے تیزی پکڑ لی اب آنکھوں میں آنسو نے بسیرا کر لیا تھا گاڑی بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here