9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
شکیلا سحر
اردو صحافت سر زمین ہندوستان کیقدیم ترین صحافت ہے ۔ اردو صحافت روز اول ہی سے ملک کے درپیش مسائل کے حل میں مصروف رہی ہے ۔اس زمانے کے بہت سے نشیب و فراز دکیھے ہیں ۔ اپنے ابتدائی دور سے ہی سیکولرازم کی عملبدار رہی ہے ۔
اردو صحافت کے ابتدائی زمانے میں اخبار روزنامہ نہیں ہوا کرتے تھیں بلکہ ہفت روزہ یا سہ روزہ اخبار ہوا کرتے تھیں ۔ انقلاب ۱۸۵۶ سے پہلے جب شمالی ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف عوام میں جذبات بھڑکے تو اردو اخبارات نے ہوا دی اور ملک میں موجود ظالم حکمران یعنی انگریزوں کے خلاف خبریں اور مواد شائع کیا ۔ اردو کا سب سے با اثر، عمدہ اور دلیر اخبار ” دہلی اردو اخبار تھا ، جس کے جاری کردہ محمد اکبر تھے ۔
“قلم کی نوک پہ رکھوں گا اس جہان کو میں
زمیں لپیٹ کے رکھ دوں کہ آسمان کو میں”
محمد اکبر کے بعد اخبار ” دہلی اردو اخبار ” کے مرید ان کے فرزند مولوی محمد باقر بنے ۔ مولوی محمد باقر بحیثیت دیدہ ور صحافی حالات کے تعبیرات اور فطرت انسانی کے انقلابات پر مفکرانہ غوروتربر کے عادی تھے اور جو بھی دیکھتے یا سنتے تھے اسے برملا لکھ دیتے تھے
مولوی محمد باقر سنہ 1780ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ مولوی باقر نے تعلیم دہلی کالج، دہلی سے حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کچھ ملازمتیں اختیار کیں جیسا کہ دہلی کالج میں پڑھایا اور ریونیو ڈپارٹمنٹ میں تحصیل دار کے طور پر رہے مگر یہ ان کی آخری منزل نہیں تھی۔ سنہ 1836ء میں جب حکومت میں پریس ایکٹ میں ترمیم کرنے کے بعد اخبارات کی اشاعت کی اجازت دے دی تو انہوں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا جو ان کا فن اور پہچان بن گیا۔ جنوری 1837ء میں مولوی محمد باقر نے اردو زبان کا ہفت روزہ ”دہلی اخبار“ شروع کیا۔ یہ اخبار 21 برسوں تک جاری رہا اس دوران میں اس کا دو مرتبہ نام تبدیل ہوا۔
مولوی محمد باقر مولانا محمد اکبر کے واحد بیٹے تھے۔ مولوی باقر کو اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور انگریزی بھی آتی تھی، انہوں نے دینی اور دنیوی تعلیم دونوں حاصل کی تھیں۔
1836ء کے آس پاس انہوں نے اپنا چھاپہ خانہ قائم کیا اردو کے پہلے باقاعدہ اخبار ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کا آغاز کیا۔ اردو اخبار پہلا ایسا عوامی اخبار تھا جو دربار شاہی سے لیکر کمپنی کی خبروں تک اور قومی و بین الاقوامی خبریں بھی شائع کررہا تھا۔ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے پہلے صفحہ پر ’’ حضوروالا‘‘ کے عنوان کے تحت مغل بادشاہ وشہزادوں کی خبروں کے ساتھ قلعۂ معلی کی نقل و حرکات اور ’’صاحب کلاں‘‘ عنوان کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کی خبریں چھپتی تھیں۔ اخبار میں مذہبی مضامین کے ساتھ ادبی گوشہ بھی ہوتا تھا جس میں مومن، ذوق، غالب، بہادرشاہ ظفر، زینت محل اور دیگر شعرا کا کلام چھپتا ۔
وہ ہندوستان میں جدید تعلیم کے فروغ کی اہمیت پر بھی زور دیا کرتے تھے۔1857ء میں انہوں نے فکری قیادت کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے اخبار کو آزادئ ہند کے لیے وقف کر دیا تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر کا صحافتی نیٹ ورک اتنا وسیع تھاکہ دوردراز کے شہروں کی خبریں انہیں بروقت مل جاتی تھیں۔ آپ نے خصوصی طور پر آزادی کے لیے لڑنے والے فوجیوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی تلقین کی۔
مولوی محمد باقر نے اپنے اخبار میں رئیسوں اور راجاؤں کے لیے لکھا کہ انھیں اپنے ہم وطن عوام کے خلاف انگریزوں کا ساتھ نہیں دینا چاہئیے اور یاد رکھنا چاہئیے کہ انگریز دھوکے باز ہیں۔
مولوی محمد باقر اپنے اخبار کے مرید اور تبصرہ نگار ہونے کے علاوہ اس کے چیف ایڈیٹر بھی تھے ان کے بعض خبریں اتنی دلچسپ ہوتی تھیں کہ دوسرے اخبار انکی نقل کرتے تھے ۔
مولوی محمد باقرنے عوام سے اپیل کرنے کے لئے اپنے اخبار کا بھرپور استعمال کیا،اوراخبارکےذریعےہی انہوں نےانگریزوں کی تقسیم کرنے والی پالیسی کواجاگر کیا ۔ اس طرح کی جرات اورحوصلےکی پاداش میں قتل کی سازش کاالزام لگاکربرطانوی فوجی افسرہڈسن نے 16 ستمبر 1857 میں انہیں گولی مار کر شہید کر دیا ۔ہندوستانی صحافت کی تاریخ میں شایدوہ پہلےمدیرتھے،جن کوہندوستان،ہندوستانیت اور قومی یکجہتی کے لیے ہمشیہ یاد کیا جائے گا۔
پونہ، مہاراشٹر