متحد جب ہوں گے نتائج ایسے ہی ہوں گے

0
147

وقار رضوی

گورکھ پور ایسا ناقابل تسخیر قلعہ سمجھا جاتا تھا جہاں گذشتہ 30 برسوں سے مٹھ کا قبضہ تھا اور مٹھ سے یہ قبضہ واپس لینے کا شاید کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا لیکن اس انہونی کو بھی عوام کے اتحاد نے بدل دیا۔ یہ جیت کسی اتحاد سے زیادہ عوام کے متحد ہونے کی ہے وہ عوام جس نے گذشتہ دو الیکشن میں دیکھ لیا کہ اگر ہم منتشر رہیں گے تو مخالف مضبوط ہوگا اور اگر ہم متحد ہوں گے تو مخالف کمزور ہوگا اس لئے اگر تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کا اس الیکشن میں اتحاد نہ بھی ہوا ہوتا تو بھی نتائج یہی آتے اس کا ثبوت دونوں جگہ کانگریس کے اُمیدواروں کی ضمانت کا ضبط ہونا ہے۔ اس الیکشن میں بی جے پی، سپا کے ساتھ تیسری بڑی پارٹی کانگریس بھی الیکشن لڑرہی تھی اور بڑے زور و شور سے لڑرہی تھی اسے شاید یہ غلط فہمی تھی کہ اگر پارلیمانی الیکشن ہوں گے تو عوام مرکز کے لئے ہمارے ساتھ ہی جائے گی اور بی ایس پی کا ووٹ بھی انہیں ملے گا اور اقلیتی ووٹ کو تو وہ پوری طرح سے اپنا مان ہی چکے تھے، لیکن گورکھ پور اور پھول پور پارلیمانی الیکشن میں عوام نے اس کے ساتھ جانے کا فیصلہ لیا جو ریاست میں اپنا وجود رکھتی ہے جس کی ریاست میں لیڈرشپ ہے جس کا کیڈر ہے جس کے کارکنان سرگرم ہیں نہ کہ کانگریس کی طرح بے سر و پا۔ یہ ایک تجربہ تھا، ضروری نہیں کہ 2019ء میں سب مل کر لڑیں کیونکہ بقول تیجسوی یادو ’ای ڈی‘ اور ’سی بی آئی‘ اب اپنا کام اور تیزی سے کریں گی تب بی ایس پی اور سپا کو ایک ساتھ آنا ہوسکتا ہے اگر واقعی مشکل ہوجائے اور کانگریس بھی اپنی غلط فہمی سے اُبر نہ پائے، ایسے حالات میں عوام کو خود ہی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ایک ساتھ کسی ایک کے ساتھ جائیں یا کچھ اِدھر کچھ اُدھر کچھ ان کے ساتھ کچھ اُن کے ساتھ جاکر سوکھے پتوں کی طرح بکھر جائیں اور اپنے وجود کو ختم کرلیں۔
یہ کسی ایک مذہب، ایک سماج یا ایک پارٹی کے متحد ہونے کی بات نہیں ہے بلکہ اُس ایک سوچ کے متحد ہونے کا اثر ہے جو آج بھی سبھی مذاہب کے ماننے والوں میں موجود ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے کیونکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ کسی مسلمان کی عید اس کے تمام ہندو دوستوں اور ہندو پڑوسیوں کے بغیر ممکن نہیں اور ایسے ہی کسی ہندو کی ہولی اس کے مسلمان دوستوں اور اس کے مسلم پڑوسیوں کے بغیر پھیکی ہے۔ ایسے میں اخبار کی یہ سرخیاں کہ ’’میں ہندو ہوں عید نہیں مناتا‘‘ اُنہیں شاید ہضم نہیں ہوتی کیونکہ انہیں ہندو ہونے پر تو فخر ہے لیکن کسی دوسرے مذہب سے نفرت یا مذاق اُڑانے کی سوچ سے وہ بھی کوسوں دور ہیں۔
گذشتہ نگرنگم کے الیکشن کے بعد سبھی مذاہب کے تمام دانشوروں نے مسلسل نشستیں اور سیمینار کرکے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اُن کی کامیابی ان کے متحد ہونے میں ہی ہے نہ کہ منتشر رہنے میں۔ اس کا اثر بھی ہوا لیکن یہ شروعات ہے منزل ابھی بہت دور ہے۔ 2019 ء ہوتے ہوتے ہمیں میں سے کچھ ایسے نکلیں گے جو دوسرے مذہب والوں کو برا بھلا کہیں گے، ہمیں منتشر کرنے کی کوشش کریں گے جس سے مخالف نہ چاہتے ہوئے بھی متحد ہوجائے گا۔
یہ لڑائی کسی ایک فرقے، کسی ایک جماعت، کسی ایک مذہب کی نہیں بلکہ اُن سب کی ہے جو ہندوستان میں نفرت نہیں محبت سے رہنا چاہتے ہیں جو عید اور ہولی ایک دوسرے کے ساتھ منانا چاہتے ہیں، جو ایک ساتھ مل کر ہندوستان کو ہر روز ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جانا چاہتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری عقیدت ہماری نجی جائیداد رہے اسے کسی دوسرے پر تھوپنا تو دور ہم اسے ایک دوسرے سے بانٹ بھی نہ سکیں، تو پھر عقیدت کے نام پر دن بھر چینل پر بحث، عقیدت کے نام پر کورٹ میں بحث، عقیدت کے نام پر ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے خلاف ورغلانا اور عقیدت کے نام پر الیکشن؟ شاید اب نہیں۔ وہ اس لئے کہ گورکھ پور جہاں 30 سال سے ایک مٹھ کا قبضہ تھا اس وقت بھی جب بی جے پی کی ریاست میںتقریباً دس سے کم سیٹیں رہیں تو بھی گورکھ پور کی سیٹ بی جے پی کے پاس ہی رہی۔ یہ سیٹ بی جے پی تب ہاری جبکہ اس سیٹ پر پانچ بار ممبر پارلیمنٹ رہنے والے یوگی جی ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں اور مرکز میں مودی جی وزیراعظم؟ گورکھ پور میں بی جے پی کو ہرانا ناممکن تھا وہاں کی عوام نے متحد ہوکر اسے ممکن کرکے دکھادیا اور یہ بتایا کہ اب کچھ بھی ناممکن نہیں اگر سب مل بیٹھیں ایک ساتھ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here