ماہنامہ ’’نیادَور‘‘ کا محرم نمبر
سہیل وحید نے نئی تاریخ رقم کی
تبصرہ: مرزا محمد مہدی
واقعہ کربلا انسانی تاریخ کی وہ حقیقت ہے کہ جس کے اثرات و نقوش آج بھی اسی طرح تابندہ ہیں کہ جیسے وہ 1400 سال پہلے تھے۔ اور یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ واقعہ کربلا نے نہ صرف اسلام کی آبیاری کی ہے بلکہ انسانیت کی بھی آبیاری کی ہے اور کربلا ہی وہ مرکز اتحاد ہے جس پر جمع ہوکر تمام مذاہب کی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور یہاں آنے والا صرف حسینی رہ جاتا ہے۔ کیونکہ حسینیت تمام حق پرست ذہنوں کو متاثر کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ کربلا کو نہ صرف مسلم ادباء و شعراء نے اپنا موضوع سخن بنایا ہے بلکہ غیرمسلم ادباء و شعراء اور دانشور بھی بارگاہِ حسینی میں عقیدت کے پھول پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ واقعہ کربلا پر انسانی تاریخ میں جتنا بولا اور لکھا گیا ہے کسی اور موضوع پر نہ تو بولا گیا اور نہ لکھا گیا ہے۔ اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اس کے علاوہ دنیا کی تقریباً تمام زندہ زبانوں میں بھی کربلا کا ذکر تحریر اور تقریر میں ملے گا۔ اور جب اُردو زبان وجود میں آئی تو کربلا کی آغوش میں آکر اس کی پرورش ہونے لگی اور اس کا ادب کربلا کی ہی وجہ سے اس قدر زرخیز اور خود کفیل ہوگیا کہ وہ آج کسی بھی زبان کے ادب سے آنکھیں ملا سکتی ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اردو جو کہ ایک غریب زبان کہی جاتی ہے کربلا نے اس کی غربت کو دور کردیا اور بقول جناب سہیل وحید انصاری (ایڈیٹر ماہنامہ نیا دَور) اُردو ادب کا تقریباً دسواں حصہ ان ہی مرثیوں، نوحوں اور سلام پر مبنی ہے اور اس میں ایسے ادب پارے بھی ہیں جنہیں کسی بھی عظیم ادبی شہ پارے سے زیادہ پذیرائی اور وقعت حاصل ہوئی۔ اُردو کا شاید ہی کوئی ایسا معتبر شاعر ہو جس نے واقعہ کربلا کو اپنی شاعری کا موضوع نہ بنایا ہو۔ ظاہر ہے کہ شاعری میں جب بھی واقعہ کربلا کا ذکر آتا ہے تو انیسؔ و دبیرؔ کسی نہ کسی طور پر کسی نہ کسی حوالے کے روپ میں یا کسی نہ کسی عکس کی شکل میں ضرور موجود ہوتے ہیں اور بقول مولانا شبلیؔ نعمانی کے اگر انیسؔ کے مرثئے نہ ہوتے تو اُردو دوسری زبانوں کے مقابل نہ ہوتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی عزاداری میں لکھنؤ کی عزاداری کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور بقول سہیل وحید لکھنؤ کے محرم کی تہذیبی اور تمدنی ثقافت ہے۔ لکھنؤ اپنے محرم کے بغیر ادھورا ہے۔ لکھنؤ اپنی عزاداری اور نوحہ خوانی کے بغیر نامکمل ہے، لکھنؤ اپنی محرم کی شاہانہ روایات کے بغیر سانس نہیں لے سکتا۔ لکھنؤ کے محرم کو حاصل شاہی حکومتوں کی سرپرستی کا سلسلہ ملک کی آزادی اور جمہوری نظام کے قائم ہونے میں بھی حائل نہ ہوا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے آج بھی حکومت اُترپردیش لکھنؤ کے محرم کے انتظام و اہتمام میں برابر شریک رہتی ہے۔
محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ اُترپردیش کے نکلنے والا ماہنامہ نیا دَور گذشتہ 72 سال سے اُردو کی خدمت کررہا ہے آج کل اس کے ایڈیٹر جناب سہیل وحید انصاری صاحب ہیں حالانکہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق نہیں رکھتے ہیں لیکن وہ حسینی ضرور ہیں اور ان کی ہی کاوشوں سے نیا دَور کا محرم نمبر کا خصوصی اور خوبصورت شمارہ شائع ہوا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیا دَور میں کئی ایسے شمارے شائع ہوئے جو کہ خود ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور جو لائبریریوں اور صاحب نظر حضرات کے ذخیرہ کتب کی زینت بنے ہوئے ہیں اور بیشک نیا دَور کا محرم نمبر بھی ان ہی میں شمار ہوتا ہے۔ اس میں لکھنؤ کی عزاداری سے متعلق صاحب قلم حضرات کے مضامین کے علاوہ معروف شعراء کا کلام بھی ہے جس میںمیر انیسؔ، مرزا دبیرؔ اور مرزا غالبؔ کے علاوہ قدیم و جدید شعراء کے کلام ہیں۔ اس میں سب سے پہلے مرزا غالبؔ کا مشہور اور معرکۃ الآرا سلام ’’سلام اسے کہ اگر بادشاہ کہیں اس کو‘‘ کو خصوصی طور پر شائع کیا گیاہے اس کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں:
فروغ جو ہر ایماں حسین ؑ ابن علی ؑ
کہ شمع انجمن کبریا کہیں اس کو
ہمارا منھ کہ دیں اس کے حسن صبر کی داد
مگر نبیؐ و علی ؑ مرحبا کہیں اس کو
یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمن دیں
علی ؑ سے آکے لڑے اور خطا کہیں اس کو
یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
برا نہ مانئے گر ہم برا کہیں اس کو
نبی کا نہ ہو جسے اعتقاد کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض کیا کہیں اس کو
علی ؑ کے بعد حسن ؑ اور حسن ؑ کے حسین ؑ
کرے جو اُن سے برائی بھلا کہیں اس کو
بھرا ہے غالبؔ دل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اس کو
اس خصوصی نمبر میں میر ببر علی انیسؔ مرزا سلامت علی دبیرؔ، میر تقی میرؔ، بہادر شاہ ظفر، جمیل مظہری، فیض احمد فیض، حفیظ جالندھری، صادق علی نقوی جائسی، روپ کماری، وحید اختر، شوکت تھانوی، کیفی اعظمی کے مراثی اور سید محمد حسین سالکؔ، سید حسین تاجؔ، عفیف سراج، ہلال نقوی، سید عرفان حیدر زنگی پوری، کمیل شفق رضوی، قائم مہدی تذہیب نگروری، آل عبا جیسے شعراء کے سلام ہیں۔
جہاں تک نوحوں کی بات ہے تو شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ دہلوی، میر خورشید علی نفیس، مرزا محمد باری رسواؔ، آشفتہؔ چنگیزی، عرفانؔ صدیقی، میر مستحسن خلقؔ، نجمؔ آفندی، راجہ الفت رائے الفتؔ، لار چھنو لال خادم میاں دلگیر، لالہ دھن پت رائے محبؔ، سید محمد اصطفیٰ خورشیدؔ، رقیہ بانو، شہیدؔ لکھنوی، اسد اللہ خاں غالبؔ، جیسے استاد شعراء کے کلام نے اس خصوصی شمارے میں چار چاند لگادیئے ہیں۔
جہاں تک واقعہ کربلا پر علامتی شاعری کی بات ہے تو اس پر ڈاکٹر ظفر النقی کا مضمون ’’اُردو غزل میں سانحہ کربلا کا علامتی اظہار‘‘ ایک بہترین اور معلوماتی مضمون ہے جس میں انہوں نے واقعہ کربلا پر قدیم و جدید دونوں شعراء کے علامتی اشعار پیش کئے ہیں: وہ لکھتے ہیں ’’حسین ؑ کے گلے پر جس وقت چھری پھیری گئی اور کربلا کی سرزمین ان کے خون سے لہولہان ہوئی تو درحقیقت خون ریت پر نہیں گرا بلکہ سنت رسول اور دین ابراہیمی کی بنیادوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سینچ گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خون ایک ایسے نور میں تبدیل ہوگیا جسے نہ کوئی تلوار کاٹ سکتی ہے نہ نیزہ چھید سکتا ہے اور نہ زمانہ مٹا سکتا ہے۔‘‘ سانحہ کربلا سے متعلق تلمیحات کا محدود استعمال کلاسیکی غزل میں جاتا ہے جن کی مثالیں ممتاز حسین جون پوری نے اپنی تصنیف ’’خون شہیداں‘‘ میں فراہم کردی ہیں اور گوپی چند نارنگ نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ گوپی چند نارنگ نے میر تقی میرؔ کے علاوہ کسی بھی کلاسیکی شعراء کے یہاں سے مزید مثالیں فراہم نہیں کی ہیں۔ شاید ان کا مطمح نظر نئی شاعری میں علامات کربلا کی جستجو تھی ورنہ ان شعروں کو نظرانداز نہیں کرسکتے تھے۔ جن پر کربلا کے عظیم سانحہ کی چھوٹ صاف دکھائی پڑتی ہے۔
تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
دیتا ہے سدا چاک گریبانِ سحر بھی
مرزا محمد رفیع سوداؔ
مصحفی کرب و بلا کا سفر آسان نہیں
سیکڑوں بصرہ و بغداد میں مرجاتے ہیں
مصحفیؔ
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلاکر اُٹھے
کیا علم دھوم سے تیرے شہداء کے اٹھے
مومن خاں مومنؔ
عترت قتل گہہ اہل تمنا مت پوچھ
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادیٔ پرخار میں آوے
غالبؔ
ڈاکٹر ظفر نقی لکھتے ہیں کہ جدیدیت کے تناظر میں سانحہ کربلا کی تلمیحات نئی معنویت کی حامل ہوگئی ہیں۔ عصر حاضر میں مجموعی انسانی صورت حال، جو میکانیت کے فروغ صنعتی شہروں میں آبادی کے پھیلائو سیاسی جبر و تلاش میں بڑے پیمانے پر انتقال آبادی سامراجی ریشہ دوانیاں، عالمی جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے، قدروں کے زوال اور انسانی رشتوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے سے عبارت ہے اور اجنبیت، تنہائی، خوف کے احساسات جو ساری زندگی میں سرایت کرگئے ہیں، ان کے اظہار کیلئے یہ تلمیحات اور استعارے جدید شاعری متنوع انداز میں استعمال ہوئے ہیں۔ فلسفہ وجودیت میں مستند وجود کی مثال جو سید شہداء ؑ کی ذات گرامی میں نظر آتی ہے جس کی وجہ سے کربلا کے استعارے اور علامیے نئے شاعروں اور نئے دَور کے شاعروں کیلئے زیادہ پرکشش بن گئے ہیں۔ ان شاعروں نے سانحہ کربلا سے متعلق متعلقات کو بڑی فنکاری اور چابک دستی کے ساتھ برتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں تاثیر کی زبردست قوت موجود ہے:
سلام ان پہ تہہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا جو تاچاہے
سلگتے جاتے ہیں چپ ہنستے جاتے ہیں
مثال چہرہ پیغمبراں گلاب کے پھول
مجید امجد
ساحل تمام گرد ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی آکے جو پیاسا پلٹ گیا
شکیب جلالی
بجھا ہے رنگ دل اور خواب ہستی کربلا ہے
کہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں یہ کیسی کربلا ہے
سروں تک آگیا آب فرات خوف دیکھو
جو پیاسوں کو ڈبو دے گی یہ ایسی کربلا ہے
ظفر اقبال
زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا
منیر نیازی
پابہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے میری زنجیر کون
کوئی مقتل کو گیا تھا مدتوں پہلے مگر
ہے در خیمہ یہ اب تک صورت تصویر کون
مری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے روائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون
پروین شاکر
حسین ؑ ابن علی ؑ کربلا کو جاتے ہیں
مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں میں بیٹھے ہیں
گذرے تھے حسین ؑ ابن علی ؑ رات ادھر سے
ہم میں سے مگر کوئی بھی نکلا نہیں گھر سے
شہریار
پانی تو اب ملے گا نہیں ریگ زار میں
موقع ہے خوب دیکھ لو دامن نچوڑ کے
دل پیاسا حسین ؑ کی مانند
یہ بدن کربلا کا میداں ہے
محمد علوی
کل جہاں ظلم نے کاٹی تھی سروں کی فصلیں
نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا
مدت ہوئی ہے سینے سے نکالے ہوئے نیزہ
نوک اب بھی کلیجے میں کھٹکتی ہے سناں کی
فرات جیت کے بھی تشنہ لب رہی غیرت
ہزار تیر ستم ظلم کی کمیس سے چلے
وحید اختر
حسین ؑ پھر ہیں رواں کربلا کی سمت حسنؔ
خوشاکہ اب کے نہیں کم حسینی لشکر بھی
حسن نعیم
ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آگئی
وہ اک دیا بجھا تو سیکڑوں دیئے جلا گیا
احمد فراز
وہ دریا پہ مجھ کو بلاتا رہا
مگر میں صف تشنگاں میں رہا
پھر مرا سر ہو قلم پھر ہو ترے ہاتھ میں تیغ
معرکہ پھر سر میداں وہی برپا ہوجائے
ہے زوال شام اک آئینہ رو منظر میں ہے
آسماں روشن ہے سارا اور لہو منظر میں ہے
انیس اشفاق
ان شعروں میں سانحہ کربلا اور اس کے متعلقات علامتی نوعیت کے حامل ہوگئے ہیں اور ان علامتوں کے ذریعہ معاصر عہد کی صورت حال کی ترجمانی کی گئی ہے۔
افتخار عارفؔ واقعہ کربلا پر علامتی شاعری کرنے والوں میں ایک نمایاں نام ہے ان کے یہ اشعار کافی مشہور ہیں:
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
صبح سویرے رَن پڑنا ہے اور گھمسان کا رَن
راتوں رات چلا جائے جس جس کو جانا ہے
دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب
جس کی ڈھالیں چمک رہی تھیں وہی نشانہ ہے
اس کے علاوہ ان کا یہ شعر آج کے حالات کی سفاکی کو بیان کرتا ہے اور ایک احتجاج بن جاتا ہے:
خلق نے ایک منظر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
نوک سناں پہ سر نہیں دیکھا بہت دنوں سے
اس کے علاوہ محرم نمبر کے اس خصوصی شمارے میںکئی ایسے مضامین شامل کئے گئے ہیں جس سے لکھنؤ کی ماضی و حال کی عزاداری پر روشنی پڑتی ہے اور قارئین کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان مضامین میں شاہی زمانے میں لکھنؤ کی عزاداری کی جھلک، شاہی تہذیب عزا کا شہر لکھنؤ، مجلس شام غریباں، مرثیہ و سوز خوانی کا فن، حسینیہ غفراں مآب کے عہد بہ عہد حالات، سلام: رثائی ادب کی ایک اہم صنف، اردو غزل میں سانحہ کربلا کا علامتی اظہار، نوحہ گوئی کا تاریخی و تنقیدی جائزہ، لکھنؤ کی عزاداری، اس کے علاوہ قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی کے ناول سے لئے گئے اقتباسات قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے۔ آخری شمع ہے۔ جو کہ کربلا کو ایک نئے فریم میں پیش کرتی ہے۔ بیشک یہ نیا دَور کے ایڈیٹر سہیل وحید انصاری کی محنت و کاوش کا نتیجہ ہے کہ ’’نیا دَور‘‘ کا اس قدر خوبصورت اور معلوماتی شمارہ منظر عام پر آیا یہ شمارہ نہ صرف ایک تاریخی دستاویز ہے بلکہ اُردو ادب کے شاہکارا کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔
سر ورق پر پہلی محرم کو حسین آباد ٹرسٹ کی جانب سے اٹھائی جانے والی ضریح کی تصویر ہے اس کے علاوہ محرم میں سجایا گیا چھوٹا امامباڑہ، شاہی جلوس میں ذوالجناح و شاہی نشان، 10 صفر کی آصفی امامباڑے میںاٹھائے جانے والے 72 تابوت، ساتویں محرم کو حضرت قاسم ؑ کی مہندی کا جلوس اور شاہی ضریح جلوس کے ساتھ شاہی سبیل اور علم مبارک کی رنگین تصاویر بھی ہیں جو اس شمارے کو نہایت دیدہ زیب بناتی ہیں۔
یوں تو نیا دَور گذشتہ 72 سال سے شائع ہورہا ہے اور ان 72 برسوں میں نیا دَور کا اُردو دنیا میں شائع ہونے والے ادبی رسالوں میں صفحہ اوّل میں مقام ہے۔ نیا دَور کے تمام مدیروں نے نیا دَور کے کئی ایسے عظیم الشان خصوصی نمبر شائع کئے جنہیں اردو ادب میں بلند مقام حاصل ہے جس میں خصوصی طور سے ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی اور امجد حسین کی ادارت شائع ہوئے خصوصی نمبر خاص مقام رکھتے ہیں۔
اب سہیل وحید انصاری نے اپنے ابتدائی ادارتی دَور میں تاریخی محرم نمبر شائع کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے اس میں نہایت جرأتمندانہ اور حق گوئی کا ثبوت دیتے ہوئے ان اشعار کو بھی شائع کرنے میں کوئی گریز نہیں کیا جسے شاید کوئی غیرشیعہ شائع کرنے کی ہمت نہ کرسکے جیسے مرزا غالب کے سلام کے یہ اشعار
یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمن دیں
علی ؑ سے آکے لڑے اور خطا کہیں اس کو
نبیؐ کا ہو نہ جسے اعتقاد کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض کیا کہیں اس کو
اس کے علاوہ
جنگ کرنے آئے تھے جو سید ابرار سے
اصل میں تھا بغض ان کو احمد مختار سے
سید عرفاں حیدر
خودکش ہے یزیدوں کے لئے سر کو اٹھانا
انکار کی تحریک ہے شبیر کے دم سے
حنیف سراج
ذکر حسین ؑ اصل میں ذکر رسولؐ ہے
یہ وہ مماثلت ہے جو سب کو قبول ہے
شوکت تھانوی