تعارف۔۔۔۔۔۔میرا نام محمد دانش نورالحسن ہے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں بی اے آنرس اردو میں پڑھتا ہوں
آبائی وطن بلرام پور یوپی ہے۔
مجھے بچپن سے ہی اردو ادب سے محبت رہی ہے اور پڑھتا رہا ہوں۔
مگر کبھی خود نہیں لکھ سکا جامعہ میں آنے کے بعد جب ادبی ماحول ملا تو میں نے بھی اس سمندر میں غوطہ لگانے کی کوشش کی اور یہ اسی کی ایک ابتدائی کڑی ہے۔
ماہ مبارک رمضان کی ایک بابرکت رات تھی، ریحان اپنے خیالوں کی وادیوں میں گھوم رہا تھا، اچانک اس کے موبائل کی گھنٹی بجی، ریسیو کرنے پر ہیلو! ہیلو! السلام علیکم پہچانے؟ کی آواز آئی. ایک لمحے کے لیے وہ حیران و ششدر سا رہ گیا، پھر ہڑبڑا کر گویا ہوا، وعلیکم السلام. ریحانہ کیسی ہیں آپ؟ پہچان گیا. کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں پھر اللہ حافظ کہہ کر فون رکھ دیا اور پھر سے تخیلات کی وادیوں کی سیر کرنے لگا.
ریحانہ ایک معصوم سا چہرہ، پاکدامن شخصیت کی مالک، جسکی ملاقات ریحان سے تقریباً پانچ سال پہلے ایک انجانے سفر کے دوران ہوئی تھی، اس وقت دونوں کی زندگی میں خاموشی تھی، نہ کوئی ہلچل نہ کوئی شور وغل نہ کوئی یاد، مگر پہلی ہی ملاقات میں ریحانہ، ریحان کے دل میں سما گئی تھی، ریحان اپنی منزل پر پہونچ کر دل ہی دل میں کہنے لگا تھا.
میں لوٹنے کے ارادے سے جارہا ہوں مگر
سفر، سفر ہے میرا انتظار مت کرنا
وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ دونوں کے درمیان تلخیاں آتی گئیں وہ بھی کسی اپنے کی وجہ سے، دونوں اپنی اپنی زندگی میں مشغول ہو گئے مگر اتنے سالوں بعد ریحان جب اس کی آواز سنتا ہے تو پھر مچل جاتا ہے اور ملاقات کی درخواست کرتا ہے، مگر ریحانہ اپنی پرانی ضد پر قائم رہتی ہے “تم اچھی طرح جانتے ہو میرے پاس ٹائم کہاں ہے” مگر بہت کوششوں کے بعد وہ راضی ہو جاتی ہے اور وقت متعین ہوجاتا ہے”فلاں دن آنا ہوگا تو آجانا”. ریحانہ کے جملے ایسے تھے جیسے فکس پرائز دوکان والے لینا ہے تو لو ورنہ جاؤ، خیر ریحان جو پچھلے پانچ سالوں سے خواب دیکھ رہا تھا بہ خوشی راضی ہوگیا. اور ایک بار پھر سے تخیل کی دنیا میں کھو گیا، کبھی ماضی کی یادیں تو کبھی کھلی آنکھوں کے سپنے. خدا خدا کرکے وہ دن بھی آگیا جس دن کا بے صبری سے انتظار تھا. ریحان کے گھر پہونچتے ہی برآمدے میں اس سے ملاقات ہوگئی، وہ چہرہ جسے ریحان پچھلے کئی سالوں سے صرف خوابوں میں دیکھ رہا تھا اس کے سامنے تھا. ریحان جی بھر کر دیدار کرنا چاہتا تھا، لیکن شریعت اور سماج کی بندشوں نے اجازت نہ دی اور ریحانہ غیر محرم کی حیثیت سے دوپٹہ سر پر رکھ کر بجلی کی رفتا ر سے روم کی طرف بھاگی، اس کی ہمجولیاں دیکھتی رہ گئیں، ریحان بھی ہکا بکا رہ گیا، اتنی دیر میں پورے گھر والوں کی طرف سے” آؤ آؤ بیٹھو، کیا حال ہے؟ کی صدا آئی. ریحان نے آہستہ سے کچھ جواب دیا. سامنے ایک ایسا چہرہ جس کا خواب وہ کھلی آنکھوں سے پچھلے کئی سالوں سے دیکھتا آرہا تھا وہ خواب آج حقیقت ہو گیا تھا، ایسے میں بھلا کسے کسی چیز کی پرواہ ہوتی، پھر باتیں ہونے لگیں ریحانہ کی امی خیر النساء نے کہا!” بہت دنوں بعد آئے ہو فرصت نہیں ملتی کیا؟” تبھی کسی اور طرف سے آواز آئی وہ شاید جعفر تھا “کم سے کم آج تو فرصت مل ہی گئی، عید کا چاند ہو گئے ہو”. ریحان سب کے سوالوں کا جواب دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ دے رہا تھا اور دور بیٹھی ریحانہ سے اشاروں اشاروں میں کچھ کہہ بھی رہا تھا. باتوں ہی باتوں وقت اپنی رفتار طے کر رہا تھا اور احساس بھی نہیں ہو پارہا تھا، وقفہ وقفہ سے جعفر کچھ اشعار بھی پیش کر دیتا تھا، ریحان ماضی کی سنہری یادوں کے سمندر میں غوطہ لگا رہا تھا، رات کا ایک تہائی حصہ گزر چکا تھا کسی طرف سے آواز آئی “اب چلتے ہیں پھر ملیں گے” ریحان نے بھی اجازت لی مگر ریحانہ اشاروں اشاروں میں روکنے کی کوشش کر رہی تھی، پھر ریحان بھی یہ سوچ کر چلتا بنا کہ غیر محرم ہوں مناسب نہیں ہوگا، اللہ حافظ کہہ کر وہاں سے چلا گیا.
اور پھر اس کے چہرے کا چاند سے موازنہ کرتے کرتے خیالوں کی وادیوں میں کھو گیا، صبح ہوئی تو سوچا کہ جاتے جاتے الوداع کہہ دوں، اس ارادے سے ریحانہ کے گھر پر اس نے دستک دی. عید قریب تھی وہ برآمدے میں ہی عید کی تیاریوں میں مصروف تھی، اسے دیکھ کر ایک بار پھر ریحانہ کو غیر محرم ہونے اور سماج کی بندشوں کا خیال آیا اس نے جلدی سے دوپٹے سے چہرہ ڈھک لیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئی، اب وہ وہ امور جانہ داری میں ماہر بھی ہو گئی تھی اور سمجھدار بھی، یہ سب دیکھ کر ریحان پسینے میں شرابور ہوگیا، اسے اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگی اس نے ادھر ادھر سرسری نظر دوڑائی اور نظریں جھکاتے ہوئے گھر والوں سے اجازت لی. اللہ حافظ کہہ کر آگے بڑھ گیا. اب وہ اپنی دنیا میں پہونچ چکا تھا، ایک ایسی دنیا میں جہاں صرف خواب ہی خواب تھے، جہاں نا سماج کی بندشیں تھی اور نا معاشرے کا خوف.
اپنی ایک آزاد دنیا جہاں وہ اپنی مرضی سے جی سکتا تھا.
اب وہ پوری طرح مطمئن تھا.