9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ذبیح اللہ ذبیح
آج صبح سے وہ بیزار تھا آنکھیں اس کی منتظر تھی بالکنی سے باہر جھانکا تو ایک دم سناٹا نہ ہی کوئی چرند پرند نہ کسی بشر کا گزرنا محلے میں ایک خوف سا طاری تھا کمرے کی حالت بد سے بدتر تھی سمر اپنے پروجیکٹ کے کام میں مصروف تھا گاؤں سے شہر منتقل ہوئے کافی عرصہ گزر چکا تھا آج اسے کبھی اماں یاد آتی تو کبھی لاڈو آپا اور تو اور رہ رہ کر وہ سبھی کردار یاد آتے جن سے کبھی راغب کو گھن آتی انکے وہ بدبودار کپڑے انکے کھانے کا انداز خوشامد بھری گفتگو نظریں لالچی گھریلو معاملات میں مداخلت بند کمروں میں کیا ہو رہا ہے دیکھنے کا تجسس مہمانوں کی تیمارداری اور اماں کو دیکھ بے بس بن جانا۔۔راغب ماضی کے دنوں کو یاد کرتا اور شرمسار ہوتا اور اپنی محدود ذہنیت کا اندازہ لگاتا جب ہی سمر کی آواز آئی راغب! راغب! راغب کو غصہ آیا اور اس نے تلخ لہجے میں سمر سے کہا تم اپنی حد میں رہو کیوں گلا پھاڑ رہے ہو؟ میں تمہارا ملازم نہیں جو یوں مجھے آواز دو ۔۔۔سمر بھی غصہ میں میں بھی تمہارا ملازم نہیں اپنی اوقات میں رہو میں تمہارا بس ایک فلیٹ پاٹنر ہوں ۔۔راغب نے معصوم بھری نظروں سے سمر کو دیکھا اور بولا بولو کیا ہوا؟ بتاؤ!
ہونا کیا تھا
وہی روزمرہ کے مسائل پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے کسی پلمبر کو کال کرو
کرتا ہوں تم جاؤ اپنے کمرے میں
پندرہ بیس منٹ کے بعد بل بجی سمر خوشی سے دروازہ کی طرف بڑھا کہ شاید پلمبر آیا ہو
اور راغب پھر اپنے ماضی میں الجھ گیا اسے وہ بیوا سیٹھانی یاد آنے لگی جس کی تین جوان بیٹیاں تھیں اور وہ لوگوں کے گھروں میں برتن دھوتی اور لوگوں کے بچے کچے کھانے لاتی اور بیٹیوں کے ساتھ آپس میں خوشی سے کھاتیں۔۔۔۔۔راغب حقارت بھری نظروں سے ان کے کھانے کو دیکھتا اور ان کی اس حالت سے نفرت کرتا اور اماں جان سے کہتا اماں یہ سیٹھانی کیسے دوسروں کا بچا کچا کھاتی ہے اور اپنی بیٹیوں کو بھی کھلاتی ہے اسے شرم نہیں آتی۔۔۔۔۔اماں جان کہتیں بیٹا بری بات ہے کسی کو حقیر سمجھنا وہ خوددار عورت ہے کسی سے بھیک تو نہیں مانگتی کام کرتی ہے اور اس کے بدلے لوگوں کا بچا کچا اسے کھانا مل جاتا ہے اس میں بری بات کیا ہے رزق تو رزق ہوتا ہے اللہ چاہے جہاں سے ذرائع پیدا کرے انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے ہم بھی کوئی خاندانی رئیس نہیں میں نے سدا ایسے لوگوں سے سبق لی ہیں اور تمہیں بھی لینا چاہیے
اماں جان ایسا نہ کہیں اللہ نے ہمیں بہت نوازا ہے
اتنی ساری دولت کا میں اکلوتا وارث ہوں میں پوری زندگی بھی کھاؤں تو کم نہیں پڑےگا اور آپا جان اپنے سسرال سب کچھ میرا
بیٹا بری بات
اماں جان بس رہنے بھی دیں میں آپ کے رٹے رٹے فقرے سے بور ہو جاتا ہوں خدا کے لیے کچھ نیا لائںیں
راغب! راغب! راغب!
نرم لب و لہجے میں ہاں سمر بولو
یار ایک عورت آئی ہے
تو ۔۔۔۔۔اسے کچھ روٹیاں چاہیے اس کا بیٹا لاک ڈاؤن کی وجہ سے تین دن سے بھوکا ہے اور وہ خود بھی بھوکی ہے ۔۔۔۔یہاں کیسے آگئی ہمارے فلیٹ تک لاک ڈاؤن میں؟
پتہ نہیں
چھوڑ نہ راغب دے دے روٹیاں ہو تو میں پروجیکٹ کر رہا ہوں
راغب کو خیال آیا کل ہی تو کچن کا ساز و سامان تقریباً ختم تھا راغب کچن میں دو تین بار آیا گیا پھر اپنے کمرے میں جاکر بیٹھا جب ہی بیل بجی
صاحب روٹی
راغب نے غصے میں دروازہ کھولا سرخ آنکھوں سے اس عورت کو دیکھا
عورت کپکپانے لگی اور کپکپاتی آواز میں میں تو بس روٹی
راغب نے دروازہ اس کے منہ پہ مارا
راغب! راغب!
کیا ہوا پلمبر کا؟
راغب خاموش، غمگین، حیرت-زدہ، افسردہ،
ہونا کیا تھا سب کچھ ختم فریز کا کباب میں نے گارڈ کو دے دیا تھا پرسو، دال میں میڈ نے نمک زیادہ ڈال دیا تھا وہ میں نے اس کے منہ پہ مارا، چاول مجھے پسند نہیں کچن میں پڑے پڑے کیڑے پڑ گ
گوشت ہم روز کھاتے ہیں ، دیر رات جگتے میگی خوب کھاتے، ایک کافی کے بجائے ایک گھنٹے میں تین بار کافی پیتے، بچا کھانا ہم روز کوڑا میں ڈال دیتے، راتوں میں خوب سگریٹ پیتے، پیسوں کو کار کی پیٹرول میں ہوا کی طرح اڑاتے
اماں جان کی کال آتی تو انکو بیوقوف بناتے
نہانے سے پہلے باتھروم میں فضول پانی خوب بہاتے
راغب! کیا اول فول بکے جارہے ہو پلمبر کا کیا ہوا؟ وہ کب تک آرہا ہے
نہیں آۓگا
کیوں؟
سختی سے نریندر مودی جی کا فرمان ہے
لاک ڈاؤن 21 روز کوئی بھی کہیں نہیں آسکتا یا جا سکتا ہے جو جہاں ہے وہی رہے
رسرچ اسکالر،شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی