حفیظ نعمانی
ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے صوتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے ایک رِٹ کی سماعت کے جواب میں لائوڈ اسپیکر پر پابندی لگانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ کہیں بغیر اجازت لائوڈ اسپیکر نہ بجایا جائے اور جہاں اس کا استعمال مستقل ہوتا ہے اس کی اجازت لی جائے۔ اس حکم کی تعمیل میں ہر شہر کی ہر مسجد کے ذمہ داروں نے فوراً کوشش شروع کی اور سنا ہے کہ چند مسجدوں کو چھوڑکر سب کو اجازت مل گئی۔ جن مساجد کا مسئلہ اُلجھ گیا ہے ہم اپنی معذوریوں کی بناء پر اس کی تفصیل حاصل نہ کرسکے۔ جہاں تک علم ہے ہر مسجد نے ان پابندیوں کا لحاظ رکھا جن کی ہدایت کی گئی تھی۔ ہمارے گھر میں مغرب کی اذان کئی مسجدوں سے ا ٓتی تھی اب وہ صرف ایک پڑوس کی مسجد سے آتی ہے اس لئے کہ ہدایت پر عمل کرتے ہوئے آواز ہلکی کردی گئی ہے۔ اب تک ایک پیمانہ تھا کہ شہری آبادی میں آواز اتنی ہو، صنعتی علاقوں میں اتنی ہو اور بازار میں اتنی ہو۔
ان پابندیوں کو کافی عرصہ گذر گیا اور کہیں سے کوئی شکایت نہیں آئی 16 مارچ کے انقلاب میں ایک خبر نظر سے گذری جس کی سرخی یہ تھی کہ ’’مذہبی مقامات کے باہر نہ آئے لائوڈ اسپیکر کی آواز‘‘ اور یہ دھمکی بھی کہ ایڈیشنل سٹی مجسٹریٹ اس کی نگرانی کریں گے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کیا ضلع انتظا میہ جس نے یہ ہدایت جاری کی ہے اس نے دیکھا ہے کہ لکھنؤ شہر میں کتنے مندر اور مسجدیں ایسی ہیں جن کا رقبہ اتنا بڑا ہو کہ اس کی آواز مسجد کے اور مندر کے اندر ہی رہ جائے؟ اور جب یہ پابندی ہوگی کہ اذان کی آواز مسجد کے اندر ہی رہ جائے تو پھر اس لائوڈ اسپیکر کی ضرورت کیا ہے؟
اذان نماز سے عام طور پر 15 منٹ پہلے اس لئے دی جاتی ہے کہ جو مسجد سے تھوڑے فاصلہ پر اپنے مکانوں میں ہیں کاروبار کررہے ہیں یا بازار میں ہیں وہ کام سمیٹ کر مسجد جانے کی تیاری کریں بلکہ چلے جائیں وہاں سنتیں پڑھیں پھر جماعت سے نماز پڑھ لیں۔ اور جب مسجد کے اندر ہی آواز کو محدود رکھنا ہے تو اس کی تو اللہ کی طرف سے بھی ہمیں اجازت نہیں ہے کہ اذان کی آواز مسجد کے اندر رہ جائے۔ حضور اکرؐم نے حضرت بلالؓ جو شاید افریقی تھے مگر ان کی آواز بہت بلند تھی ان کو حکم دیا کہ مسجد کے کنارے کھڑے ہوکر پوری طاقت سے کہو اللہ اکبر اللہ اکبر سے لاالہ الااللہ تک تاکہ پورا مدینہ سن لے اور نماز کے لئے نکل آئے۔ ہمارے بڑے بھائی نے ایک بار مسجد کے اندر کھڑے ہوکر لائوڈ اسپیکر سے اذان دیتا ہوا دیکھ کر فرمایا تھا کہ مائک کی خاطر پیچھے ایک سنت ترک کرنا پڑی۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت رفتہ رفتہ ہم مسلمانوں کو وہیں لارہی ہے کہ کوئی بلند آواز دینے والا مسجد کی فصیل یا مسجد میں کسی اونچی دیوار پر کھڑا ہوکر اذان دے۔
بالکل ابتدا میں ہم نے لکھا تھا کہ جب حضور اکرؐم نے اذان کے الفاظ ادا کرائے تو اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے کفار مکہ کو برداشت نہیں ہوئے۔ وہ دَورِ جاہلیت تھا۔ آج کا دَور تمدن کا دَور ہے لیکن ہندوستان میں مو رتی پوجا کے ہوتے ہوئے ہزاروں مسجدوں سے اللہ سب سے بڑا ہے کی مسلسل آواز حلق سے نہیں اُتر رہی ہے دو سوفٹ کا رام چندر جی کا مجسمہ اُترپردیش کے وزیراعلیٰ بنوا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ دیکھنے والے کہیں کہ رام جی سب سے بڑے ہیں۔ وہ یہ بات کیسے برداشت کریں کہ ہر مسجد سے دن میں پانچ بار اذان دی جائے اور ہر اذان میں پوری طاقت سے پانچ بار اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا کہا جاتا ہے۔ اور یہ آواز ہر جگہ سنائی دے جاتی ہے جس وقت پولیس تھانوں سے اجازت نامے ملے تو اس میں صرف ایک بات تھی کہ صبح 6:00 بجے سے پہلے رات کو 10:00 بجے کے بعد آواز نہ آئے۔ ہر کسی نے اس کا وعدہ بھی کرلیا تھا۔ اب صوتی آلودگی صرف اذان سے ہوگی اس فیصلہ کا حاصل نہیں ہے۔ مندروں میں لوگ جاتے ہیں وہ درشن کرتے ہیں کچھ لیتے ہیں کچھ دیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں ہوسکتا ہے کوئی مندر ایسا ہو جہاں کچھ پڑھایا جاتا ہو۔ لیکن مسجد کا معاملہ تو یہ ہے کہ ہر آنے والا اللہ اکبر سنتا ہوا آتا ہے اور مسجد میں آتے ہی اللہ اکبر کہہ کر نیت باندھ لیتا ہے اور جب تک نماز پوری کرتا ہے تو کم از کم 50 بار یا جتنا بھی زائد ہوسکے اللہ اکبر کہتا ہے۔ اور یہی برداشت نہیں ہے۔ گجرات سے خبر آئی تھی کہ وزیراعظم تقریر کررہے تھے ان کو کسی قریب کی مسجد سے اذان کی آواز آئی تو انہوں نے دو منٹ کے لئے تقریر روک دی۔ یہ وہ روایت ہے کہ جو ہندوستان میں ہمیشہ رہی اور اسی کی تیاری ہے کہ کسی تقریر میں اذان کی آواز نہ آئے اس پر قانون سے واقف حضرات سنجیدگی سے غور کریں کیونکہ یہ عدالت کا حکم نہیں ہے۔