9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد اویس سنبھلی
دنیا کے ایک بڑے حصہ میںکورونا قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے۔اس سے قبل بھی دنیا میں بہت سے وائرس آئے لیکن یہ اب تک کا سب سے خطر ناک وائرس ہے ، جس کا انفیکشن جان لیوا ہوسکتا ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے جوایک انسان سے دوسرے انسان میں سرایت کرجانے والی ہے۔ فی الحال سماجی دوری اوردیگر چند احتیاطی تدابیر کے علاوہ اس سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں۔لہٰذا ڈاکٹرس کی جانب سے بتائی جانے والی چند احتاطی تدابیر کو اختیار کریں اور سماجی دوری بنائے رکھیں۔ان احیاطی تدابیر سے غفلت آپ کو ہلاکت میں ڈال سکتی ہے۔
اقتدار کے مسند پر براجمان غیر سنجیدہ شخصیات کی ذرا سی غفلت نے دنیا کو ایک ایسے عظیم خطرے سے دوچارکردیا ہے جس کی ابتداء چین سے ہوئی۔ چین جو دنیا کے نقشے پر اقتصادی طور پر مضبوط معیشت اور پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر ابھررہا تھا ، اس وقت لڑکھڑا رہا ہے، گو کہ چین نے تین ماہ کے عرصے میں اس وباء پر عارضی طور پر قابو پالیا ہے مگر یہ وباء ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔تادم تحریر وبائی مرض کورونا سے تقریباً ۹۰؍ہزار اموات واقع ہوچکی ہیں اور ۱۶؍لاکھ افراد اس کے موذی شکنجہ میںزندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہیں۔مرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور اسپتالوں میں اس مرض کا مقابلہ کرنے کی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ بڑی بڑی سپر پاورز کے اپنے شہریوں کے لیے طبی سہولتوں کی فراہمی کی پول کھل چکی ہے ، تو ترقی پذیر ، غریب ممالک کس فہرست میں شمار ہوں گے۔برطانیہ میں اب تک اس وائرس کی زد میں آئے مریضوں کا علاج کررہے چار ڈاکٹروں کی کورونا کی وجہ سے موت ہوگئی۔ دو روز قبل نوگاواں سادات (امروہہ) کے ڈاکٹرڈیشان حیدر کا کورونا کے ۱۹؍مریضوں کا علاج کرتے ہوئے لندن میں انتقال ہوگیا۔
پوری دنیا لاک ڈاؤن ہے۔ کاروباری، سماجی، ثقافتی ، مذہبی سرگرمیاں معطل ہوچکی ہیں۔دنیا کے تمام مذاہب نے اپنے اپنے عقیدوں کے مطابق اجتماعی عبادات کو فی الوقت موقوف کردیا ہے اور انفرادی عبادات پر زور دیا جارہا ہے۔کھیلوں کے بڑے مقابلے بشمول اولمپک منسوخ کردیے گئے ہیں۔انسانوں کی ملازمتیں خطریں میں پڑ گئی ہیں۔ اب تک دنیا کے کئی ممالک میں لاکھوں لوگ ملازمتوں سے فارغ کردیے گئے ہیں۔خود ہندوستان میں بھی پرائیویٹ سیکٹر میں اس طرح کے معاملات دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں۔حکومتوں نے اپنے اپنے شہریوں کے لیے امدادی پیکج کی منظوریاں دے دی ہیں۔ لیکن حالات قابومیں نہیں آرہے۔
وبائی مرض کورونا کے نتیجہ میں اشیاء کی قلت، ضروریات زندگی کے سامان کی کمی،دوائوں کی عدم دستیابی، صحت و صفائی کے مسائل ، نوکریوں سے برطرفی، کاروبار کا بند ہوجانا، امیر اور غریب کے درمیان تفریق کا بڑھ جانا، سماجی اقدار کی تبدیلی، روایتوں کا کم ہونا اوور انسان اور انسایت کا موت کے خوف سے گھروں کی چاردیواری میں قید ہوجانا ایسے مسائل ہیں جو دنیا میں بسنے والی قوموں اور حکومتوں کے مزاج اور معاشروں کو ایسی تبدیلی کی جانب موڑ دے گا، جس کی انسانوں کو خبر تک نہ ہوگی۔
دنیا نے ترقی کے آسمان چھولیے تھے لیکن اس دوڑتی بھاگتی دنیا کواچانک بریک کیسے لگ گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور کیا یہ سب اچانک ہوا؟۔ ان سوالات جواب میں ماہرین کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے پانچ نامور سائنس دانوں نے ۱۳؍سال قبل اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ دنیا کو ایک عالمی وباء کاجلد سامنا کرنا پڑے گا۔یہ بات بھی گردش میں ہے کہ امریکہ کے ایک تھنک ٹینک نے چند برس قبل حکومت امریکہ کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مستقبل قریب میں ایک وباء کے زیر اثر امریکی معاشرہ کا پورا نظام تبدیل ہوجائے گا۔اس وقت براک ابامہ امریکہ کے صدر تھے اور ان کے ایڈوائزرس نے اس جانب توجہ بھی دی تھی لیکن حکومت کی تبدیلی نے اس عمل کو روک دیا۔
جیسا کے میں نے ابتداء میں لکھا ہے کہ صاحب اقتدار لوگوں کی غیر سنجیدگی اور عوام کے مسائل سے عدم توجہی نے ایک ایسے موذی مرض کے سامنے ساری انسانیت کو کھڑا کردیا ہے جہاں فی الوقت کوئی تدبیر کارگر نہیں ہورہی ماسوائے لاگ ڈائون کے۔ اور اس کے نتائج آنے میں بھی ابھی وقت لگے گا۔ اگر یہ مزید بھیل گیا یا یوں کہہ لیں اگر قدرت مزید غضبناک ہوگئی تو کیا ہوگا؟۔
لیکن افسوس ناک اور خوفناک بات یہ ہے کہ ایسے عبرتناک حالات میں بھی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب عارضی ہے چند دنوں میں حالات بہتر ہوجائیں گے۔دنیا نے بہت ترقی کرلی ہے اور اسی ترقی کے نتیجہ میں وہ اس وباء پر بھی قابو پا لے گا۔بس یہی وہ فریب ہے جو شیطان انسان کے دل میں ڈال دیتا ہے اور انسان ان حالات کو دیکھ کر بھی غفلت میں ڈوبا رہتا ہے اوروہ اسے اللہ کی جانب سے آیا ہوا عذاب تسلیم نہیں کرتا۔اس وباء کے پھیلائو کو دیکھ کر انسانوں خاص کر مسلمانوں کو تو یہ احساس ہوجانا چاہئے تھا کہ اللہ ہم سے کتنا ناراض ہے کہ اس نے ہمیں ہماری برائیوں اور کوتاہیوں کے نتیجہ میں اپنے حرم میں داخل ہونے تک سے روک دیا، مسجدوں میں تالے ڈلوا دیے اور انھیں ویران کردیا۔یہ عذاب الٰہی ہی کی ایک شکل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیںجھنجوڑنے اور خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے ہی یہ وبا ہم پر مسلط کی ہے۔تمام سپر پاروز فی الحال اس مرض کے سامنے بے بس نظر آرہی ہیں۔ایسے میں صرف ایک ہی راستہ ہے، ایک ہی پناہ گاہ ہے۔ آئیے اس کے حضور حاضر ہوتے ہیں اوردعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں۔
اے اللہ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور آپ سے معافی چاہتے ہیں۔اے پیارے اللہ ہمیں معاف کردے، ہماری خطائوں کو بخش دے اور ہم سے راضی ہوجااورہمارا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے۔ تو ہی ہے جو مصیبت سے نجاد دینے والا ہے ۔تیرے سوا کوئی نہیں، تو ہی عبادت کے لائق ہے۔ اے اللہ حرم کے دروازے کھول دے اورہمیں اپنے گھر میں داخل ہونے دے۔اے اللہ ہم تیرے گھر کے بھکاری ہیں ہیں ہمیں اس گھر سے بے گھر نہ کر ۔ تو ہمیں سے ناراض ہے ، ہمیں معاف کردے۔ہم پر جو یہ وباء آئی ہے اس سے ہماری حفاظت فرما۔یا اللہ ہم آپ کی پناہ چاہتے ہیںہر برے دن سے، ہر برائی سے ، ہر بری رات سے ، ہر بری گھڑی سے ، ہر برے لمحے سے ، آنے والے وقت کی آفتوں، بلائوں، مصیبتوں، پریشانیوں ، غموں، فکروں، دکھوں اور ہر قسم کی بیماریوں سے۔ اے اللہ ہم کو ہر لمحے اپنی حفظ و امان عطا فرما ۔آمین یا رب العالمین۔باقی رہے نام اللہ کا۔
٭٭٭
رابطہ:9794593055