قومی یکجہتی کا شاعر پنڈت برج نرائین چکبست

0
242

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

شاداب اختر فلاحی

پنڈت برج نارائن چکبست نے جب شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو اس وقت لکھنئو میں غزل کا دور دورہ تھا ،یہ اردو شاعری کا درمیانی(۱۸۵۷ ؁ء سے ۱۹۲۰؁ء) عرصہ ہے،اس وقت دلی کی ویرانی کے بعد ایک طرح سے لکھنئو اردو شاعری کا مرکز بن گیا ، مگر یہ سلسلہ بھی جلد ہی ختم ورگیا اور لکھنئو کا ادبی دبستان رام پور منتقل ہوگیا جہاںامیر مینائی ،داغ دہلوی سید ضامن علی جلال اور محسن کاکوروی وغیرہ اپنا سکہ جمانے میں لگے ہوئے تھے،اس سے قطع نظر جب لکھنئو میں شاعری اپنے عروج پر تھا تو اکثر و بیشتر شعراء دنیا و مافیہا سے الگ معشوق کا زلف سنوارنے اور گیسوئے لب و رخسار میںمصروف تھے ،اسکے باوجود اگر چکبست کب شاعری کو وطن پرستی کے نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی شاعری قومی جذبہ اور وطن پرستی کی چاشنی سے پوری طرح لبریز ہے ،وطن کی محبت سے سرشار چکبست ضلع فیض آباد میں ۱۹ جنوری ۱۸۸۲؁ء کو پیدا ہوئے ان کا خاندان کاشمیری برہمن تھا،شاعری میں چکبستؔ تخلص اختیار کرتے تھے چکبست نے ۹برس کی عمر میں ۱۸۹۱ ؁ء سے شعر کہنا شروع کردیا تھا،اگر ان کا شمار آزادی کے ہردالعزیز شعرا میں کیا جائے تویہ غلط نہ ہوگا،کیونکہ اس زمانے میں امیر و داغ کی عشقیہ روایت سے انحراف کرتے ہوئے آزادی کے متوالوں کا راستہ اختیار کیا اور ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے شاعری میں انقلاب کی شمع کو اور مزید روشن کیا بلکہ چکبست نے گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعہ ہندوستان کے لوگوں کو قومی یکجہتی،ہندو مسلم بھائی چارہ،حق پرستی،اجتماعیت،اور خوداری کا پیغام دیا۔
چکبست پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے اور وکیل کا کام باطل کے خلاف انصاف کو جیت دلانا ہوتا ہے ،ظلم و زیادتی کے خلاف جنگی محاذ کھڑا کرنا اور حق کے غلبہ کے لئے آواز اٹھانا ہوتا ہے،یہی وجہ تھی کی چکبست ایک خودار انسان تھے،خوداری کا یہ عالم تھا کہ ملک کی آزادی کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے،ان کے نزدیک غلامی کی زندگی بسر کرنا بے معانی تھا وہ زنذگی کو ایک تحریک مانتے تھے اور اس کے پرزور داعی بھی تھے ،مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
زباں کو بند کرو یا مجھے اسیر کرو
میرے خیال کو بیڑی نہیں پہنا سکتے
گردو غبار یاں کا خلعت ہے اپنے تن کا
مر کربھی چاہتے ہیں خاک وطن کفن کو
یہ کیسی بزم ہے اور کیسے اس کے ساقی
شراب ہاتھ میں ہے اور پلا نہیں سکتے
چکبست نے درج بالا اشعار کے ذریعہ اس زمانے میں انگریزوں کے سیاسی اصلاحی اور سماجی رموز و نکات سے ہمیں روشناس کرایا ہے ، مگر حقیقت میں ان کے یہ اشعار موجودہ دور کے سیاسی،سماجی اورتہذیبی احوال کی عکاسی اور ترجمانی کررہے ہیں،شاعری کی یہ خوبی بھی ہے وہ ہر زمانے اور ماحول کی کم و بیش ترجمانی کرے،چونکہ چکبست ایک قومی شاعر ہیں اس لئے انہوں نے بلا تفریق مذہب و ملت سب کی ترجمانی کی ہے۔چکبست کے اشعار کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے وہ انگریزوں کے پرزور مخالف تھے،مگر اس کے باوجود انہوںنے مغربی تہذیب کے بہت سے طریقوں کو اپنی زندگی کا شیوہ بنایاجس پر عمل کرنے میں ملک و قوم کی بھلائی تھی، اور حتی الامکان ملک کے نوجوانوںمیں ملک کی آزادی کے لئے اپنے اشعار کے ذریعہ جوش و ولولہ دلانے اور بیداری پیداکرنے کی کوشش کی ہے۔
زبان کے زور پر ہنگامہ آرائی سے کیا حاصل
وطن میں ایک دل ہوتا ہے مگر درد آشنا ہونا ہے
امیدیں مل گئیں مٹی میں دور ضبط آخر ہے
صدائے غیب بتلا دے ہمیں حکم خدا کیا ہے
خدا کو بھول کر انسان کے دل کا یہ عالم ہے
یہ آئینہ اگر صورت نما ہوتا تو کیا ہوتا
ہوس جینے کی ہے یوں عمر کے بیکار کٹنے سے
جو ہم سے زندگی کا حق ادا ہوتا تو کیا ہوتا
راقم کو جب پہلی بار درجہ ہشتم کے اردو نصاب میںاس مضمون میں پیش کئے گئے منتخب اشعار کو پڑھنے کا موقع ملا تو اس وقت ۲۰۰۴؁ء میں جامعۃالفلاح کے استاد جناب فیصل فلاحی صاحب ہم لوگوں کو پڑھایا کرتے تھے،ان کے پڑھانے کا انداز بالکل انوکھا اور نرالہ تھا،یہی وجہ تھی کہ وہ طلباء جن کو پڑھائی سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی وہ بھی اردو کی گھنٹی نہیں چھوڑتے تھے،اگر میں یہ کہوں کہ ان کے تدریس کے دلچسپ انداز نے میرے اندر بھی اردو کا شوق پیدا کردیا تو یہ غلط نہ ہوگا،چونکہ ثانوی کے نصاب میں یہی ایک غیر مسلم شاعر تھے،اسلئے ان کے اشعار اور نام نے کم عمری اور کم علمی کی وجہ سے تقریبا پانچ برس تک تنائو میں رکھااور یہ سوال بار بار ذہن آنا نھا کہ ایک غیر مسلم شاعر کیسے اس طرح کے اشعار کہتا ہے ’’حق پرستی کی جو میں نے بت پرستی چھوڑ کر؍ برہمن کہنے لگے الحاد کا بانی مجھے‘‘ ،بحر حال الجھنوں کا یہ سلسلہ کافی تگ ودو اورمطالعہ کے بعدحل ہوا ،اور معلوم ہوا کہ یہ نام نہیں بلکہ گنگا جمنی تہذیب کا اثر تھاجو اس وقت پوری طرح ہندو مسلم میں غالب تھا ،اس لئے چکبست بھی اس سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہ پائے اور حق پرستی،وحدانیت،انسانیت،حق گوئی اور بیباکی ان کے کلام کا موصوغ ہیں۔بقول اثر لکھنوی
’’صرف چکبست ہی وہ قومی شاعر ہے جس نے کل ہندوستان کے جذبات و نظریات کی بلا امتیازتفریق مذہب و ملت ترجمانی کی ہے‘‘
چونکہ غزل کا موضوع خاطور سے حسن و عشق ہوتا ہے جو غزل کا روایتی انداز بھی ہے مگر جب ہم چکبست کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بخوبی احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی غزلیہ شاعری میں بھی زندگی کے بہت سے مسائل کو موضوع بنایا ہے ،وطن پرستی کا احساس بھی کرایہ ہے صرف اتنا ہی نہیں چکبست نے حصول آزادی کے لئے بھی بہت اہم رول ادا کیا ہے،ان کے اشعار کے مطالعہ سے حوصلہ ملتا ہے ،آلام و مصائب سے دوچار ہونے کے بعد زندگی جینے کا ڈھنگ آتا ہے ۔
یہ بیکسی بھی عجب بیکسی ہے دنیا میں
کوئی ستائے ہمیں ہم ستا نہیں سکتے
مصیبت میں بشر کے جوہر مردانو کھلتے ہیں
مبارک بزدلوں کو گردش قسمت سے بھر جانا
پنڈٹ برج نارائن چکبست ایک علم دوست اور با شعور انسان تھے،انہوں نے اردو ادب کو ’’صبح وطن‘‘کے نام سے ایک شعری مجموعہ دیا ان کے اس مجموعہ میں خاک ہند،ہمارا وطن دل سے پیارا وطن،رامائین کا ایک سین اوروطن ہم کو وطن ہم کو مبارک ان کی مشہور نظمیں ہیں بالخصوص خاک ہند کو اردو کی دطنیہ شاعری میں ایک خاص مقام حاصل ہے ابھی چکبست شعری سفر طے ہی کررہے تھے کہ وہ بہت جلد ۳۸برس کی عمر میں ۱۹۲۰؁ء کو مالک حقیقی سے جا ملے،چکبست کے شعور کی نا پختگی اور بلوغ فکر رسا کے کچے پن کا اظہار کرتے ہوئے آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ ’’ہوسکتا ہے کہ ان کے کلام میں فن کی پختگی کا بھی وقت آہی رہا تھا کہ اجل نے ان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا‘‘
پرنسپل ایم ایس آر ،بسڈیلا معین الدین دیوریا

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here