فساد فی الارض ۹
(99 ویں قسط)
سیّد حمید الحسن
ہم کوئی آسرا نہیں رکھتے
در کوئی دوسرا نہیں رکھتے
جو سمجھتے ہیں درستی سودا
آس ان سے ذرا نہیں رکھتے
جن کو نفرت ہے سبزئہ و گل سے
وہ چمن کو ہرا نہیں رکھتے
(حمید)
قرآن کریم نے ہر مذہب کی آسمانی کتاب کو اپنا سمجھا اس کی تصدیق کی قرآن کریم نے ہر مذہب کی آفاقی شخصیتوں کو محترم سمجھا ان کے احترام کی ہدایت دی۔ قرآن کریم نے ہر مذہب کی مذہبی عبادت گاہ کو اہم سمجھا ان کی حفاظت کی تعلیم دی۔ قرآن کریم ایک ایسے وقت دنیا کے سامنے آنا شروع ہوا جب مذہب کے نام پر اور مذہبی لباس پہن کر عام انسانی زندگی کو برباد کیا جارہا تھا۔ انسانی سماجی زندگی بدترین روایات میں جکڑی جاچکی تھی۔ اور قرآن کریم ایک ایسی شخصیت کے ذریعہ سامنے آنے لگا کہ جو اپنے چاروں طرف رہنے والوں اپنے ہر طرف بسنے والوں سے مختلف شخصیت تھی۔ ایک انسان اپنی کمسنی میں پانچ چھ سال کے عمر سے اپنے نقوش قائم کرنے لگتا ہے۔ اس کے قریب اسے اسی کمسنی میں دیکھنے والے یہ رائے قائم کرنے لگتے ہیں کہ یہ بچہ آگے چل کر کیا ہوگا؟ اور یہ شخصیت جسے کل آگے بڑھ کر قرآن کریم کا امین بننا ہے اور جسے بددیانت لوگوں کے ہجوم میں امانت دار کا مطلق مرتبہ ملنا ہے وہ کمسنی میں اپنے وقار اپنے احترامات کے ایسے انداز کا مالک ہے کہ اس کے 100 سال کے عمر کے ادا، عرب کے باقار قبیلے کے سردار اور تمام عربوں کے سید و سالار بزرگ جب اپنے اس پانچ چھ سال کے عمر کے پوتے کو دیکھتے تو یہی کہتے۔ ’’ان لہ شانا کبیرا‘‘ ان کی شان بہت بلند ہے۔ اور یہیں پر اتنا اگر لکھ دیں تو کون ہے جو اس کی تردید کرسکے گا کہ جن کے سو سال کی عمر کے دادا ان کی چھ سات سال کی کمسنی میں ان کی عظمت شان پہچان چکے ہوں اور جن کا یہ قول بھرے مجمع میں ہو تنہائی میں نہ ہو اور پھر جن کے خاندان کے بڑے بزرگ جیسے حضرت ابوطالب سب ہی انہیں اپنے قریب اپنے ساتھ اپنی سرپرستی میں رکھنے کے تمنائی ہوں کیا انہیں اپنے عقلمند، دانشور، سمجھدار، ایسے عزیزوں سے جو حاسد بھی نہیں، کینہ پرور بھی نہیں۔ اس کمسن باعظمت وجود سے محبت بھی رکھتے ہوں احترام بھی رکھتے ہوں آگے چل کر یہ اقرار لینا ضروری تھا کہ ’’میں اب یہ ہوں‘‘ اور آپ اب مجھے اس طرح مانیں‘‘ وہ خوب جانتے تھے کہ جب چاروں طرف حاسدوں، مخالفوں، منافقوں، فسادیوں کا مجمع ہر طرف ہے تو ان سب سے ان کی حفاظت کرنے والے کون ہیں؟
تو وہ قرآن اور یہ شخصیت اور چاروں طرف کا یہ ماحول اس میں ہمارے حضوؐر انسانی برباد زندگی کو آراستہ کرنے چلے۔ ان کی ویران سماجی زندگی کو آباد کرنے نکلے۔ تمام راستہ کانٹوں بھرا، ہر راستہ کنکر پتھر والا، قدم قدم پر خونریزی سے عشق اور انسانیت سے نفرت رکھنے والوں سے سابقہ۔ سامنے ہر قدم پر ایسے لوگ جو نہیں جانتے کہ ان کی خواہشوں ان کی آرزوئوں کے مقابل کسی کو مخالفت کرنے کا بھی کوئی حق ہے۔ مذاہب الگ، قبیلے الگ، خاندان الگ، قصبوں قریوں کے رہنے والے الگ، ایک منتشر زندگی ایک بکھرا ہوا سماج اسے ٹھیک کرنا ہے اسے پھر سے انسانیت کے اصول سمجھانا ہیں اور ان پر عمل کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔ انہیں سمجھانا ہے۔ کسی بھی طرح کا فساد انسان کیلئے بالکل مناسب نہیں۔ انہیں آمادہ کرنا ہے وہ ہر اس بات کو چھوڑ دیں جو انہیں کسی بھی طرح کے فساد کی طرف لے جائے۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ فساد کیا ہے؟ فساد کن باتوں میں ہے؟ اور فساد اچھا ہے یا برا؟ اور فسادی کسے کہا جائے گا؟
انہیں پہلے یہ سمجھانا ہے کہ کسی کی بھی بے عزتی فساد ہے۔
کسی بزرگ کی توہین فساد ہے
کسی کی بے احترامی فساد ہے
اگر وہ تاجر ہے تو تجارت میں بے ایمانی فساد ہے
تجارت میں بددیانتی فساد ہے
تجارت میں کم تولنا فساد ہے
تجارت میں بدعہدی فساد ہے
تجارت مین وقت ضرورت مال مہنگا بیچنے کیلئے اسے بچاکر رکھ لینا فساد ہے تجارت میں مال میں غلط فائدہ حاصل کرنے کیلئے غلط ملاوٹ فساد ہے
اگر وہ کہیں بھی حاکم ہے تو رعایا پر ظلم فساد ہے
لوگوں سے خلاف شکایت سلوک کرنا فساد ہے
اپنوں سے رعایت خیر و خودغرضی فساد ہے
اگر وہ کسی سے کام لے رہے ہیں تو مزدور کی اجرت نہ دینا فساد ہے
جتنا وعدہ کیا ہے اس سے زیادہ کہیں مزدور کا ہر کام لینا فساد ہے
کسی کے جانور کو بھی اگر مزدوری پر لیا ہے تو جانور سے عادت سے زیادہ کام لینا فساد ہے۔
زندگی کے کسی بھی گوشہ کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے ہر بات کسی ایسے قانون کے دائرہ میںلے آئی جائے کہ فساد کا امکان نہ رہ جائے۔
شادی، بیاہ، استاد، شاگرد، پڑوسی پڑوسی، مسلم غیرمسلم، باپ ماں اولاد، وراثت، امانت، عہد معاہدہ، یتیم یسہر، غریب، سائل، قیدی، آزاد، مرد، عورت ہر انسانی رشتہ سمجھا دیا جائے پھر اس پر عمل کرنے کی تاکید کی جائے اور اس طرح عام انسانی زندگی کو ہر ممکنہ فساد سے بچا لیا جائے یا بچالینے کا انتظام کردیا جائے۔ یہ سب کچھ اس ماحول میں جو 1500 سال پہلے تھا قرآن کریم نے بتایا سمجھایا اور اسے اپنی زبان اور اپنے عمل سے انہوں نے تعلیم دینا شروع کیا جن کو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰؐ کے نام سے آج تمام دنیا جانتی ہے۔ مانتی ہے اور اپنی زندگی ان پر فدا کرنے میں آمادہ رہتی ہے۔ ہم ان کی تمام زندگی کو جس حد تک بھی سمجھنا اور سمجھانا چاہیں ہم پورے یقین سے ایک بات لکھیں گے کبھی کسی کو ان کی تمام 63 سال کی زندگی میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ملے گا کہ جہاں کہا کچھ گیا ہو اور کیا کچھ گیا ہو۔ جو کہا وہی جو کرنا ہے اور کیا وہی جسے کہا گیا۔ اس میں کوئی امتیاز نہ تھا کہ سامنے والا کون ہے؟ دوست دشمن موافق، مخالف، عالم، جاہل، اپنے قبیلے کا یا غیر کسی خاندان کا۔ سچ، صداقت اور امانت انسانی زندگی کو کامیابی کی آخری سیڑھی تک لے جانے والے دو انتہائی مضبوط ساتھی، طاقتور رفیق، جس نے سچ اپنا لیا کسی کا جھوٹ اسے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور جس نے امانت کو ساتھ لے لیا دنیا کا ہر بددیانت اس کے سامنے حقیر نظر آئے گا۔ یہ دونوں اعلیٰ صفات ان کے ساتھی بنے اور اس طرح کہ ہر انسان انہیں دیکھتا تو سمجھتا اس نے سچائی کو اپنے مکمل وجود میں سامنے دیکھ لیا اور اسے امانت کو انسانی پیکر میں اگر دیکھا تو وہ یہی ہیں۔
اور جسے صداقت اور امانت داری کی صفتیں مل جائیں پھر اسے کسی بھی طرح کا کوئی فساد یا فسادی نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ ناکام کرسکتا ہے۔
حضور اکرؐم نے جس قرآن کریم کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا شروع کیا اس نے فسادیوں کی فہرست بھی اس انسان کو دی جو اس طرح تھی۔ ابلیس، قابیل، فرزند حضرت نوح، زوجہ نوح، نمرود، برادران یوسف، فرعون، ہامان، شداد، قارون، یاجوج ماجوج، سامری، بخت النصر، بنی اسرائیل میں سے بعض حضرت عیسیٰ کے ساتھیوں میں بعض اصحاب کہف کے مقابل بادشاہ، ابولہب۔ اقور باقی فہرست تفسیر کے ذریعہ ہمیں سمجھائی جاتی رہی۔ دوسرے مذاہب کے محققین نے بھی بہت کچھ سمجھایا۔ فساد اور فسادیوں کے بڑے نام بتلائے۔ اس فہرست میں یہ تفریق کہیں نہیں کہ کون کسی نبی کا بیٹا ہے یا کون کسی نبی کی زوجہ ہے؟
یہ تعصب سامنے رکھا جاتا تو پھر دین میں رہ کر ملوکیت بن جاتا۔ صداقت پر اعتبار نہ رہ جاتا اور دیانت مشکوک صفت کہلاتی۔ جبکہ آج ہم سب ہی جانتے ہیں کہ علم جہل نہیں کہلاتا اور ظلم رحم نہیں بن سکتا۔ یہ عطیہ سچے دین کا ہے اور یہ تحفہ حقیقی مذہب کا ہے کہ کشتی نوح پر باغی اُمت آ نہ سکے اور آتش نمرودی میں حضرت ابراہیم جلائے نہ جاسکیں، فرعونی جادوگر سانپ بنا لیں گے مگر سانپ بن جانے والا عصا بنا نہیں سکیں گے اور سلیمانی عظمت جلالت نہ ایک پرندہ ہدہد کو بات کہنے سے روک سکے گی اور نہ ایک چیونٹی کی بات سنے بغیر اپنی بڑائی کا کلمہ پڑھوائے گی۔
مذہب، عقیدہ، دھرم، یقین، انسان کے لئے ہزاروں سال سے ہے۔ اس کے چاروں طرف کی یہ دنیا بھی اس سے پہلے سے مگر پھر اس کے ساتھ ساتھ ہے۔ اور اس انسان کی تاریخ میں ہزاروں سال سے فسادات قتل، خونریزی، بربریت بھی موجود ہیں۔ ان فسادات کا اطلاق اسی وقت اور اس جگہ ہوتا ہے جہاں انسان انسان کے مقابل ہو۔ کبھی بھی کسی سانپ، کسی کنگ کوبرا سے انسانی مقابلہ نہ فساد کہلائے گا اور نہ کسی سانپ اور نیولے کی لڑائی فساد کہلائے گی۔
کسی انسانی بستی پر جنگلی ہاتھیوں کا حملہ فساد نہیں کہا جائے گا اور کسی کھیت یا باغ میں آجانے والے بندروں سے تباہی فساد کہلائے گی۔ انسان کا فساد کبھی جانوروں کے مقابل نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں ہم کسی خوفناک بندر کو کہہ سکتے ہیں بڑا فسادی ہے اپنے پورے غول کو مارتا رہتا ہے۔ ہم کسی کتے کو عرفا فسادی کہہ لیتے ہیں جو سب کو دوڑائے رہتا ہو لیکن یہ اسی طرح کہا جائے گا جیسے کسی بہادر کو شیر کہہ لیں اور کسی اچھی قامت کو سرو (درخت) سے مثال دے لیں۔ تو اگر انسان کی مثال جانور یا درخت سے دی جائے تو جس نے اپنے بھوک میں مبتلا بھائی کو کھانا کھلایا اسے اللہ جنتی پاکیزہ غذائیں دے گا۔
اس وقت یہیں پر ایک قول حضوؐر اور لکھیں فرمایا: جس نے کسی کمزور جسم انسان کے کام میں اسے مدد دی اللہ اس کے (اپنے) کام میں اس کی مدد کرے گا۔
یہ چند اقوال اس لئے لکھے گئے کہ یہاں کسی مذہب کی قید نہیں ہے کسی ہم قبیلہ ہونے کی بات نہیں ہے کسی ہم نسب ہم حسب کی قید بھی نہیں ہے۔
مذہب پہلے انسان کا انسانی سلوک دوسروں سے سمجھاتا ہے پھر اسے اس مذہب کی پابندی کی طرف لاتا ہے کہ جس کے سبب وہ اپنی انسانی تعلیم سے خود کو آزاد نہ سمجھ سکے۔
حضوؐر نے چالیس سال مذہب کی نہیں کردار کی تعلیم دی کردار ہے اور مذہب سے ناواقف ہے تو بارگاہ رب میں بخشا جائے گا لیکن مذہب ہے اور کردار نہیں ہے تو کہیں بھی معافی نہیں ہے۔
امیرالمومنین علی ؑ نے جنگ کے ماحول میں چلتی تلواروں میں برستے تیروں میں پہلے انسان کو انسانی سبق دیئے مذہب کی بات بعد میں کی وہ اسلامی جنگ جو ہجرت کے بھی پانچ سال بعد ہوئی اس میں بھی مولا علی ؑ نے اپنے سامنے بدترین دشمن عمرو ابن عبدود سے یہی فرمایا۔ ’’جا چلا جا‘‘ اس نے جانے سے انکار کیا۔ تب فرمایا تو اسلام قبول کرلے۔ اس نے اسے بھی ردّ کیا تو اب فرمایا تو پھر جنگ کر۔ یہ سب کیا تھا؟ پہلے اس کے چلے جانے کی چھوٹ دے دی گئی کہ اگر وہ چلا جاتا تو کیا لوگ کہتے یا علی دشمن کو عین میدان جنگ میں اسلام قبول کرائے بغیر کیوں جانے دیا؟ لیکن علی ؑ کا اسلام اور سب کا اسلام یہی تھا کہ اسلام خون بہانے کے لئے نہیں آیا ہے خون بہنے سے بچانے کے لئے آیا ہے اور اسی لئے آخری شرط پر فرمایا گیا تو پھر جنگ کر۔
ہم آپ اکثر لوگ قاضی شرع کے سامنے ایک زرہ کے بارے میں جانتے ہیں جو مولا علی کی تھی اور ایک یہودی کے قبضہ میں تھی۔ حکومت علی ؑ کی تھی۔ قاضی بھی انہیں کا معین کردہ تھا۔ یہودی غیرمسلم مقابل میں ہے لیکن اسلامی نمائندگی اس میں ہے کہ آنے والا ہر زمانہ سمجھ لے کہ اسلام عدالت کا نام ہے تشدد کا نہیں۔
اگر یہ خلاف ادب نہیں تو بیچارہ جانور بھی اگر کہیں کہیں فسادی کہہ لیا جائے تو یہاں ہم خود ہی سمجھ لیں گے کہ کسی فسادی انسان سے اسے نسبت دی جارہی ہے۔ اس لئے کہ فسادی انسان ہی ہوئے ہیں جانور تو بس جانور ہے وہ زندہ رہنے کے لئے فسادی بن جاتا ہے بہت سے انسان فسادی رہنے کے لئے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم نے انسان کے لئے آگاہ کیا۔ یہ فسادی ہیں۔ یہ نہیں۔ اس نے ہزاروں سال کے فاصلوں سے ہر زمانے کے فسادی انسان کا نام بتلایا کہ ہم اس کی زندگی کے حالات سے سمجھ سکیں کہ ہم ویسے ہی تو نہیں؟
اور ہمیں یہ سمجھ لینا مشکل نہیں کہ فسادی کون ہوتا ہے؟ بشرطیکہ ہم سمجھ لینا چاہیں آیئے اسے ایک جملہ میں سمجھ لیں ’’جو اللہ سے نہیں ڈرتا وہی فسادی ہوتا ہے‘‘ اس لئے کہ اللہ سے جو ڈرے گا وہ سمجھ لے گا کسی پر ظلم اللہ کو پسند نہیں۔
کسی کی تذلیل۔ اللہ کو پسند نہیں۔ کسی کی زندگی سے کھلواڑ، اللہ کو پسند نہیں۔
حق کو چھپانا اللہ کو پسند نہیں، ظالم کی حمایت اس کی پشت پناہی، اللہ کو پسند نہیں۔
ہم یہاں قرآنی ساتویں سورئہ الاعراف کی آیت نمبر 56 پیش کریں کہ اللہ کی مرضی کہاں ہے۔ اس کی رحمت کہاں ہے فسادی کون ہے؟
(ترجمہ) اور زمین پر کسی طرح کا فساد نہ کرو۔
یہ زمین پر اصلاح کے بعد فساد کیا ہے؟
ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اسلام اور قرآنی قانون نے جو بہترین زندگی دی ہے اسے بدلنے کی کوشش فساد کہلائے گی۔
حضوؐر کی ایک حدیث نقل کریں۔ فرمایا۔
’’جو اپنے اور اپنے اللہ کے درمیان جو کچھ ہے اس کی اصلاح کرلے اللہ اس کے اور اس کے لوگوں کے درمیان (جو بدترین معاملات اور جو کچھ ہوگا اس کی اصلاح کرے گا۔
شاید ہم کبھی غور کرسکیں کہ آج ہم کہاں ہیں؟ کیوں ہیں؟ ہمارے ذمہ کون سا حق باقی ہے جسے ہم چھپائے ہوئے ہیں یہی وہ بات ہے جو اللہ کو ناپسند ہے۔
کیا یہیں پر ایک اور حدیث لکھیں۔ شاید مناسب ہوگا۔ من اطعم اخاہ من جوع اطعمہ اللہ من طیبات الجنۃ۔
حضوؐر کا ایک قول پھر نقل کریں فرمارہے ہیں ’’لسان التاضی بین طریقیں اما الیٰ جنۃٍ و اما الی النار‘‘ قاضی (جج) کی زبان دو راستوں کے درمیان ہوتی ہے یا جنت (کے راستے) کی طرف یا جہنم کی طرف۔
فیصلہ وہ کیا دے رہا ہے۔ کس کے لئے دے رہا ہے۔ یہ سب بعد کی بات ہے۔ اسے عدالت میں جج بنایا گیا ہے۔ حکم اس کا ہوگا فیصلہ اس کا ہوگا اثر نہ جانے کتنوں تک جائے گا۔
آج کی تمام دنیا کی حکومتیں بغیر عدالت کوئی بھی نہیں ہر جگہ عدل و انصاف آخری قوت، آخری طاقت، مسند عدالت۔
اور حضوؐر کا ارشاد ’’اتقوا دعوۃ المظلوم و اِن کان کافرا خابنا لیس دوبنا حجاب‘‘
مظلوم خواہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو اس کی فریاد سے ڈرو اس لئے کہ اس کی فریاد اور (جس کو اس نے پکارا ہے) بددعا کے مقابل کوئی پردہ (حجاب) نہیں رہ جاتا (جو اس کی آ ہ اس کی فریاد اس کے رب تک جسے اس نے پکارا ہے جانے سے کوئی روک سکے)
بیحد قابل فکر ہے یہاں لفظ غیرمسلم، اور جس کو اس نے پکارا۔ حضوؐر کے اس فقرے نے کم از کم ہماری عقل و فکر کو اتنی آواز تو دے ہی دی ہوگی کہ پکارنے والا تو کم عقل مخلوق انسان ہے مگر وہ اپنی کم عقل کے باوجود جسے بھی پکارے اس کا حقیقی مالک تو سمجھتا ہے کہ وہ ناسمجھی میں بھی جسے پکار رہا ہے وہ وہی ہے خود اس کا حقیقی رب حقیقی مالک۔
اور آج کا یہ مضمون یہ 99 قسط ہم تمام کرنے کے لئے اتنا لکھ دیں یہ سب اسلام کی تعلیم ہے اور یہی سب ہر مذہب کی تعلیم ہے تمام مذہبی دنیا یہی سب سمجھاتے ہیں ان میں عالم، پریسٹ، پنڈت، گرو، ربی، کسی کی قید نہیں ہے سب ہی فساد فی الارض سے ہمیشہ سب کو بچا لینا چاہتے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہے آج جب تمام دنیا نے کہہ دیا اس وقت جو جرثومہ، جو وائرس ہے اس کا کوئی علاج ابھی تک نہیں ہے۔ تو اب علاج دو ہی ہیں ایک وہ تمام احتیاطیں جو تمام ملکوں کے مریضوں کے ذریعہ تجربات میں آجائیں دوسرے وہ دعائیں جو ہمیں ہمارا یقین ہمیں بتلائے۔
ہم نے پہلے کبھی کسی مضمون میں ایک مثال لکھی تھی آج اسی کو دوسرے انداز میں پیش کردیں۔
آپ اپنے صدارتی محل کے باغیچہ میں خوبصورت گلاب توڑ لیجئے اور پھر اسے واپس اسی شاخ پر لگا دیجئے تب کہئے کہ آپ سپرپاور ہیں۔ جب یہ بھی طاقت آپ کے پاس نہیں تو تمام دنیا کو ہلاک کردینے والے اسلحہ بنانے سے بہتر ہے کہ وہ دوائیں تلاش کریں جو اس اندیکھے جرثومہ کو یا آئندہ اس کے جیسے اور امراض کو ختم کرسکیں۔
انسانی خدمت صرف اپنے جذبہ کی تسکین کا نام نہیں بلکہ اس مسلسل فکر و تدبر کا نام ہے جہاں تمام دنیا پرسکون بنائی جاسکے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ حکومت کسی بھی ملک میں اس کے عوام کے لئے ایک پناہ گاہ ہوتی ہے۔ حاکم تو صرف اس پناہ گاہ کا محافظ ہوتا ہے اور بس۔ (مضمون کے خاتمہ پر ایک اچھی مثال سامنے آگئی اسے نقل کردیں)
ابھی یہ مضمون ختم کررہے تھے کہ عزیزم خادم عباس زیدی صاحب کا فون آیا آپ کے یہاں دروازے پر ڈاکٹر اُمنگ کھنہ کھڑے ہیں۔
تعجب ہوا۔ یہ صبح صبح کیوں؟ گئے اپنے فرزند ظہیر الحسن سلمہ کو ساتھ لیا۔ باہر سڑک پر ہو کا عالم، صرف تین صاحبان سامنے ہیں ہاتھ میں دوا چھڑکنے کی وزنی مشین لئے خود ڈاکٹر اُمنگ کھنہ۔ کہنے لگے یہ ساتھ میں سبھاسد انو مصرا کے بھائی ہیں۔ تیسرے صاحب یقینا کوئی ایسے صاحب تھے جنہیں یہ وزنی مشین لے کر چلنا تھا۔
لیکن ہم نے مثالی بات یہ سمجھی کہ ڈاکٹر اُمنگ کھنہ شہر کی معروف شخصیت ہمارے تمام مکان میں اندر جاکر دور تک دوا چھڑکتے رہے اسپرے کرتے رہے لیکن انہوں نے (مددگار ساتھی کو وہ وزنی مشین نہیں دی نہ اس کا اظہار کیا کہ کس کا فریضہ کیا ہے؟
یہ اضافہ مضمون صرف ان لفظوں کے لئے ہے گھر حمید الحسن کا۔ حالات کے تحت دوا اسپرے کرنے کیلئے جو صاحب آئے وہ اُمنگ کھنہ جو مددگار ساتھ ہے اسے بھی زحمت نہ دینے والے ڈاکٹر کھنہ۔ جن کا اپنا مطب نہیں بلکہ دوسرے گھر کے سامنے یہاں بس اتنا لکھنا کافی ہے۔
جب تک ہمارے دیش میں یہ مثالیں ہیں فساد کا جرثومہ اپنی زہریلی جڑیں کبھی یہاں نہیں باقی رکھ سکتا۔ اور آج جب تمام دنیا اس وائرس کے سامنے ایک ہورہی ہے تو ہمارا ملک تو اسے اچھی طرح زمانوں سے سمجھتا چلا آرہا ہے۔
کرونا بھی ختم ہوگا اور باہمی دوریاں بھی ختم ہوں گی جیسے آج وقتی دوریاں بنانا ضروری ہے ویسے ہی کل یہ دوریاں ختم ہوں گی اور انسانیت کا سورج چمکے گا۔
تقریباً 1450 برس سے قرآن کریم کی یہی آواز ہے اور جس سے انکار کی گنجائش کبھی نہیں رہی۔
کیا تم نہیں جانتے کہ یقینا آسمانوں اور زمین کی حکومت صرف اسی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی سرپرست ہے نہ مددگار۔ (البقرہ آیت 107 ترجمہ)
دوسری جگہ یہی انداز دیکھئے
(ترجمہ) کوئی شک نہیں آسمانوں اور زمین میں حکومت صرف اللہ کی ہے وہی جسے چاہے دیتا ہے جسے چاہے موت دیتا ہے اور تمہارے لئے اس اللہ کے سوا نہ کوئی سرپرست ہے نہ مددگار۔ (سورئہ التوبہ نمبر 9 آیت 116 )
اسی بات کو آیئے تیسری جگہ دیکھیں۔
(ترجمہ) اور نہ تو تم اللہ کو زمین میں عاجز کرسکتے ہو اور نہ آسمان میں اور تمہارے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی سرپرست ہے نہ مددگار۔ (قرآنی 29 واں سورئہ العنکبوت آیت 22 )
بالکل یہی بات پھر قرآن میں آگے دیکھیں۔
(ترجمہ) تم لوگ زمین میں رہتے ہوئے اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ہو اور اس اللہ کے سوا نہ تو تمہارا کوئی دوست ہے نہ مددگار۔ (قرآنی 42 واں سورئہ الشوریٰ آیت 31 )
اس نے اپنا سہارا اسی لئے بتایا کہ ہم میں سے طاقتور اپنی حد سمجھ لیں اور ہم میں سے کمزور بے سہارا سامنے والے کے ظلم کی انتہا سے آگاہ ہوجائیں اور اس طرح دونوں دیواریں گرجائیں کسی کے غرور کی دیوار اور کسی کی نااُمیدی کی دیوار۔
آج کا جرثومہ ان دونوں دیواروں کو گرادینے والا ہے دنیا کے تمام مغرور طاقتور دیکھیں وہ کہاں ہیں اور دنیا کے تمام مجبور انسان یاد کرلیں سب ایک ہیں۔ اور یہی آج کا جذبہ آج کا خوف اگر یاد رہ جائے تو ہماری زمین کے آنے والا زمانہ خوبصورت ہوگا۔ خوبصورتی کی لفظ اس لئے کہ امن و سکون سے بڑھ کر کوئی خوشنما وجود اس دنیا میں نہیں اور فساد و بدامنی سے زیادہ ہیبت ناک کوئی شے اس زمین پر نہیں۔
اس لئے ہم مذہب کی دونوں باتیں یاد رکھیں۔
لاتفسدوا فی الارض۔ زمین میں فساد نہ کرو۔
الابذکر الہ تطمن القلوب۔ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
قرآن کریم انسان اور انسانیت کی اس قسط 99 کا یہی پیغام ہے اور قسط 100 میں ہم ایک دلچسپ واقعہ حضرت بہلول کا قارئین کی خدمت میں نذر کریں گے انشاء اللہ۔
خخخ