9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
کسی موضوع پرہفتہ وار مسلسل سو قسطیں لکھنا یعنی سات سو ہفتوں تک مفاہیم قرآن کی تفصیل،تشریح ،توضیح اور تعبیر کوآیات قرآنی ،احادیث پاک،اقوال ائمہ معصومین اور تاریخ انسانی کی روشنی میں حالات حاضرہ کے تناظر میںبرجستہ اور دلچسپ انداز میںبیان کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔لیکن یہ کار محال انجام دیا ہے آیت اللہ سید حمید الحسن نے ۔قرآن کریم ۔”انسان اور انسانیت” کے تحت””لا تفسدو فساد فی الارض” کے عنوان سے دسویں قسط اور ان کے سلسلہ وار مضامین کی سویں قسط آج اودھ نامہ کے صفحہ کی زینت ہے۔ہم انھیں دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔اور ان کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں کہ انھوںنے اس اہم موضوع کے لئے اودھنامہ کے صفحات کو منتخب کیا۔ان کے مضامین علمی ،منطقی ، تحقیقی اور مدلل ہونے کے ساتھ ساتھ زبان کی روانی، اسلوب کی شگفتگی،اور ادب کی چاشنی سے بھی مزین ہوتے ہیں۔جناب کے ان مضامین کی اہمیت کا اندازہ اسی امر سے ہو جاتا ہے کہ جب اودھ نامہ نے جگہ کی قلت کے پیش نظر ایک ہفتہ ان کے مضمون کو قسطوار کیا تو دور دراز سے فون اور سوشل میڈیا کے ذریعہ اس بات کا اصرار کیا گیا کہ مولانا حمید الحسن کے مضمون کا قارئین کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے اسے قسطوار نہ کیا جائے کیونکہ اس سے تشنگی رہ جاتی ہے اور بات بھی مکمل نہیں ہو پاتی۔ آیت اللہ حمید الحسن صاحب کے ہمہ جہت معلومات اور علم زبان اور ادب سے مزین مضامین کا سلسلہ جاری ہے
فساد فی الارض ۱۰؎قسط
آیت اللہ سیدحمید الحسن
سلسلہ مضامین میں ہم جب اس قسط 100 تک پہنچے اور لاتفسدا فی الارض کی دسویں گفتگو تک آئے تو احساس ہوا اودھ نامہ میں ہر جمعہ کو تقریباً دو سال سے جو لکھا جارہا ہے یہ قسط جس دن شائع ہوگی وہ بہت اہم دن ہوگا۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس مضمون کے لئے یہ عدد ایک سو اس لئے بھی یاد رہے گا کہ اس کی نسبت اس دن سے ہوجائے گی جسے شب برأت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور وہ دن اس لئے بیحد اہم ہے کہ جس کی آمد سے منسوب ہے وہ دنیا سے ہر فساد کو ختم کرنے آئے گا۔ اور جب وہ آج سے تقریباً ایک ہزار ایک سو چھیاسی (1186) سال پہلے اس دنیا میں آئے تو قریبی لوگوں نے دیکھا کہ ان کی زبان پر کچھ کلمات جاری ہیں۔ غور کیا تو معلوم ہوا وہ نومولود یہ فرما رہے ہیں۔ اشہد ان لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ و اَن جدی رسول اللہ و اَن ابی امیرالمومنین وصی رسول اللہ۔ سب نے دیکھا کہ ان کے داہنے ہاتھ کی کلائی پر ایک عبارت چمک رہی ہے۔ لکھا تھا۔
جاء الحق و زہق الباطل ان الباطل کان زہوقا۔ اور یہ صرف ایک عبارت نہیں یہ قرآن کریم کی وہ آیت ہے جو حضوؐر کی زبان مبارک پر مکہ واپسی پر فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ میں قدم قدم پر جاری تھی۔
’’حق آیا باطل گیا اور باطل تو جانے والا ہی ہے۔‘‘
ہم یہاں اتنا لکھ لیں کہ وہ آئے، وہ پردئہ غیب میں گئے۔ وہ موجود ہیں، وہ ظاہر ہوں گے۔ ان تمام باتوں پر مختلف انداز میں عقیدت رکھنے والوں کے لئے اتنا ہی بہت ہے کہ کوئی ایسا کب آیا کہ جس کی کلائی پر دنیا میں آتے ہی آیت قرآن ہو اور وہ بھی وہ جو حضوؐر کی زبان پر کبھی مکہ کی واپسی کے وقت جاری تھی۔ صرف اتنا ہی منظر اگر تاریخ نے ہمیں کسی وجود کے لئے پیش کردیا تو بہت ہے۔ اب اگر کوئی اسے فرضی کہہ کر نہ مانے تو اس کا یہ انکار اگر اسے کوئی فائدہ پہنچا رہا ہو تو وہ جانے ہمارے لئے تو ہمارا اس پر یقین ہم کو اتنا فائدہ تو دے ہی دے گا کہ اگر کوئی ایسا ہے تو وہ کتنا باعظمت ہے اور اگر وہ اتنا باعظمت ہے تو ہماری قسمت کہ ہم ان کے اور وہ ہمارے ہیں۔ اقرار و انکار کے درمیان فیصلہ آسان ہے کہ خوش قسمت کون ہوگا اور اس سے محروم کون؟
اچھی باتوں، اچھی شخصیتوں سے اقرار اور وابستگی خود ہی ایک نعمت بن جاتی ہے۔ اور بری باتوں اور بدتر افراد سے رشتے بدقسمتی بن کر ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ یہ اپنی اپنی جگہ سمجھنے کے انداز ہیں۔ کیا ہم اور آپ یہ نہیں دیکھتے کہ پھول درختوں پر کھلتے ہیں تو وہ اُڑکر کہیں نہیں جاتے وہ درختوں پر شاخوں پر اپنی اپنی جگہ کھلے رہتے ہیں ان کی خوشبو فضائوں میں انہیں تک جاتی ہے جن کا اس پھول اور اس کی خوشبو سے کوئی رشتہ ہوتا ہے۔ اور پھر ہر طرح کے پرندے تتلیاں، شہد کی مکھیاں پرواز کرتی ان تک آتی ہیں۔ کبھی ہم غور کریں خوبصورت پرندوں کی پرواز کی منزل شاخوں پر کھلے پھولوں سے ہوتی ہے کیا کبھی دیکھا ان پھولوں کی طرف سانپ بچھو دوڑتے بھاگتے چلے آرہے ہیں؟
سمندروں کی گہرائیوں میں پڑی ہوئی سیپیاں ہر وقت سطح سمندر پر نہیں آجاتیں وہ جانتی ہیں کہ برستے پانی میں بھی کون قطرے اس کے لئے ہیں کون نہیں؟ موتی سب ہی نہیں بن جاتے۔
یوں ہی تاریخ کے سفر میں مسافروں کے کارواں رواں دواں ہیں یہ ان کا انتخاب کہ میرکارواں وہ کسے مانیں۔ اور وہ کون ہوں جن سے وہ خود کو دور رکھیں۔
یہ مضمون جس دن پڑھا جائے گا وہ ایک ایسی ہی ہستی کی آمد سے منسوب ہے کہ جسے عالم اسلام حجت عصر، حضرت امام مہدی امام محمد کے القاب و ناموں سے جانتا ہے۔
کیا اُن کے بارے میں جاننا، ان سے عقیدت رکھنا، ان کو ماننا اس لئے ضروری نہیں کہ وہ پردئہ غیب میں ہیں؟ اور جب تک دیکھ نہ لیں کیسے مانیں؟
یہ ماننے نہ ماننے کا انداز کبھی قابل قبول نہیں ہے کسی کا دیکھنا سامنے کے وجود پر منحصر نہیں ہے دیکھا جانا دیکھنے والے کی دیکھنے کی صلاحیت پر ہے۔
اسے ہم آج کے حالات میں دوسری طرح کہیں۔
ہم کسی بھی عقیدہ یا مذہب میں ہوں ہم کسی بھی سن و سال کے ہوں ہم کسی بھی ملک کے رہنے والے ہوں ہم کسی بھی قوم سے ہوں۔ ہم عالم ہوں یا جاہل، ہم حاکم ہوں یا عامۃ الناس، ہم دولتمند ہوں یا فقیر، ہم تاجر ہوں یا بھکاری، ہم قوی ہوں یا ضعیف، ہم صحتمند ہوں یا بیمار کیا کسی نے اس بدترین دشمن کو دیکھا ہے جو آج ہر طرف اپنی دہشت پھیلائے ہوئے ہے؟ جس نے آج کی تاریخ تک ہماری دنیا کے لاکھوں لوگوں کی زندگی حرام کررکھی ہے۔ اسے اگر مشینی نگاہوں سے ماہرین نے دیکھا بھی تو بس دیکھ ہی سکے۔ کوئی اس سے یہ نہ پوچھ سکا تو کہاں سے آیا؟ کیسے آیا؟ کیسے جائے گا؟ اور کتنا نقصان پہنچائے گا؟
اس دنیا میں ہزاروں سال سے یہی سب ہوتا رہا ہے ہر دَور ہر وقت کے اعتبار سے اس کا انداز الگ تھا۔ اگر ہزار سال، تین ہزار سال، چار ہزار سال پہلے کے کسی انسان کو ہم آج لے آئیں اور اس سے پوچھیں تمہارے دَور اور تمہارے زمانے میں تم میں سے ہزاروں انسان مچھروں کے مقابل کچھ نہ کرسکے۔ ایک مچھر نے تم میں سے ہزاروں کو مار ڈالا تم کتنے جاہل تھے ان سے خود کو بچا نہ سکے۔ ہم کو دیکھو ہم نے مچھروں سے پیدا ہونے والے مرض کو ختم کردیا۔ تمہارے دَور میں تم مینڈک، چوہوں، ٹڈیوں کا مقابلہ نہ کرسکے ہم آج کتنی ترقی کے دَور میں ہیں جب ہمنے ان سب پر قابو پالیا ہے تو شاید وہ چار ہزار سال حضرت موسیٰ کے دَور کا انسان کہے گا۔ اپنے اپنے وقت کی بات ہے ہم ان کے مقابل جاہل تھے تم کو اندیکھے جرثومہ کورونا نے جاہل ثابت کردیا ہے۔ آج کی بھیانک خاموشی میںہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا فریضہ بس دو باتوں میں ادا ہونا ہے نمبر ایک ہر حکومت جو کہے اور اس کے میڈیکل ادارے جو کہیں ان کی پابندی ہو۔ نمبر دو۔ ہماری مذہبی زندگی سے جو ہمیں معلوم ہو اس پر عمل کریں تاکہ سکون قلب کی دولت ضائع نہ ہو اور اسی کے مدنظر ہم قرآن کریم کے 30 ویں سورہ الروم کی 41 ویں آیت کو دیکھیں۔ جس میں ظہر الفساد ’’فساد کیسے کہاں کہاں ظاہر ہوا۔ بتایا گیا اور پھر اسی کے سورئہ القصص (28) کی آیت 77 میں آخری فقرہ ہی پر یہ بات میں کہا گیا ’اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘ اسی سورہ کی 76 ویں آیت میں قارون کا تذکرہ ہوا کہ جس کے پاس اللہ کی عطا کی ہوئی دولت بے انتہا تھی۔ اور جب لوگوں نے اس سے کہا کہ اس دولت پر اتنی اکڑ نہ دکھا کہ اللہ اسے پسند نہیں کرتا۔ اور جو تجھے یہ سب ملا ہے اس میں سے اوروں کے ساتھ بھی احسان کر اور اسی آیت میں پھر کہا گیا ’زمین میں فساد کی خواہش نہ رکھ اللہ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (77) تو (قارون) کہنے لگا یہ تمام دولت تو مجھے میرے علم (کیمیا) کے سبب ملی ہے۔‘
یہاں یہ بات اس لئے یاد دلانا بہتر ہے کہ ہر زمانے میں اکثریت انہیں لوگوں کی رہی جو عام انسانوں کے مقابل بہت اقلیت میں تھے، رہے اور ہیں۔ کہ ان کے پاس قوت، طاقت، حکومت، سلطنت، دولت، ثروت رہی لیکن وہ اسے عام انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے خود اپنے ہی غرور، تکبر، عیش و عشرت کے اظہار میں ختم کرتے رہے۔
یہ قوت و طاقت والے صرف وہی نہیں نظر آئے جو تخت حکومت پر بیٹھنے والے تھے بلکہ ان میں دولتمند، قوم قبیلہ، علم و عقل والے بھی ہم کو ملتے رہے۔ جو اپنی اس صلاحیت پر اتنے مغرور رہے کہ دوسروں کو اپنی اس صلاحیت سے فائدہ پہنچانے کے بجائے ان کی تحقیر، تذلیل کرتے رہے اور ان کی عاجزی و بے بسی پر خود ہی نازاں نظر آئے خود ہی خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ملے۔
مذہب نے اسی لئے اور قرآن کریم نے اس کے سبب ایسے تمام انسانوں کو سمجھایا کہ انسانیت کا شرف بس اسے نہ سمجھ لینا کہ تم بڑی دولت والے ہوگئے۔ انسانی فخر بس اس میں نہ سمجھنا کہ تم بڑے علم والے ہوگئے اور انسانی عظمت بس اسی کو نہ سمجھ لینا کہ تم دوسروں پر حاکم بن گئے۔ اگر تمہاری دولت دوسرے ضرورتمندوں تک پہنچائی جاسکے تو اس دولت کی قیمت ہے ورنہ الٰہی خزانوں میں سمندروں میں پڑی قیمتی موتیوں کو اپنے اندر چھپائے لاتعداد سیپیاں ہیں۔ اس کے خزانوں میں نہ جانے کتنے پتھروں کے سینوں میں قیمتی ہیرے چھپے پڑے ہیں اور اس کے خزانوں میں بے شمار پہاڑی چٹانیں ایسی ہیں جن میں سونا، جواہرات دفن ہیں۔ دولت یہ سب ہے مگر بے قیمت اس کی قیمت اسی وقت ہے جب وہ کسی پر ظاہر ہوجائے اور اس کے قبضہ میں آجائے۔ یوں ہی کسی دولتمند کے پاس دولت بے قیمت ہوگی اگر وہ ضرورتمندوں کے بھی کام نہ آسکے۔
اسی طرح علم بھی ایک دولت۔ اسے حاصل کرلینا اور ہے اور حاصل کرکے اس میں ناواقف لوگوں کو بھی شریک کرنا اور ہے۔ یوں ہی حکومت، سلطنت، تاج تخت والے وہ فراعنہ بھی تھے جو ہزاروں پر حکومت کرتے تھے اور وہ فراعنہ بھی ہیں جو دنیا کے عجائب گھروں میں بے جان لاشیں بن کر لوگوں کی نمائش کے لئے خاموش میت بن کر لیٹے ہوئے ہیں۔ اور اب نہ ان کے سر پر کوئی تاج ہے نہ گلے میں قیمتی موتیوں کا کوئی ہار اور نہ جسم پر ہیرے جواہرات سے جگمگاتے لباس۔
کبھی ہمارے لکھنؤ میوزیم میں جو قیصر باغ میں اور اس وقت کے انڈین ٹاکسی کالوجی ریسرچ سینٹر (آئی ٹی آر سی) کی عمارت سے قریب تھا اور اب وہاں سے خود لکھنؤ زو (عجائب گھر ہی کے رقبہ میں ایک عمارت میں ہے وہاں دو ممی (ہزاروں سال پرانی میّتیں) لائی گئی تھیں یہ بات شاید 65 سال پرانی ہے۔ ہم بھی دیکھنے گئے بلکہ کچھ مدت بعد اس وقت کی حکومت کی اجازت سے اس وقت کے میڈیکل ماہرین نے ان میں سے ایک میت پر سے ان کیمیکل پٹیوں کو ہٹانا چاہا جو اس میت کے تمام جسم پر لپیٹی گئی تھیں بطور تجربہ پہلے اس میت کے دونوں پیروں کے انگوٹھوں کو کھولا گیا کہ دیکھیں کیا نتیجہ سامنے آتا ہے تو مختصر مدت میں اس کے انگوٹھوں کا گوشت خراب ہونا شروع ہوگیا۔ بعد میں کیا کیا ہوا معلوم نہ ہوسکا۔ البتہ اتنا لکھیں تو بہتر ہے۔ قبل مسیح حضرت عیسیٰ کی ولادت سے بھی تقریباً دو ہزار سال یعنی مجموعی طور پر آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے وہ کون ماہرین تھے جنہوں نے یہ کیمیکل استعمال کئے وہ کیسے ماہرین تھے جنہوں نے ہزاروں سال پہلے یہ چٹیاں (کپڑا یا جو کچھ) ایجاد کیا۔ وہ کیسے ماہرین تھے جنہوں نے یہ خوبصورت صندوق بنائے جن میں یہ لاشیں رکھی گئیں۔ وہ کون لوگ تھے جن کا عقیدہ یہ کیسا تھا کہ یہ لاشیں کبھی زندہ ہوسکیں گی۔ وہ کون لوگ تھے جن کی مرضی یا جن کے حکم پر یہ سب کام کرنے والے یہ سب کررہے تھے۔ صندوق، کیمیکل، چٹیاں، سلیقے سے تمام جسم پر انہیں لپیٹا۔ کتنی مدت میں یہ سب کام ہوا ہوگا کہ مرنے والے کا جسم خراب ہونے سے پہلے یہ سب ہوجائے۔ اور اب تقریباً چار ہزار سال بعد یہ دو میتیں اور ہم سب ان کا تماشہ دیکھنے والے۔
اب اگر ہم اپنے لئے خود اپنے عبرت حاصل کرنے کیلئے عالم تصور میں اسے دیکھیں تو شاید غلط نہ ہوگا۔ لکھنؤ میوزیم، وہ دو میتیں، چار ہزار سال سے خاموش، سکوت، عبرت کہ اچانک اس میت اس جسم کی مالک وہ روح جو چار ہزار سال پہلے اس میں تھی اس کے قریب لے آئی گئی۔ ہم کو اگر کسی طرح یہ احساس ہوجائے کہ یہ جسم بے جان ہے اور یہ اس کے قریب اسی کی روح ہے اگر کسی طرح ہم اس سے معلوم کریں۔ یہ آپ ہیں۔ جو اب ملا ہاں۔ مگر تم کون ہو؟ ہم نے کہا ہم بھی وہی ہیں جو کبھی آپ تھے فرق اتنا ہے آپ ہم سے چار ہزار سال پہلے تھے؟ اس نے ہم سے سوال کیا مگر یہ میں یہاں کیسے؟ مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟ ہم نے کہا صرف اس لئے کہ ہمارے ملک کے بچے، جوان، بوڑھے، مزدور، حاکم، جاہل، عالم سب نے سنا ہے کہ مصر کے کسی بڑے آدمی کی چار ہزار سال پرانی میت ابھی تک دوائوں میں لپٹی رہنے سے محفوظ جسم کے ساتھ ہے اور ہمارے شہر میں لائی گئی ہے تو سب اسی لئے آپ کو دیکھنے آرہے ہیں۔ اس روح نے ہم سے کچھ صدمے اور کچھ غمزدہ آواز میں کہا یہ جگہ ہماری اس جگہ سے جہاں ہم کبھی تھے کتنی دور ہے۔ ہم نے کہا کئی ہزار کلومیٹر دور اس نے کہا۔ وہاں تو میری بڑی عزت تھی۔ کوئی میرے سامنے سر اٹھاکر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ میرے چاروں طرف میرا ادب کرنے والوں میرا حکم ماننے والوں اور مجھ سے بھکاریوں کی طرح سوال کرنے والوں کا مجمع رہتا تھا یہ یہاں میرے چاروں طرف جو ہجوم ہے یہ ایسا ہے جیسے میں کوئی تماشہ ہوں اور یہ سب میرا تماشہ دیکھنے آتے ہیں؟ ان کو میرا ذرا بھی ادب نہیں۔ ان پر میرا کوئی بھی رعب نہیں کوئی دبدبہ کوئی لحاظ نہیں۔ ہم نے اس روح کو جواب دیا یہ لوگ آپ کو بالکل نہیں جانتے لیکن یہ تو آپ کے ملک سے بہت دور کے لوگ ہیں خود جہاں آپ (مصر میں) کبھی تھے وہاں بھی آپ کے خاندان کی اسی طرح میّتیں رکھی ہوئی ہیں اور ان کو بھی خود آپ کے ملک کے لوگ تماشہ دیکھنے آتے ہیں۔ بھول جایئے کہ آ پ کبھی کچھ تھے؟ اس روح نے اپنے جسم کے چاروں طرف گھومنا شروع کیا۔ ہم نے پوچھا یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ اس نے کہا ہم اپنے اس جسم میں واپس جانا چاہتے ہیں کہ اسے لے کر ہم کہیں ایسی جگہ چلے جائیں جہاں لوگ ہمارا مذاق نہ اُڑا سکیں ہم نے کہا۔ شاید آج بھی آپ یہ سمجھ نہ سکے کہ آپ کا اور ہم سب کا مالک کوئی اور ہے جس کا وعدہ ہے کہ وہ ہم سب کو پھر سے زندگی دے گا۔ اس وقت جو آپ نے اس دنیا میںکیا ہوگا اس کے لئے اور جو یہ ہم سب یہاں جمع ہجوم کررہا ہے اس کے لئے وہ جس نے آپ کو اور ہم کو سب کو خلق کیا ہمارے کاموں کو دیکھتے ہوئے یا سزا دے گا یا انعام دے گا۔ اور اگر وہ چاہے تو وہ ابھی ابھی آپ کے اس جسم کو اور آپ کو ویسا ہی کردے گا جیسے کبھی آپ اپنے ملک میں تھے اور آپ اپنے وقت میں تھے لیکن ہمیں یقین ہے کہ آپ کو اپنے وقت سے آج کے وقت کی زندگی میں اتنا فرق نظر آئے گا کہ آپ خود ہی پھر سے مرجانے کی تمنا کرنے لگیں گے۔
اس روح نے مجھ سے کہا ہمارا آخری سوال ہے کہ ہم کیوں مرجانا چاہیں گے؟ ہم نے کہا اس وقت آپ اکیلے تھے آپ جیسے بہت کم لوگ تھے۔ آج آپ کو اپنے جیسے بے شمار لوگ ملیں گے جن میں آپ کو اپنی کوئی اہمیت کوئی وقعت کوئی عزت کوئی احترام کوئی دبدبہ کوئی جاہ و جلال کوئی انفرادیت کوئی عظمت نظر نہیں آئے گی تو اس کی شرم سے آپ خود فوراً ہی مرجانا پسند کریں گے۔ اس وقت آپ کے شکار آپ کے ملک کے آپ کے قریبی لوگ ہوتے تھے۔ آج آپ جیسوں کا شکار کروڑوں لوگ اس بہت بڑی دنیا میں ہیں آپ ان کی چیخ و پکار و فریادیں سن کر ان کو بھول جائیں گے جو آپ کے ظلم کا شکار تھے۔
روح نے کہا شکریہ اور وہ غائب ہوگئی۔ سامنے اس کا بے حس جسم خاموش لیٹا ہوا چار ہزار سال کی تاریخ عبرت بنا ہوا پڑا تھا۔
عالم تصور میں یہ سب میں اس مضمون کو لکھتے ہوئے دیکھ رہا تھا دیکھتا رہا اور اچانک وہی مجسمہ وہی میت وہی اس کی قریبی روح پھر نظر آئی ہم نے کہا بہت مدت بعد آپ پھر کیوں آگئے۔ جواب ملا صرف یہ کہنے کہ آپ نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ اگر مجھ سے آپ کو لوگوں نے کچھ سبق کچھ عبرت حاصل کرلی ہوتی تو آپ کے یہ چار ہزار سال بیکار نہ گذر جاتے۔ ہم نے سوال کیا ہم سمجھے نہیں آپ کا مقصد کیا ہے؟ جواب ملا آپ سب نے ہم سے کچھ عبرت حاصل کرلی ہوتی تو یہ جو آج آپ کی تمام زمین پر ایک اندیکھے جرثومہ نے حشر بپا کررکھا ہے نہ ہوتا۔ آپ کے دَور سے چار ہزار سال پہلے تو ہم ہی اچھے تھے کہ آج تک میت ہی سہی ہمارے لوگوں نے ہمیں احترام سے محفوظ تو کردیا تھا؟ آپ کے، آپ کے لوگ تو آپ لوگوں کی میت تو میت زندوں سے بھاگ رہے ہیں غیر تو غیر اپنوں سے خوفزدہ ہیں۔ روح نے کہا۔ ہم نے دیکھا ملکوں ملکوں کی بات تو دور کی ہے خود آپ کے ملک میں شہر شہر، قریہ قریہ، محلے محلے میں آپ سب ایک دوسرے سے کہیں خوفزدہ ہیں کہیں نفرتوں کی باتیں کررہے ہیں۔ اگر آپ کے دور کی زندگی ایسی ہے تو ہمارے دور کی موت اس سے تو بہتر ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اسے کوئی جواب دیتے وہ روح پھر غائب ہوگئی ہمیں نہیں معلوم اب وہ کہاں ہے؟ جہاں بھی ہو ہم اس سے کہیں گے اے کسی مردہ فرعون کی روح یاد رکھ چار ہزار سال میں تجھ جیسے بہت سے فرعون آئے اور چلے گئے ان میں سے بہت سوں کی میتیں آج بھی عبرت کی نشانیاں بن کر دنیا کے مختلف میوزیم، عجائب گھروں میں ہیں۔ لیکن ہر دَور میں اسی اللہ کی طرف سے اسی مالک اور خالق کی طرف سے اسی انسان کو اسی مایوس انسان کو اُمیدوں کی روشنیاں دینے والے بھی آتے رہے اور آتے رہیں گے۔ یہ کورونا آج ہے کل فنا ہوجائے گا لیکن ہمارے فرزند سید ظہیر الحسن سلمہ نے بہت اچھی بات کہی۔ یہ کورونا کے آج کے اثر لینے والے آنے والے کل کے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنیں گے اس بات کی کہ اب سب ایک ہوکر مل جل کر رہنا سیکھ لیں گے۔ ان کی آپ کی دوریاں انہیں کل کی محبتیں، ساتھ رہنے کی نعمتیں عطا کریں گی۔
اور سچ بھی یہی ہے۔ ہمارا یقین ہے اگر انسان بحیثیت انسان ایک دوسرے کو دیکھے۔ سمجھے، پہچانے تو یہ دنیا بدل جائے گی۔
ہم نے اسی روئے زمین کی ایک طاقتور شخصیت کے اس جملے کو بڑے حیرت سے پڑھا کہ ’’وہ گھمنڈی لوگ ہیں‘‘ ہم نے حیرت سے اسے پڑھا ابھی تک ہم سمجھتے تھے کہ یہ گھمنڈی، یہ مغرور، یہ متکبر ہیں پتہ چلا یہ تو خود احساس کمتری میں اُن کے مقابل ہیں۔ تو کسے کس بات کا غرور، سمجھ میں ہماری یہی آیا کہ انہوں نے پہچان لیا دنیا سے بڑی روحانیت ہوتی ہے۔ دنیا ان کے پاس ہے تو روحانیت اُن کے ساتھ ہے۔ اور چونکہ یہ اُس روحانیت کو اس کورونا کے ہجوم میں بے شمار پابندیوں کے باوجود مطمئن دیکھ رہے ہیں کسی بھی مدد کی فریاد کے بغیر زندگی کی ذمہ داریوں میں مصروف دیکھ رہے ہیں تو اب انہیں احساس ہونے لگا ہے کہ گھمنڈ ہونے کا حق کس کے پاس ہے۔ حالانکہ بہت جلدی وہ اسے بھی سمجھ لیں گے کہ روحانیت والا کبھی متکبر، مغرور، گھمنڈی نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ وہ دل سے اسے مانتا ہے کہ جس کا وہ بندہ ہے اس نے کہا ہے جو قرآن کی الشعراء 26 آیت 152 میں ہے ’جو لوگ زمین پر فساد کرتے ہیں اور (خرابیوں، برائیوں کی) اصلاح نہیں کرتے۔ اور یہ قرآنی پیغام صرف ایک سال یا دو سال کی مدت کی بات نہیں بیان کرتا نہیں اس نے اس آیت نمبر 152 سے 47 آیات اوپر سے اسی سورہ میں جو بات شروع کی اسے اس آیت 152 تک آتے آتے ہزاروں سال کی ایسی تاریخ کی شکل میں پیش کردیا جو ہر دَور کے انسان کو انسان بنائے رکھنے اور ہر فسادی کے فساد سے بچا لینے کی مکمل ہدایت سمجھی جائے گی۔ اس نے اسے اس طرح شروع کیا اذقال لہم اخرہم نوح جب ان سے ان کے بھائی (سرپرست) نوح نے کہا… (الشعراء آیت 106 ) اور پھر سیکڑوں سال گذرتے رہے اس نے وہی بات لفظ بہ لفظ وہی ہدایت پھر دی ’جب ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا… (الشعراء آیت 124 ) اور پھر صدیاں گذرتی رہیں اب پھر اس نے بالکل وہی ہزاروں سال پہلے کا قانون وہی نصیحت وہی ہدایت پھر دہرائی صرف کردار بدلا صرف شخصیت بدلی اس نے کہا ’جب اس نے ان کے (صاحب) صالح نے کہا (الشعراء آیت 142 ) یہ بات پھر سیکڑوں برس پر محیط رہی اور آتے آتے ایک اور بدترین قوم تک پہنچی۔ قرآن کریم نے پھر وہی بات کہی ’جب ان سے ان کے (ہادی) بھائی لوط نے کہا (الشعراء آیت 161 ) ہر جگہ انداز ایک اس لئے کہ حق کی بات ہمیشہ ایک رہتی ہے۔ ہزاروں سال اپنے دوش پر اسی کو لئے ہوئے ہزاروں صدیاں اپنے پروں پر اسی کو سجائے ہوئے یہی بات اب سے تقریباً ایک ہزار چار سو ترانوے (1493) سال پہلے مکہ کی سرزمین تک لے آئیں اور وہاں سے پھر اسی کو انسانیت کا عظیم قانون بناکر سب کو بتادیا گیا کہ ’پہلے وہ تمام اعلیٰ ارفع اور منتخب بندے تم کو یہی سمجھاتے رہے کہ اللہ سے ڈرو، (پاک پاکیزہ کردار والے بنو) ہم تمہاری طرف اسی اللہ کی طرف سے آئے ہیں (کہ تم کو اچھی باتیں بتائیں اور سمجھائیں کہ) اللہ سے ڈرو (اور تمام اچھی باتوں کے لئے) ہماری اطاعت کرو اور ہم اپنی اس محنت کے لئے تم سے کوئی مزدوری (اجرت تم سے) نہیں مانگتے۔ اس کی اجرت تو بس اللہ پر (جس نے ہمیں یہ ذمہ داری دی اسی پر) ہے۔
لیکن مکہ میں بات ہزاروں سال بعد یہی سب کہی گئی ایک ذرا سے فرق کے ساتھ۔ اب کی آنے والے نے یہ نہیں کہا کہ میری محنتوں کا صلہ بس اللہ پر۔ بلکہ خود اللہ کے حکم پر اس مقدس وجود نے اپنی ذمہ داریاں ادا جب کرلیں تو کہا ’میں اس پر تم سے اجرت، صلہ، بدلہ مانگ رہا ہوں اور وہ ہے میرے قربت داروں سے محبت۔ (قرآن 42 واں سورہ الشوری آیت 33 کا ایک جزو)
تاریخ مذہب حضرت آدم و حضرت نوح سے آج تک ہزاروں سال سے ہمیں جو نعمت سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑا عطیہ دیتی ہے وہ یہی کہ انسان کی خدمت انسان کے لئے بے غرض۔ انسان کا ساتھ انسان کے لئے محبتوں کے زیرسایہ انسان کے انسان سے رشتے انسانیت کی راہیں سمجھانے کیلئے اور انسان کی انسان سے محبت اپنے رب اپنے خالق کی خوشی کے لئے۔
اس مضمون میں ہم نے ایک بے جان ہزاروں سال قدیم جسم کا تذکرہ کیا اور عالم تصور میں اس کی روح کی کیفیت کو موضوع گفتگو بنایا اور اسی مضمون میں ہم نے حضرت نوح سے حضور اکرؐم تک ایک پاکیزہ سلسلہ ہدایت پر باتیں کی اور اب ایک اور سلسلہ ہدایت کا تذکرہ اسی مضمون اور اسی قسط 100 میں اور اس کے عنوان لاتفسدوا فی الارض کی اس دسویں گفتگو میں کرلیں تو بہتر ہے تاکہ یہ مضمون جس دن شائع ہو وہ اپنا رشتہ اس تاریخ سے باقی رکھے جسے عالم اسلام پندرہ شعبان یا شب برأت کی لفظوں سے پہچانتا ہے۔
اور اس پر بہت گفتگو نہ کرتے ہوئے ہم صرف ایک تاریخی واقعہ دہرا دیں تاکہ کچھ پاک پاکیزہ نام ہماری اس تحریر کی زینت بن جائیں اور قسط 100 کا عدد اس مضمون قرآن کریم انسان اور انسانیت کے لئے یادگار رہے۔
ہم نے سابقہ مضمون کے آخر میں بہلول سے متعلق جو وعدہ کیا تھا وہ انشاء اللہ آگے کی قسط میں بیان ہوگا۔
یہاں اسے ہم دیکھیں کہ فساد فی الارض زمین پر فساد کرنے والے بھی ہمیشہ رہے لیکن ان کے فساد کو اور اس کے اثرات کو مٹا دینے والے بھی ہمیشہ آتے رہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ ہر دَور کا فسادی خود اپنی ہی فساد کی بھڑکائی آگ میں اس طرح جلتا رہا کہ سوائے چند کے باقی کے نام بھی آج دنیا نہیں جانتی لیکن جو اس فسادی قوت کو ختم کرنے اُٹھے ان کے نام ہزاروں سال بعد بھی تاریخ میں الگ الگ انداز سے موجود ہیں۔ اور اسے ہم اس احساس سے دیکھیں کہ نورانی شخصیتوں کی بارگاہ میں ہم بھی ایک عقیدتمند کی طرح حاضری ہیں۔
آیئے دیکھیں۔
عرب، عراق، اس کا مشہور شہر کوفہ ہے وہاں کا ایک شخص جس کا نام علی بن عاصم ہے ایک واقعہ بیان کرتا ہے۔ اور یہ واقعہ یقینی طور پر ایک ہزار دو سو پچاس سال پہلے کا ہے۔ وہ اسلامی تاریخ طہارت کے انتہائی باعظمت کردار حضرت امام حسن عسکری کے پاس آتا ہے۔ جن کو ہم شیعہ اپنا 11 واں امام مانتے ہیں۔ واقعہ ہم محض اعتقاد و عقیدت والا سمجھ کر نہ پڑھیں بلکہ یہ سمجھ کر پڑھیں کہ اس واقعہ کے اندر چھپی ہوئی نورانیت، ہدایت اور روحانیت کیا ہے؟
بے جان عبرت کے قابل جسموں کو تمام دنیا میں نمائش ہمیں کیا دے سکتی ہے؟ اگر وہ گلنے سڑنے لگ جائیں تو سوائے اندیکھے جراثیم کے وہاں سے اور کیا مل سکتا ہے لیکن جو واقعہ اور اس میں جن وجودوں کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے۔ ان کے ظاہری پیکر ہمارے سامنے نہ بھی ہوں لیکن ان کے نورانیت والے زمانوں سے ہماری ذہنی قربت ہمارے انسانی احساس کا سرمایہ بن جاتی ہے۔
علی بن عاصم اور عظیم المرتبت عالم ربانی السید محمد مہدی الموسویؒ سے ہم اس واقعہ تک پہنچ سکے علی ابن عاصم کوفی نے کہا وہ حضرت امام ابی محمد الحسن العسکری کی خدمت میں آئے انہوں نے فرمایا اے علی ابن عاصم اپنے پیروں کی طرف دیکھو تم ایک ایسے فرش (بساط، قالین) پر ہو جس پر بہت سے پیغمبر رسول اور ائمہ بیٹھے ہیں۔ ابن عاصم نے کہا میں آج جب تک زندہ ہوں آپ کی اطاعت کرنے والا ہوں اس فرش کے احترام میں بھی۔ حضرت نے فرمایا یہ جوتے جو تمہارے پیروں میں ہیں نجس ہیں اس کے ساتھ ہمارے گھر میں مت آئو علی نے اپنے دل میں خیال کیا اے کاش میں بھی اس بساط (فرش) کو دیکھ سکتا۔ حضرت میرے اندر جو میری مراد تھی اسے جانتے ہوئے فرمایا میرے قریب آئو میں حضرت کے قریب گیا آپ نے اپنے مبارک ہاتھ کو میرے چہرے پر پھیرا جس سے میں بہت کچھ دیکھنے لگا۔ علی کہتے ہیں میں نے اس بساط پر بہت سے قدموں (کے نشانات) اور تصویروں کو دیکھا حضرت نے فرمایا۔ یہ حضرت آدم کے قدم اور ان کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور یہ نشان ہابیل کا، یہ شیث کا یہ نشان نوح کا یہ نشان قیدار کا یہ مہیائل کا یہ یارد کا یہ اخنوخ کا یہ ادریس کا یہ متوشلح کا یہ سام کا یہ نشان ارفخشذ کا یہ ہود کا نان یہ صالح کا یہ لقمان کا نشان ہے یہ نشان ابراہیم یہ لوط کا یہ اسماعیل کا یہ الیاس کا یہ نشان اسحاق کا یہ یعقوب کا یہ یوسف کا یہ دائود کا یہ سلیمان کا، یہ خضر کا یہ دانیال کا یہ یسع کا یہ نشان ذوالقرنین کا یہ نشان شاپور ابن اردشیر کا ہے یہ نشان لوی کا یہ کلاب کا یہ قصی کا یہ عدنان کا یہ نشان عبدالمطلب کا یہ عبداللہ کا یہ عبدمناف کا یہ ہمارے سید رسول اللہؐ کا یہ نشان امیرالمومنین کا ہے یہ ان کے بعد ان کے اوصیاء کے مہدی تک کے ہیں اور چونکہ یہ سب اس فرش مسند پر بیٹھے ہیں ان کے قدم اس پر آئے ہیں تو سمجھو کہ یہ سب دین کے نشان ہیں جو اس میں (کہ یہ دین کی نشانیاں ہیں) شک کرے وہ اللہ کے بارے میں شک کرے گا اور گویا وہ اللہ کا انکار کرنے والا ہے۔ پھر حضرت نے فرمایا (اے علی) اپنی آنکھوں کو بند کرو اور میں اپنی سابقہ کیفیت میں (واپس) آگیا جیساکہ پہلے تھا۔
ہم نے اس واقعہ کو اس لئے ہی نہیں لکھا کہ ہم بس اعتقادات کی اس دنیا کو بیان کرلیں۔ اور اپنے دینی جذبات کے لئے کچھ سکون حاصل کرلیں۔ بلکہ اس لئے بھی نقل کیا کہ ضروری نہیں ہم کسی پھولوں سے بھرے چمن سے گذریں اور پھول توڑ توڑکر اپنے پاس رکھیں اور فخر کریں کہ خوشبوئوں کا ذخیرہ ہمارے پاس ہے۔ جی نہیں وہ چند لمحے بھی بہت قیمتی ہوں گے جب ہم نے گذرتے ہوئے ان پھولوں کو دیکھا اور ان کی خوشبو کا احساس کیا یوں ہی مضمون تو پڑھ لیا جائے گا لیکن یہ عظیم اسماء چمنستان روحانیت کے کچھ نام ہماری نظروں سے گذر جائیں اور ان کی نورانیت ہمارے باطن کو کچھ دے دے اور ہم کسی اندیکھی نعمت سے فیضیاب ہولیں یہی تحفہ اس مضمون کی اس قسط 100 کا ان کے لئے بہت ہے جو 14 – 15 شعبان کی مسرت اپنے اپنے گھروں میں منا رہے ہیں۔ اگر کورونا کا منحوس جرثومہ اپنا اثر دکھا رہا ہے تو یہ پاک پاکیزہ نام ان کی برکتیں بھی اپنا فیض جاری رکھیں گی اور لوگ انشاء اللہ محفوظ رہیں گے۔ اس واقعہ میں ہمیں تاریخ کے اعتبار سے ناموں کی ترتیب نہیں دیکھنا ہے بلکہ یہ کہ وہ کون اور کیسے نقوش قدم ہیں یا نشانات ہیں جن سے وابستگی ہماری تقدیر یا ہمارے کردار کو روشنی عطا کرسکتی ہے۔
بہتر ہے کہ ہم دوائوں پر اور اس مرض سے بچنے بچانے کیلئے جو آپ کے طبی ہدایات ہوں ان پر یقین بھی رکھیں ان پر عمل بھی کریں ان سے فائدہ بھی اٹھائیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے اپنے مذہبی ہدایات کے مطابق دعا پر بھی یقین رکھیں اور اسے یاد بھی کریں۔ اس لئے کہ ہمارے ملک کے 130 کروڑ لوگوں میں اکثریت انہیں کی ہے جو ہزاروں سال سے اپنے اپنے مذہب میں یقین رکھتے ہیں۔ اور روایتی علاج و معالجہ سے زیادہ تر وابستہ ہیں۔ اور آج وہ دیکھ بھی رہے ہیں کہ تمام دنیا کے علم کی ترقی ایک وائرس کے سامنے بے بس ہے۔ تو وہ کیا کریں؟ کسی بھی مذہب نے نجاست، کثافت، گندگی کی تعلیم نہیں دی ہے۔ ہم خود گندگی کو پسند کرنے لگیں یہ اور ہے۔ مذہب نے ہمیں ہمیشہ طہارت، نفاست، زغافت اور پاکیزگی کی تعلیم دی ہے اور اس کے لئے بہت سے طور طریق بھی سمجھائے۔ اور یہ کورونا وہیںآگے بڑھنے سے رُکتا ہے جہاں اسے طہارت، پاکیزگی سامنے زیادہ سے زیادہ ملے۔ صرف صاف رہنا اور ہے اور صاف رہنے کے ساتھ ساتھ پاک پاکیزہ رہنا اور ہے۔ کسی کو برا نہ لگے صرف یاد دلادیں جب اٹلی میں اس مرض کی ابتدا ہوئی تو ٹی وی پر یہ مناظر تھے کہ لوگ مال (بازار) میں واش روم میں (باتھ روم میں) استعمال کئے جانے والے کاغذ (ٹیشو پیپر) کے لئے آپس میں لڑرہے تھے۔ ہم سب نے یہ مناظر ٹی وی پر دیکھے مگر کیا ہم نے توجہ دی تھی؟
یورپ میں اکثر جگہ باتھ روم میں صفائی کے لئے یہی پیپر (کاغذ) ہوتا ہے پانی سے صفائی چوبیس گھنٹے میں کسی وقت ہوجائے تو بہت ہے۔ ان کی طہارت کے لئے بس یہی کاغذ کافی تھا۔ اور شاید یہ صفائی جو پانی سے طہارت کے مقابل کسی بھی طرح طہارت نہ تھی۔ کسی موذی مرض کو آگے بڑھنے کے مواقع دے رہی تھی اور اس وقت بھی یہی ہورہا ہے۔ اور جہاں جہاں پانی سے طہارت میں کمی ہوئی ہوگی خواہ وہ کوئی اسلامی ملک ہی کیوں نہ ہو کورونا کو اپنے آگے بڑھنے میں آسانی رہی ہوگی۔ اور آج تمام دنیا کے ڈاکٹروں کی پہلی ہدایت یہی ہے کہ صابن سے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں۔
یہ ہم نے اس لئے لکھا کہ صفائی اور نظافت اور ہے اور طہارت اور پاکیزگی اور ہے۔ اور مذہب جب دونوں کی تعلیم دیتا ہے کہ صفائی بھی رہے طہارت بھی رہے تو وہ ایک تیسری تعلیم بھی دیتا ہے ان دونوں کے ساتھ ساتھ ایک تیسری طہارت بھی ہے اور وہ ہے اندرونی طہارت۔ انسان کا اندر سے پاک صاف رہنا اور یہ اندرونی طہارت اسی کو ملتی ہے جو ظلم سے دور رہے جو لوگوں کے حق چھیننے کو برا سمجھے جو فساد سے نفرت کرے مجبور و مظلوم کی مدد کرے اور 15 شعبان کا پیغام بھی یہی ہے۔ یہ دن ان کی آمد سے بھی وابستہ ہے جو ہماری دنیا کو ہر ظلم اور فساد اور ہر ظالم اور فسادی سے نجات دلائیں گے۔
آیئے اس دہشت ناک وقت ہم ہر اس بات پر عمل کریں جو ہمارے ملک کے طبی ادارے ہم سے کہین اور اس 15-14 شعبان میں دعا کریں کہ ظلم و فساد کے مقابل ہم ایسے رہیں کہ نہ ہم ظالم کہلائیں نہ فسادی ہم انسانیت سے وابستہ اچھے انسان سمجھے جائیں۔ اور ہم تمام انسان جو اس وقت دنیا میں کہیں بھی ہیں اس موذی مرض کورونا سے نجات پائیں۔