قرآن کریم:’’انسان اور انسانیت‘‘

0
1861

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

ہماری تبلیغ مذہب

آیت اللہ سیدحمید الحسن

قرآن کریم سے چند آیات کا ترجمہ ہم پہلے دیکھیں پھر اس سماجی زندگی سے بات کریں جس میں ہم رہتے ہیں نمبر ۱: ’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور مجسمے اور پانسے شیطانی ناپاک کام ہیں۔ تو تم ان سے بچو شاید کہ تم کامیابی پائو۔‘‘ (قرآنی ۵ واں سورہ المائدہ آیت 90 ) نمبر۲: ’’اے رسول تم سے لوگ شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو تم ان سے کہہ دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور (کچھ) فائدے بھی ہیں اور ان کے فائدے سے ان کا گناہ بڑھ کر ہے اور تم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کیا خرچ کریں تم (ان سے) کہہ دو کہ جو تمہاری ضرورت سے بچے اس طرح خدا اپنے احکام تم سے صاف صاف بیان کرتاہے تاکہ تم غور کرسکو۔‘‘ (البقرہ آیت 219 )
مذہبی احکام اور سماجی روایات اور حکومتی قوانین کے فرق کو ہم یہیں دیکھیں۔ مذہب ہمیشہ شراب، جوا اور غیراللہ کی پرستش سے روکتا ہے۔ سماج غیراللہ اور اللہ کی عبادت پر خاموش رہتا ہے لیکن شراب اور جوئے کو پسند کرتا ہے۔ حکومتیں عبادات میں امن و سکون کے اعتبار سے دخل دیتی ہیں۔ جوئے کو غلط کہتی ہیں مگر شراب کی کھل کر اجازت دیتی ہیں جبکہ سماج بھی جانتا ہے اور حکومتیں بھی کہ جوا گھریلو زندگی برباد کرتا ہے شراب عوامی سے گھریلو زندگی تک سب سے زیادہ ذمہ دار ہے حادثات کے لئے تباہیوں کی اکثر ذمہ دار یہی ہے لیکن ہر حکومت کے خزانے کو سب سے زیادہ آمدنی اسی سے ہوتی ہے تو اسے کیسے بند کردیں۔ فرق ہم نے دیکھا۔ ایک (مذہب) وہی بتائے گا جو سب کے لئے مفید ہو۔ باقی وہی کریں گے جنہیں ان کے مفادات باقی رہیں۔ اس لئے کہ مذہب اس دنیا اور اُس دنیا میں یقین دلاتا ہے۔ باقی کے نزدیک اس دنیا کے سوا کیا ہے؟ مذہب انسان کو اہم بتاتا ہے۔ سماج اور حکومتیں انسانی مفادات کو مذہب انسان اور انسانیت کو مقدم کرتا ہے۔ سماج اور حکومتی نظام وقت راحت اور فوری عیش و آرام کو۔
(مذہب؟)
صفحۂ کون و مکاں بے رنگ اور بے نقش تھا
رنگ اس میں ہے بھرا اِک خاک کی تصویر نے
خاک کی تصویر بے نام و نشاں رہتی مگر
نورِ حق اس کی جبیں پر لکھ دیا تقدیر نے
آندھیوں میں جل رہا ہے وہ چراغ بندگی
روشنی بخشی جسے اک خون کی تنویر نے
(حمید)
(سماج؟)
کعبہ کی طرف دور سے سجدہ کرلوں
یا دہر کا آخری نظارہ کرلوں
کچھ دیر کی مہمان ہے جاتی دنیا
اک اور گنہ کرلوں کہ توبہ کرلوں
(یگانہ 62ء)
(حکومت؟)
واعظ نے کہا کہ وقت بس جاتے ہیں ٹل
اک وقت سے اپنی نہیں ٹلتی تو اجل
کی عرض یہ اک سیٹھ نے اٹھ کر کہ حضور
ہے ٹیکس کا وقت بھی اسی طرح اٹل
ہماری اس انسانی برادری کی ایک زندگی گھریلو ہوتی ہے۔ ماں، باپ، بچے، اقرباء، دوست، پڑوسی۔ اور ایک زندگی تنہائی کی ہوتی ہے اور یہ تنہائی کبھی مجبوری میں کبھی خود تنہائی پسندی میں ہوتی ہے۔ ہر حال میں شراب اس زندگی کیلئے نفع بخش نہیں ہوتی۔ ہاں کبھی کبھی طبی طور پر معالج، طبیب، ڈاکٹر اسے تجویز دے تو بات الگ ہے۔
ہم نے قدیم سے قدیم تر تاریخ انسانی میں اس شراب کو اس انسان کے ساتھ ساتھ پایا لیکن اسی کو ہمیشہ انسانی تہذیب کو درہم برہم کرتے بھی دیکھا۔ غصہ ہمیشہ برا سمجھا جاتا ہے خواہ ایک لمحہ کیلئے ہو یا کئی دن کیلئے۔ یوں ہی نشہ، شراب۔ اس کے لئے یہ بات اس کا جواز نہیں بنے گی کہ کم میں کیا حرج ہے؟ یہ کم مقدار سے انسان کو کبھی مطمئن نہیں کرسکتی اسے اور آگے لے جانے والی عادت ہے۔ اسلامی زندگی میں ہم نے اسے اس وقت بھی پایا جب لوگ حضوؐر کے اعلان نبوت کے 14 سال دیکھ چکے تھے۔ لیکن کسی مورخ نے، حضوؐر کے بد سے بدتر دشمن نے بھی کبھی بھی ان کے یا اُن کے خانوادے کیلئے اس کا استعمال نہیں لکھا۔ ہم اس روایت کو دیکھیں۔
عبدالعزیز بن صہیب نے روایت کی کہ ’’ہمارے پاس کھجور کی شراب کے سوا اور کوئی شراب نہ تھی جس کو فضیخ کہا جاتا تھا۔ میں کھڑا ہوکر ابوطلحہ اور فلاں فلاں کو شراب پلا رہا تھا کہ اسی دوران ایک شخص آیا اور کہا کیا آپ کو خبر ملی؟ سب نے کہا وہ کیا؟ کہنے لگا شراب حرام کردی گئی ہے سب نے کہا اے انس یہ (شراب کا) مٹکا بہادو۔ راوی نے کہا : ’’فماسألوا عنہا ولا راجعوہا بعد خبر الرّجل‘‘۔ (صحیح بخاری باب 669 حدیث 1730 ) کسی نے کچھ سوال کیا اور نہ کبھی پھر شراب پی۔‘‘ یہاں چند باتیں قابل غور و فکر ہیں۔
آپ دیکھیں۔ ایک مجمع کو ایک شخص آکر ایک مذہبی خبر (حکم) سناتا ہے۔ وہ سماج جہاں جھوٹ کی کثرت تھی۔ اتنا باہمی اعتماد کا سماج بن گیا کہ اس شخص واحد کی خبر پر یقین کرلیا گیا۔ وہ سماج اور وہ حکومتیں جو تمام تر کوششوں کے بعد شرابی سے شراب کی عادت نہیں چھڑواتے۔ مذہبی مذہب میں یقین کرلینے کے بعد کتنے بدل جاتے ہیں کہ نہ چھوٹنے والی عادت ایسی چھوٹی کہ پھر کبھی اس کی طرف واپسی نہیں ہوئی۔ ہم نے اس لئے لکھا کہ سماج اور حکومتیں جہاں ناکام ہوتی نظر آتی ہیں وہاں مذہب کی حکومت کردار سازی میں اپنے معجزات دکھلاتی ہے۔ یہ سب اس لئے لکھا گیا کہ جب مذہبی فرمانروا کی اطاعت کرنے والے ایسے تھے تو خود اس شریعت کے پیش کرنے والے حضوؐر کی زندگی کیا ہوگی؟ جبکہ ہم نے ان کے تمام خانوادہ کیلئے کبھی شراب، جوا، پانسے وغیرہ کے بارے میں کبھی کوئی روایت نہیں دیکھی۔ اگر کوئی کہیں ملے تو وہ جعلی ہی ہے۔
مذہب۔ اس علم کو پسند نہیں کرتا جو انسانی برادری انسانی سماج کی پاکیزہ شکل کو بدل دے۔ اس نے ہمیشہ اسی علم کی ترویج کی جو انسان کو اچھا انسان بنا سکے۔ اور اس میں اس نے کوئی تعصب پیش نہیں کیا۔ حضوؐر نے اس وقت فرمایا: ’’اطلبوالعلم و لوکان بالعین‘‘ ’’علم حاصل کرو خواہ چین تک جانا پڑے‘‘۔ جب چین تک کسی اکا دُکا تاجر مسافر کا سفر بھی شاید ہی ہوتا ہو۔ تو وہاں اسلام کہاں؟ مگر مراد علم کی اہمیت یہ سمجھ لیں اسی علم کی جو انسانی شرف بن سکے۔ اور اس کیلئے ان تمام علوم کو حضوؐر کے سامنے سامنے ہی حقارت ملنے لگی جو انسان کو اس کی عقل و فکر کی نعمت سے محروم کریں۔
گھر سے نکلے۔ سامنے دیکھا کوئی پرندہ گذر جائے۔ گذرا، پر جوڑکر اُڑ رہا ہے کہ پروں کو حرکت دیتے ہوئے۔ اور فیصلہ اسی پر کرلیا گیا آگے جائیں کہ واپس ہولیں۔ یہاں خود اپنی عقل کا فیصلہ ایک پرندے کے پروں سے باندھ دیا گیا۔ حضوؐر نے ان کی شریعت نے اسے منع کیا کہ خود عقل انسانی راحت یا تھکن کے صندوقوں میں بند نہ ہوجائے۔ شگون پرستی کا کوئی تعلق مذہب سے نہیں ہے مگر اس کی عادت ہم نے تمام دنیا کے ہر رنگ ہر نسل ہر مذہب ہر سماج کے لوگوں میں دیکھی۔ عراق میں نجف اشرف کی تعلیمی زندگی میں خالص اسلامی ماحول میں بھی اور آسٹریلیا سے لے کر کناڈا کے آخری خطہ زمین وینکور تک۔
ہمارے دیش میں تو یہ بہت محبوب و مقبول ہے سڑکوں پر پارکوں میں۔ دیہاتوں میں اس کے مناظر کہاں نہیں ہیں۔ ہم نے جن دیہاتوں میں بعض بچوں کے جسم پر معقول لباس نہیں دیکھے وہاں کے بڑے درختوں کے چاروں طرف بہت رنگین لباسوں کو لپٹے ہوئے دیکھا تاکہ لوگ ان پر چڑھاوے چڑھائیں۔ ہم کتنے عجیب ہیں کہ اپنی بلائیں ردّ کرنے کیلئے سڑکوں کے چوراہوں پر کچھ چیزیں رکھ دیتے ہیں کہ ہم بچ جائیں دوسرے نشانہ بن جائیں بلا ہماری جان چھوڑے خواہ دوسروں سے لپٹ جائے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کوئی ہمارا ہی اس پر سے گذر جائے؟
ہم نے اپنے ہی شہر میں ایک جگہ میت کی نماز پڑھی۔ میت قبر میں اتاری جانے لگی قبر بند کرنے سے پہلے ایک چادر اوپر سے چاروں کونوں پر لئے کچھ لوگ بیٹھے نظر آئے جو پہلی بار دیکھا۔ ایک اور صاحب کپڑے کے ایک تھیلے میں کچھ لے کر آئے تھے آئے اور اندر ہاتھ ڈال کر کچھ نکالا ایک طرف سے چادر کچھ ہٹاکر ہاتھ قبر میں ڈالا واپس پھر یہی کیا اب جو غور کیا تو معلوم ہوا تھیلے سے چڑیا نکال کر قبر میں بھیجی جارہی ہیں جو فوراً باہر اُڑجاتی ہیں۔ حیرت سے پوچھا یہ سب کیا ہے جواب ملا۔ آج چہار شنبہ، بدھ ہے، ملک الموت کیلئے یہ سب کیا جارہا ہے کہ وہ چار بدھ تک نہ آسکیں اور موت کا شکار ان چڑیوں کو بنالیں۔‘‘
یہ ہے سماجی اثر جو کہاں سے چلا ہو۔ کہاں تک جائے گا۔ اور کس کس کو بدھ کا دن بدھو بناتا رہے گا۔
کیا یہ علم ہے؟ اگر ہے تو کوئی بتائے یہ کون سا علم ہے جہاں ہمارے باطن کو ایک تعلیم مل رہی ہے خود کو بچالو خواہ دوسرے ختم ہوجائیں۔
مذہب صرف خود کو بچانے کی بات نہیں کرتا وہ دوسروں کے بچا لینے کو زیادہ قابل مدح قرار دیتا ہے۔
’’ومن احیاہا فکانما احیا الناس جمیعا‘‘ ’جس نے ایک آدمی کو زندہ کردیا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کرلیا‘‘ (المائدہ 32)
کچھ جاننے کو ملے۔ آیئے ایک واقعہ نقل کریں۔ مذہبی زندگی میں معیار علم بھی کس طرح ہے؟ مذہبی روحانی علوم میں سے ایک مشہور ہے ’’اسم اعظم‘‘ کے نام سے۔ قرآن کریم میں سورئہ النحل میں جہاں حضرت سلیمان کا ملک سبا سے تخت بلقیس منگوانے کا حکم ہے اور ان کے وزیر اور بھائی کا تذکرہ ہے ’’وقال الذی عندہ علم من الکتب‘‘ کہ جن کے پاس کتاب (قرآن) کا کچھ علم تھا انہوں نے کہا میں اسے لاتا ہوں اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے اور وہ آگیا (تخت بلقیس) تو تفسیر قرآن سے ملا کہ ان کے پاس اسم اعظم کی 73 قسموں میں سے ایک کا علم تھا۔ تو یہ واقعہ بہت سبق آموز ہے۔ ایک عالم کیلئے مشہور تھا کہ وہ اس علم کو جانتے ہیں ایک شخص ان کی خدمت میں آنے جانے لگا کہ وہ اسے بھی یہ علم بتادیں۔ ایک دن جب بہت اصرار کیا تو ان عالم نے کہا تعلیم کردوں گا مگر کل شہر کے دروازے پر صبح جائو جو واقعہ دیکھو مجھ سے آکر بیان کرو۔ اسے منظور کیا دوسرے دن شہر سے باہر جاکر دروازہ شہر پر بیٹھ گیا دیکھا ایک بوڑھا انسان ایک گٹھر لکڑی لئے آرہا ہے کہ اتنے میں ایک فوجی وہاں آگیا اس نے اس بوڑھے سے وہ گٹھر لکڑی کا مانگ لیا بوڑھے بزرگ نے منع کیا بات بڑھی اس فوجی نے جبر و قوت سے ظلم کرکے اس بزرگ سے وہ لکڑیاں لے لیں بزرگ کے سر پر لکڑی ماری جس سے ان کے سر سے خون بہنے لگا اور لکڑیوں کا گٹھر لے کر چلا گیا۔ ان کو بیحد صدمہ ہوا خود سے کہنے لگے اگر انہوں نے مجھے اسم اعظم بتا دیا ہوتا تو میں ان کو بچا لیتا اور اس فوجی کو مار ڈالتا اس کا نام و نشان مٹا دیتا۔ آئے واپس اور ان عالم سے سب بیان کرتے ہوئے کہا اگر آپ نے اسم اعظم بتا دیا ہوتا تو اس فوجی کو میں ختم کردیتا۔ سب سن کر ان عالم نے جواب دیا مجھے اس اسم اعظم کی تعلیم انہیں بزرگ نے دی ہے وہ اس علم کو جانتے تھے مگر انہوں نے اس کے باوجود اس فوجی سے چشم پوشی سے کام لیا۔
تو ہم دیکھیں کہ کسی بھی طاقت (علمی، جسمانی، مادی) ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جب چاہیں جہاں چاہیں اسے استعمال کرنے لگیں۔ یہ فرق آپ کو سماجی زندگی نہیں سکھائیں گے اسی سماجی زندگی میں موجود مذہبی روحانی تعلیمات سکھائیں گے سمجھائیں گے۔
ہم آج جس وقت یہ مضمون لکھ رہے ہیں ہمارے سامنے ’’اودھ نامہ‘‘ کا آج 02 نومبر جمعہ کا شمارہ ہے ہمارے لئے ہر روز کہیں نہ کہیں زمانہ عزا کی مصروفیتیں ہیں۔ سفر ہیں۔ مجلسیں ہیں مگر ادارئہ اودھ نامہ کا احترام ہے کہ ہر جمعہ کیلئے لکھیں تو یہ مضمون آج ہی لکھا جارہا ہے کہ آگے جمعہ رہ نہ جائے۔ اودھ نامہ میں صرف وقار رضوی ہی نہیں تمام اخبار اپنے خدمات میں اتنا باوقار اور اس کے تمام سرپرست و وابستگان مستقبل کیلئے علمی، سماجی، صحافتی زندگی کی ایک تاریخ مرتب کررہے ہیں۔ ہم نے آج کے ہی شمارہ میں قابل احترام ڈاکٹر اسد عباس صاحب کی مجلس بیان کے اقتباسات دیکھے جن پر علیحدہ لکھا جانا ہی مناسب ہوگا مگر اتنا لکھ دیں ’’علم بغیر معرفت کے نافع نہیں ہے‘‘ ایک ایسا ہی شخص کہہ سکتا ہے جو سماجی اور روحانی زندگی کے امتیازات پر گہری نظر رکھتا ہو۔
آیئے اسی شمارہ میں محترم ڈاکٹر عمار رضوی صاحب کے اس بیان کی اہمیت کو سمجھیں جس میں انہوں نے پڑوسی ملک کی عدالت کے ایک فیصلے کو سراہا ہے۔ کیوں؟ اس کی ضرورت ان جیسے دانشور کو کیوں پیش آئی اپنے ہی ملک کے مسائل کیا کم ہیں کہ پڑوسی الجھنوں میں ذہن کو الجھا لیا جائے۔ مگر ہے۔ ضرورت ہے۔ اسے ہم اسی شمارہ کے صفحہ نمبر 02 پر سب سے اوپر کی خبر ’’آسیہ بی بی کو کیوں بری کیا گیا‘‘ میں جاکر دیکھیں اور اس میں سے یہ جملے پڑھیں‘‘ عدالت نے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مذہب اور پیغمبر اسلام کی توہین کی سزا موت یا عمر قید ہے یہ بات ثابت کرنے کے بعد عدالت نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اس جرم کا غلط اور جھوٹا الزام بھی اکثر لگایا جاتا ہے‘‘ آگے چل کر اسی خبر میں عدالت کے بیان میں لکھا گیا ’’پچھلے اٹھائیس برس میں ایسے 62 افراد کو مقدمات کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی قتل کردیا گیا جن پر توہین مذہب یا پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام لگایا گیا تھا‘‘ آگے عدالتی بیان میں ہے ’’کسی کو حضرت محمدؐ کی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی مجرم کو سزا کے بغیر چھوڑا جاسکتا ہے لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے بعض اوقات کچھ مذموم مقاصد کے حصول کیلئے قانون کو انفرادی طور پر غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگادیا جاتا ہے۔‘‘
پوری خبر پڑھے جانے کے لائق ہے۔ اتفاق سے اسی شمارہ میں صفحہ 08 پر ہمارے مضمون ’’قرآن کریم‘‘ قیدی کی 28 ویں قسط میں یہی سب کچھ دوسرے انداز میں ہے۔
ہم نے یہ اقتباسات اس لئے لکھے کہ ہم اپنے مذہبی، دنیاوی، سماجی اور قانونی عدالتوں کے دائرئہ کار سے ذرا ہٹ کر خود اپنے نفس کی عدالت سجا لیں اور اس میں خود ہی جج اور ملزم بن کر خود ہی وکیل استغاثہ اور وکیل عدالت بن کر کچھ وقت صرف کرکے دیکھیں کہ ہمارا اپنا نفس اپنا ضمیر اپنا شعور ہم سے کیا کہہ رہا ہے۔ اگر ہم صحیح فیصلہ نہ کرسکے تو پھر ہم کو کہیں بھی اعتراض کا حق نہیں رہ جائے گا۔ پھر ہر بھیڑ کا اقدام ایک جیسا نظر آئے گا صرف کیفیت، جگہ اور کردار بدلے ہوئے ہوں گے۔
قرآنی عدالت نے کبھی بھی ہجوم، بھیڑ، مجمع کی جذباتیت کو نہ جائز کیا ہے نہ اسے آزادی دی ہے۔
قرآنی عدالت میں بہت سے مواقع پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ملزم کون ہے؟ کوئی واقف کار یا ناواقف؟ دائرئہ اسلامی میں زندگی گذارنے والا یا کوئی غیرمسلم؟ آپ کے قبضہ و اختیار میں زندگی گذارنے والا یا آزاد؟ وہ عالم ہے یا جاہل؟ اس کا اقدام جاہلانہ ہے یا سمجھ بوجھ کر؟ اس کا عملی اقدام ردّ عمل ہے یا فتنہ و فساد کیلئے؟ وہ اپنے الزام پر مصر ہے یا نادم؟ وہ لاپرواہ ہے یا معافی کا خواستگار؟ اور بھی وجہیں دیکھی جائیں گی۔
ہم پڑوسی ملک کی عدالت کیلئے یہ سوال نہیں کریں گے کہ معاملہ جب خالص مذہبی ہو تو فیصلہ کرنے والے کتنی صلاحیتوں والے ہیں لیکن منطقی طور پر اور عقلاتی تجزیہ یہی کہتا ہے کہ فیصلہ صحیح دیا گیا اور بھیڑ اور ہجوم کا طرز عمل یہی خطرہ اور خدشہ ہمیں دکھاتا ہے کہ اگر ان اسلامی محافظوں کو تمام روئے زمین پر حکومت دے دی جائے تو شاید بس یہی اپنا زندہ رہنا پسند کریں گے باقی تمام زمین انسانوں سے خالی ہوجائے گی انسانیت تو پہلے ہی تعصب کے کفن میں لپیٹ کر ملائیت کے لہجہ میں نماز جنازہ پڑھ کر کٹرپنتھی کی قبر میں دفن کی جاچکی ہوگی۔
ایک ہے مذہب میں عالمانہ زندگی اور ایک ہے جہالت اور تعصب کی زندگی۔ فیصلے قرآنی عدالت سے جب بھی ہوں گے تعصب نہ ہوگا۔ مذہب اور سماج کا ہمیشہ ساتھ رہا ہے لیکن جب بھی جہاں بھی ذاتی مفادات کے سہارے لئے گئے انسانی زندگی درہم برہم نظر آئی۔
ہمارے دیش میں مذہب کا نام بہت ہے اور اسی لئے یہاں بھیڑ ہجوم اور مجمع ہر جگہ آزاد نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ کسی نہ کسی مذہب سے جڑا ہوا ہے اور اس کا مذہب اسے ناانصافی سے روکتا ہے۔ ہمارے ملک ہمارے دیش کی سب سے اونچی عدالت کے طریقہ کار سے پڑوس کی عدالت پر اثر پڑنا لازمی ہے۔ اس لئے کہ جس طرح سورج۔ چاند۔ آسمان۔ ہوائیں۔ دریائوں کی روانی سرحدوں کی تفریق سے ماورا ہیں اور ان کی ملکی پابندیوں سے آزاد اسی طرح انسان۔ انسانی فکر۔ انسانیت اور انسانیت کے تقاضے انسانی سماج کو شرافتوں۔ بزرگیوں کی بلندیوں پر لے جانا چاہیں گے۔ درندگی۔ بہیمیت و بربریت کی طرف نہیں۔
دنیائے شرافت و فضیلت کا بعد رب العالمین انتہائی بزرگ و برتر نام ہے حضرت محمد مصطفیٰؐ اور ان کا محترم خانوادہ اہل بیت اور ان سب کی زندگی میں۔ ہر مذہب والے ہر نظریے والے آتے رہے۔ گستاخیاں انہوں نے بھی کیں جو اسلام قبول کرچکے تھے لیکن عبائے رسول کے کناروں کو گستاخی سے گھسیٹنے والے صحرائی عرب سے جب حضوؐر نے سوال فرمایا کہ اگر میں بھی تیرے ساتھ ایسا ہی سلوک کروں تو تو کیا کرے گا۔ صحرائی۔ دہقانی ہوکر بھی وہ کیا جانتا تھا؟ اس نے کہا ’’آپ ایسا نہیں کرسکتے‘‘ پوچھا کیوں نہیں؟ کہنے لگا میں جانتا ہوں آپ کو آپ کا اخلاق اس کی اجازت نہیں دے گا۔
جنگ خندق، بدترین دشمن عمرو ابن عبدود کے قتل کرنے سے پہلے امیرالمومنین علی رُک گئے۔ دیر تک ٹہلتے رہے۔ بعد میں معلوم ہوا یہ وقفہ اس لئے تھا کہ اپنا انتقام نہ کہلاتے۔مذہب اگر سماج میں بسنے والوں کی اُمید بن جائے تو یہ مذہب اور مذہبی لوگوں کی کامیابی ہے اور اگر اُن کی مایوسی بننے لگے تو پھر یہ دنیاداری ہوگی۔ روحانیت نہیں۔
ہیں وحشتوں کے بگولے ہر اک طرف رقصاں
بچی کھچی ہے تہذیب کیا؟ چلی جائے
ہر اک زباں پہ ہے ’’تو کیا ہے‘‘ تجھ کو دیکھیں گے
شرافتوں سے کوئی بات کس سے کی جائے
رفوگران ادب سے ادب سے کہنا ہے
جو چاک چاک قبا ہے وہ کیسے سی جائے
بگڑ چکی ہے زمانوں سے داستاں اپنی
چلیں وہ لفظ محبت سے پھر لکھی جائے
(حمید)
اگر ہم مذہبی ہیں اور مختلف مذاہب میں ہوکر ایک ہی جگہ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ پرامن و پرسکون اور محبت و اخلاق کی زندگی گذار رہے ہیں تو اسے بہترین سماجی زندگی کہا جائے گا اور یہ سماج مثالی سماج کہا جائے گا۔ آج ہمارے ملک میں ہم سب اسی طرح ہیں۔ یہاں کی ہزاروں سال پرانی تہذیبی روایات ہیں۔ یہاں فوجیں لے کر بھی لوگ آئے اور یہیں پناہ لینے والے بھی آئے مگر یہاں سے کوئی کہیں فوج لے کر نہیں گیا اور نہ کہیں پناہ لینے لوگ گئے۔ یہ بات کتنی فخر و عزت کی رہی ہمارے ملک ہمارے دیش کیلئے۔ سب سے منحوس وقت ہمارے اس ملک کیلئے وہ تھا جب اس کی غیرفطری تقسیم ہوئی اور اب پناہ لینے کیلئے باہر جانے والوں کی بھی اور باہر سے آنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی۔ مگر یہ تقسیم نہ کسی شنکراچاریہ نہ کسی گرو اور نہ کسی مولوی عالم کی دین تھی نہ مذہبی حکم کی بناء پر تھی۔ یہ تقسیم سیاسی شخصیتوں کے ذہنی بٹوارے کا نتیجہ تھی۔ یہ تقسیم زمین کیلئے تھی۔ انسانیت پھر بھی تقسیم نہ ہوسکی۔ اور ہزاروں سال کی تہذیبی وراثتوں میں جو جہاں رہا وہ اس پر عمل کرتا رہا۔ ہم ان مضامین میں سیاسی باتوں سے دور رہے ہیں۔ ورنہ ہم اس پر بہت کچھ لکھتے۔ البتہ اتنا لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے ملک میں سیاست سے اوپر عدالت کا بول بالا کیوں ہے؟ اس لئے کہ لوگ مل جل کر رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور جب کبھی وہ مایوسیوں کے بادل اٹھتے دیکھتے ہیں تو اسی میں انہیں اپنے دیش کی اونچی عدالت کا سورج چمکتے دکھائی دینے لگتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ انسان کی انسانیت زخمی ہوتی ہے نفرتوں کے وار سے اور اس کے زخم بھرنے لگتے ہیں انصاف کی تیمارداری اور معالجہ سے۔
تمام دھرم، تمام مذہب یہاں ہیں۔ اور یقین ہے یہ مل جل کر رہنے کی تہذیب باقی رہے گی اس لئے کہ مذہبی رہنمائی ہمیشہ دو باتوں پر اصرار رکھتی ہے۔ انصاف و عدالت۔ محبت و اخلاق۔
ہمارے ملک میں پڑوسی کوئی مسئلہ نہیں ہے اس لئے کہ وہ بھی اسی تہذیب کا ایک الگ ہوجانے والا ٹکڑا ہے جو اس خود فریبی کا شکار ہے کہ وہی اصل ہے۔ مسئلہ خود ہمارے لئے ہم خود ہیں۔ ایسا لگتا ہے کوئی چلتے چلتے رُک جائے کسی رکاوٹ کے سبب نہیں بلکہ ازخود کسی فکر و تردد کے سبب۔ اور پھر وہ چلنے لگے۔ اور ایسا ہی ہوگا۔مذاہب میں اسلام۔ اسلام میں قرآن۔ قرآن میں بہت کھل کر ’’حکم‘‘ ہے۔ الٰہی حکم۔ ’’یقینا اللہ حکم دیتا ہے عدالت کا نیکی کا اور صاحبان قرابت کے حقوق کی ادائیگی کا۔‘‘
یہ حکم فرد سے لے کر اجتماع تک کیلئے ہے۔ یہ حکم عالم، جاہل، حاکم، رعایا۔ مرد اور عورت سب کے لئے ہے۔ یہ حکم مذہبی اختلافات سے اوپر ہے۔ سماج مذاہب سے بنتا ہے۔ مذہب سماج سے نہیں بنتا۔
کاش ہمارے دیش میں مذہبی آزادی مکمل طور پر مل سکے تو یہاں ہر طرف محبتوں کے چمن آباد نظر آئیں گے۔ نفرتوں کے کانٹے نہ کسی کو زخمی کرسکیں گے نہ اذیت دے پائیں گے۔ مشکل یہی ہے کہ ہم بہت سے مواقع پر مذہب کے حقیقی پیغام۔ انسان اور انسانیت کو سمجھنے یا سمجھانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوپاتے۔ اور حقیقی پیغام بنیادی پیغام محبت اور رواداری ہے۔ محبت اور رواداری ہی سماجی اچھی زندگی کیلئے بھی ضمانت ہے اور مذہب کی روح بھی یہی ہے۔
خخخ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here