فکر تونسوی: شاعری سے طنز و مزاح نگاری تک

0
1198

[email protected] 

.9807694588موسی رضا۔۔۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

آبیناز جان علی

(موریشس)

’جدید ادب میں شاید ہی کسی ادیب نے اس خوش اسلوبی سے فرسودہ روایات اور بیہودہ اشخاص کو بے نقاب کیا ہوگا جیسا کہ فکر تونسوی نے۔‘کنہیا لال کپور
فکر تونسوی تونسہ کے نواحی گائوں منگروٹھہ شرفی میں پیدا ہوئے۔ تونسہ کوہِ سلیمان کے دامن میں واقع جنوبی پنجاب کا اہم ترین شہر ہے۔ فکر تونسوی۱۷ اکتوبر ۱۹۱۸ء؁ کو سندھ خطہ ضلع ملتان شجاع آباد میں پیدا ہوئے۔ آبائی طور پر یہ کنبہ افغانستان کی سرحد کے نزدیک ڈیرہ غازی خان کے قصبہ تونسہ کا رہنے والا تھا۔ فکر تونسوی کا اصل نام رام لاال بھاٹیہ تھا۔ ان کے والد کا نام دھنپت رائے بھاٹیہ تھا۔ اپنے تیسرے بیٹے رام لال بھاٹیہ کی پیدائش کے کچھ وقت بعد ہی یہ کنبہ تونسہ میں لوٹ آیا۔ تونسہ میں وہ دور خواجہ شاہ محمد سلیمان کے روحانی مشن کا دور تھا۔ آپ کی خانقاہ سے انسانی ہمدردی اور محبت و اخوت کا فیضان مذہب اور رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر جاری تھا۔ تونسہ قیام پاکستان سے پہلے ہندوئوں اور مسلمانوں کا ملا جلا مسکن تھا۔ اسلامی فلسفہ حیات اور ہندو طرزِ فکر کا پورا احترام تھا۔ تونسہ میں دونوں مذہبی فلسفوں کی صحت مند اخلاقی اور سماجی قدریں اور مشترکہ رہن سہن تہذیبی سرگرمیوں میں جاری تھا۔
فکر تونسوی کے دادا موہت رائے کی تونسہ میں بڑی عزت تھی۔ وہ زمینداری بھی کرتے تھے اور تجارت بھی۔ دادا زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ پھر بھی قبائلی زبان، اردو اور فارسی میں ملکہ رکھتے تھے۔ دھنپت رائے اردو، فارسی، خواندگی اور حساب کتاب میں مہارت رکھتے تھے۔ شجاع آباد میں ببلہ خاندان کے معروف زمیندار چوہدری نارائن سنگھ ببلہ کے ہاں منشی تھے۔ ان کے والد بلوچ قبائل میں تجارت اور طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔
فکر تونسوی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ان کے والد کی نگرانی میں ہوئی، پانچویں جماعت میں فکر کو مدرسے میں داخل کرایا گیا۔ ان کا پہلا مکتب مڈل اسکول منگروٹھہ شرفی تھا۔ یہاں آٹھویں جماعت تک پڑھائی کی اور اول درجے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول تونسہ میں داخلہ لیا۔ میٹرک کے دنوں میں ہی فکر تونسوی کی ادبی صلاحیتوں کا اظہار ہونے لگا تھا، اردو ادب سے دلچسپی کے سبب فکر تقریری اور تحریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔ طنزیہ ناول پروفیسر بدھو میں فکر تونسوی اپنا تعارف خود لکھتے ہیں:
’مصنف خاصا مشہور و معروف ہے اور بچپن سے لکھتا چلا آرہا ہے۔ بچپن میں تختی پر لکھتا تھا۔ چونکہ کوئی غلطی نہیں کرتا تھا، اس لئے استاد اور ان کا چابک دونوں اس سے نالاں تھے۔ تختی پر لکھتے لکھتے بچپن میں ہی ادیب بن گیا۔ ( اور ماں باپ نے ماتھے پر دو ہتڑ مار کر کہا کہ ہمارے بھاگ پھوٹ گئے۔)
بارہ برس کی عمر میں مصنف نے ایک ڈرامہ تصنیف کیا جس میں ہیروئن کا پارٹ خود ادا کیا۔ ڈرامہ بری طرح فیل ہوگیا۔ تحریر کی وجہ سے نہیں بلکہ ہیروئن کی وجہ سے۔ چنانچہ اس کے بعد ایک اور ڈرامہ لکھا ’ہیروئن کی ناکامی‘۔ یہ ڈرامہ خاصا کامیاب رہا اور گائوں والوں نے اعلان کردیا کہ لڑکا گائوں کا نام روشن کرے گا۔‘
اسلامی ہمدردی کے ماحول میں رام لال بھاٹیہ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد فکر تونسوی نے ایمرسن کالج ملتان میں داخلہ لے لیا۔ ابھی انہوں نے ایف اے کا پہلا سال ہی مکمل کیاتھاکہ ان کے والد دھنپت رائے کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح تعلیم کو نامکمل چھوڑ کر ملازمت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
فکر تونسوی نے ملازمت کا آغاز خوش نویسی سے کیا۔ ڈسٹڑکٹ شیخو پورہ کے ہفتہ وار اخبار ’کسان‘ میں بطور خوش نویسی کام کرتے رہے۔ ایک سال بعد ایک رنگریز جیمنی داس کے ہاں ملازم ہوگئے، یہاں چھ مہینے تک پگڑیاں اور ڈوپتے رنگنے اور چھپائی کا کام کرنا پڑا۔ چار مہینے تک مصور کی حیثیت سے دیواروں پر مختلف فرموں اور کمپنیوں کے اشتہارات لکھتے رہے۔ اس کے بعد ڈیرہ غازی خان کے ایک آریہ پرائمری اسکول میں ایک سال تک مدرس ہوگئے۔ اس کے بعد چنبیلی کا اسپیشل تیل کا کاروبار میں قصبے میں گھوم کر تیل بیچنے لگے اور نقصان کا سامنا کرناپڑا۔ تین سال بعد غازیخان سے لاہور آگئے۔ ابتداء میں کتب خانے میں کتابوں کے پیکٹ بنانے کا کام کیا اور چپراسی کی طرح جھاڑو بھی لگایا۔ یہاں بہت سی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔
رام لال بھاٹیہ ادیب بننا چاہتے تھے۔ اس لئے شیخو پورہ سے نکلنے والے ایک نیم ادبی و نیم فلمی ہفتہ وار کی ملازمت کر لی۔ رسالے کا نام ’امن کی موج ‘ تھا۔ آٹھ نو مہینے اس سے وابستہ رہے۔ اس وقت آپ بائیس سال کے تھے۔ ۱۹۴۰ء؁ میں رام لال بھاٹیہ سے فکر تونسوی بن گئے۔ اس دور میں ’ادب لطیف‘ میں بطور کلرک داخل ہوئے۔ ۱۹۴۶ء؁ میں ’ادب لطیف‘ کے مدیربن گئے اور اس باوقار اور بے حد معیاری رسالہ میں زبان و ادب کی خدمت کی۔ بطور مدیر ڈیڑھ سال خدمات انجام دیں۔ ۱۹۴۵ء؁ میں ممتاز مفتی کے اشتراک سے اپنا علیحدہ پرچہ ’سویرا‘ نکالنے لگے۔ یہ رسالہ دوماہی تھا اور ادبی رسالوں میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے اردو کے ادبی رسالوں کو ایک نیا وقار، نئی بلندی اور نیا معیار حاصل ہوا۔ ’سویرا‘ ادبی رسالوں کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’سویرا‘کے صفحات میں کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، فراق گورکھپوری، جان نثار اختر اور ساحر لدھیانوی کی شاہکارتخلیقات سے مزین کیا۔ یہ کام معاشی طور پر انہیں زیادہ نہیں دے سکا۔ ۱۹۴۶ء؁ میں سویرا کو ممتاز مفتی کے حوالے کرکے دوبارہ ادبِ لطیف سے وابستہ ہوگئے۔
۱۹۴۴ء؁ میں ان کی شادی کیلاش کماری سے ہوئی۔ فکر اپنی اہلیہ کو لے کر لاہور آگئے جہاں وہ مقبولیت اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔
فکر تونسوی نے اپنا ادبی سفر شعر و شاعری سے شروع کیا۔ فکر کی شاعری رسالوں اور اخبارات میں شائع ہوتی رہی۔ نظم ’تنہائی‘ مولانا صلاح الدین کے موقر ادبی رسالہ ’ادبی دنیا‘ میں شائع ہوا اور حلقہ اربابِ ذوق لاہور نے اسے ۱۹۴۶ء؁ کی بہترین نظم قرار دی۔ فکر کے لئے ادبی دنیا کے دروازے پوری طرح کھل گئے۔ ’ادب ِلطیف‘، ’ہمایوں‘ اور ادبی دنیا میں ان کی نظمیں شائع ہوتی رہیں۔ ۱۹۴۷ء؁ میں ان کی نظموں کا مجموعہ’ ہیولے‘ کے نام سے شائع ہوا۔ فکر اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالتے ہیں اور ان کے لبوں پر مسکراہٹ کافور ہو جاتی ہے۔ ان کے کلام میں تخیل کی بلندی ہے اور وہ بار بار صدائے احتجاج بلند کرتے رہتے ہیں۔
بڑی گستاخی سے کہہ دوں گا میں ، ربِ عالم
تری بے کار تمنا کا نشانہ ہیں ہم!
اپنے کلام کے ذریعے فکر دکھاتے ہیں کہ انسان مذہب اور انصاف کی آڑ میں گناہ اور جرائم کا کھیل کھیلتا ہے۔ ان کی شاعری میں نئے سماج اور نئی نظروں کی جھلکیاں ہیں۔ قوت اور انفرادیت فکر کی شاعری کا اہم جزوہے۔ وہ دماغ کے شاعر ہیں دل کے نہیں۔
مجھ سے تو نہیں ہوتی یہ پیوند نگاری
لے یہ ترا پنڈت ہے، یہ ملا یہ لبادہ
فکر ذہانتِ عامہ اور سطحی ادراک کا مالک نہیں ہے۔ ان کی شاعری ایک مخصوص طبقے کے ذہن کا مانوس کرتی ہے۔ وہ روایات سے ہٹ کر باتیں کرتے ہیں وہ اپنی شاعری میں حل پیش کرتے ہیں۔ ان کے اشعار اور تراکیب اچھوتی انفرادیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ان کے محاورے خاص ان کے اپنے ہوتے ہیں جو گہرے نقش چھوڑتے ہیں۔ شاعری میں خوفناک یاسیت اور کڑوی کسیلی قنوطیت کا احساس ہوتاہے۔ فکر ہمیں ایک طرف عالمِ ناامیدی میں لے جاتے ہیں تو دوسری طرف چند نظموں میں نشاطیہ اور طربیہ کیفیت سے بھی نوازتے ہیں۔
تو برف و سنگ پہ کب طنز کر سکا اے شیخ
کہ دیکھ پاتا جمود و ثبات کے شعلے
فکر واحد شاعر ہیں جنہوںنے ہندو دیومالا کو جدید حیران کن اور منفرد زاویہ نگاہ سے دیکھا ہے۔ ہندو دیو مالا سے اس کا یہ سلوک روایت سے ہٹ کر انفرادی حیثیت اختیار کرجاتا ہے۔ نظم شکنتلا میں وہ صنفِ نازک کے حق میں مرد سماج کی جابرانہ اور بہیمانہ فطرت کو عریاں کرتے ہیں۔ برہمچاری میں وہ جنسی ہیجانات کو دبانے کی تلقین کرنے والے صاحب اختیار دانائوں کو چیلنج کرتے ہیں۔
فکر ایک صاحبِ اسلوب شاعر ہیں۔ اسلوبِ بیان میں الفاظ کی جدت اور تازگی میں نئی تراکیب اس انوکھے خیالات کو ادا کرنے میں اکثر ناکام رہتی ہیں۔ وہ اپنے الفاظ کی دنیا آپ پیدا کرلیتے ہیں۔ فکر تونسوی نے نیا اور اچھوتا اسلوب اختیار کیا ہے۔ نئی موسیوقی، نئی شوکت سے دنیائے شاعری کو مالا مال کر تے ہیں۔
ان خاک کے ذروں پہ ہے دامانِ حرم تنگ
خود مٹ کے جو کرتے ہیں تعمیرِ دل سنگ
خود فکر تونسوی کا کہنا ہے: ’ میری شاعری فطرتِ انسانی کے اسی ازلی اور ابدی تلون کے چند نقوش ہیں اور ان نقوش میں کبھی کبھی اس بہتر زندگی کے ہیولے بھی جھلک اٹھتے ہیں۔
کبھی زندگی کے حق میں اور کبھی زندگی کے خلاف جنگ کرنا۔ میری شاعری اسی تلون کی تاریخ ہے۔ تلون۔ ۔جو آپ کا ہے۔۔تلون جو آپ کے آباواجداد کا ہے۔ تلون۔۔جو آپ کے جانشینوں کا ہے۔‘
یہ کیسی دنیا ہے؟ غم ہے تو غمگسار نہیں
یہ کیسے اپنے ہیں؟ اپنوں سے آشنا بھی نہیں
فکر کے کلام میں گہری فکر کے نمونے ملتے ہیں۔ وہ آس پاس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور سوالیہ انداز اختیار کرتے ہیں۔
کچھ بجھتے جارہے ہیں کمزور لو کے مارے
اور کچھ دئے ابھی تک آندھی میں جل رہے ہیں
ان کی شاعری ہمیں دعوتِ کیف و وجد دیتے ہیں۔ روانی اور برجستگی ان کے کلام کی نمایاں خاصیت ہے جو فکرسادہ الفاظ کے پیکر میں کامیابی سے پیش کرتے ہیں۔
کبھی نہ سوچا مری بہاروں میں زہر ساکیوں گھلا ہوا ہے
کہ تیرے لب سے بندھے ہوئے عہدِ شکریں پر حرف نہ آئے
مجھے کھوجنے کی حدت، تجھے پردگی میں لذت
مجھے سوز و غم نے لوٹا، تجھے کیف و کم نے مارا
ہیولے میں نظموں کے ساتھ ساتھ دس غزلیں اور چار اشعار بھی شامل ہیں۔ فکر دنیا کے دکھوں کو اعتراف کرتے ہیں۔ پھر بھی زندگی کو جینے کی ہمت رکھتے ہیں۔
عشق مسلسل غم کی دھارا، حسن، مجسم پوٹ دکھوں کی
پھر بھی یہ غم محبوب ہوا ہے، پھر بھی یہ دکھ دنیا نے پالے
نظموں میں وہ لفظوں سے کھیلتے ہیں۔ الفاظ کی تکرار سے لطف بھی پیدا کرتے ہیں۔
ٹوٹ، اے تاروں کی مالا! گھوم، اے ٹھہری زمین!
دھم دھما دھم، دھم دھما دھم، جھن جھناں جھن، جھن جھناں
اور بکھر جائے فضا میں گورا گورا ماہتاب
پھوٹ جائے ذرّہ ہوکے مہرِ گرم گرم
فکرتونسوی نے شاعری میں مصوری کی ہے۔وہ قاری میں تجسس پیدا کرتے ہیں۔ تصورات اور جذبات سے قاری میں طرح طرح کی محسوسات کو بیدار کرتے ہیں۔ وہ انسانی جذبات کو صفحہ قرطاس پر اتارکر انہیں دعوتِ فکر دیتے ہیں۔
میری خاطر ہے اگر یہ پھیلی کائنات
ہے اگر میری تمنا سیم و سرخ و زرد و نیل
تو مرے اچھے خدا، سچے خدا، اونچے خدا
تیری اس کونیں میں تو گھٹ رہا ہے دم مرا
روح میں اک پھانس چبھتی ہے پیاپے و مبدم
یہ جہاں، یہ تیری پیہم داستانِ کیف و کم
اک مسلسل پھانس ہے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں
تقسیمِ وطن تک فکر ’ادبِ لطیف‘ یہ جڑے رہے۔ فسادات کے بعد فکر تونسوی نے شاعری ترک کرکے طنز و مزاح میں نثر لکھنا شروع کیا جو عوام میں مقبول ہوتا گیا۔ دلیپ سنگھ لکھتے ہیں:
’فکر نے اپنی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔ طنز نگاری اس نے شروع کی تھی غمِ روزگار کو بہلانے کے لئے اور اس بہلاوے نے اسے اتنی شہرت بخشی کہ لوگوں کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ کبھی وہ شاعر بلکہ اچھا شاعر تھا۔‘

۱۹۴۷ء؁ کے تقسیمِ ہند میں فکر کے فکر و خیال کو ایک نیا موڑ ملا۔ انہیں انسانیت اور تہذیب کی فکر تھی۔ ’پروفیسر بدھو‘ میں اپنا تعارف خود کرتے ہوئے فکر تونسوی رقم طراز ہیں:
’اس کے بعد مصنف نے مزید بہتریں نظمیں لکھیں جو کسی نے پسند نہ کیں، مگر مصنف نے ہمت نہ ہاری اور کچھ مزید بہترین نظمیں لکھیں۔ سب نے کہا ردّی ہیں، مصنف کو حیرت ہوا اور بلآخر حیرت اس یقین میں بدل گئی کہ لوگ جاہل ہیں، دراصل شاعر کو سمجھ نہیں پاتے، اس لئے جہلا کے سامنے شاعری کرنا نہایت درجہ کی بیوقوفی ہے۔ (لہٰذا شادی کر لی اور شاعری ترک کردی۔)‘
تقسیمِ ہند نے بہت سے ذہنوں کو جھنجھوڑ دیا۔ تقسیم سے کئی مسائل پیدا ہوئے:، ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کی سرمایہ دارانہ تشکیل، مسائل کے حل کرنے میں ناکامی، بیرونی سرمایہ کا اثر، عوامی اثرات اور خیالات پر پابندیاں تھیں۔ فسادات کے دوران لاہور میں فکر تونسوی کی حالت بقول سہیل عظیم آبادی یہ تھی کہ ’شاید سارے لاہور میں وہ تنہا ہندو تھا جو ان ہنگامہ خیز دنوں میں شہر کے اندر مسلمانوں کے ساتھ شہر میں گھومتا رہا، ہوٹلوں میں چائے پیتا رہا۔‘ قتیل شفائی کی سوانح حیات ’گھنگرو ٹوٹ گئے‘ میں پورا واقعہ درج ہے۔
فکر نے بلآخر پاکستان چھوڑا۔ ان کی بیوی اور بچے تونسہ میں تھے اور فکر دستوں کے ساتھ لاہور میں۔ ان کے احباب قتیل شفائی اور احمد راہی ان کو لینے تونسہ گئے لیکن فکر کے سسرال والوں نے انکار کیا۔ خواجہ نظام الدین تونسوی نے اپنے حفاظتی دستہ کے ساتھ انہیں کیمپوں تک پہنچایا۔ تونسہ میں خونریزی نہیں ہوئی اور ہندوئوںکا حفاظت سے خیال رکھا گیا۔ فکر کو تونسہ سے ذہنی آہنگی تھی اور انہوں نے تونسہ کو ہمیشہ دل میں بسایا۔

فکر تونسوی بطور ریفیوجی ہندوستان آئے۔ وہ لاہور سے جالندھر منتقل ہوگئے۔ ہجرت کا درد ان کے ذہن پر حاوی رہا۔ ۱۹۴۷ء؁ کے واقعات ایک المناک تجربہ تھا جس نے انسانیت کو مجروح کر دیا۔ ۱۹۵۰ء؁ میں جالندھر ریدیو اسٹیشن میں فری لانس اسکرپٹ رائیٹر رہے۔ ۱۹۵۳ء؁ میں فکرنے جالندھر کمیونسٹ پارٹی کے اخبار ’نیا زمانہ ‘میں طنزیہ کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا۔ کالم کا نام ’آج کی خبر‘ تھا۔ وہ ’رفتار‘ او’ر نقوش‘ جیسے رسالوں سے مقبول جالندھری کے ساتھ وابستہ رہے۔ دو سال بعد یہ اخبار بند ہوا توفکر نے ۱۹۵۵ء؁ میں دہلی کا رخ کیا۔ دہلی کے ادبی حلقوں نے فکر کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ فکر نے روزنامہ ’ملاپ‘ میں ملازمت کی اور اپنا کالم ’پیاز کے چھلکے‘ ۱۹۵۶ء؁ میں شروع کیا۔ ان کا موضوع معاشی مسائل، ذاتی زندگی، آس پاس کی زندگی، سیاسی ماحول اورثقافتی منظر نامے سے متاثر تھا۔ قارئین کو ’پیاز کے چھلکے‘ کا انتظار رہتا اور اس کالم کو پڑھنے کے لئے ہی اخبار خریدے جاتے۔فکر تونسوی نے پیس سال تک متواتر اور بلا ناغہ ایک کالم لکھا۔ اس کے باوجودان کے کالم میں تازگی ہوتی اوران میں نئے موضوعات شامل ہوتے۔ فکر تونسوی کے طنز میں سوز اور تڑپ ہے۔ ان کے تحریر میں سماجی شعور اور عوام کا درد جھلکتا ہے۔ فکر نے اخبار کے کالموں کو ادبی شان عطا کی۔ وہ اپنے مضامین اور اخباری کالموں کی وجہ سے عوام میں اتنا مقبول ہوئے کہ طنز و مزاح کا شہنشاہ تسلیم کئے گئے۔ انہوں نے قارئیں میں بے پناہ مقبولیت پائی۔ دنیا میں رہ کر وہ لوگوں کے اندر جھانک پائے اور خود کو بھی بے نقاب کیا۔ پچیس سالوں تک اپنے دلآویز اسلوب بیان سے فکر تونسوی نے اپنے کالموں میں ایک پختہ سماجی شعور کا مظاہرہ کیا۔ ’ملاپ ‘ میںان کے کالم پڑھنے کے لئے طلبا، اساتذہ دکاندار، وکیل، ڈاکٹر اور پروفیسر اخبار خریدتے۔ فکر وہ شگفتہ اور زندہ دل ادیب ہیں جنہوں نے طنز کو عوام تک پہنچایا۔
ریڈیو اسٹیشن جالندھر اور دہلی پر ان کے سینکڑوں ڈرامے، فیچر اور تقریریں نشر ہوئیں۔ ان کا ایک ریڈیائی ڈرامہ ’ آج کا سچ‘ کو ہندوستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن نے براڈکاسٹ کیا تھا۔ انہوں نے ٹیلی ویژن پر متعدد ڈرامے پیش کئے۔۱۹۵۶ء؁ ۔ ۱۹۵۷ء؁ میں دہلی کی مستند ادبی رسالہ ’شاہراہ‘ کی ادارت کا فربھی یضہ انجام دیا۔
مجتبیٰ حسین ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
’حضرت قبلہ نے اس دنیا میں آکر کوئی کام کیا ہے تو بس یہی کہ بیٹھے بیٹھے فقرے ڈھالتے رہتے ہیں۔ کسی نے انہیں کچھ کہہ دیا اور انہوں نے ایک فقرہ اچھال کر اس کی خدمت میں پیش کردیا۔ سماج نے ان کے خلاف کوئی زیادتی کی اور انہوں نے سماج کے خلاف ایک اور درد بھڑکتا ہوا طنزیہ فقرہ کس دیا اور مطمئن ہوگئے۔‘
فکر تونسوی کی پہلی نثری تصنیف ’چھٹا دریا‘ ہے جو فسادات پر ایک دردناک ڈائری کی شکل میں ہے۔
’شاعری ترک کرنے کی دیر تھی کہ مصنف ایک دم مشہور و مقبول ہوگیا۔ وہی جہلا جو اس کی شاعری پر ساکت و جامد ہوجاتے تھے۔ مصنف کی طنزیہ تحریروں پر لٹو ہونے لگے اور مصنف نے لوگوں کو جاہل کہنا بند کردیا۔ کیونکہ اس کے بعد مصنف عقل و دانش کے جتنے گہرے نکتے بیان کرتا، عوام نہ صرف انہیں سمجھ جاتے بلکہ عش عش کر اٹھتے۔‘ (پروفیسر بدھو ۱۹۶۱ء؁)
فکر تونسوی نے ہندی میں آٹھ کتابیں لکھیں اور اردو میں بیس کتابیںلکھیں۔
۱۹۵۰ ۔۱۹۸۷ کے عرصے میں ۱۲ تصانیف سامنے آئیں۔ ۱۹۵۳ میں تیرِ نیم کش، ۱۹۵۴ میں پروفیسر بدھو، ۱۹۵۵ میں ماڈرن الہ دین، ۱۹۵۶ میں ادیبوں کے خاکے ’خد وخال‘ ، ۱۹۵۶ء؁ میں ’ساتواں شاستر ‘ بھی فسادات پر لکھا گیا۔ ۱۹۵۷ میںہندی کتاب ’ہم ہندوستانی‘، ۱۹۵۸ میں بدنام کتاب، ۱۹۵۹ میں آدھا آدمی، ۱۹۶۱ میں آخری کتاب، ۱۹۷۲ میں پینتالیس طنزیہ مضامین کا مجموعہ ’پیاز کے چھلکے‘ ۱۹۷۳ میں چھلکے ہی چھلکے، ۱۹۸۶ میں فکربانی، ۱۹۸۳ میں گھر میں چور، ۱۹۸۷ میں اپنی آپ بیتی ’میں‘ حصّہ اول اور اسی سال آپ بیتی کا دوسرا حصّہ ’میری بیوی‘، فکر نامہ، وارنٹ گرفتاری، ۱۹۷۶ میں مسلسل سیاسی طنز چوپٹ راجہ، بات میں گھات، فکریات اور فکر بینی۔ ۱۹۵۲ میں مائو سی تنگ جو چین کے ایک تاریخ ساز شخصیت پر افسانوی اسلوب میں پنجاب کے کسانوں کے لئے لکھا گیا۔ ۱۹۸۸ میں کفن سے کرتے تک۔
طنز نگاری فکر تونسوی کا اوڑھنا اور بچونا تھا۔ ہر فقرہ نشتر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک جو چیزجیسی ہے اسے ویسا سمجھ لینا بیوقوفی ہے۔ طنز کے پسِ پردہ وہ حقیقی جذبات پیش کرتے ہیں۔
’دیموکریسی کے مقدس نام کو چاہے شیطان بھی بوسہ دے رہا ہو، عوام اسے خدا مانتے ہیں۔‘
’اور اس چونپٹ راجہ کے ارد گرد صرف وہی لوگ اکھٹے ہوجاتے ہیں جو چوپٹ راجہ کی طرح عوام کے دشمن ہیں، عوام کے نام پر عوام کا لہوپیتے ہیں اور ڈیموکریٹک سماج میں جو بھی عوام کا دشمن رہنا پسندکرتا ہے، شاہیت اسے گلے لگا لیتی ہے اور پھر اس نعرے کو اپنا لیتی ہے۔ عوام کے حکم سے عوام کا گلا کانٹنے والے عوام کے قاتلوں کو ڈیموکریٹ کہتے ہیں۔‘ (فکر تونسوی)
فکر اگرچہ کسی سیاسی جماعت کے رکن نہیں تھے لیکن ان کے دماغ میں ایک ایسا نظام کا نقشہ ضرور تھا جس میں انسانی زندگی پنپ سکتی ہے۔ اسے اس بات کا بھی شدت سے احساس تھا کہ قارئین اس کے مضامین سے لطف اندوز ہو تو رہے ہیں، لیکن مستفید نہیں ہورہے ہیں۔ فکر نے سیاسی طنز کو بامِ عروج تک پہچایا۔ فکر نے طبقاتی کشمکش کے کرب کو جس سطح پر محسوس کیا کسی اور نے نہیں کیا۔ فکر کو اپنی زندگی میں بے حد شہرت ملی لیکن اس نے کبھی اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔
نامور مزاح نگار دلیپ سنگھ نے فکر تونسوی کے فن اور شخصیت کے تذکرے کے ذیل میں لکھا ہے:
’فکر کی اپنے قارئین میں بے پناہ مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ اس نے وہی زندگی جی جس کا وہ داستان گو بنا۔ بہت کم لوگوں کو یہ صلاحیت عطا ہوتی ہے کہ اس دنیا میں رہ کر وہ نہ صرف دوسروں کے اندر جھانک سکیں بلکہ خود کو اس طرح بے نقاب کرسکیں کہ بدن پر سے چمڑی تک اتر جائے۔ فکر ان بہت ہی کم لوگوں میں سے ہیں۔‘
فکر نے وہی زندگی جی جس کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے۔ ان کے یہاں ادبی دیانت داری اور انکساری ہے۔ انہوں نے اپنی بیوی کو بھی کردار بنا کر معاشرے پر وار کیا۔
فکر نے اردو میں لکھنا شروع کیا۔ تقسیم ملک کے بعد جب اردو کے کئی اور ادیبوں نے زیادہ معاوضے کی خواہش میں دوسری زبانوں کی طرف رجوع کیا، فکر اردو سے ہی جڑے رہے۔ اردو زبان کے لئے فخر کی بات ہے کہ فکر کی ادبی صلاحیتوں کی وجہ سے فکر کی شہرت کم ہونے کے بجائے اردو کا نام روشن ہوا۔
’ان تحریروں میں صحافیانہ انداز کے بجائے ادبی چاشنی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’ملاپ‘ کے مزحیہ کالم کتابی صورت میں مرتب ہوکر اردو کے مزاحیہ ادب کا حصّہ بن جاتے ہیں۔‘ (خلیق انجم)
احتشام حسین کے مطابق ’فکر کی زبان دہلی اور لکھنئو کے معیار سے مختلف ہے۔ زبان میں مقامی عنصر کی شمولیت ہے۔ وہ بناوٹ سے دور
ہے اور اپنے خیالات کو اپنے ہی رنگ میں ظاہر کرسکتا ہے۔‘
وہ اپنی ڈھب کے اکیلے سیاسی طنز نگار تھے اور بقول کنہیا لال کپور انہوں نے اردو زبان میں لفظ تونسہ کا اضافی کیا۔فکر نے دراصل اس دور میں ادبی زندگی کا آغاز کیا تھا جب ایک سیاسی نظام ختم ہوکر دوسرا نظام شروع ہو رہا تھا۔ فکر تونسوی سوشلسٹ تھے جو سماج کو بدلنا چاہتے تھے۔ پرانے فیوڈل اسالیب کی جگہ انسانیت پرست اقدار کو رواج دینا چاہتے تھے تاکہ نئی فکر و نظر اور نئے سائنسی علوم کی کامیابی ہو۔ فکر تونسوی کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ اس وقت اس میدان میں اترنا اور قابلِ مطالعہ چیزیں پیش کرنا نہ صرف جرأت چاہتا تھا بلکہ صالحیت بھی، چنانچہ فکر نے اس صنف کی طرف توجہ کی ہے اور اپنے لئے ایک جگہ بنائی۔ ۱۹۵۴ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے فل ٹائم ممبر بنے لیکن تین سال تک ہی پارٹی میں رہے۔
فکر کے پاس ایک ترقی پسند ذہن ہے۔ انہوں نے انسانوں پر بھروسہ رکھا، عوام کو سراہا اور ان طاقتوں سے رشتہ جوڑے رکھا جو فرقہ پرستی، رجعت پسندی اور ناانٖصافی کا خاتمہ کرنا چاہتی ہیں۔ فکر تونسوی کو سماج میں موجود غریبوں کے استحصال سے نفرت تھی۔ وہ مذہبی دیواروں سے بغاوت کرتے رہے اور انسانیت سے صحبت کی۔ انہیں ادبی ماحول یا استاد سے ادبی مزاج کی تربیت نہیں ملی تھی بلکہ ان کی تحریریں ان کے دل کی آواز تھی۔
۱۹۸۷ میں انہیں غالب ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۱۸۸۳ میں میر اکادمی ایوارڈاور ۱۹۶۹ میں سویٹ لینڈ ہنر ایوارڈ ۔ اپنی مجموعی ادبی خدمات کے لئے اتر پردیس اردو اکادمی نے ان کے تین کتابوں (چوپٹ راجہ، فکر نامہ اور آخری کتاب) کے لئے انہیں انعام دیا ۔ ۱۳ ستمبر ۱۹۸۷ کو فکر تونسوی کو فالج کا حملہ ہوا اور وہ انتقال کر گئے۔ فکر تونسوی اپنی نگارشات کی وجہ سے ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔ ان کا مقصد اعلیٰ ہے اور کہنے کا دھنگ نرالا ہے ۔ اس لئے ادب کی تاریخ میں ہمیشہ عزت و احترام سے یاد رکھے جائیں گے۔
حوالہ
بستی منگروٹھ کی عظیم علمی و ادبی شخصیت۔ فکر تونسوی ، جسارے خیالی
فکر کی شاعری ۔ کنہیا لال کپور
مؑروف ہندو ادب فکر تونسوی کی پاکستا سے ہجرت کی درد انگیز کہانی
پروفیسر بدھو فکر تونسوی
چھٹا دریا۔ ایک ڈائری، فکر تونسوی
فکر نامہ
فکر کی بے فکری۔ زین شمسی
داستانِ فکر سویں سالگرہ عالمی سمئی۔ (ڈاکیومنٹری)
آبیناز جان علی
موریشس

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here