9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
مسرور جہاں
مدینہ گہوارۂ حسین ؑ تھا ۔ اسی مدینہ میں حسین ؑ کا بچپن کھیلا تھا ۔اسی مدینے میں آپ نے اپنے نانا رسولؑ مقبول کی زبان مبارک چوسی تھی ۔یہی وہ مدینہ تھا جہاں آپ نے اپنے نانا کی پشت مبارک کو زینت بخشی تھی ۔یہیں دنیا کا آخری نبی مرکب حسین ؑ بنا تھا ۔اور اسی مدینہ میں ہمارے اور آپ کے نبی آخری الزماں نے فرمایا تھا کہ حسنؑ اور حسین ؑ ان کے دو پھول ہیںاور یہ کہ یہی دونوں جوانان جنت کے سردار ہیں یہی نہیں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا ۔حسین ؑ مجھ سے ہےاور میں حسین ؑ سے ہوں جس نے حسین ؑ کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی ۔یہ مرتبہ تھا امام حسینؑ کا ۔اور مدینہ کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ آپ اپنے دونوں نواسوں کو کس درجہ عزیز رکھتے تھے ،آقااور مولا علیؑ کی شہادت کے بعد جناب امام حسن ؑ نے زمام امامت سنبھالی تھی ۔جب امام حسن ؑ کو زہر دغا سے شہید کر دیا گیا تو امامت کا بار مولا حسین ؑ کے کاندھوں پر آگیا ۔ آپ کو نہ حکومت کی خواہش تھی نہ منصب کی چاہ تھی ۔نہایت صبر و سکون سے مولا عبادت الٰہی میں مصروف رہتے تھے ۔اہل مدینہ آپ کی بزرگی سے اچھی طرح واقف تھے ۔اور یہ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ کو نہ حکومت کی چاہ تھی ۔نہ ہی جاہ وحشم کی خواہش تھی ۔ایک زمانہ آپ کی عزت کرتا تھا ۔مدینہ میں امن و سکون تھا ۔
امام حسنؑ نے معاویہ سے بربنائے مصلحت صلح کی تھی اور اس صلحنامہ کی چند شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ شہنشاہیت کو اپنے بعد اپنی اولاد میں منتقل نہیں کرے گا ۔لیکن معاویہ نے کسی شرط کا پاس نہ کیا اور اپنے بعد اپنے فاسق و فاجر بیٹے یزید کو تاج و تخت کا وارث قرار دے دیا۔بلکہ اپنی رعایا سے یزید کی بیعت کا وعدہ بھی لے لیا ۔معاویہ کے انتقال کے بعد یزید نے اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا ۔اور نہ صرف یہ کہ بادشاہت کا اعلان کیا بلکہ اپنی بیعت کی مہم بھی تیز تر کردی ۔لیکن یزید پلید یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر امام حسینؑ نے اس کی بیعت نہ کی تو وہ سکون سے حکومت نہ کرسکے گا ۔لہٰذا اس نے مدینہ کے گورنر کو خط لکھا کہ حسینؑ سے اس کی بیعت لے ۔اور اگر حسینؑ بیعت نہ کریں تو ان کا سرکاٹ کر اس کے پاس بھیجا جائے ۔
یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت سے مولا نے صاف انکار کردیا ۔اور مدینہ سے ہجرت کا فیصلہ کیا ۔نانا کے مدینہ کی بے حرمتی آپ کو گوارا نہیں تھی ۔آرام گاہ رسولؑ میں کشت وخون ہو ۔مولاحسینؑ یہ کیسے قبول فرماتے ۔آپ نے بدر جہ مجبوری مدینہ سے ہجرت کا فیصلہ کیا ۔آپ نے ایک مختصر سا قافلہ ترتیب دیا ۔اس قافلہ میں چند اصحاب اور رفقا تھے ۔اور عزیز تھے ۔جس میں مخدرات عصمت و عفت تھیں ۔کم سن بچے تھے ۔اور گنتی کے نوجوان تھے ۔اس قافلہ کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ جناب امام حسینؑ جنگ کے ارادے سے ہجرت فرمارہے ہیں ۔
آپ کی جدائی کا سب سے زیادہ صدمہ جناب صغرا کو تھا بوجہ علالت آپ سفر کے لائق نہیں تھیں ۔بدرجہ مجبوری آپ کو گھر پر چھوڑنا پڑرہا تھا ۔صغرا کو پدر بزرگوار اور اعزا کی مفارقت گوارا نہیں تھی ۔سب سے زیادہ صدمہ آپ کو ننھے علی اصغرؑ کی جدائی کا تھا ۔آپ اپنے بھائی علی اصغر ؑ سے بے انتہا محبت کرتی تھیں ۔علی اکبر ؑ نے بہن کو دلاسہ دیا کہ وہ مایوس نہ ہوں بہن کو واپس آکر لے جانے کا وعدہ کیا تو صغراؑ بھائی کے وعدہ پر اعتبار کر کے بہل گئیں ۔لیکن اصغرؑ کی جدائی بہت شاق تھی ۔مولا حسینؑ نے بربنائے مصلحت مکہ معظمہ کا سفر اختیار کیا ۔حج کا زمانہ قریب تھا ۔لیکن مکہ پہنچنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوا کہ حالات ان کے ناموافق ہیں ۔حج کو عمرہ میں تبدیل کر کے مولا نے کوفہ کا قصد کیا ۔کیونکہ اہل کوفہ نے خطوط لکھ کر آپ کی بیعت کا عندیہ دیا تھا ۔بلکہ بیعت کی یقین دہانی کرائی تھی ۔امام حسینؑ نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے اپنے چچا زاد بھائی جناب مسلم بن عقیل کو قبل ہی روانہ کردیا تھا سفر کے دوران آپ کو حضرت مسلم کی شہادت کی خبر ملی واپسی کا تو سوال ہی نہیں تھا ۔آپ نے سفر جاری رکھا ۔راہ میں حر نے آپ کا راستہ روکا آپ نے کربلا پہنچ کر نہر فرات کے کنارے اپنے خیمے نصب کر وائے اور سفر کے اختتام کا اعلان کیا ۔کربلا کا دشت گرمی کا موسم ۔غضب کی حدت ننھے ننھے بچوں کا ساتھ ۔دیکھتے دیکھتے کربلا کا میدان یزید کی ٹڈی دل فوج سے بھر گیا ۔پہلے تو آپ کے خیمے نہر فرات سے ہٹا کر دور نصب کرانے کا حکم دیا گیا۔آپ نے احتجاج نہیں کیا ۔؛پھر سات محرم سے اشقیانے پانی بند کر دیا ۔اور سختی سے حکم دے دیا کہ خیمہ حسینی میں ایک قطرہ پانی کا نہ جانےپائے۔فرات پر دشمنوں کا پہرہ لگ گیا ۔شدت تشنگی سے چھوٹے چھوٹے بچوں کا برا حال تھا ۔حد ہے کہ مادر اصغرؑ جناب رباب کا دودھ خشک ہوگیا ۔اصغر ؑ کی عمر اس وقت محض 6ماہ تھی ۔دودھ کی کون کہے بے شیر کو ایک قطرہ پانی کا نہیں ملا ۔معصوم بچے کے ہونٹ خشک ہوگئے چہرہ مبارک کمہلا گیا ۔ماں بچے کی حالت دیکھ کر تڑپنے کے سوا کچھ نہ کرسکی یہ بے بسی کی انتہا تھی ۔لیکن ظالموں کو رحم نہ آیا ۔فوج یزید نے اعلان جنگ کیا تو آقائے نامداد نے ابن زیاد سے ایک شب کی مہلت طلب کی تاکہ آخری رات عبادت خدا میں بسر کریں بہت مشکل سے ابن زیادنے ایک رات کی مہلت دی ۔آقانےصبرو سکون سے وہ رات اپنے اعزا اور اقربا کے ساتھ عبادت الٰہی میں گزاری۔اس رات خیمہ اطہار میں عجب منظر تھا ۔ہر بی بی بے چین تھی ۔مائیں اپنے بچوں کو آقاحسینؑ پر قربان ہونے کا درس دے رہی تھیں ۔بیوہ حسن ؑنے جناب قاسم ؑ سے لو لگائی تھی اور چچا پر جان قربان کرنے کی نصیحت فرما رہی تھیں ۔جناب زینب اپنے ننھے ننھے بچوں عون و محمد کو ماموں پر فدا ہونے کی تلقین فرمارہی تھیں ۔دودھ نہ بخشنے کی باتیں کر رہی تھیں ۔اور بچے ماں کو یقین دلارہے تھے کہ ان کے حکم کی تعمیل ہوگی ۔زینبؑ کا بس نہیں تھا کہ بھائی کی جان کیسے بچے ۔ان کے پاس ان دو بچوں کے سوا ہدیہ کرنے کوکچھ نہیں تھا ۔اگر کوئی ان کی جان مانگتا تو وہ خوشی سے بھائی پر قربان ہوجاتیں حضرت کلثوم دلگر فتہ تھیں کہ بھائی پر نثار کرنے کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں تھا ۔عباسؑ نے ان کی ڈھارس بندھائی ۔تسلی دی کہ وہ ان کی طرف سے آقا پر اپنی جان قربان کریں گے ۔ام کلثوم کو بھی اپنے بھائی حضرت عباسؑ پر بھروسہ تھا ۔ام لیلیٰ اپنے اٹھارہ برس والے کڑیل جوان کی صورت نہار رہی تھیں ۔یہ سوچ کر کلیجہ منھ کو آرہا تھا کہ کل یہ میدان جنگ کو سدھاریں گے ۔ہمشکل پیمبر ہیں شاید اعدا کو ان پر رحم آجائے اور انہیں شہید کرنے سے باز آجائیں ۔رباب اداس تھیں ان کے پاس ہدیہ کرنے کے لئے چھ ماہ کے علی اصغرؑ کے سوا کوئی نہیں تھا ۔
کربلا میں صبح کا سورج نمودار ہوا ۔رات بھر الہٰی میں مشغول رہنے کے باوجود قافلہ حسینی کا ہر فرد شہادت کے نشے سے سرشار تھا ۔جام شہادت نوش کرنے کا ثرور ۔مولا کی نفرت کرنے کا عزم اور جہاد کی سعادت حاصل کرنے کا ولولہ کم نہ تھا ۔حبیب ابن مظاہر جیسے ضعیفہ جھکی ہوئی کمر کو کس کے جنگ کے لئے تیار تھے ۔نوجوانوں کا جوش ان کی تیکھی چتونوں سے ظاہر تھا بازووں کی مچھلیاں پھڑک رہی تھیں ۔اور رگوں میں گرم گرم خون ابل رہا تھا ۔ایک طرف ہزاروں کا لشکر تھا ۔دوسری طرف تین روز کے بھوکے پیاسے بہتر نفوس تھے ۔صبح سے عصر تک جنگ کا سلسلہ جاری رہا۔کبھی حر نے اپنی جان مولا پر قربان کی ۔کبھی حبیب ابن مظاہر نے جوانوں جیسے ولولے سے جنگ کر کے جان نثار کی ۔اکبرؑ نے سینے پر برچھی کا پھل کھا کر بابا کو آواز دی ۔کبھی عون و محمد کی لاشیں حسین خیمے میں لائے عباس کو جنگ کی اجازت نہیں ملی ۔بس پانی کی سبیل کے لئے فرات پر مثک لے کر گئے اور شانے کٹا کر ترائی میں سورہے مظلوم امام نے صبر کیا ۔اب ہدیہ کرنے کے لئے کوئی نہیں باقی رہاتھا ۔مولا یکہ و تنہا تھے ۔میدان کربلا میں شہیدوں کے لاشے پڑے تھے ۔قاسم کی لاش گھوڑوں کے سموں سے پائمال ہو چکی تھی ۔خاندان کے گلشن کا ہر غنچہ اور ہر پھول اپنے خون میں نہایا ہوا تھا ۔جناب امام حسینؑ آخری رخصت کے لئے خیمہ عصمت میں تشریف لے گئے ۔آپ کی آواز سن کر علی اصغرؑ نے خود کو جھولے سے گرا دیا ۔شاید زبان بے زبانی سے عرض کررہے ہوں ،بابا ۔ ابھی آخری ہدیہ باقی ہے ۔میں کمسن ضرور ہوں ۔لیکن میرا دل جذبہ شہادت سے معمور ہے ۔مولانے ششماہے علی اصغر کو گود میں لیا ۔چہرۂ مبارک پر نظر ڈالی۔اور آپ کا دل خون ہوگیا ۔پیاس کی شدت سے ہونٹ خشک تھے ۔ضعف اتنا تھا کہ بہ مشکل آنکھیں کھول کر باپ کے رخ انور کی زیارت کی پپرط ائے ہوئے لبوں پر مسکراہٹ آئی گو یا زبان بے زبانی سے باپ کی تعظیم کر رہے ہوں ۔مولانے آپ کو سینے سے لگا لیا ۔اور مرجھائے ہوئے عارضوں کو بوسہ دیا ۔معصوم کی تشنگی پر دل تڑپ اٹھا ۔رباب نے عرض کی ۔آقا ۔چند قطرے پانی کے مل جاتے تو بچے کی زندگی بچ جاتی ۔معصوم پیاس سے جاں بلب ہے ۔آقا نے ماں کی تڑپ محسوس کی تو خود بھی تڑپ گئے ۔زینب نے حسرت سے کہا ۔بھیا کیا فوج اعدااس ننھے سے بچے کو بھی پانی نہیں دے گی اس کا کیا قصور ہے ۔یہ تو ابھی گھٹنیوں بھی نہیں چل سکتا ۔آقا نے فرمایا ۔بہن زینب یہ اعدا اس قدر شقی القلب ہیں کہ ان سے کسی ہمدردی کی امید نہیں ہے ۔پھر بھی میں کوشش کرتا ہوں ۔مولا بچے کو آغوش میں لئےخیمے سے باہر آئے دھوپ کی تمازت نا قابل برداشت تھی ۔آپ نے بچےپر عبا کا سایہ کیا ۔اور میدان میں تشریف لے گئے ۔ہر طرف شہدا کے لاشے پڑے تھے ۔اور فوج عدو کسی نئے ہدیے کی منتظر تھی ۔مقتل کا منظر اتنا ہولناک تھا کہ مولا نے اصغر کو چھاتی سے لگا کر گویا انہیں حوصلہ دیا ۔ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر مولا نے عبا کا دامن ہٹا یا اور فوج اعدا سے مخاطب ہو کر فرمایا۔اے مسلمانوں یہ بچہ تین دن کا بھوکا پیاسا ہے ۔تشنگی کی وجہ سے اس کی ماں کا دودھ خشک ہو گیا ہے ۔اگر اسے چند قطرہ آب مل جائے تو اس کی زندگی ہو جائے ۔فوج اعدا نے کوئی جواب نہیں دیا ۔مولا نے پھر فرمایا ۔اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ بچے کے بہانے حسین ؑ پانی مانگ رہا ہے تو تم خود اپنے ہاتھ سے پانی پلادو ۔علی اصغرؑ نے سوکھے ہوئے لبوں پر ننھی سی زبان پھرائی گویا اپنی پیاس کا اظہار کر رہے ہوں ۔فوج اعدا میں ہلچل مچ گئی ۔اولاد والے منہ پھیر کر رو دیئے ۔مولا نے علی اصغرؑ کو جلتی ہوئی ریت پر لٹا دیا اور چند قدم پیچھے ہٹ گئے ۔ابن سعد نے دیکھا کہ فوج میں اضطراب پیدا ہوگیا ہے اور اعدا اس ننھے سے بچے کی پیاس دیکھ کر قائل ہو رہے ہیں تو ۔وہ بھی گھبرا گیا ۔مولا نے مایوس ہو کر بچے کو گود میں اٹھالیا ۔ایک نظر آسمان کی طرف دیکھا اور بچے کو سینے سے لگالیا ۔
اولاد والے روئے اصغرؑ کی تشنگی پر
سوکھی زباں دکھا کر جس دم کیا اشارہ
( مسرور جہاں )
فوج یزید میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں ۔یہ حال دیکھ کر ابن سعد نے حر ملہ سے کہا ۔کیا دیکھتا ہے ۔حسینؑ کا سوال آب منقطع کر دے ۔حر ملہ نے چلے پر تیرسبہ شعبہ چڑھایا ۔اور اصغرؑ کے گلے کا نشانہ لے کر تیر چھوڑ دیا ۔بچہ باپ کے ہاتھوں پر منقلب ہوگیا ۔گلوئے صغیر کے ساتھ بازوے حسینؑ میں بھی تیر پیوست ہوگیا تھا ۔دنیائے جبر و تشدد حیران رہ گئی ۔ظلم کو شرم آگئی ۔استبدادنے اس سے بڑا ظلم چشم گناہگار سے نہیں دیکھا تھا ۔بچے کے لبوں پر مسکراہٹ منجمد ہوگئی ۔شاید زبان بے زبانی سے کہہ رہے ہوں کہ دیکھو علی ؑ کے گھرانے والے اس طرح ہنستے ہنستے جان دیتے ہیں ۔اور رسول ؑ کے گھر کا بچہ بچہ بہادری اور ایثار میں جوانوں سے کم نہیں ہے ۔یہ بنی ہاشم کے گھرانے کا چشم و چراغ تھا ۔جس کی قربانی نے قیامت تک کے لئے مثال قائم کردی ۔یہی فوج حسینی کا ننھا مجاہد تھا ۔امام حسینؑ نے حسرت سے اصغرؑ کا چہرہ دیکھا فرمایا ۔بیٹا۔کیا تم جیسے بچے بھی نہر کیئے جاتے ہیں ۔آپ نے علی اصغرؑ کے حلقوم سے تیر کھینچا ۔اپنے چلو میں خون لیا اور آسمان کا رخ کیا تو صدا آئی ۔مولا اگر خون اصغر کا ایک قطرہ بھی آسمان تک آیا تو قیامت تک ایک بوند پانی کے لئے دنیا ترس جائے گی ۔ناچار مولانے زمین کا رخ کیا تو آواز آئی ۔مولا خون علی اصغرؑ کا ایک قطرہ زمین پر گرا تو ایک دانہ اناج کا نہیں پیدا ہوگا ۔مجبور مولا نے خون اصغرؑ اپنے چہرہ مبارک پر مل لیا فرمایا
انکار آسماں کو ہے راضی زمیں نہیں
اصغرؑ تمہارے خوں کا ٹھکانہ کہیں نہیں
امام مظلوم دلگرفتہ اور شرمندہ ننھی سی لاش خیمہ عصمت و طہارت میں لے گئے ۔رباب نے اصغرؑ کو دیکھا تو غش کھا گئیں ۔زینب و کلثوم پچھاڑیں کھانے لگیں سکینہ نے کہا ،بابا کیا اصغرؑ کو پانی پلالائے ۔یہ کلمہ سن کر بیبیوں میں کہرام بپا ہوگیا ۔رباب کو ہوش آیا تو شکوہ کیا ۔مولا،۔آپ تو میرے بچے کو پانی پلانے لے گئے ۔مولا نے جواب دیا اور بیبیوں کو تسلی دلاسہ دے کر اصغرؑ کی ننھی سی لاش گود میں لے کر خیمہ سے باہر تشریف لائے ۔کسی روایت میں نہیں ملتا کہ امام حسین ؑ نے کسی شہید کی قبر بنائی ہو ۔لیکن روایت ہے کہ مولا نے نیزہ سے ننھی سی قبر بنائی اور علی اصغرؑ کو دفن کیا ۔شاید مولا جانتے تھے کہ بعد ان کی شہادت کے اشقیا شہیدوں کے لاشے پائمال کریںگے ۔اصغرؑ کا ننھا سا لاشہ گھوڑوں سے پائمال ہوکر بے نام و نشان رہ جائے گا ۔یہی سبب ہوگا کہ مولا نے علی اصغرؑ کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔
ذرا آرام سے رکھنا زمین کربلا اس کو
اٹھے روتے ہوئے یہ کہہ کے سرور قبر اصغرؑ سے
ضضض