فن سوانح نگاری اور ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی

0
1665

ڈاکٹر ہارون رشید

اردو ادب کی دیگر اصناف کے مقابلے میں سوانح عمری کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے۔۱۸۵۷ء سے قبل اردو نثر عہد طفولیت میں تھی۔اسی دور میں سوانح نویسی کا آغاز ہو چکا تھا۔اردو زبان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ سر سید کے زمانے ہی سے ہر لحاظ سے مکمل سوانح عمریاں ادب میں وجود میں آ چکی تھیں۔یہ حقیقیت کسی سے پو شیدہ نہیں کہ ہر صنفِ ادب کی طرح سوانح نگاری کے فن میں بھی اردو ادب نے ابتدا میں عربی و فارسی کا تتبع کیا۔سوانح نگاری کی اہم اور قدیم شاخ سیرت نگاری ہے۔مسلمانوں نے فنِ سوانح نگاری میں سب سے پہلے اسی شعبے کو فروغ دیا۔قدما کے ہاں افراد کے مقابلے میں اجتماعی سوانح نگاری کا رجحان زیادہ رہا۔یہی وجہ ہے کہ پرانے ادب میں تذکرہ نگاری کے فن کو ترقی ملی۔انفرادی سوانح عمریوں میں بادشاہوں کی سوانح جو سوانح سے زیادہ تاریخ معلوم ہوتی۔ یا اولیاء کرام کی سوانح عمریاں لکھی جاتی جن میں سوانح کم اور اولیاء کے معجزات کا بیان زیادہ ملتا ہے۔اردو ادب میں سوانح نگاروں نے اسی ادب سے فائدہ اٹھایا۔حالی سے قبل اردو ادب میں سوانح نگاری کی مستند روایت نہیں ملتی۔تذکرہ نگاری کی روایت اس سے پہلے موجود تھی جسے مکمل سوانح نگاری نہیں کہا جا سکتا۔سر سید کی تحریک کے تحت ارود میں سوانح نگاری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ مغربی اثرات کے نفوذ کے بعد اردو ادب میں سوانح نگاری کی ابتدائی کوششوں میں کسی حد تک مناظرانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ اردو ادب میںمولانا الطاف حسین حالی ہی وہ شخصیت ہیں جنہیں اردو کے اوّلین نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ اوّلین سوانح نگار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ان کی سوانح عمریاں خصوصًا’’حیات ِ جاوید‘‘ اردو ادب میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔حقیقی معنوں میں یہی اردو کی پہلی با ضابطہ اور باقاعدہ سوانح عمر ی ہے۔حیاتِ جاوید سے پہلے حالی کی تصنیف کردہ دو سوانح عمریاں’’حیاتِ سعدی‘‘ اور’’ یاد گارِ غالب‘‘منظر عام پر آچکی تھیں۔ان دو کتب کے تالیفی مراحل سے گزرتے ہوئے حالی کا سوانحی شعور ارتقا پذیر رہا۔’’حیاتِ جاوید‘‘ میں یہ شعور پہلے سے کہیں پختہ صورت میں سامنے آیا۔اس تصنیف کے سلسلے میں سر سید تحریک کے زیرِ اثر مغربی ادبیات کے محدود مطالعے سے حاصل ہونے والی تحقیقی و تصنیفی سمجھ بوجھ کو کام میں لایا گیا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی رقم طراز ہیں:
’’بلاشبہ حیاتِ جاوید میں خامیاں اور کوتاہیاں موجود ہیں،اس کےباوجود حالی کا ذخیرہ سوانح عمری قابلِ ستائش ہے۔‘‘
حالی کے معاصرین میںسوانح نگاری میں شبلی کا نام اہم ہے۔شبلی کی سوانح نگاری کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ وہ رسول اکرم ﷺ اور حضرت عمرِ فاروق ؓ جیسی مقدس ہستیوں کے سوانح نگار ہیں۔ــ’’سیرۃ النبیﷺ ‘‘کے بعد’’الفاروق‘‘ شبلی کی بہترین تصنیف ہے اور سوانحی لحاظ سے مکمل اورمفصل ہے۔’’الفاروق ‘‘میں شبلی ایک اچھے سوانح نگار بھی ثابت ہوئے ہیں اور ایک اچھے مؤرخ بھی۔ڈاکٹر سید شاہ علی ’’الفاروق‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’حیات ِ جاوید کے بعد جامعیت اور تکمیل وغیرہ کے لحاظ سے اردوکی نو تعمیری اور تجدیدی سوانح عمریوں میں اگر کسی کتاب کا نام لیا جا سکتا ہے تو وہ الفاروق ہے‘‘
حالی و شبلی کے معاصرین میں جن حضرات نے سوانح نگاری کے میدان میں طبع آزامائی کی ان میںذکاء اللہ،نذیر احمد،چراغ علی او رعبد الحلیم شرر وغیرہم کے نام اہم ہیں۔مولوی ذکاء اللہ کی اہم تصانیف میں’’ تاریخِ ہندوستان‘‘ جو دس جلدوں پر مشتمل ہے’’آئینِ قیصری‘‘ ملکہ وکٹوریہ کی سوانح،شامل ہیں۔ حالی اور شبلی کے بعد آنے والے سوانح نگاروں نے ان دو نوں کی روایت سے فائدہ اٹھایا۔جس کے نتیجے میں اردو ادب کے سوانح عمریوں کے اثاثے میں گراں قدر اضافہ ہوا۔دار المصنفین کے سوانح نگاروں نے حالی و شبلی کی روایت کی آبیاری میں علمی ولولے کے ساتھ حصّہ لیا۔سید سلیمان ندوی نے سیرت النبیﷺ کی تدوین و تکمیل کرنے کے ساتھ ساتھ حیاتِ مالک،سیرتِ عائشہؓاور حیاتِ شبلی لکھ کر سوانح نگاری کی روایت کو آگے بڑھایا۔افتخارعالم کی’’حیات النذیر‘‘اکرام اللہ ندوی کی’’وقارِحیات‘‘،رئیس احمد جعفری کی’’سیرتِ محمد علی‘‘افضل حسین ثابت کیـ’’حیاتِ دبیر‘‘اور قاضی محمد عبد الغفار کی سوانح عمری’’آثار جمال الدین افغانی‘‘اس دور کی چند اہم سوانح عمریاں ہیں۔اس دور کی سوانح عمریوں کا سر چشمہ تحریک جذبہ احیائے قومی ہے۔چنانچہ یہ سوانح عمریاں ناموروں کی یادگار کی بجائے قوم کی ترقی کے خیال سے لکھی گئیں۔

بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں تک اردو ادب میں سینکڑوں سوانح عمریاں وجود میں آ چکی تھیں۔غالب کے تعلق سے تین اہم سوانحات،بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میںسامنے آئیں۔غلام رسول مہر کی ’’غالب‘‘ شیخ محمد اکرم کی سوانح عمری’’غالب نامہ‘‘اور مالک رام کی’’ذکرِ غالب‘‘۔مالک رام کی تحقیقی کاوش’’ذکرِ غالب(۱۹۳۸ء)‘‘اپنے دور اور غالب کی سوانح عمریوں میں قابلِ لحاظ ہے۔بلاشبہ یہ ایک محققانہ،مسرت بخش،مختصر مگر جامع سوانح ہے۔
غلام رسول مہر کی سوانح عمری’’سیرت سید احمد شہید‘‘اردو سوانح عمریوں کے سلسلے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔اقبال کی سوانح عمریوں میں ڈاکٹر عبد السلام خورشید کی’’سرگزشتِ اقبال‘‘سید نذیر نیازی کی ’’دانائے راز‘‘محمد حنیف شاہد کیــ’’ مفکرِ پاکستان‘‘اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی’’زندہ رود‘‘ ارود کے سوانحی ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے قومی و ملی ہیروزپر بہت سی سوانح عمریاں چھپیں۔ ان سوانح عمریوںمیں جہاں بہت سے تاریخی حقائق سے پردہ اٹھتا ہے وہاں ان تخلیقات پر مغربی سوانح نگاروں کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔
سوانح عمری ایک انسان کی پیدائش ،خاندان،تعلیم،مشاغل زندگی اور وفات کا بیان ہی نہیں بلکہ فرد کے ظاہر و باطن،عادات و اطوار،اخلاق و معاشرت،وراثت او نفسیاتی کیفیت اور اس کی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان ہے۔اس طرح سوانح عمری سے مراد ہے کہ عہد یا دور،نسل اور ماحول جیسے اثر ڈالنے والنے عوامل کے حوالے سے کسی شخص کی داخلی اور خارجی زندگی کے تمام اہم پہلووں کا ایسا جامع مفصل اور اور معروضی مطالعہ جو اس کی زندگی کے ارتقا اور اس کے ظاہر و باطن کو روشنی میں لا کر اس کی ایک قد آدم اور جیتی جاگتی تصویر پیش کرے۔
سوانح نگاری کے اس مختصر تعریف اور اجمالی ارتقائی سفر کے جائزے کے بعد اگر ہم ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی کی تصنبیف کردہ کتاب ’’داستان مائل ملیح آبادی‘‘پر گفتگو کریں توہو سکتا ہے کہ آپ ڈاکٹر عصمت کی اس کتاب کو سوانح سے تعبیر کئے جانے پر معترض ہوں۔ اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ خود ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے اس کتاب کو ’’مائل ملیح آبادی کی شعری و ادبی خدمات کا تنقیدی جائزہ لینے والا تحقیقی مقالہ کہا ہے۔ لیکن سوانح نگاری کے اصولوں کے تحت اگر اس کتاب پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عصمت ملیح آبادی (جوخود ایک افسانہ نگار،شاعر اور تخلیقی تنقید نگار بھی ہیں) نےمائل ملیح آبادی کے فن (شاعری افسانہ اور ناول نگاری) پر گفتگو کرنے سے قبل ،ملیح آباد کی ابتدائی تاریخ،ملیح آباد کی علمی و ادبی فضااورمائل ملیح آبادی کے اسلاف پر گفتگو کی ہے جس کے مطالعہ کے بغیر مائل ملیح آبادی کی شخصیت کی تفہیم ممکن نہیں ہے ۔علاوہ ازیں انھوں نے مائل ملیح آبادی کے حیدرآباد کے سفرکا بھی تذکرہ کیا ہے۔بعدہ مصنف نے مائل ملیح آبادی کے ناول ہی پر گفتگو نہیں کی بلکہ مائل کی شاعرانہ قدر و قیمت کا بھی جائزہ لیا ہے اور ان کی غیر افسانوی نثر نگاری کا بھی ذکر کیا ہے اس طرح سے داستان ملیح آبادی ایک تحقیقی و تنقیدی مقالہ کے ساتھ ہی مائل کی ادبی سوانح کے روپ میں سامنے آتی ہے۔عصمت ملیح آبادی نے اس کتاب میں اپنے والد ماجد مائل ملیح آبادی کی حیات کےہر اس گوشے کو روشن کرنے کی کوشش کی ہے جس کا روشنی میں آنا ضروری تھا۔اور ان کی خدمات کے جن اسرار و رموزپر مصنف نے گفتگو کی ہے وہ انھی کا حق اور حصہ ہے،انھوں نے اپنے والد کو کس طرح دیکھا ہے اس کتاب سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔
مائل ملیح آبادی کے بارے میں باذوق حضرات جانتے ہیں کہ وہ ایک زود نویس ناول نگار تھے انھوں نے تقریبا سو ناول لکھے ۔لیکن یہ کم لوگ جانتے ہین کہ مائل ملیح آبادی نے شاعری بھی کی،افسانے بھی لکھے،صحافت بھی کی اور سیر و سیاحت کا لطف بھی اٹھایا۔ملاحظہ ہو اقتباس:
’’مائل ملیح آبادی ایک مستقل مزاج انسان تھے نا مساعد حالات میں بھی ہمت و استحکام و ثبات ان کامزاج تھا۔اپنی پانچ بیتیوں اور تین0 بیٹوں کی تعلیم،شادیاں اور پرورش کے ساتھ ہی انھوں نے سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں ،اور طالب علموں ی تحریکوں مین جیل بی گئے پولیس کی لاتھیان بھی کھائیں،ناول بھی لکھے،شاعری بھی کی،۔صحافت بھی کی،اور فوجداریان بھی کیں،اور سیر و سیاحت کا لطف بھی ٹھایا۔۔۔۔وہ تہنائی پسند اور خاموش مزاج انسان تھے،جہلا کی محفل میں خاموش رہتے تھے لیکن جب کسی موضوع پر گفتگو شروع کرتے تو علم کے دریا بہا دیتے۔تاریخ اسلامیات کا طالعہ بہت عمیق تھا۔سیرت کی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا سیرت ابن ہشام تقریبا حفظ تھی،عزیزوں کے ساتھ روادار ضرورت مندوں کی معاون و مددگار ،پڑوسیوں کے غم گسار تھجے،اپنے باغات اور زمینوں کی اناج اور پھل کا عشر ضرور نکالتے تھے اور فرماتے تھے کہ عشرفصلوں میں برکت پیدا کرتا ہے۔‘‘
مائل ملیح آبادی کا حلیہ بیان کرتے ہوئے عصمت ملیح آبادی لکھتے ہیں:
لانبا قد،سفید رنگت،ہری آنکھین،مولانا آزاد جیسی ڈاڑھی،ہونٹوں پر مسکراہٹ،چہرے پر خاندانی شروفت،وجاہت،زندگی بھر گاؤں کے بلا مقابلہ سرپنچ رہے۔۔۔مائل صاحب دن بھر کے کاموں سے فارغ ہو کر رات میں لالٹین کی روشنی میں ناول لکھتے ان کا ذریعہ اظہار ناول ہی تھا۔کعبے سے کربلا تک،اپنا گھر،نیا آدمی،آبرو،بازار،یہ زندگی کے میلے،سکھ،معمار،اور پاسبان ان کے بہت مشہور ناول ہیں۔عصمت ملیح آباد کے مطابق مائل ملیح آبادی کی شاعری اور ناولوں ترقی پسند افاکر و خٰلات ابتدا سے آخر تک کارفرما رہے۔وہ باقاعدہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے اور اور زندگی کے آخری لمحات تک سرمایہ دارانہ فکر کے مخالف رہے۔وہ خاکسار تحریک الہند کے قائد بھی تھے‘‘
مائل م،ہیح بادی نے شاعری اور ناول نگاری کے علاوہ تاریخی افسانے بھی لکھے ہیں جو ماہنامہ ’’دین دنیا‘‘دہلی میں شائع ہوئےبعد میں ماہنامہ کے مدیر مفتی شوکت علی فہمی نے ان افسانوں کے دو مجموعوں کی ’’درا شکوہ کی رقاصہ‘‘اور بہادر شاہ کی کنیز‘‘کی شکل میں نہ صرف شائع کیا۔بلکہ تعارف نامے میں انھوں نے مائل ملیح آبادی کو اس وقت کے ہندوستان کے کہنہ مشق افسانہ نگاروں میں شمار کرتے ہوئے لکھا

’’مائل ملیح آبادی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں میں روانی بھی ہوتی ہے اور واقعات کا تسلل بھی ہوتا ہے اور رومانی چاشنی بھیمناسب حد تک پائی جاتی ہے۔ان کے افسانوں کی سب سے بری خوبی یہ ہے کہ پڑھنے والا افسانوں میں کھو جاتا ہے اور افسانوی واقعات اس کے سامنے حقیقت بنکر کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ ایسی خوبی ہے کہ جسے بجا طور افسانہ نگاری کا معراج کہا جاسکتا ہے‘‘
چونکہ مصنف مائل ملیح آباد کی فرزند ارجمند ہیں اس لئے یہ گمان غالب تھا کہ مائل ملح آبادی کے فن پر گفگو کرتے وقت مصنف جانبداری کا شکار ہو جائے گا۔لیکن جب ہم کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہےکہ ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے خود کو کیسے غیر جانبدار رکھا ہے۔شاعری پر گفتگو کی ایک مثال پیش کر کے مضمون ختم کرتا ہوں۔
’’مائل ملیح آبادی نے اپنی شاعری اور زندگی کا تعاراف کراتے ہوئے ۱۹۳۴ سے ۱۹۸۷ کے دوران کہے گئے کلام کے بارے میں لکھا کہ یہ کلام ہندوستان کی سیاسی صورت حال کا دھندلہ سا آئینہ ہے تحریک خلافت کی مدت سے اگر ۱۹۲۴ تک رکھی جائے تو اس وقت میری عمر سات سال تھی پورا خاندان تحریک کے سلسلے میں جیل جا چکا تھا سن ۲۴ سے۳۴ تک شعر کہتا رہا تھا لیکن اس وقت صرف ۳۴ سے بچا کھچا کلام ہی اس مجموعہ میں شامل ہے ۔آگے لکھتے ہیں کہ ۳۷ میں حیدراآباد کا سفر کیا ۳۹ سے ۴۱ تک کلکتے میں رہا۔۴۱ کی تحریک میں روپوشی کے بعد ۴۷ کی آزادی تک مسلم لیگ اور کانگریس کے معرکے جاری رہے۔۴۷ کے بعد ہندو مسلم کے فساد کے خونی معرکے اور سرمایہ داروںکی معاشی گرفت کا دور دورہ رہا۔اگر آپ اس سیاسی سفر کو ذہن میں رکھ کر اس کلام کو پڑھیں تو اس کی اہمیت صرف اتنی نظر آئے گی کہ یہ منتشر خیالات آزادی کی تاریخ کاایک حصہ ہیں اور اسی بنیا د پر یہ لایعنی کلام نہیں بلکہ کلام مستحکم ہے۔
عصمت ملیح آبادی یہاں اپنے والد مائل ملیح بادی سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی غیرجانبدارانہ تنقیدی روئے کا اظہار کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ
مائل ملیح آبادی جسے کلام مستحکم کہہ کر پیش کر رہے ہیں میں انھیں منتشر خیالات کا مجموعہ تصور کرتا ہوں،کیونکہ افکار و خیالات میں بھی استحکام نہیں ہے اور ترتیب میں بھی انتشار پایا جاتا ہے۔
مائل ملیح آبادی کے ساتھ اردو تنقید نے انصاف نہیں کیا ۔یونیورسٹیز میں بھی ان سے حد درجہ کمتر تخلیق کاروں پرتحقیقی مقالے لکھے گئے لیکن سو سے زیادہ ناول تصنیف کرنے والے مائل ملیح آبادی کے فن پر توجہ نہیں کی گئی۔ناول بھی ایسے کہ جن کا انتظار قارئین بڑی دلجمعی سے کیا کرتے تھے۔بلا شبہ ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے اپنے والد کی شخصیت اور فن پر جو گراںقدر مقالہ تحریر کیا ہے اس سے ایک طرف تومائل ملیح آبادی کی ذہنی نشونما ان کی تخلیقی فکراور فن اور ان کے عہد کے فکری مزاج نیز سیاسی و سماجی پہلووں پر خاطرخواہ روشنی پڑ تی ہےساتھ ہی ملیح آباد کی تاریخ اور اس کی تہذیب پر بھی کافی کچھ مواد فراہم کرتی ہے۔اس کتاب کے آنے کے بعد امید کی جانا چاہئے کہ ناقدان فن مائل ملیح آبادی کے فکر وفن کی طرف متوجہ ہوں گے اور منطقی و معروضی مطالعہ کے بعدان کے فن کے مضمرات پر مزید روشنی ڈالیں گے تاکہ مائل ملیح آبادی کے فن کے ساتھ انصاف ہو سکے۔میں مبارکباد دیتا ہوں کہ ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے نہ صرف ایک بیٹے کا فرض ادا کیا بلکہ ادب کےایک سچے طالب علم ہونے کا بھی فرض ادا کرتے ہوئے ’’داستان مائل ملیح آبادی‘‘ کے ذریعہ مائل فہمی کا ایک ایساروشن باب وا کیا ہے ۔جس سے استفادہ کئے بغیر مائل فہمی پر گفتگو دائرہ امکان سے خارج ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here