معصوم مرادآبادی
30اپریل کی رات ممبئی سے برادرم ندیم صدیقی نے یہ اندوہناک خبر سنائی کہ فضیل صاحب اس دنیامیں نہیں رہے۔ میںنے اناللہ واناالیہ راجعون پڑھ کر کچھ تفصیل جاننے کی کوشش کی تو رابطہ منقطع ہوگیا۔ فون ملایا تودیر تک انگیج ٹون سنائی دیتی رہی۔ بے چینی بڑھ رہی تھی کہ اسی حالت میں کچھ سوچے سمجھے بغیر میں نے براہ راست فضیل جعفری صاحب کا نمبر ملادیا کہ شاید ان کے گھر میں کوئی تفصیل بتاسکے لیکن خلاف معمول ان کا فون سوئچ آف تھا۔میری پریشانی اور الجھن میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ فضیل صاحب کبھی اپنا فون بند نہیں کیا کرتے تھے اور میں اکثر ان سے باتیں کرتا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے سے مجھے ان کی گفتگو میں کچھ اضمحلال اور تھکاوٹ ضرور محسوس ہورہی تھی۔ لیکن یہ اندازہ قطعی نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گے۔ یوں بھی وہ عمر اور بیماریوں کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ بمبئی کے احباب کو شکایت ہے کہ وہاں فضیل صاحب کے جنازے میں شرکاء کی تعداد نسبتاً کم تھی اور یہاں دہلی میں مجھے محسوس ہوا کہ کسی اردو ادارے نے ان کے انتقال پر تعزیتی بیان تک جاری نہیں کیا۔جبکہ یہاں معمولی ادیبوں اور شاعروں کے انتقال پر اس قسم کے بیانات کا جاری ہونا ایک عام بات ہے۔یہ دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ فضیل صاحب زمانہ ساز اور شہرت پسند لوگوں میں مقبول نہیں تھے۔ مجھے ان کی شخصیت کا جو پہلو سب سے زیادہ متاثر کرتا تھا، وہ ان کی قناعت پسندی اور استغناتھاجو اس دور میں بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔فضیل صاحب کی ایک اور خوبی جو مجھے متاثر کرتی تھی، وہ ان کی گوشہ نشینی تھی اور اگر سچ کہوں تو وہ خانقاہی مزاج کے آدمی تھے۔ اپنی ہی دنیا میں مگن رہنا انہیں سب سے زیادہ پسند تھا۔
فضیل صاحب بمبئی کے باسی ضرور تھے لیکن ان کے قریبی دوست دہلی میں آباد تھے اور وہ بڑی چاہت کے ساتھ اکثر ان سے ملنے دہلی آتے تھے۔ لیکن جب یکے بعد دیگرے ان کے یہ دوست اللہ کو پیارے ہوتے گئے تودہلی سے ان کا رشتہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب کبھی میں ان سے دہلی آنے کی درخواست کرتا تو وہ رندھی ہوئی آواز میں کہتے میاں اب وہاں کون بچا ہے۔ محبوب الرحمن فاروقی بھی چلے گئے۔ نورجہاں ثروت بھی رخصت ہوگئیں۔ زبیر رضوی نے بھی داغ مفارقت دے دیا۔ ایک لے دے کر ڈاکٹر اسلم پرویز بچے تھے ،وہ بھی دغا دے گئے۔ دہلی میں یہ چارلوگ ہی ایسے تھے جنہیں وہ عزیز رکھتے تھے۔ مگر ان کا سب سے گہرا تعلق ’آج کل‘ کے سابق مدیر محبوب الرحمن فاروقی مرحوم سے تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے قدردان تھے اور ان دونوں کے گھریلو مراسم بھی بہت مضبوط تھے۔ فضیل صاحب اور محبوب الرحمن صاحب میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں ہی اپنی رائے کا اظہار بڑی بے باکی اور جرأت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ فضیل صاحب کی طرح محبوب الرحمن صاحب بھی کسی مصلحت کے اسیر نہیں تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو حد درجہ پسند کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ فضیل صاحب محبوب الرحمن فاروقی صاحب کے بڑے بیٹے محمود فاروقی کے ولیمے میں شرکت کے لئے بطور خاص ممبئی سے دہلی تشریف لائے تھے۔ پنڈارہ روڈ کے کمیونٹی سینٹر میں ولیمے کی تقریب کے دوران کسی نے فضیل صاحب سے پوچھا کہ وہ کل شادی میں نظر نہیں آئے تو انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ ’’دراصل ڈاکٹر نے مجھے دوروز لگاتار ادیبوں اور شاعروں کو دیکھنے سے منع کررکھا ہے۔‘‘ ان کے اس جواب پر سب لوگ ہنس پڑے۔
دہلی ہی نہیں ممبئی میں بھی فضیل جعفری کے حقیقی دوستوں کا حلقہ بہت وسیع نہیں تھا۔ حالانکہ ان کے چاہنے والوں اور ان کے علمی وادبی کارناموں کا اعتراف کرنے والوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی لیکن ان کے حلقہ احباب میں وہی لوگ شامل ہوسکتے تھے جو ان کی صاف گوئی، جرأت مندی اور بے باکی کو برداشت کرنے کا یارارکھتے تھے۔ ان میں بے شمار خوبیاں تھیں اور ان کا علمی وادبی مرتبہ تو اپنے عہد کے تمام قلم کاروں میں سب سے بلند تھا۔ مگر فضیل صاحب کی سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ وہ صاف گو بہت تھے۔ اسی لئے نرگسی مزاج رکھنے والے لوگ ان سے بہت جلد ناراض ہوجاتے تھے۔ وہ کسی قسم کی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیتے تھے کیونکہ انہیں کبھی کسی سے کوئی کام نہیں پڑتا تھا۔ بس اپنی سی زندگی گزارنے کا انہیں جنون تھا۔ وہ کبھی اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ ادبی حلقوں میں بھی ان کا کوئی گروپ اس لئے نہیں تھا کہ وہ کسی کی بے جا تعریف وتوصیف یا جھوٹی مدح سرائی نہیں کرتے تھے۔ ہمارے ادبی حلقوں میں عام طورپر لوگ ایک دوسرے کی قصیدہ خوانی کرکے اپنے لئے جگہ بناتے ہیں اورلابنگ کے ذریعہ دنیاوی فائدے اور عیش وآرام کے سامان مہیا کرتے ہیں۔ لیکن فضیل صاحب نے تمام زندگی کبھی کسی کی جھوٹی تعریف نہیں کی۔ وہ ہمیشہ سچ ہی بولتے رہے اور سچ بولتے بولتے جھوٹے لوگوں کی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے تمام عمر نہ تو اپنے لئے کسی ایوارڈ یا اعزاز کی خواہش کی اور نہ ہی بیساکھیوں کے سہارے اپنا قدبلند کیا۔ اسی لئے ان کے ڈرائنگ روم میں رنگ برنگے ایوارڈوں کی بجائے نہایت قیمتی کتابیں نظر آتی تھیں۔ ان میں اردو اور انگریزی کتابوں کی تعداد لگ بھگ برابر تھی۔ وہ اردو کے جتنے بڑے رمز شناس تھے، اتنے ہی انگریزی کے بھی عالم تھے لیکن انہوں نے کبھی اپنی انگریز ی دانی کا رعب نہیں دکھایا۔ لوگ اکثر انہیں اپنی کتابیں تبصرے کے لئے روانہ کرتے تھے۔ اگر کوئی کتاب قابل ذکر ہوتی یا اس کا علم وادب سے کوئی علاقہ ہوتا تو وہ اس پر ضرور اظہار خیال کرتے لیکن غیر ضروری کتابوں کو وہ کبھی منہ نہیں لگاتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے اپنے شعری مجموعے پر ان سے کچھ لکھنے کے لئے اصرار کیا۔ وہ مجبور ہوگئے تو انہوں نے چند سطروں کا ایک تبصرہ لکھ کر آخر میں یہ بھی لکھ دیا کہ’’ اگر موصوف اس کتاب پر خرچ ہونے والی رقم کسی یتیم خانے کو عطیہ کردیتے تو ان کے نامہ اعمال میں کچھ نیکیوں کا اضافہ ضرور ہوجاتا۔ ‘‘
فضیل صاحب کو یاد کرتا ہوں تو ان کی بہت سی کھٹی میٹھی باتیں یاد آنے لگتی ہیں۔ وہ ادیب تھے، صحافی تھے، شاعر اور نقاد بھی تھے۔ انہوں نے ادب کی جس صنف میں قدم رکھا ،وہ وہاں سے سرخرو اور کامران ہوکر گزرے۔ اب سے کوئی 16برس پہلے جب بمبئی میں’ انقلاب‘ کے دفتر میں ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے حسب عادت کچھ ایسی باتیں کہیں جو مجھے اچھی نہیں لگیں۔ لیکن دوسرے ہی لمحے انہوں نے میری دلجوئی کی اور اپنے پاس بٹھالیا۔ اتفاق سے اس روز پروفیسر شمیم حنفی بھی وہاں موجود تھے، جو ان کے بہت قریبی دوست اور کالج کے ساتھی تھے۔ ان دونوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ جعفری صاحب کے جس ہنر نے مجھے اپنا گرویدہ بنایا تھا، وہ دراصل ان کی اداریہ نویسی کا ہنر تھا۔ میں اکثر ان کے اداریے بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔’ انقلاب‘ کے علاوہ ہفتہ وار ’بلٹز‘ میں بھی کچھ عرصہ آخری صفحے پر شائع ہونے والی ان کی تحریروں سے استفادہ کا موقع ملا۔ فضیل صاحب نے جو کچھ بھی لکھا اس کا علمی ، ادبی اور صحافتی حلقوں میں زوردار خیرمقدم کیاگیا۔ وہ برصغیر کے انتہائی معتبر اور معروف نقادوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے مغربی ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کا عکس ان کی گفتگو اور تحریروں میں صاف نظر آتا تھا۔ وہ بے باک تنقیدی رویے کے حامل تھے۔ انہوں نے بوجھل نہیں بلکہ بڑی شگفتہ تنقیدلکھی اور ادبی حلقوں میں اپنا نام پیدا کیا۔ ان کے تنقیدی مضامین بڑے چاؤ سے پڑھے جاتے تھے۔ شاعری میں بھی ان کے تیور ان کی طرح دار شخصیت کی طرح بالکل جداگانہ تھے۔ اس میں بھرپور طنز بھی تھا اور عصری مسائل ومصائب کے تئیں جذبات واحساسات کا تخلیقی اظہار بھی۔وہ فراق گورکھپوری کو غالب کے بعد سب سے بڑا شاعر مانتے تھے۔ نئے شاعروں میں وہ عنبر بہرائچی اور صلاح الدین پرویز کو پسند کرتے تھے۔ وہ عہد حاضر کے نقادوں کی بے راہ روی سے خائف تھے اور ان کے مطالعہ نہ کرنے کی عادت کو تمام خرابیوں کی جڑ سمجھتے تھے۔ بقول ان کے قاضی سلیم جیسے شاعر کو بھی نقادوں نہیں پڑھا۔ فکشن نگاروں میں وہ سب سے زیادہ سریندر پرکاش کو پسند کرتے تھے۔ فضیل صاحب جدیدیت کے علمبردار تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ خود کو چھوٹا موٹا مارکسی بھی سمجھتے تھے۔ وہ ساختیات کو ام الخبائث سے تشبیہ دیتے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنی کتابیں خود چھپوا کر مفت تقسیم کرنے کا نقصان دہ کام نہیں کیا ۔ وہ ادبی تقریبات میں بھی بہت کم شرکت کرتے تھے اور وہیں قدم رنجہ فرماتے تھے جہاں قدم رکھنے کی گنجائش ہوتی تھی۔انہوں نے کبھی انسانی وقار اور معیار سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہیں کبھی کسی کے ناراض یا راضی ہونے کی فکر دامن گیر نہیں رہتی تھی۔ وہ اپنے دوستوں سے محبت بھی کرتے تھے اور ان پر تنقید بھی۔ ایک روز فضیل صاحب کا فون آیا کہ ’’میں ایوان غالب کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے دہلی آگیا ہوں۔ تم دوپہر کو آجاؤ تو کہیں چل کر کھانا کھائیں گے۔‘‘ میں ایوان غالب پہنچا تو فضیل صاحب کہیں نظر نہیں آئے۔ اس دوران زبیر رضوی صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ فضیل جعفری صاحب کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کون فضیل جعفری؟ کچھ دیر بعد فضیل صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے زبیر رضوی صاحب کے سامنے ہی ان کا یہ جملہ دہرادیا۔ فضیل صاحب کے چہرے پر کسی قدر برہمی کے اثرات تھے۔ انہوں نے زبیر رضوی کو مخاطب کرکے کہا کہ’’ سنو زبیر تمہاری کتاب ابھی تک میرے کمرے کے باہر رکھی ہوئی ہے میں نے اسے اپنی اسٹڈی میں نہیں رکھا ہے۔ بولو کیا حشر کروں؟‘‘ یہ سن کر زبیر رضوی مسکرادیئے اور بات ختم ہوگئی۔ وہ جب بھی دہلی میں ہوتے تو اکثر شام کو اپنا وقت زبیر رضوی کے ساتھ پریس کلب میں گزارتے تھے۔
فضیل جعفری نے دومرتبہ ممبئی کے روزنامہ ’انقلاب‘ کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھالیں اور اسے صحافتی تقاضوں کے تحت بام عروج تک پہنچایا۔ پہلے دور میں وہ 1988کے آس پاس اس سے وابستہ ہوئے اور دوسرے دور میں ہارون رشید کے انتقال کے بعد انہوں نے سن 2000میں دوبارہ’ انقلاب ‘کی ادارتی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ لیکن ادارتی امور میں انتظامی مداخلت کے سبب وہ تین سال بعد ہی اس سے علیحدہ ہوگئے۔ حالانکہ انتظامیہ نے علیحدگی کے بعد بھی ان سے اداریہ لکھتے رہنے کی گزارش کی لیکن انہوں نے اسے منظور نہیں کیا۔ ’انقلاب‘ سے علیحدگی کے بعد وہ کئی برس تک حیدرآباد کے روزنامہ ’سیاست ‘ کے لئے کالم لکھتے رہے۔ لیکن بعد کو صحت کے مسائل کی وجہ سے یہ کالم بھی جاری نہ رہ سکا۔ انہوں نے دوسری بار’ انقلاب‘ کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل کوئی ڈیڑھ برس ہفتہ وار ’بلٹز‘ میں آخری صفحے پر کالم نگاری کی۔ یہ وہی آخری صفحہ تھا جس پر برسوں خواجہ احمد عباس نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ مجموعی طورپر وہ کوئی دس برس ’انقلاب‘ کے ایڈیٹر رہے۔ ان کے اداریے بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ ہر اداریے کی سرخی بڑی معنی خیز اور منفرد ہوتی تھی۔ تسلیمہ نسرین سے متعلق ایک اداریے کا عنوان تھا ’سرتسلیمہ خم ہے‘ ۔ انہوں نے باقر مہدی کی رفاقت میں ممبئی سے’اظہار‘ نام کے ایک ادبی پرچے کا بھی اجراء کیا تھا۔ فضیل صاحب نے کچھ عرصہ قبل انجمن ترقی اردو کے سہ ماہی جریدے ’اردوادب‘ میں اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن خرابی صحت کے باعث یہ سلسلہ قائم نہیں رہ سکا۔ ’اردوادب‘ کے مدیر اُن کے قریبی دوست ڈاکٹر اسلم پرویز تھے۔
فضیل صاحب کا وطنی تعلق اترپردیش کے مردم خیز خطے الٰہ آباد کے قصبے چائل سے تھا جہاں 22جولائی1936کوان کی ولادت ہوئی تھی۔ الٰہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ شروع میں درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور انہوں نے اورنگ آباد اور ممبئی کے برہانی کالج میںبرسوں انگریزی پڑھائی۔ بعد کو انہوں نے صحافت کی دنیا آباد کرلی۔ حالانکہ وہ کہتے تھے کہ صحافت کا پیشہ تخلیقی قوت کو قتل کردیتا ہے لیکن معاشی ضرورتوں نے انہیں تادیر اس پیشے سے وابستگی پر مجبور کیا۔ ان کے تنقیدی مضامین اور شاعری نے پورے برصغیر میں دھوم مچائی۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’رنگ شکستہ‘ 1980میں منظر عام پر آیا۔ انہیں اپنی کتابیں شائع کرانے کی کبھی کوئی عجلت نہیں رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’افسوس حاصل کا‘ 30سال بعد 2009 میں شائع ہوا جسے کرناٹک اردواکیڈمی نے شائع کیا تھا۔ تنقید پر ان کی چار کتابیںشائع ہوئیں۔ ان میں پہلی کتاب ’چٹان اور پانی ‘1976میں شائع ہوئی تھی۔ دوسری کتاب ’صحرا میں لفظ‘ کے عنوان سے 1994میں شائع ہوئی۔ تنقیدی مضامین کے اس مجموعے کو مکتبہ جامعہ نئی دہلی نے شائع کیا تھا۔ جدید تنقید پر ان کا ایک طویل مقالہ ’کمان اور زخم‘ 1986میں منظرعام پر آیا۔ جسے ماہنامہ ’جواز‘ مالیگاؤں نے شائع کیا تھا۔ اس کتاب کا سرورق مشہور افسانہ نگار اور صحافی ساجد رشیدمرحوم نے بنایا تھا جن سے بعد کو فضیل صاحب کے شدید اختلافات ہوگئے تھے۔ ان کی آخری تنقیدی کتاب ’آبشار اور آتش فشاں‘ 2008 میں شائع ہوئی۔ ’صحرا میں لفظ‘ کے پہلے مضمون ’عہد جدید کا تہذیبی بحران اور غالب ’ کی ابتدائی سطور میں انہوں نے لکھا ہے کہ :
’’یہ ایک اہم اور مسلمہ حقیقت ہے اور ہمارے دور کے کم وبیش سبھی سنجیدہ ادیب وشاعر اس پر متفق ہیں کہ وہ جس سماج میں سانس لے رہے ہیں ، وہ سماج ذہنی ، روحانی اور تخلیقی زندگی کے لئے نہ صرف ناسازگار ہے بلکہ ان چیزوں کا دشمن ہے۔ ‘‘ (’صحرا میں لفظ‘ صفحہ6)
انہوں نے چند جملوں میں سماج کی ناسازگاری کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ بالکل درست ہے۔ وہ دراصل سماج کی اسی ناہمواری کا شکار تھے اور خود کو اس میں فٹ نہیں پاتے تھے۔ آج ہمارے اردگرد شہرت یافتہ ادیب اور شاعر تو بہت ہیں لیکن فضیل صاحب کی طرح قناعت پسند ،باضمیر اور خوددار قلم کار بہت کم ہیں۔ فضیل صاحب نے میرے ساتھ ہمیشہ بڑی شفقت اور محبت کا معاملہ کیا۔ 2008میں شائع ہونے والی میری کتاب ’اردو صحافت اور جنگ آزادی 1857‘ کے فلیپ کے لئے انہوں نے نہایت حوصلہ مندانہ تاثرات تحریر کئے تھے جن سے اس کتاب کی وقعت میں اضافہ ہوا۔ وہ اکثر اپنے خطوط میں میرے اخبار پندرہ روزہ ’خبردار‘ کے لئے تحسین آمیز جملے لکھتے تھے، جس کے وہ مستقل قاری تھے۔ میں جب بھی ممبئی جاتا تو ان کے دولت کدے پر ضرور حاضر ہوتا۔ حالانکہ میں ان کے بہت جونیئر ساتھیوں میں تھا لیکن وہ جب بھی دہلی آتے تو مجھے اس کی اطلاع ضرور کرتے اور اکثر اپنے دوستوں سے ملنے کے لئے میرے ساتھ ہی تشریف لے جاتے تھے۔ دہلی میں قیام کے دوران ان سے روزانہ ہی ملاقات ہوتی تھی۔
روزنامہ ’انقلاب‘ سے وابستگی کے دوران وہ دہلی میں رفیع مارگ پر واقع آئی این ایس بلڈنگ کے گیسٹ ہاؤس میں قیام کرتے تھے۔ ’انقلاب‘ سے علیحدگی کے بعد ان کی پسندیدہ جگہ غالب انسٹی ٹیوٹ کا گیسٹ ہاؤس تھا لیکن بعد میں وہ دریا گنج میں واقع ’اتتھی‘ گیسٹ ہاؤس میں قیام کرنے لگے تھے۔ دہلی آکر محبوب الرحمن فاروقی ، ڈاکٹر اسلم پرویز، زبیر رضوی اور نورجہاں ثروت سے ان کی ملاقات ضرور ہوتی تھی۔ نورجہاں اکثر ان کے لئے کچھ پکا کر لے آتی تھیں۔نورجہاں ثروت سے وہ اس بات کے لئے شاکی تھے کہ انہوں نے اپنی صحت خرابی کرلی ہے۔ فضیل صاحب ، نورجہاں اور میں اکثر بنگالی مارکیٹ میں کچھ کھانے کے لئے ضرور جاتے تھے۔ فضیل صاحب کو بنگالی مارکیٹ کی مٹھائی بہت پسند تھی اور وہ اسے اپنے ساتھ ممبئی بھی لے جاتے تھے۔ نورجہاں کے انتقال سے وہ بہت رنجیدہ ہوئے۔کچھ دنوں بعد دہلی آئے تو مجھ سے نورجہاں کی قبر پر چلنے کو کہا ۔ میں انہیں دہلی گیٹ قبرستان لے گیا جہاں انہوں نے فاتحہ پڑھی اور نورجہاں کی مغفرت کے لئے دعا کی۔ بعدازاں محبوب الرحمن فاروقی کے انتقال پر بھی انہوں نے بہت افسوس کا اظہار کیا۔ زبیر رضوی اور ڈاکٹر اسلم پرویز کے چلے جانے کا بھی انہیں بہت صدمہ تھا۔
جولوگ فضیل صاحب کے مزاج سے واقف تھے، وہ ان کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے تھے اور کسی بات کا برا نہیں مانتے تھے۔ ایک دن انہیں دہلی میں ڈاکٹر خلیق انجم کی یاد آئی تو مجھ سے کہا کہ چلو انجمن ترقی اردو چلتے ہیں۔ انجمن پہنچ کر انہوں نے ڈاکٹر خلیق انجم کے کمرے کا دروازہ کھول کر پوچھا ’’کیا یہاں کوئی اردو داں موجود ہے؟‘‘ ڈاکٹر خلیق انجم نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا اور کہا کہ’’ بس یہاں اردو جاننے والا ہی کوئی نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر خلیق انجم کی میز پر ایک عبارت جلی حرفوں میں لکھی ہوئی تھی جس پر تحریر تھا کہ’’ اس کرسی پر بیٹھ کر میری سمجھ میں علمی ، ادبی اور سیاسی گفتگو بالکل نہیں آتی ہے، لہٰذا اس سے پرہیز کریں۔‘‘ فضیل صاحب اس عبارت کو دیکھ کر خاموش بیٹھے رہے تو ڈاکٹر خلیق انجم نے پوچھاکہ کیا بات ہے آپ کچھ بولتے کیوں نہیں ؟ فضیل صاحب نے اس عبارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ میں انجمن میں بیٹھ کر علمی وادبی گفتگو ہی کرسکتا ہوں کوئی کاروباری گفتگو تو نہیں کرسکتا۔ اس پر ڈاکٹر خلیق انجم نے قہقہہ لگایا اور وہ عبارت وہاں سے ہٹا لی۔ اس کے بعد کچھ بے تکلف باتیں ہوئیں اور کچھ دیر بعد وہاں ڈاکٹر اسلم پرویز بھی تشریف لے آئے۔
فضیل صاحب نے پوری زندگی اپنی ہی شرطوں پر گزاری ۔وہ ایک باضمیر اور باشعور انسان تھے۔ ان کے اندر خودداری کا جو مادہ تھا وہ کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کی اصول پسندی اور کسی کے آگے نہ جھکنے کی ادا نے انہیں خود غرض لوگوں میں غیر مقبول ضرور بنادیا تھا لیکن وہ اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اپنی باغیانہ فطرت اور سرکشی کی تصویر انہوں نے بہت پہلے اپنے اس شعر میں کھینچی تھی ؎
جھکتا نہیں تو کاٹ لے سر میرا زندگی
مجھ سے مرے غرور کی قیمت وصول کر
آخر کار زندگی نے ایک ایسے خوددار انسان کا سر کاٹ ہی لیا جس نے زمانہ کے فرسودہ اصولوں کے آگے سر جھکانے کی بجائے سر اٹھاکر زندگی گزاری۔ اسے شہرت، دولت اور اعزازات کی چمک دمک بھی متاثر نہیں کرسکی اور جو ہمیشہ اپنے سر اور دستار کی حفاظت کرتا رہا ۔بقول پروفیسر شمیم حنفی ’’فضیل جعفری بہت ہی دیانتدار اور کھرے آدمی تھے۔ آج کے دور میں کسی قسم کے اخلاقی تصور اور قدروں پر یقین نہ رکھنے والے لوگوں کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ کر وہ رنجیدہ تو ہوتے تھے لیکن انہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ ایسے راستوں پر چلیں۔ ان کی صلاحیتوں کی جس طرح قدر ہونی چاہئے تھی، وہ نہیں ہوئی اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ گفتگو اس حد تک صاف کرتے تھے کہ اس پر تلخی کا گمان ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے ضمیر کی قیمت پر دنیا سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ادب کو افکار کی ترویج کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کے یہاں انسانی قدروقیمت کا تصور اور اخلاقی تصورات بہت بلند تھے۔ ان کار ویہ بہت وضع داری کا تھا۔ ‘‘
موبائل: 9810780563
ای میل: [email protected]