فریدہ انجم کی ایک غزل کا فنی اور تکنیکی جائزہ

0
359

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


پروفیسر شوکت محمود شوکتؔ

اردو ادب کے تقریباً سارے ناقدین ِفن جب کسی کلامِ منثور و منظوم کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو عموماً کلام ِ منثور ومنظوم کا ترجمہ یا تشریح کر دیتے ہیںاور فنی و تکنیکی حوالے سے گفتگو سے احتراز کرتے ہیں ۔اس کی چاہے کوئی بھی وجہ ہومگر اکثر دیکھنے میں یہی آیا ہے،حال آں کہ کسی بھی نثر پارے یا نظم پارے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے جہاں، اس کا فکری جائزہ لینے کی ضرورت ہے وہاں اس کا فنی اور تکنیکی جائزہ لینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ تاکہ تخلیق کار کو اپنی تخلیق کے حوالے سے کماحقہ آگاہی حاصل ہو۔جہاں تک کلامِ منثور کا تعلق ہے تو اس
کے اپنے تنقیدی اصول ہیں جب کہ کلامِ منظوم کی تنقیدکے اپنے اصول، قواعد اور ضوابط ہیں،جن کی پابندی نظم پارے میں لازمی طور پرہونی چاہیے،وہ درج ذیل ہیں:۔
(۱)۔نظم پارے کا فکری جائزہ جسے عرفِ عام میں تشریح کہاجاتا ہے۔
(۲)۔نظم پارے کا فنی و تکنیکی جائزہ، جسے عام طور پر عروضی جائزہ بھی کہتے ہیں۔
(۳)۔ صوتیات۔(جسے صوتی جائزہ کہا جاتا ہے)۔
(۴)۔نظم پارے کا علمِ بیان( تشبیہ،استعارہ،کنایہ،مجاز مرسل وغیرہ) کی روشنی میں جائزہ لینا۔
(۵)۔نظم پارے میں صنائع بدائع( وہ عجیب و غریب نکات اور باریکیاں جو نظم پارے میں ظاہر کی جائیں)کے حوالے سے جائزہ لینا۔
(۶)۔لسانیات( نظم پارے کا صرفی و نحوی لحاظ سے جائزہ لینا)۔
بہرحال زیرِ نظر مضمون میں اس وقت پٹنہ سٹی کی ابھرتی ہوئی جواں سال اور روایت وجدت کی حامل خیالات کی شاعرہ’’فریدہ انجم‘‘ کی ایک غزل کا فنی وتکینکی جائزہ مقصود ہے۔ یہ غزل ان کی ۲۰۱۸ع میں شایع ہونے والے شعری مجموعے’’ شعاعِ انجم‘‘ میں شامل ہے ۔
اس غزل کے کل آٹھ(۸) اشعار ہیں جس کا مطلع کچھ یوں ہے:۔
؎شہر میں آپ کی جو شہرت ہے
یہ فقط علم کی بدولت ہے
اس شعر کے مصرع اولیٰ میں’’ شہر اور شہرت‘‘ کے الفاظ کے درمیان صنعتِ تجنیس زائد و ناقص کا استعمال ہوا ہے ، جب کہ مصرعِ ثانی میں ’’علم ‘‘ کی عالم گیریت کا خوب صورت اعتراف موجود ہے ۔جب کہ مصرعِ اولیٰ میں لفظ ’’جو‘‘ کا استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ حرفِ شرط یا صلہ ہے ، جب کہ مصرعِ ثانی کے آغاز میں لفظ’’ یہ‘‘ حرفِ اسم ِ اشارۂ قریب ہے جو پہلے مصرع میں لفظ’’جو‘‘کی وضاحت کے لیے ضروری تھا۔اس کے بعد اس غزل کا دوسرا شعر ملاحظہ ہو:۔
؎اور کچھ نام اس کو مت دینا
مسکرانا ہماری عادت ہے
درج بالا شعر میں مصرع ِثانی’’ مسکرانا ہماری عادت ہے‘‘ سہلِ ممتنع کی بہترین مثال ہے۔ اب اس غزل کا تیسرا شعر دیکھیے:۔
؎زخم پر زخم تم نے بخشے ہیں
پھر بھی تم سے ہمیں محبت ہے
اس شعر میں لفظ ’’زخم‘‘ تکرار لفظی پر دلالت کرتا ہے جب کہ ’’تم‘‘ اور’’ ہمیں‘‘ کے درمیان صنعتِ تضاد کا خوب صورت استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے اگلا یعنی چوتھا شعر ملاحظہ ہو:۔
؎حالِ دل روز کون پوچھے گا ؟
اتنی کب کس کو آج فرصت ہے
اس شعر کے مصرعِ ثانی میں’’کب کس کو‘‘کے الفاظ کے درمیان سر حرفی تماثل کا استعمال موجود ہے کیوں کہ ان تینوں الفاظ کا آغاز ایک ہی حرف یعنی ’’ کاف‘‘ سے ہوا ہے۔نیز مصرعِ اولیٰ میں الفاظ ’’حالِ دل‘‘ ایک ترکیب کے طور پر استعمال ہوئے ہیں اور یہ شعر
استفہامیہ لہجے سے مملو ہے۔اس کے علاوہ،مصرع اولیٰ میں لفظ’’ کون‘‘ اور مصرع ثانی میں لفظ’’ کس‘‘ سے مراد شاعرہ کی اپنی ذات ہے اور یہ رمزوکنایہ کی ایک قسم ہے۔
اس غزل کا پانچواں شعر دیکھیے:۔
؎بے ضرورت کسی سے اب ملنا
بے وقوفی ہے اور حماقت ہے
اس شعر میں دو سابقوں ،یعنی ’’بے ضرورت اور بے وقوفی‘‘ کا خوب صورت استعمال ہوا ہے ۔
چھٹا شعر ملاحظہ ہو:۔
؎ہو جو فرصت تمھیں چلے آؤ
آج بہلی ہوئی طبیعت ہے
شعر مذکورہ میں ’’چلے آؤ‘‘ کے الفاظ کے درمیان صنعتِ تضاد کاخوب صورت استعمال ہواہے جب کہ انھی الفاظ میں امدادی فعل’’آنا‘‘ کا استعمال بھی بہ احسن موجود ہے۔
اس کے بعد ساتواں شعر دیکھیے:۔
؎پاس جس کے ہے دولتِ دنیا
شہر میں بس اسی کی عزت ہے
اس شعر کے مصرعِ اولیٰ میں ’’ جس‘‘ اور مصرعِ ثانی میں’’ اسی‘‘ کے الفاظ کے درمیان صنعتِ تضاد ہے ، جب کہ ’’دولت ِ دنیا‘‘ کے الفاظ ترکیب کے طور پر استعمال ہوئے ہیں،اب اس غزل کا مقطع ملاحظہ ہو:۔
؎ہے اصل میں وہی دھنی انجمؔ
علم کی جس کے پاس دولت ہے
مقطعے کے مصرع ِ اولیٰ میں لفظ ’’اَصل‘‘ کے دوسرے حرف’’صاد‘‘ کو متحرک(بالفتح) باندھا گیا ہے جو قطعی طور پر درست اور روانہیں کیوں کہ لفظ’’اصل ‘‘ کا دوسرا حرف ’’صاد‘‘ ساکن ہے جس کے اوپرجزم ہے۔اس مصرعے کی اس خامی کو یوں دورکیا جا سکتا ہے۔
ع درحقیت ہے وہ دھنی انجمؔ
نیز اس شعر میں لفظ ’’دھنی(دھن کے ساتھ یا ئے نسبتی)‘‘ اور مصرع ِ ثانی میں لفط ’’دولت‘ ‘ ایک دوسرے کے مترادفات میں سے ہیں البتہ مقطعے میں اس خیال کو دہرایا گیا ہے جو بات مطلع میں کہی گئی ہے۔ اساتذہ ٔ فن اگر مجھے اجازت دیں تو میں اس کو بھی ’’ صنعتِ قطارالبعیر‘‘ کی خوبی میں شمار کروں گا، مزید یہ کہ اس غزل کی بحر،’’بحر ِخفیف‘‘ ہے جس کا وزن ’’فاعلا تن۔مفاعلن۔فعلن‘‘ہے۔
جہاں تک اس غزل کا ’’فکری جائزہ ‘‘ لینے کا تعلق ہے (اگرچہ یہاں اس کا محل نہیں) تاہم اس حوالے سے میں صرف اتنا کہوں گا کہ شاعرہ کو ابھی اپنا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ افزوں کرنا ہو گا کیوں کہ مذکورہ غزل میں تین اشعار(مطلع،ساتواں شعر اور مقطع)ایک ہی خیال کے حامل اشعار ہیں، اور کہیں کہیں اشعار میں حشو وزوائد بھی ہیں۔ بہرحال مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ غزل ہے جس پر بجا طور پر فریدہ انجمؔ مبارک باد کی مستحق ہیں۔

پی ایچ۔ڈی، (اردو)اسکالر
٭٭٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here