[email protected]
9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر امام اعظم
تعلیم کی بنیاد پر ہی ترقی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ عہدِ حاضر میں عالمی پیمانے پر جو قومیں یا ممالک ترقی یافتہ اور خوش حال ہیں‘ ان کی ترقی و تعمیر کی بنیاد تعلیم ہی ہے۔ کسی قوم کی کامیابی اور سربلندی کا راز یہ نہیں ہے کہ اس کی تعداد کتنی ہے۔ اس کی عمارتیں کتنی مضبوط ہیں بلکہ تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ اس قوم کے لوگ علم اور اخلاق کی تربیت سے کس طرح مالا مال ہیں۔ زندگی کے سبھی معاملات میں دنیا کی تعلیمی ، سائنسی اور تکنیکی سربراہی نئے راستے کھول رہی ہے اور ایک مہذب ، پر امن اور بااصول سماج کی تشکیل کر رہی ہے۔ کسی بھی انسان کا اپنی زبان سے لگاؤ ہونا ایک فطری بات ہے۔ جن قوموں کی زبان مردہ ہوتی ہے تو وہ قوم بھی باقی نہیں رہتی۔ بے شک وہ انسان یا ان کی نئی نسلیں دنیا میں موجود رہتی ہیں لیکن ان کے آباؤاجداد تاریخ کے صفحات میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں، ان کی شناخت ختم ہو جاتی ہے۔ ونسٹن چرچل نے کہاتھا ’’اگر کسی قوم کو نیست و نابود کرنا ہو تو اس قوم کی زبان کو ختم کردو۔ ‘‘ یہ قول دوسری عالمی جنگ تک معنویت رکھتا تھا ، موجودہ صدی میں جہاں گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں پوری دنیا ایک گاؤں کی طرح ہے، وہاں زبان کو مٹانے کی بات کرنا دشوار ہے۔ اب تو کلاسیکی زبانوں کو بھی فروغ دینے کے لئے مختلف ملکوں میں الگ الگ ادارے کام کر رہے ہیں ، اس لئے اس بھرم سے نکلنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک اردو میڈیم سے ’’تعلیمی ماحول ‘‘، ’’تعلیمی انتظام ‘‘ ، ’’ڈسپلن اور طریقۂ کار کی بات ہے ، ہمارے تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی پوشیدہ فکری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے سائنٹفک طریقے نہیں اپنائے جاتے۔ ضرورت اس کی ہے کہ اساتذہ اور طلبا کو ذہنی اور فکری آزادی ملے ۔ اساتذہ کی تقرری سے قبل صلاحیت کی جانچ پرکھ کے لیے جن شخصیات کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ نا اہل نہ ہوں اور غیر ذمہ داری اور جانب داری سے کام نہ لیں۔ والدین اور سرپرست اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل کے بارے میں غیر سنجیدہ نہ ہوں۔ اساتذہ بچوں کے مزاج ، رجحانات اور نفسیات کے مطابق کاؤنسلنگ کر کے ان کے ہدف کے تعین میں مناسب رہنمائی کریں۔ اسکول اور کالج کی انتظامیہ تعلیمی ، تعمیری اور مثبت سوچ رکھیں۔ وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق انقلاب آفریں کوششیں کرنی ہوں گی۔ فکر و خیال میں وسعت اور کشادگی لانی ہوگی۔ تعلیمی بنیا گری اور ڈنڈی مار طریقہ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اجتماعی اور انفرادی طور پر نئی نسل کے لیے فعال ، تیز رفتار اور کارآمد قلیل مدتی تعلیمی منصوبہ بندی کر کے عملی جامہ پہنانا ہوگا :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اردو زبان بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی اہمیت منوا چکی ہے اور غیر ممالک میں بھی اس کے محبین موجود ہیں۔ برصغیرمیں اردو پاکستان میں خصوصی طور پر اس لیے فروغ پا رہی ہے کیوں کہ وہاں اس کی حیثیت قومی سرکاری زبان کی ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہاں کی دیگر علاقائی زبانوں مثلاً پنجابی ، سندھی ، بلوچی اور پشتو کی اہمیت برقرار ہے۔ ریاست جموں و کشمیر ہندوستان کی واحد ریاست ہے جہاں اردو پہلی سرکاری زبان ہے لیکن وہاں علاقائی زبانیں مثلاً ڈوگری ، کشمیری ، پہاڑی بھی اپنی اہمیت قائم کیے ہوئے ہیں۔ کولکاتا میں ریاستی حکومت نے ۲؍ اپریل ۲۰۱۲ء کو ان علاقوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جہاں اس کے بولنے والے بلحاظِ آبادی ۱۰؍ فیصد سے زیادہ ہوں حالاں کہ یہ فیصلہ پوری ریاست میں نافذ ہونا چاہئے تھا۔ ہندوستان کے بیشتر اسٹیشنوں پر ہندی ، انگریزی اور علاقائی زبانوں میں آویزاں سائن بورڈ نظر آتے ہیں لیکن اردو کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ نئے سماج کی تشکیل میں زبان کا استحصال ، زبان کی بے وقعتی اور مناسب زاویوں سے بے حسی اردو سے دانستہ گریز کو سامنے لاتا ہے جس میں عوامی وحدت کی کمی صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ سبیل نکالنا ہمارا کام ہے ، تاثر پذیری کے اوصاف خود بخود سامنے آجائیں گے۔
سرکاری حکم کے تعلق سے اردو لسانی آبادی میں بیداری پیدا کرنے کے لئے نیز سرکاری دفاتر میں اردو داں ملازمین کی تقرری کے لئے مقامی اردو تنظیموں کو تحریک چلانے کی شدید ضرورت ہے۔ ریاست دہلی میں اردو اور پنجابی کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ آندھرا پردیش میں بھی اردو کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کیاگیا ہے۔ اردو جس علاقے میں پلی اور بڑھی اور لکھنؤ جو اہلِ زبان کا مرکز رہا‘ وہاں اردو کی تعلیم بنیادی سطح پر تقریباً ختم کر دی گئی حالاں کہ یہاں بھی اس کو برائے نام دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ یو پی میں اردو والے اب دھیرے دھیرے اپنی زبان کو ترک کر کے ہندی کو ہی اپنا رہے ہیں۔ کسی حد تک مدارس نے یوپی میں اردو زبان کو سہارا دے رکھا ہے لیکن ادب کا فروغ پورے طو رپر نہیں ہورہا ہے ۔ بہار میں مدارس اور سرکاری اسکولوں میں بھی اردو کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے ۔
گیسوئے اردو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے
شمع یہ سودائیِ دل سوزشِ پروانہ ہے
فروغِ اردو کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اردو آبادی کا بیشتر حصہ تعلیم حاصل کرنے میں پچھڑ گیا ہے اور تعلیم سے جوڑنے کا کام سب سے اہم ہے ۔ جب تک اردو آبادی کو تعلیم سے اور اردو تعلیم کو نوکریوں سے جوڑا نہیں جائے گا اس وقت تک اردو کا فروغ پورے طور پر ممکن نہیں ۔ اردو زبان کے ساتھ کچھ مخصوص طبقے کی دشمنی ہے اور اس زبان کو عوام سے دور کرنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں اور اسے اقلیتی طبقے کی زبان ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھ کنڈے اپنائے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ بنیادی تعلیم میں اردو اساتذہ کی تقرری نہیں کی جاتی۔ جہاں یونٹس رہتی ہیں وہاں ختم کرنے کی سازش چلتی رہتی ہے ۔ یہ بھی کوشش ہوتی رہتی ہے کہ اردو آبادی اردو نہ پڑھے ۔ اس کے لیے اسکولوں میں اردو کے اساتذہ رکھے نہیں جاتے اور دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود اردو کو اس کا جائز حق دلانے میں ہم ناکام ہیں۔ ایک طبقہ اردو دشمنی پر آمادہ ہے اور حکومتیں اردو سے بے اعتنائیاں برتتی ہیںمگر الیکشن کے عین قبل نیتاؤں کو اردو اور اردو والے یاد آتے ہیں تاکہ ووٹ بینک خراب نہ ہو۔ سچر کمیٹی رپورٹ کی سفارشات کے نفاذ کا جائزہ لینے کے لئے قائم کی گئی فاطمی کمیٹی کی رپورٹ ہمیں آئینہ دکھاتی ہے۔ سچر کمیٹی رپورٹ کی بیشتر سفارشات کو اب تک نافذ نہیں کیا جاسکا ہے۔وہ ہنوز سرد خانے میں پڑی ہیں۔ ایسے میں ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔اردو کا حق دلانے کے لیے خود بھی ایمان دار ہونا ہوگا اور سیاسی سطح پر بھی اس کے لئے لڑائیاں لڑنی ہوں گی۔ اردو آبادی کا بیشتر حصہ جو اردو کی روٹی کھاتا ہے اور اردو کے نام پر بڑے بڑے عہدے پاتا ہے وہ اپنے بچوں کو اردو تعلیم دینے میں صرف کوتاہیاں ہی نہیں برتتا بلکہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اردو پڑھانے سے اس کے بچے جدید علوم و فنون سے ناواقف رہ جائیں گے ۔ وہ انگریزی اسکولوں میںپڑھانا فخر کی بات سمجھتا ہے ۔ سرکاری سطح پر مرکز سے انجمن ترقیٔ ارد و ہند، این سی ای آر ٹی اور قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان جیسے اداروں نیز بیشتر ریاستوں میں اردو اکاڈمیوں کو بھی کافی مالی تعاون ملتا ہے۔ اردو بیداری کا کام ان اداروں کو بھی نچلی سطح سے شروع کرناچاہئے۔ بڑی بڑی عالمانہ کتابوں کو شائع کر کے لائبریریوں کی زینت بنانا کافی نہیں ہے بلکہ یہ ضروری ہے کہ ان کتابوں کو پڑھنے والے بھی پیدا کریں اور یہ ابتدائی سطح سے شروع کئے بغیر ممکن نہیں ۔ تمام اردو اکیڈمیاں جن کو سرکاری سطح سے مالی تعاون حاصل ہے وہ بھی بنیادی سطح پر اردو کے فروغ کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بنائیں ۔ مدرسوںمیں اردو تعلیم کا باضابطہ اہتمام تو ہوتا ہے لیکن اردو تعلیم کے ذریعہ جدید علوم و فنون سے بھی واقف کرانے کیلئے مدرسوں میں جدید ٹکنالوجی کے ماہرین کی ضرورت ہے تاکہ طلبا اردو کے ساتھ ساتھ دیگر علوم و فنون سے بھی واقف ہوسکیں۔ بہار میں اردو مشاورتی کونسل بھی موجود ہے اور اردو مترجم بھی مختلف اضلاع میں کام کر رہے ہیں لیکن ان مترجمین سے سرکار ی افسران اردو کا کام لینے کی بجائے انھیں دیگر کاموں میں مصروف رکھتے ہیں۔ سرکاری منصوبوں کی جانکاری اردو آبادی تک پہنچ سکے اور اس کے ترجمے عوام تک پہنچیں اس کی کوشش نہیں ہو رہی ہے جس کی بنا پر اردو آبادی کو معلوم نہیں ہوتا کہ سرکاری سطح پر کیا کیا منصوبے چلائے جارہے ہیں اس لیے اس کا فائدہ بھی اٹھانے میں ناکام ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اردو پڑھنے والوں کی آبادی کم ہوگئی ہے لیکن اردو کی کتابوں کی اشاعت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ یہ اردو زبان کا فروغ یا عروج نہیں تو اور کیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو پڑھنے والوں کو پیدا کیا جائے۔ پرائمری اسکولوں میں تعلیم کا بہتر نظم کیا جائے اور تمام سرکاری معاونت کو نچلی سطح تک پہنچایا جائے ۔ طلبا و طالبات کی تربیت کے پروگرام گلی محلوں میں غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعہ منعقد ہوتے رہیں ، اس سے بچوں کی معقول تربیت ہوتی رہے گی ، اچھی زبان بولنے اور لکھنے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور ان کی شخصیت و کردارکو روشن کر نے کی صورتیں پیدا ہوں گی ۔ جب تک اردو آبادی اس جدوجہد میں شامل ہونے کے لیے بیدار نہیں ہوگی، تحریک نہیں چلائے گی اس وقت تک اردو کا فروغ ممکن نہیں ۔ اس طرح کی کوششیں اردو کے فروغ میں معاون ثابت ہوں گی لیکن اسے زمین پر اتارنے کے لئے عملی منصوبوں اور کارکنوں کی ضرورت پڑے گی جو پورے جذبے کے ساتھ تحریک چلائیں اور بیداری لائیں تاکہ اردو کا مستقبل سنور سکے ۔ اپنی پیاری ،محبوب اور خوبصورت زبان کو ترقی و ترویج کے اس مقام پر پہنچائیں کہ اس کی رفعت کو دیکھ کر اوجِ ثریا بھی شرمندہ ہو جائے۔ گرچہ اردو کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ عوام الناس کے دل کی دھڑکن بن کر رہے ، زبان کی چاشنی بن کر رہے ، خامہ کی رفتار بن کر رہے اس کے باوجود آج ہماری اردو شبابؔ للت کے اس شعر کی آئینہ دار ہے :
دیمک ہے کہ دن رات ہمیں چاٹ رہی ہے
بک شلف میں اردو کی کتابوں کی طرح ہیں
یہ درحقیقت اردو کی حالیہ سطح ہے ۔ آئیے ہم اپنے دل میں اردو کی محبت کا نقش قائم کرتے ہوئے اپنے پرجوش حوصلہ اور استحکام کے ساتھ یہ اجتماعی عہد کریں :
پیرِ مغاں سے عہد یہی ہے کہ بادہ نوش
اس آشیاں کو عرشِ معلی بنائیں گے
ریجنل ڈائریکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ) ، کولکاتا ریجنل سینٹر
9431085816
ضضضض