خالد جمال
غزل
گفتگو تجھ سے ترے بعد بھی کی ہے میں نے
خیریت خود سے شب و روز ہی لی ہے میں نے
کوئی دیوار نہ در جانے کہاں سب گم ہیں
پھر یہ دستک ، جو در دل پہ سنی ہے میں نے
زیب دیتی ہے کسے اور کہاں تک دیکھیں
ایک چادر سی تہہ آب بنی ہے میں نے
جس سے مرجھائے ہوئے پھول بھی کھل اٹھتے ہیں
ان ہواؤں سے وہی بات کہی ہے میں نے
پھر دھنک زار ہوئی جاتی ہے اس دل کی فضا
پھر نئی رت کی بنا آج رکھی ہے میں نے
عرصہء ہجر کی شب تاب شعاؤں سے جمالؔ
گھر کی دہلیز میں کچھ روشنی کی ہے میں نے
بنارس
Also read