دلشاد دل سکندر پوری
حسرتیں دم توڑ تی ہیں اب دلِ بے تاب میں
بھ گیا ہے ان دنوں میرا مکاں سیلاب میں
میری خاموشی میرے اپنوں نے ٹوڈی اس قدر
پھینک دے پتّھر کوئی جیسے بھرے تالاب میں
جن سے اک شمع جلائی جا سکی نہ آج تک
ڈھونڈتے ہیں غلطیاں وہ لوگ بھی مہتاب میں
ہم غریبوں کے مقدر کی لکیریں ایک ہیں
دیکھتے ہیں خواب بھی ہم ایک جیسے خواب میں
جا کے یہ طوفاں سے کہہ دے چوم لے میرے قدم
مسکراتے ہیں سمندر ہم تیرے گرداب میں
گر یقیں نہ ہو تو خنجر سے یہ سینا چاک کر
دل ہی دل لکھا ملے گا دل کے سارے باب میں
Also read