انیس اشفاق
لکھوں میں کیا کہ اس آشوب میں لکھا نہیں جاتا
وہ لرزش ہے کہ ہاتھوں میں قلم تھاما نہیں جاتا
خطا کیسی ہوئی ہے اے خدا سجدہ گزاروں سے
کہ اب تجھ سے بھی یہ سیل فنا روکا نہیں جاتا
اسیری ختم ہونے کی خبر تو آ گئی لیکن
رہائی کے لئے زنداں کا در کھولا نہیں جاتا
یہ آگ اس طرح میرے شہر کو کرتی نہ خاکستر
ہوا دے کر اگر شعلوں کا بھڑکایا نہیں جاتا
سزا سر کے قلم ہونے کی ملتی ہے تو ملنے دو
شہاں کے پاؤں پر لیکن یہ سر رکھا نہیں جاتا
کوئی ایسی ہوا تھی پیڑ جس نے کر دئے خالی
چمن کو چھوڑ کر ورنہ کوئی پتہ نہیں جاتا
ہوا پہچانتے ہیں سب پرندے ،پر نہ کھولیں گے
نواح گل میں جب تک گل کا موسم آ نہیں جاتا
سفر آخر یہ کیساہے کہ اب آرام کرنے کو
اگر میں بیٹھ جاتا ہوں تو پھر اٹھا نہیں جاتا
گومتی نگر،لکھنؤ
9451310098