غزل

0
119

انیس اشفاق

لکھوں میں کیا کہ اس آشوب میں لکھا نہیں جاتا
وہ لرزش ہے کہ ہاتھوں میں قلم تھاما نہیں جاتا

خطا کیسی ہوئی ہے اے خدا سجدہ گزاروں سے
کہ اب تجھ سے بھی یہ سیل فنا روکا نہیں جاتا

اسیری ختم ہونے کی خبر تو آ گئی لیکن
رہائی کے لئے زنداں کا در کھولا نہیں جاتا

یہ آگ اس طرح میرے شہر کو کرتی نہ خاکستر
ہوا دے کر اگر شعلوں کا بھڑکایا نہیں جاتا

سزا سر کے قلم ہونے کی ملتی ہے تو ملنے دو
شہاں کے پاؤں پر لیکن یہ سر رکھا نہیں جاتا

کوئی ایسی ہوا تھی پیڑ جس نے کر دئے خالی
چمن کو چھوڑ کر ورنہ کوئی پتہ نہیں جاتا

ہوا پہچانتے ہیں سب پرندے ،پر نہ کھولیں گے
نواح گل میں جب تک گل کا موسم آ نہیں جاتا

سفر آخر یہ کیساہے کہ اب آرام کرنے کو
اگر میں بیٹھ جاتا ہوں تو پھر اٹھا نہیں جاتا
گومتی نگر،لکھنؤ

9451310098

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here