غزل

0
58

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

انیس اشفاق

پشت پر ہو موت کا جب تازیانہ ان دنوں
کیا غزل تیرے لئے ہو عاشقانہ ان دنوں
بام پر یوں تو بتانِ شہر آتے ہیں نظر
پر نہیں ہے وہ ادائے کافرانہ ان دنوں
جس کے دل میں ٹہنیوں کے ٹوٹ جانے کا ہو خوف
باغ میں وہ کیا بنائے آشیانہ ان دنوں
شاخ چھوڑے بھی تو کیا ہو سیر طائر کا شکم
ہے کہاں صحنِ چمن میں آب و دانہ ان دنوں
بجھ رہے ہوں جب ہوا سے ہر طرف سارے چراغ
کیا بڑھانا اور کیا لَو کا گھٹانا ان دنوں
پھر کڑکتی ہیں کمانوں پر کمانیں ہر طرف
اور ہم ہیں ان کے تیروں کا نشانہ ان دنوں
افسروں کو، اپنی فردِ جرم میں لکھنا ہے نام
ڈھونڈتے پھرتے ہیں وہ میرا ٹھکانہ ان دنوں
ایک کی لغزش پہ کس کس کے گلے میں طوق ہے
مل گیا ظالم کو ’زنداں‘ کا بہانہ ان دنوں
ایسے موسم میں گلے کیا مل سکیں گے ہم انیسؔ
بند ہے سو یار کی گلیوں کا جانا ان دنوں

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here