9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
فیروز خان ندوی
ملک کے اکثر ادبی رسائل و جرائد میں ایک نام بحیثیت شاعرہ گاہے بگائے نظروں سے گزرتا رہا، ان کی خوش فکر شاعری نے ان کے کلام کے بغور مطالعہ کی طرف راغب کیا ۔
سیا سچدیو اتر پردیش کے مردم خیز شہر سیتا پور ۱۹۶۷ء کو پیدا ہوئی ان کے والد کنور پال سنگھ سچدیو میوزک کے ایک ماہر فن استاد تھے ، جن سے شعر ادب کے باذوق افراد ملاقات کر نے آتے تھے، اس طرح گھر میںشعر وسخن کا ماحول رہا، اسی ماحول میں سیاہ نے شعر وسخن کا ذوق پایا ، ان کے کلام کا اگر عمیق النظری سے مطالعہ کیا جائے تو بلا تکلف یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ ایک فطری شاعرہ ہے ، چونکہ ان کو عہد فکری سے شاعری کا ذوق حاصل رہا، جس نے آہستہ آہستہ ترقی کے مدارج طے کئے، جس کی بناء پر آج سیا ایک خوش فکر اور قادر الکلام شاعرہ کہلاتی ہے، وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ایم۔ایس۔اور پی۔ ایچ۔ ڈی ہے، ایک مہذب اور تعلیم یافتہ گھرانے کی پروردہ سیا نے شاعری میں خوش فکر اور کامیاب ترین تجر بے کئے ، وہ اس طرح کے ان کے تقریباً چھ شعری مجموعہ اردو شاعری کی مختلف اصناف پر مشتمل جس میں غزل، نظم، اور گیت بھی ہے منظر عام پر آکر ملک اور بیرون ملک بھی قبولیت حاصل کر چکے ہیں، سرحد پار بھی ان کی شاعری کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔ پاکستان کے با ذوق احباب نے ان کا ایک شعری مجموعہ شائع کر وایا ہے، جو سر حد پر ان کی شہرت مقبولیت اور ہر دل عزیزی کی دلیل ہے ، ان کے کلام کے مطالعے سے احساس ہو تا ہے کہ قاری کو ان کی غزلوں میںدرون بینی رجحان حزن آلود بنا دیتا ہے، اور ہمیں ایک نئی دنیا سے روشناش کرا تا ہے، جس میں خوشی بھی ہے ، فرحت وانبساط بھی اور حزن وملال بھی ، انہوں نے اپنی شاعری کو تجر جات احساسات وجذبات کا خوبصورت جامہ پہنایا ہے، اور اپنے گلستان سخن میں گل بوٹے سجائے ہیں، حیرت واستعجاب ہے کہ سکھ سماج سے تعلق رکھنے والی یہ مشرقی تہذیب کی پروردہ خاتون نے اپنے ذوق سخن کے ذریعہ شعری افق کو روشن اور منور کر دیا ہے۔ ان کی کاوشوں نے ان کو بہت کم عر صے میں عالمی سطح پر منفرد شناخت دلائی ہے، سیا نے روایت اور جدیدیت کی راہوں پر چلنے کی بجائے اپنی ایک الگ منفرد راہ بنائی ہے، امکانات اور رحجانات ان کی شاعری کا ایک امتیازی وصف خاص ہے، مشاہدات اور محسوسات کو بھی انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ ایک حسین وجمیل کہکشاں کی شکل دی ہے۔ جدید لب ولہجہ کی ایک منفرد شاعرہ سیا سچدیو اپنی ہم عصر شعراء و شاعرات میں ممتاز نظر آتی ہیں، ان کے سیدھے سادھے اشعار با ذوق کاری کے ذہن و دل کو جلاء بخشتے ہیں ، ان کے کلام میں زبان و بیان کی پختگی کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف تجر بات بھی شامل ہیں ، مجموعی طور پر ان کی شاعری میں جذبات بھی ہے، درد بھی ، کسک بھی ، ہجر ووصال اور فراق بھی، انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ دیگر اصناف نظم گیت میں بھی کامیاب طبع آزمائی کی ہے، ان کے کلام کی معنویت اور تازہ کاری میں اور اسلوب وادا نے ہم جیسے ادب کے طالب علم کو بھی متاثر کر رکھا ہے ، ان کی شاعری کی رموز ونکات ، روانی و بے ساختگی مستقبل میں ان کو ایک کہنہ مشق اور استاد شاعرہ کا در جہ دلائیگی۔ سیا سچدیو کے جس وصف خاص نے راقم الحروف کو متاثر کیا وہ ان کے مزاج کا تواضع وانکسار ہے، ایک قادر الکلام شاعرہ ہو نے کے باوجود انہوں نے دیگر شاعرات کی طرح اپنے آپ کو شعرو سخن کا آفتاب وماہتاب نہیں بتایا مشاعروں کی شاعرات کی بنسبت ان کا خلوص وانکسار ان کو ترقیات اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچا رہا ہے، اردو شاعری کا ایک روشن ستارہ سیا سچدیو مستقبل میں ایک دن ضرور شعری افق پر آفتاب ومہتاب بن کر چمکے گا۔
سیا سچدیو
بے دار ضمیر اور نازک احساس کی شاعرہ سیا کی غزلیہ شاعری کا رنگ وآہنگ دیگر شعراء وشاعرات سے منفرد ہے،ان کا یہ کمال فن خدا داد اور فکری صلاحیت کا مظہر ہے، جس میں آپ ندرت خیال بھی محسوس کریں گے۔ متانت اور سلیقہ مندی بھی احساس کی شدت نے ان کی شاعری کو شعور وادراک بھی بخشا ہے۔ نام نمود شہرت کی وادیوں سے بے نیاز ان کی شاعری میں معنویت بھی ہے اور غنایت بھی ، الفاط کو آسان بنا کر شعری پیکر میں ڈھالنے کا ہنر بھی ان کو آتا ہے، ان کے دل کی عمیق گہرایوں سے ابھر نے والی شاعری قاری کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی، تفنن طبع کے لئے ملاحظہ فر مائیں ان کے چند اشعار ؎
اب خوشی ہو کہ کوئی غم ہو بھلے ہیں دونوں
زندگی تیرا ہر اک رنگ جدا ہے مجھ میں
پہلے ہر بات پہ ہنستی تھی میں خوش ہو تی تھی
اب یہ احساس کہیں کھو سا گیا ہے مجھ میں
ظلم کا قد نہ گھٹا ہے اور گھٹے گا اے سیا
ہاں مگر حوصلہ لڑ نے کا بڑا ہے مجھ میں
موت جب سامنے آئی تو احساس ہوا
زندگی نے بڑی چاہت سے مجھے رکھا تھا
جان لیوا تھی بہت تجھ سے بچھڑنے کی گھڑی
وقت نے کتنی مصیبت سے مجھے رکھا تھا
8924042310