علم و ادب کی معروف شخصیت پروفیسر صالحہ رشید

0
546

[email protected] 

9807694588 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

موسی رضا


 

مولانا سید انوار صفی حسنین محمد ی

صفی ابن صفی

علم وادب ایسی عظیم خوبی ہے جو ہر انسان کے حصے میں نہیں بلکہ اس سے وہی افراد محظوظ ہیں جن پر رب قدیر کا خصوصی احسان وکرم ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں ذی علم اور غیر ذی علم کے مابین تفریق فرما دی ہے اور یہ اعلان کردیا ہے کہ یہ دونوں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے پس یہ بات مثل شمس عیاں ہے کہ علم وہ حسین شئی ہے جو صاحب علم کو ممتاز کر دیتی ہے، بے علم انسان خواہ کتنا ہی حسین اور خوبرو ہو وہ ایک خستہ حال ذی علم کا گرد پا بھی نہیں۔
رب تعالی کی اسی علم و ادب جیسی عظیم نعمت سے آراستہ ایک معروف شخصیت پروفیسر صالحہ رشید صاحبہ کی ہے، جن کا شمار زبان وادب کے ماہرین میں ہوتا ہے فارسی ادب آپ کا جوہر خاص ہے آپ کی ادبی وعلمی کاوشیں تاریخ علم وادب کا انمٹ نقوش ہیں آپ کے علمی انہماک اور ادبی شغف نے فارسی اور اردو کے دامن کو آبدار موتیوں سے بھرا ہے آپ کی بے مثال اور گراں قدر علمی وادبی خدمات کے صلے میں ملک کی مختلف اکیڈمیوں اور اداروں نے ایوارڈس عطا کئے آپ نے درس وتدریس کے میدان میں رہ کر تحقیق وتنقید کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور علم وادب کے وقار کو بلند کیا اورآپ نے ایسے علمی اور ملی کارنامے انجام دئے ہیں جنھیں دنیاے ادب کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ آپ کئ زبانوں سے واقف ہیں آپ نے جدید و قدیم مطبوعات کے ساتھ ساتھ قدیم مخطوطات کا گہرا مطالعہ کیا ہے – آپ کی ماہرانہ صلاحیت و قابلیت اہل علم و ادب سے پوشیدہ نہیں –
آپ کا تعلق ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے مشہور شہر الہ آباد کے ایک شریف خانوادے سے ہے 26 مئی 1958 میں پیدائش ہوئی۔ والد کا نام مجیب اللہ اور دادا کا نام عبدالمجید ہے جو بڑے صاحب علم وفضل تھے اور والدہ کا نام کنیز فاطمہ ہے
آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول میں حاصل کی اور ثانوی تعلیم کی حصولیابی کے لیے حمیدیہ گرلس انٹر میڈیٹ کالج کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر امتیازی اور نمایاں کامیابی حاصل کی اور آپ کو اس عظیم کامیابی پر انعام و اکرام سے سرفراز کیا گیا
آپ نے مزید گریجویشن الہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کی اور نمایاں کامیابی سے سرفراز ہوئیں چنانچہ آپ کو شعبہ فارسی کی جانب سے فیکلٹی ٹاپر کا اعزاز ملا جس کی بنا پر آپ کو نواب رامپور اسکالرشپ بھی ملی۔ اس کے بعد دہلی یونیورسٹی کا ارادہ کیا اور وہاں پہنچ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی اور دوران تعلیم ہاسٹل میں دہلی یونیورسٹی کے مختلف مناصب پر متمکن بھی رہیں جو بلاشبہ آپ کی لیاقت و قابلیت پر دلیل ہے۔
1984ء سے 1997ء تک فارسی لیکچرر کی حیثیت سے حمیدیہ ڈگری کالج میں ملازمت اختیار کی اور آپ کی علمی وادبی خدمات کی بنیاد پر 1997ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں تقرری ہوئی اور 31 مئی 2016 کو شعبہ عربی وفارسی کا آپ کو صدر منتخب کیا گیا جب سے آپ نے اس شعبہ کی باگ ڈور سنبھالی ہے.اپنی لگن اور ذاتی کوششوں سے شعبہ عربی فارسی کی کارکردگی میں اضافہ کرکے اسے ایک فعال شعبہ بنا دیا ہے
اس کے بعد یونیورسٹی وائس چانسلر پروفیسر رتن لال ہانگلو نے” اقلیتی تربیتی مرکز “( مائنارٹی ٹریننگ سینٹر )کا سربراہ بھی مقرر کردیا۔ یہ مرکز وزیراعظم کی 15 نکاتی بہبود اسکیم کے تحت 1984ء میں شروع کیا گیا جس کا مقصد اقلیتوں کی تعلیمی صورت حال میں اصلاح پیدا کرنا اور انہیں مقابلہ جاتی امتحان کے لیے تیار کرنا ہے. اس کے لیے ایک پنج سالہ اسکیم تیار کی جاتی ہے اور یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے اسے مالی تعاون دیا جاتا ہے. اس خاص ہدف اقلیتی زمرہ میں آنے والے طلباء کو انڈین ایڈمنسٹریٹیو سروسز کی تیاری کرانا ہے –
پروفیسر صالحہ رشید 35سال سے زائد کا تدریسی تجربہ رکھتی ہیں، طلباء کی ترقی اور ان کی صلاح و فلاح کے متعلق ہر وقت متفکر اور کوشاں رہتی ہیں. استاد بننا تو آسان ہے مگر طلباء کو اپنی باتیں سمجھا کر ان کے دل میں اتر جانا بڑا مشکل کام ہے، آپ کی تدریس کا انداز اتنا انوکھا اور نرالا ہوتا ہے کہ کمزور سے کمزور طالب علم بھی آپ کی گفتگو کو بآسانی سمجھ لیتا ہے. چونکہ ایک معلم و استاد کی حیثیت سورج کے مانند ہوتی ہے جو اپنی روشنی اور حرارت ہر شئے تک پہنچاتا ہے.اس لیے آپ بلا تفریق مذھب و ملت اپنے طلباء پر علم کی ضیاء فشانی کرتی ہیں. آپ ایک مثالی استاد ہیں. آپ کی ہر ہر ادا بالخصوص کلاس میں آپ کا انداز گفتگو، لیکچر دینے کا نرالا طرز اور طلباء سے مخاطب ہونے کا انداز بالکل منفرد اور یگانہ ہے-

پروفیسر صاحبہ اپنی گوناگوں صفات اور خصوصیات کی بنا پر کئی فلاحی تنظیموں اور جامعات کی رکن بھی ہیں اور مختلف کمیٹی و صوبہ جاتی امتحانات و سلیکشن کمیٹی سے منسلک ہیں نیز بچوں کی ادبی جرائد کی نگراں ہیں، عورتوں اور بچوں کی تعلیم کی خاطر خصوصی کاونسلنگ اور آئی اے ایس کی تربیت پر خاص توجہ ہے۔
1934ء میں اتر پردیش پبلک سروس کمیشن کا قیام عمل میں آیا، عربی فارسی اسی وقت سے اس کے کورس میں شامل ہے. عربی و فارسی انتخابی مضمون لیکر جب تب امیدوار کامیاب بھی ہوتے رہے ہیں.چند برسوں سے مدارس کے طلباء نے بھی اپنی کامیابی ان امتحانات میں درج کروائی ہے. مگر ابھی بھی طلباء کی خاطر خواہ تعداد ان امتحانات سے دور ہے. اس کی سب سے بڑی وجہ ان زبانوں کا کورس دستیاب نہ ہونا ہے. مگر اب یہ مشکل دور ہو چکی ہے. پروفیسر صالحہ رشید صاحبہ نے اتر پردیش پبلک سروس کمیشن عربی و فارسی کا کورس مرتب کرواکر شائع کردیا ہے.عربی کا کورس وسیلہ کے نام سے ڈاکٹر ضیاء الدین مظاہری (دارالعلوم مرکز اسلامی الہ آباد) نے اور فارسی کا کورس آھنگ کے نام سے راقم الحروف (سجادہ نشین خانقاہ سہروردیہ چشتیہ خلیل پور چفری نواب گنج الہ آباد ) نے مرتب کرکے کتابی شکل دے دی ہے.یہ کتابیں مقابلہ جاتی امتحانات کے علاوہ بی اے، ایم اے اور مدرسہ تعلیمی بورڈ عربی فارسی (منشی، عالم، کامل، فاضل) کرنے والے طلباء کے لیے بھی کار آمد ہے.
علاوہ ازیں آپ کا ایک اہم اور قابل ذکر کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے ایک ایسی رضا کار تنظیم کی بنیاد رکھی ہے جو بے سہارا اور نادار بچوں کی تعلیمی ذمہ داری اٹھا رہی ہے جو یقیناً لائق تحسین اور قابل داد اقدام ہے کیونکہ بہت سے غریب گھرانے سے متعلق بچے جذبہ تعلیم رکھنے کے باوجود محض معاشی مجبوریوں کی بنا پر دولت علم سے محروم رہ جاتے ہیں۔
نیز اردو جیسی شیریں زبان کو فروغ دینے کے لیے آپ حتی الوسع مفت خدمات انجام دیتی ہیں اور یہ جزبہ محض اس لیے کارفرما ہے کہ آپ نے جس دور میں میدان تعلیم میں اپنے قدم کو رکھا تھا اس وقت خاص طور پر مسلم معاشرے میں عورتوں کی تعلیم کا رواج نہ تھا، اس کے باؤجود پروفیسر صاحبہ بڑی محنت و لگن کے ساتھ زیور تعلیم سے آراستہ ہوئیں.
اگست 2017ء میں پروفیسر صالحہ رشید صاحبہ کو ان کی ادبی کاوشوں اور علمی سرگرمیوں کے اعتراف میں الہ آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر رتن لال ہانگلو کے ہاتھوں ایوارڈ پیش کیا گیا.
پروفیسر صاحبہ نے شب وروز کی ہزارہا مصروفیات کے باوجود تصنیف وتالیف کے میدان کو بھی خالی نہیں چھوڑا ہے آپ نے بہت سے مقالات اور کتابیں سادہ اور سلیس انداز میں تحریر کی ہیں جو چھپ کر مقبول خواص وعوام ہوچکے ہیں بالخصوص تفہیم ،اسلم جمشید پوری شخصیت اور فن ،اور بوستان خیال جیسی کتابیں قابل ذکر ہیں۔
“تفہیم” 14 مقالات پر مشتمل ہے جن کے ذریعہ فارسی زبان وادب کے مختلف ادوار میں ماھیت اور افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے بقول پروفیسر صالحہ رشید صاحبہ فارسی زبان و ادب خزینہ کے اعتبار سے ایسا بحر ذخار ہے جس کے عوض صدیوں تک اس میں ڈوب کر گہر چینی کرتے رہیں تب بھی مستقبل میں خزینہ یابی کے امکانات باقی رہیں گے۔ پہلا مضمون بعنوان “ہندوستانی پالی عربی فارسی اردو کل اور آج ” یہ ایک بہت ہی شاندار تحقیقی مقالہ ہےجس میں مصنفہ نے ہندوستانی زبانوں کی تاریخ ڈھونڈ نکالنے کی عمیق کوشش کی ہے، فارسی صحافت کے ارتقاء اور ہندوستانی فارسی ادب میں اس کے نقوش علاوہ ازیں امام محمد غزالی اور کیمیاء سعادت، اور تاریخ اکبری وغیرہ پر اچھی طبع آزمائی کی ہے۔
یوں ہی “بوستان خیال” ایک مسودہ ہے جو دہلی میں ایوان غالب میں محفوظ ہے اس میں ساتویں صدی سے لے کر گیارہویں صدی تک کے شعراء کی شاعری کا تذکرہ ہے۔ یہ ایک پوشیدہ معلوماتی خزانہ ہے جسے منظر عام پر لانا بہت ضروری ہے لیکن اس مسودہ کی جسمانی شکل و حالت ایسی ہے جو کئی چیلنجز پیش کرتی ہے مثلاً اس کی کتابت کو کما حقہ سمجھنا مشکل ہے بہت سے مقامات سے حروف محو ہوگئے ہیں نیز اس میں مذکور شعراء کے حالات کو معلوم کرنا ایک دقت طلب امر ہے کیونکہ ان کے متعلق معلومات اس بوستان میں درج نہیں مگر ان سب کے باوجود پروفیسر صاحبہ نے اس بار ےمیں قدم اٹھایا اور لوگوں کو اس پوشیدہ علمی مخزن سے محظوظ کرانے کی پوری کوشش کی آپ کا یہ مجموعہ فارسی ادب سےلگاو رکھنے والوں کے لیے نہایت دلچسپ اور اہم ہے۔
نیز اب تک آپ کے کئی مضامین قومی وملی مسائل کے حوالے سےمتعدد جرائد و اخبار میں شائع ہوچکے ہیں جس کی فہرست طویل ہے
حاصل یہ کہ پروفیسر صاحبہ کی شخصیت بےشمار علمی وعملی کمالات سے مزین ہے آپ کی علمی ادبی دینی تبلیغی اصلاحی تنظیمی جماعتی اور دعوتی خدمات ہمہ گیر ہیں خداداد ذھن و فراست سے کام لے کر علم وادب کی بھرپور خدمت انجام دے رہی ہیں، تحقیقی و تنقیدی، صلاحیتوں کے سبب نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک میں بھی آپ کی علمی عملی اورادبی خدمات کا اعتراف کیا جارہا ہے آپ نے ملک وبیرون ملک بالخصوص سعودی عرب، دبئی اور ایران کا سفر کیا، آپ نے سیکڑوں سیمینار اور کانفرنس میں شرکت کی اور اپنے تحقیقی و تنقیدی مقالات پیش کئے
آپ کی مقبولیت کاراز صاحبان علم کی خدمت، طالبان علم کی معاونت اور تشنگان ادب کی رہنمائی میں پنہاں ہے، اس ضمن میں وہ ہر طور پر بھرپور امداد کرتی ہیں پس آپ کی شخصیت ایک مینارہ نور کی سی ہے جو بھٹکے ہوے جہاز اور کشتی کے لیے نشان منزل ہے.
فارسی اسکالر و سجادہ نشین خانقاہ سہروردیہ چشتیہ خلیل پور چفری نواب گنج الہ آباد موبائل نمبر 9918300200
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here