9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر مشتاق احمد
پروفیسر نامور سنگھ (28جولائی 1926۔19فروری2019)ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔وہ ہندی کے ایک ایسے دانشور ، ادیب اورنقاد تھے جن کی ہندوستان کی تمام زبانوں کے ادباء اور شعراء کے درمیان نہ صرف مقبولیت تھی بلکہ قبولیت بھی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ نہ صرف ہندی ادب کے ادیب وناقد تھے بلکہ حقوق انسانیت کی جنگ لڑنے والے ایک بے خوف سپہ سالار بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی طالب علمی کے زمانے سے لے کر جب تک وہ لکھتے رہے اور ادبی وعلمی اور سماجی وسیاسی جلسوںمیں شرکت کرتے رہے ، اپنے بیباک اور انصاف پسند موقف پر قائم رہے ۔ نتیجہ ہے کہ شروع سے ہی ان کی شخصیت متنازعہ فیہ بھی رہی ۔ کبھی ادبی گروہ بندی کے خلاف آواز بلند کرتے رہے تو کبھی سیاسی جبر اور سماجی برائیوں کے خلاف متحرک رہے۔ ہندی زبان وادب کے بڑے سے بڑے بتوں کو ایک جھٹکے میں مسمار کرنے کی مہم اور نئے لکھنے والوں کو آسمانِ ادب پر ابھارنے کی کوشش نے بھی انہیں ہمیشہ سرخیوں میں رکھا۔سیاسی طورپر سماجوادی فکر رکھنے والے نامور سنگھ کمیونسٹ پارٹی کے فعّال ومتحرک کارکن بھی رہے اور ادب میں بایاں محاذ کی فکر کو فروغ دینے والوں میں ان کا کلیدی کردار رہا ۔ نامور سنگھ اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی ادب کے تئیں سنجیدہ رہے کیوں کہ جس وقت وہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں طالب علم تھے اس وقت بھی ہندی دنیا میں وہ غیر معروف نہیں تھے۔ نئی نسل کے لکھنے والوں میں ان کی پہچان مستحکم ہو چکی تھی ۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں پیشۂ درس وتدریس سے وابستگی پھر جودھ پور یونیورسٹی کا سفر اور ساگر یونیورسٹی کے بعد دنیا کی مشہور ومعروف علمی درسگاہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں شعبۂ ہندی کے بانی نامور سنگھ واقعی اپنے نام کی نسبت سے ہمیشہ ’’نامور ‘‘ رہے ۔ یہ خاکسار بھی ادب کا طالب علم ہے اور اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کی معمولی سدھ بُدھ رکھتاہے ۔ بالخصوص ہندوستانی ادب میں ہندی ادب میں خاصی دلچسپی رہی ہے ۔ کالج کے زمانہ میں ان کا سہ ماہی ’’آلوچنا‘‘ لائبریری میں دیکھتا تھا ۔ بعد میں تھوڑی دلچسپی بڑھی تو پڑھنے بھی لگا اور دھیرے دھیرے نامور سنگھ کی دیگر تخلیقات سے بھی آشنائی ہونے لگی ۔جس وقت اپناامتحانیہ تحقیقی مقالہ برائے پی۔ایچ ڈی لکھ رہا تھا اس وقت خصوصی طورپر ہندی ادب کی تاریخ کو پڑھنے کی کوشش کی ۔ بالخصوص عصری ہندی ادب کی تاریخ کے مطالعے کے بعد میرے لئے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہوگیا کہ ہندی میں رام بلاس شرما، رام چندر شکل اور ہزاری پرساد دویدی کے بعداگر کوئی نام ہندی تنقید اور خصوصی طورپر ہندی شاعری کی تنقید لکھنے والا صحت مند فکر ونظر کا مالک نقّاد ہے تو وہ نامور سنگھ ہیں۔ نامور سنگھ سے پہلی بالمشافہ ملاقات 1983ء میں ہوئی تھی جب اردو کے عظیم المرتبت نقّاد اور ایک عظیم انسان پروفیسر قمر رئیس کے ساتھ ان سے ملاقات ہوئی تھی ۔ پھر اس کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کے رکن کی حیثیت سے بھی بارہا ملاقات ہوتی رہی اور مختلف موقعوں پر ادبی اور علمی جلسوں میں ان کی تقریریں بھی سنیں،جو ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ اکثر سامعین کے لئے چشم کشا ہوتی تھیں۔ اگرچہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اردو حلقے میں ان کی شخصیت متنازعہ ہوگئی تھی جب ہندی اور اردو کے مسئلے پر ترقی پسند مصنفین کے درمیان ایک بحث شروع ہوگئی تھی کہ ہندوستانی فلم کی زبان اردو ہے یا ہندی۔نامور سنگھ نے اس وقت ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’باسی بھات میں خدا کا ساجھا‘‘۔ اس مضمون کے ذریعہ انہو ںنے ہندی کی حمایت کی تھی لیکن وہ اردو کے مخالف نہیں تھے بلکہ ان کا موقف تھا کہ ہندی قومی زبان تسلیم کرلی گئی ہے اور رابطے کی جو زبان ہندی ہے اس میں اردو اور فارسی کے بھی الفاظ موجود ہیں ۔ صرف رسم الخط کا فرق ہے ۔ بہر کیف جس وقت یہ تنازعہ چل رہا تھا اس وقت بھی اردو حلقے میں ان سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی ان کی علمی وادبی اور دانشوری قدآوری کے دلدادہ رہے اور اردو حلقوں میں بھی ان کی شمولیت ہوتی رہی ۔ میں باضابطہ ان کا شاگرد نہیں رہا لیکن میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے بھی ایک دن ان کے کلاس میں بیٹھنے کا موقع ملا اور اس لئے اس کے بعد ہمیشہ ان سے یہ کہتا بھی تھا کہ آپ کے شاگردوں کی فہرست میں میرا بھی نام ہونا چاہئے کہ میںبھی آپ کا ’’ایک دن کا طالب علم ہوں‘‘ ۔واقعہ یہ ہے کہ یو جی سی کے پروگرام کے تحت سبھی زبانوں کے اساتذہ کے لئے 1998ء میں بہار یونیورسٹی مظفرپور کے اکیڈمک اسٹاف کالج میں اورینٹیشن پروگرام رکھا گیا تھا ۔اردو زبان وادب کے طالب علم ہونے اور پیشۂ درس وتدریس کی وابستگی کی وجہ سے اس پروگرام میں مجھے بھی شامل ہونا تھا ۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ اس دن کے خاص مقرر پروفیسر نامور سنگھ ہیں ۔ مجھے دیکھتے ہی نہ صرف اپنی مسرت کا اظہار کیا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ آج ’’ایک پنتھ دو کاج‘‘ ہوں گے ۔ یہاں کے بعد ہم لوگ جنوادی لیکھک سنگھ کی میٹنگ میںبھی شامل ہوں گے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس پروگرام میں تقریباً 75شرکاء تھے اور اس میں سبھی زبانوں کے مثلاً ہندی، اردو، انگریزی، میتھلی، بھوجپوری ، سنسکرت ، بنگالی،تیلگو، تمل اور بھی کئی علاقائی زبانوں کے اساتذہ شامل تھے ۔ ان کی تین گھنٹے کی تقریر کے بعدبھی ذہن تھکا نہیں تھا بلکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ انہیں ابھی اورسنتے رہتے اور یہ تشنگی صرف میرے اندر ہی نہیں تھی بلکہ ہر کوئی پیاسا نظر آرہا تھا ۔نامور سنگھ ایک دانشور تھے ، ہندوستانی تہذیب وتمدن کی تاریخ کے ایک انسائیکلوپیڈیا تھے ۔ ہندی زبان وادب پر تو انہیں عبور ہی حاصل تھا لیکن اردو زبان وادب کے ساتھ ساتھ دیگر ہندوستانی زبان وادب کی تاریخ پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی ۔ بالخصوص اردو شاعری کے تو وہ دلدادہ تھے ۔ اس مذکورہ پروگرام میں بھی انہوں نے میرؔ، غالبؔ، ولیؔ، سراجؔ، جگرؔ، فراقؔ، اقبالؔ اور فیض احمد فیضؔ کے درجنوں اشعار کے ذریعہ اردو شاعری کی عظمت کا اعتراف کرنے کے بعد انہوں نے دیگر زبان کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر آپ نے اردو کے ان شعراء کو نہیں پڑھا ہے تو پھر آپ ہندوستان کی تہذیبی وراثت کے امین نہیں بن سکتے اور اردو والوں سے بھی کہا تھا کہ آپ جس طرح خسروؔ کو پڑھتے ہیں ویسے ہی کبیرؔ اور رحیمؔ کو بھی پڑھئے ۔ رسخان سے بھی آگہی حاصل کیجئے ۔ انہو ںنے اس علمی مذاکرے میں اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ ہندوستان کی تہذیب وتمدن کی حفاظت ادباء اور شعراء ہی کر سکتے ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ہندوستانی زبانوں کے ادیب وشاعر تقابلی مطالعے کو فروغ دیں ۔ اس علمی مذاکرے میں ان کے ساتھ کی تاریخی تصویر مجھے بار بار ماضی میں لئے جا رہی ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اپنی دانشوری کے رس کانوں میں گھول رہے ہیں ۔ ہندی کے ایک جیّد ادیب وناقد راجندر یادو نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ’’نامور سنگھ ایک ایسے تنہا انسان ہیں جنہیں ہندی ادب کے باہر سماج اور پورے ملک میں ایک عظیم شخص کے طورپر جانا پہچانا جاتاہے وہ ہندی کے مصنفوں میں اکیلے ’’پبلک انٹلکچول‘‘ ہیں ۔
بلا شبہ پروفیسر نامور سنگھ، بیسویں صدی کے ایک ایسے ادیب اور ناقد ہیں جنہیں ہندی کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں کے ادباء اور شعراء سے وابستگی رہی ۔ فکری طورپر بایاں محاذ کے قریب رہے اور سیاسی طورپر فعّال بھی رہے ۔ ’’اپٹا ‘‘سے بھی منسلک رہے اور پوری دنیا میں ہندی زبان وادب کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ادب مشعل بردار رہے ۔ جب 19فروری 2019کو ان کا انتقال ہوا تو اس موقع پر بی بی سی لندن ریڈیو نے 1972ء کی ایک رکارڈنگ نشر کی جو انہوں نے لندن میں ریکارڈ کرایا تھا ۔ اس میں جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ ہندوستانی اور یوروپی نوجوانوں کی سوچ وفکر میں کیا فرق ہے تو ان کا جواب تھا کہ’’ ہندوستان کا نوجوان اپنی تہذیب وتمدن سے ابھی جڑا ہوا ہے اور ادب میں بھی اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ ہاں! سیاسی شعور کے معاملے میں ابھی ذرا پسماندہ ہے لیکن انسانی حقوق کے تئیں یوروپ کے مقابلے سنجیدہ ہے ۔اسی انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’یوروپ کا ادب ’’بدن‘‘ کو پیش کررہاہے جب کہ ہندوستانی ادب ’’وطن ‘‘کو پیش کررہا ہے ‘‘۔اس مختصرجملہ سے بھی نامور سنگھ کے افکار ونظریات کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
جہاں تک ہندی ادب کا سوال ہے تو نامور سنگھ نے ہندی ادب میں شاعری کی تنقید کو ایک معراج بخشا ہے ۔ انہو ںنے اپنی کتاب ’’کویتا کے نئے پرتیمان‘‘ (1968) کے ذریعہ ہندی تنقید کے سمندر میں ایک ایسا پتھر پھینکا تھا جس کے دائرے نے ساحل تک کو چونکا دیا تھا ۔ہندی تنقید میں ان کی اس کتاب نے بڑے بڑے بتوں کو توڑ کر رکھ دیا تھا ۔ اس سے پہلے ہندی میں ’’آگیے‘‘ یعنی سچیدانندہیرا نند واتشائن اگیے کا پرچم بلند تھا لیکن اس کے بعد پوری ہندی دنیا نامور سنگھ کے اردو گرد گھومنے لگی ۔وہ ہندوستانی سماج کے ایک نباّض تھے۔ اس لئے جب کبھی سماجی سطح پر کوئی تبدیلی واقع ہوئی تو اسے انہو ں نے اپنی فکر ونظر کا حصہ بنایا۔ ان کی کتاب ’’آدھونک ساہتیہ کی پرورتیاں‘‘ (1954)اور ’’دوسری پرمپرا کی کھوج‘‘ (1982)ان کے نظریۂ حیات اور نظریۂ فکر فن کی آئینہ دار ہیں ۔ ان کی تصانیف کی فہرست بھی لمبی ہے کہ وہ تقریباً 70سالوں تک مسلسل لکھتے رہے ۔ رسالہ ترتیب دیتے رہے ، نئی کہانیوں اور کویتائوں کو کتابی صورت میں پیش کرکے ادب کے قارئین کے ذہن میں سوالات قائم کرتے رہے ۔ ہفتہ وار ’’جن یُگ‘‘ کے ذریعہ سیاسی اور سماجی مسائل پر روشنی ڈالتے رہے تو خالص ادبی رسالہ سہ ماہی ’’آلوچنا‘‘ ( 1967-1990)کے ذریعہ ادبی حلقے تک اپنے افکار ونظریات کو پہنچاتے رہے ۔ ان کی تصانیف کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ زبان وادب کے تئیں وہ کتنے کمیٹڈ تھے۔ان کی تصانیف میں ’’بقلم خود(1951)، ہندی کے وکاس میں اپبھرنش کا یوگدان(1952)، آدھونک ساہتیہ کی پرورتیاں(1954) ، چھایا واد(1955)، پرتھوی راج راسو کی بھاشا(1956)، اتیہاس اور آلوچنا(1957)، کہانی :نئی کہانی(1964)، کویتا کے نئے پرتیمان(1968)، دوسری پرمپرا کی کھوج(1982)، واد، ویواد، سمواد(1989)، آلوچنا کے مُکھ سے (2005)، کاشی کے نام(2006)، کویتا کی زمین اور زمین کی کویتا(2010) ، ہندی کا گدھ پرو(2010)، سموکھ(2012)، ساتھ ساتھ (2012) ، پُرو رنگ(2018) اور ’’دوآبھا(2018) ۔ پروفیسر نامور سنگھ کی مذکورہ کتابیں اس حقیقت کی غمّاز ہیں کہ وہ ادب اور زبان کے تئیں کتنے ایماندار تھے اور ایک تخلیقی فنکار کی حیثیت سے کہ انہوں نے شاعری بھی کی اور ایک نقّاد کی حیثیت سے شعری سلیقۂ فکر کو ایک نئی شناخت دینے کی جد وجہد کی اور اس میں وہ کامیاب رہے کہ آج ہندی تنقید بغیر نامور سنگھ کے ادھوری سمجھی جائے گی ۔بیسویں صدی کی ہندی ادب کی تاریخ میں نامور سنگھ کی خدمات ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ و ہ کبھی حکومت کی پسند نہیں رہے کہ وہ کسی کو بھی کھری کھوٹی سنانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ باوجود اس کے سب کے دلوں ان کے لئے ایک احترام تھا ۔ساہتیہ اکادمی دہلی نے انہیں1971ء میں ان کی کتاب ’’کویتا کے نئے پرتیمان‘‘ کے لئے انعام دیا تھا جب کہ ہندی اکادمی دہلی نے اپنا سب سے بڑا ایوارڈ ’’شلاکا سمّان‘‘ 1991میں دیا تھا ۔ اتر پردیش ہندی سنستھان کی جانب سے ساہتیہ بھوشن 1993ء میں اور دلّی کرناٹک سنگھ کا قومی ایوارڈ 2015میں انہیں دیا گیا تھا ۔
مختصر یہ کہ نامور سنگھ اپنی صحت مند فکر ونظر اور ایک سادہ زندگی جینے والے بلکہ ٹھیٹھ دیہاتی زندگی جینے والے انسان دوست تخلیق کار تھے ۔ ان کی نگاہ میں تحفظ انسانیت مذہب کا درجہ رکھتی تھی ۔انہوں نے تمام عمر حاشیے پر کھڑے سماج کی وکالت کی ۔ ملک میں جب کبھی غیر جمہوری آواز ابھری تو اس کے خلاف باغیانہ تیور اپنایا اور نہ صرف خود اس کے خلاف کھڑے ہوئے بلکہ اس کے مقابلے کے لئے صف بندی بھی کی اور اس میں تمام زبانوں کے ادباء اور شعراء کی شرکت کو یقینی بنانے کی کوشش کی ۔ اس لئے ان کی تخلیقات میں صرف ادبی چاشنی ہی نہیں ملتی بلکہ ہندوستان کی سماجی ،معاشرتی،سیاسی، تہذیبی وتمدنی تغیرات کے قوس وقزح بھی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ عصری ہندی تنقید کے قطب نما تھے کہ ساٹھ کی دہائی کے بعد کی نسل انہی کے’’ نقشِ قدم‘‘ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنایا۔جب ہندی ادب میں شدت پسند ہندوتو نظریہ پنپنے لگا تو اس کی بیخ کنی بھی کی اور اعلانیہ اس روش کو ملک کی سا لمیت کے لئے خطرناک بھی قرار دیا ۔ اب جب کہ نامور سنگھ ہمارے درمیان نہیں رہے تو ان کی تحریریں اور تقریریں انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی کہ ان کی تخلیقات ابدی حیثیت کی حامل ہیں
٭٭