عرب ممالک کے بیانات سے خوش ہونے کی ضرورت نہیں

0
133

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

مشرّف عالم ذوقی

عرب ممالک کی جانب سے مسلمانوں کی حمایت میں جو بیانات آ رہے ہیں ، وہ ہندوستانی مسلمانوں کو نقصان بھی پہچا سکتے ہیں .گلف میں رہنے والے ٨٠ لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں کو ان کے عھدے سے ہٹایا نہیں جا سکتا . کچھ لوگ مسلم مخالفت کی بنا پر بر طرف کے جا سکتے ہیں . لیکن گلف ممالک کا کارخانہ ان ٨٠ لاکھ مزدوروں کی وجہ سے ہی چلتا ہے .ٹویٹر ٹرینڈ میں بار بار شہزادی صاحبہ ، عمان ، قطر ، سعودی عربیہ سے جو بیانات آ رہے ہیں ، میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ بیانات ہندوتو کی مہم کو تیز کرنے کا کام کریں گے . ان بیانات کے آنے کے بعد مودی کے ٹویٹ میں نہ مسلمانوں کا نام لیا گیا اور نہ ہی یہ جواب دیا گیا کہ وہ مسلم مخالف مہم کو روکنے کی کوشش کریں گے . حالات کا مقابلہ ہمیں مل کر کرنا ہے . اور سیکولر فورس کو نشانہ بناہے بغیر ساتھ مل کر چلنا ہے .
پچھلےچھ برس میں انسانی اخلاقیات کا ہر صفحہ مردہ ہو گیا . اقتدار اور پاور کی جنگ کچھ ایسی تھی کہ ہم نے نفرت کی ہر انتہا پار کر لی . ہندو کو مسلمان سے لڑایا . سیاست نے وہ کہانی لکھی ، جو اب تک نہیں لکھی گیی تھی .سیاسی جنگ میں ہم اس ہندوستان کو فراموش کر بیٹھے جو کسی زمانے میں سونے کی چڑیا کہلاتا تھا .،. انگریزوں نے جو لوٹا وہ الگ کہانی ہے مگر سونے کی چڑیا اپنے بھی لوٹ کر لے گئے . راہل گاندھی نے ایک برس قبل یہ بیان دیا تھا ، کہ مودی ایسے چوکیدار ہیں جو بڑے لوگوں کی چوکیداری کے فرائض انجام دیتے ہیں . اور اس بیان میں شک کی گنجائش بھی نہیں . چھ برسوں میں یہ بھی ہوا کہ ایک قطار سے ہندوستانی خزانے لے کر بڑے بڑے انڈسٹریلسٹ بھاگ گئے .اب بھی بھاگ رہے ہیں .کیا بھاگنا آسان تھا ؟ کرپشن ، اخلاقیات کی موت ، نفرت کی انتہا نے سب سے زیادہ ہماری آزادی کو متاثر کیا .
اس آزادی کو سمجھنا ان کے لئے مشکل ہے جو اندھی تقلید میں آزادی کا مطلب بھول چکے ہیں .
برٹرینڈ رسل کے مطابق ، میں اس حقیقت سے انکار کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتا کہ سب سے زیادہ مہذب معاشروں میں بھی سماجی تعاون کی ایک جبلی اساس ہوا کرتی ہے۔ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ہمسایوں جیسے ہوں اور وہ انہیں پسند بھی کریں۔ غیر مہذب انسانوں میں انفرادی آزادی کا مسئلہ سر نہیں اٹھاتا تھا، کیونکہ انہیں اس کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی تھی لیکن مہذب انسان جوں جوں زیادہ تہذیب یافتہ ہوتے جا رہے ہیں، اس مسئلے کی شدت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ایک خیال ہے کہ حکومت آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے ہمیں آزاد ہونے میں مدد دے سکتی ہے.افراد کی زندگی کی تنظیم کاری میں حکومت کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔ صاف طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ تہذیب کا قافلہ آگے بڑھتا رہا تو پھر معاشرے میں آزادی کا مسئلہ بھی شدید تر ہوتا جائے گا. افراد کی زندگی کی تنظیم کاری ..اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے .مہذب سماج میں ایک مخصوص نظریے نے بہت ہوشیاری کے ساتھ آزادی کی نیی عبارت لکھی اور اس عبارت کو قدیم فکر کے ساتھ عام کیا .ان میں مسلمانوں کا کنورزن بھی تھا . گم ہوتا راشٹرواد بھی تھا .ہندوتو بھی تھا . اور اس آزادی کا سب سے موثر ہتھیار پاور تھا . یعنی پاور ہو تو آزادی کی نیی تعریف آسانی سے لکھی جا سکتی ہے . یہ قصّہ اڈوانی کی رتھ یاتراؤں تک ایک شیپ لے چکا تھا .لیکن اس وقت پاور میں وہ جوش نہیں تھا .طاقت کم تھی . مودی اہے .پاور میں اضافہ ہوا تو چھ برسوں میں ہر عبارت کا رنگ پچھلی عبارت سے مختلف تھا .بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ ہر عبارت آزادی کی نیی تعریف کو لے کر لکھی گیی تھی . اس نظریے سے غور کریں تو چھ برسوں میں سب سے زیادہ متاثر ہماری آزادی ہوئی ہے اور اسی لئے سونے کی چڑیا کا رنگ اب پہلے جیسا نہیں رہا . اس رنگ کے اترنے میں کافی وقت لگےگا . اگردس برس بعد کویی دوسری حکومت بھی آتی ہے تب بھی یہ رنگ قائم رہے گا . پرانے رنگ کو واپس لانے کے لئے بڑے انقلاب کی ضرورت ہے ، جو آگے کے پندرہ برسوں تک ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا .
ان سب کے ذمہ دار مسلمان بھی رہے ہیں .اب محسوس ہوتا ہے کہ شاہین باغ سے ہم نے کیا حاصل کیا ؟ احتجاج کا نتیجہ کیا نکلا ؟ ہر بات حکومت کے فیور میں گیی . بھکت مضبوط ہوئے . دہشت گردی میں اضافہ ہوا . کرونا کے پھیلنے کا فائدہ بھی بی جے پی نے اٹھایا . مسلمانوں کا گراف اور نیچے آ گیا .
آر ایس ایس نےدو قدم آگے چل کر مسلمانوں کو جوڑنے کی تیاری کر لی ۔مسلم مورچہ بھی بن گیا .ٹوپی لگائے کچھ مسلمانوں کا ساتھ بھی مل گیا۔ایک بڑی تعداد مجرموں کی تھی . انکو عھدے اور منصب سے نوازا گیا ۔ان میں کویی اجمیر دھماکے کا مجرم تھا ،کوئی سمجھوتا ایکسپریس کا مجرم . کویی سادھوی ، کوئی سنت ..
۔ابھی یہ سارے سفید کالر والے ہیں اور ان پر ہی مسلمانوں کو قریب لانے کی ذمہ داری ہے ۔ان کے جواب پہلے سے تیار ہیں۔یہ وہ ہیں ،جن کی نفرت اسلام سے ہے ۔مسلمانوں سے نہیں ہے ۔کیونکہ مشن یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کی گھر واپسی کرایی جا سکتی ہے ۔ٹی وی چنیلس کے پاس مخالف رویہ اپنانے والوں کی کویی جگہ نہیں ۔ایک حقیقت اور بھی ہے۔مخالفت کرنے والوں کو یہ کہ کر بلایا جاتا ہے کہ آپ اپنے دل کی بات رکھیے–تاکہ اپنی گائیڈ لائن کے حساب سے مسلمانوں کی اکثریت کو جواب دیا جا سکے ۔ یاد کیجئے ، ایک برس قبل آر ایس ایس کیمپ سے ایک اور فتویٰ آیا تھا ، ۔مسلمان گائے پالیں۔ایک بادشاہ نے خوش ہو کر ایک غریب شخص کو ہاتھی انعام میں دیا ۔غریب شخص نے ہاتھ جوڑ لیا ۔رحم کیجئے۔ہاتھی کو کھلانے پلانے میں مر جاونگا جہاں پناہ ..جہاں افلاس کا عالم یہ ہو کہ مسلمان غریبی کی سطح سے بھی نیچے کی زندگی گزار رہے ہوں وہاں گائے کون پالے گا ؟ جہاں جانوروں کے نام پر بھی قتل ہو رہے ہوں ،وہاں صرف مسلمانوں کا استحصال ہی ہو سکتا ہے . میڈیا ،ٹی وی چنیلس اور حکومت نے مسلمانوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجے کی مخلوق ثابت کر دیا ۔آنکھیں بدل گیی ۔کچھ دن اسی طرح گزرے تو مسلمان اس ملک میں نمائش کی چیز بن کر رہ جاینگے .
۔سوالات کے رخ خطرناک طور پر مسلمانوں کے لئے مایوسی کی فضا تیار کر رہے ہیں ۔ایک زمانے میں وش کنیایں ھوا کرتی تھیں۔انکی خوراک ہی زہر ہوا کرتی تھی۔ملک کو فرنگیوں سے نجات پانے میں تاخیر اس لئے ہوئی کہ بہت سے ہندوستانی ،ان میں راجہ مہاراجہ بھی شامل ،انگریزوں کے چاپلوس ہوا کرتے تھے۔جو مشن مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر ہو ،اس مشن سے کویی مسلمان خود کو کیسے وابستہ کر سکتا ہے۔آر ایس ایس کی حکومت میں جس طرح مسلمانوں کے خلاف خوفناک بیانوں کا سلسلہ جاری ہے ،وہاں ان سے محبّت کی امید کیسے کی جا سکتی ہے ؟ آئے دن کبھی مسجدوں پر حملہ ،کبھی مدارس پر وار ،کبھی گاو رکشکوں کے حملے ،طلاق کو بنیاد بنا کر ہندوستانی عورتوں میں بغاوت پیدا کرنے کی کوشش ..کبھی مسلمان کبھی اسلام پر سیدھا حملہ، شاہین باغ کی عورتوں کا مذاق ، کورونا کے نام پر مسلمان سبزی فروشوں کا بائیکاٹ . میرٹھ کے ایک اسپتال نے اخبار میں ایک اشتہار دیا کہ یہاں مسلمانوں کا علاج نہیں ہوگا . مسلمانوں کو معاشی سطح پر کمزور کرنے کی مہم جاری ہے .جمہوریت یہاں تک پہچی کہ آج کا ہندوستان باضابطہ غلام ہندوستان کی طرح دو قومی نظریے میں تقسیم نظر آ رہا ہے .ان سب کے باوجود آر ایس ایس کو خوش ہونا چاہیے کہ چند مسلمانوں کو چھوڑ کر مسلم اکثریت نے کویی آواز اس لئے بلند نہیں کی — کہ ہندوستانی مسلمان آج بھی سیکولرزم ،جمہوری قدروں اور فرقہ وارانہ ہمہ آہنگی پر یقین رکھتے ہیں ۔
مسلمان حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے .احتجاج اور شاہین باغ نے بھی مسلمانوں کو نقصان پہچایا ہے . اب عرب ممالک کے بیانات زیادہ گزند پہچاہیں گے . یہ وقتی بیانات ہیں .ان سے کچھ حاصل نہیں . کیا ٥٥ عرب ممالک متحدہ طور پر ہند کی حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں کہ مسلم مخالفت کا رویہ بند ہو ؟ نہیں کر سکتے . سب کے اپنے اپنے مفاد ہیں . اس لئے حالات کی بہتری کے لئے خود ہمیں کوئی قدم اٹھانا ہوگا .
ہم ایک ایسے پر آشوب وقت میں داخل ہوچکے ہیں کہ آسمان پر اڑتے ہوئے اور زمین پر گھومتے ہوئے شکاری ہر طرف ، ہر جگہ مسلمانوں کے فراق میں ہیں۔ نشانے پر مسلمان ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی بھی سنجیدہ نہیں ۔ ابھی بھی خواب غفلت میں ہیں۔ اور حد یہ کہ ہمارے جاگنے کی امید بالکل بھی نہیں ہے ۔ اس لئے بس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے ۔
-ہم نہیں جاگے تو مارے جائیںگے
ٰ-ہم متحد نہیں ہوئے تو مارے جائین گے
-ہماری نشانیاں گم کردی جائیں گی ۔ ہماری شناخت کے پرچچے اڑجائیں گے ۔ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔…
ہم نے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت نہیں دیا تو پھر ہماری ہلاکت یقینی ہے .
جب حکومت ، فوج ،پولیس ،خفیہ ایجنسیاں اور ملک کا انصاف آپ کے خلاف ہو تو آپ زندہ رہنے کی تدبیر کیسے کرینگے ؟
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here