9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمداویس سنبھلی
کہا جارہا ہے کورونا وائرس کا پھیلائو جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے شہر کے شہر قبرستان یا شمشان بن سکتے ہیں۔ ایسے میں اجتماعی حوصلہ دکھانا، کورونا سے لڑنے کی تدابیر کو عام کرنا، قومی معیشت کو زندہ رہنے کی حد تک بچا لے جانا اور موجودہ وسائل کو منظم ، محفوظ اور کارآمد رکھنا، کم سے کم نقصان کی حکمت عملی پرسوچ بچار کرنا قومی میڈیا کی سوچ کا دھارا ہونا چاہئے تھا لیکن افسوس! ایسے سخت حالات میں بھی یہ اپنی روایتی سیاست کے موضوعات، بلیم گیم، اپوزیشن اور حکومت کی روایتی بیان بازی ،کورونا جہاداور کورونا کو مشرف با اسلام کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے گودی میڈیا نے کورونا کو بھی مذہبی رینے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ آج کا میڈیابالکل ویسا ہی نظر آرہا ہے جیسا کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے ۱۹۴۳ء میں کہاتھا۔ بابا صاحب نے کہا تھا:
’’ہندوستان میں صحافت ایک زمانے میں پیشہ تھی۔ اب یہ تجارت بن چکی ہے۔اب تو صابن بنانے کے علاوہ اس کا کوئی اخلاقی کام نہیں رہ گیا ہے۔ یہ خود کو عوام کا ذمہ دار رہنما نہیں مانتی ہے۔ کسی مقصد کو دھیان میں نہ رکھ کر غیر جانبدار خبریں دینا، سماج کے مفاد میں عوامی پالیسی کا نظریہ پیش کرنا ، بغیر کسی خوف کے بڑے سے بڑے اور اونچے سے اونچے شخص کے قصور و غلط کام کا پردہ فاش کرنا اب ہندوستان میں صحافت کی پہلی اور اہم ذمہ داری نہیں مانی جاتی،کسی کو ’’ہیرو ‘‘ سمجھ لینا اور پھر اس کی پوجا ہی اب اس کی اہم ذمہ داری بن گئی ہے۔ان کے غیر منطقی جذبوں سے متلعق خبروں کو اس سنسنی خیز انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ ذمہ دار لوگوں کے ذہن میں غیر ذمہ دارانہ جذبات پیداہونے لگتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا اس سطروں کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ سچ ہندوستان میں آج کے میڈیا کے بارے میں کہا گیا ہے لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھااور جدوجہد آزادی میں تن من دھن سے لگا ہوا تھا۔اس وقت ڈاکٹر امیڈکر ہندوستان میں میڈیا کے رویہ کو لے کر بہت افسردہ اور فکر مندتھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس وقت کے میڈیا کے بارے میں اتنا تلخ تبصرہ کیا ۔تقریباً ایسے ہی حالات آج بھی ہیں اور انھیں حالات کے لیے انھوں نے کہا تھا’’خبروں کے ذریعہ سنسنی پھیلانا، غیرذمہ دارانہ اشتعال پیدا کرنا اور ذمہ دار لوگوں کے دماغوں میں غیر ذمہ دارانہ جذبات کو بھرنے اور بھڑکانے کی کوشش میں لگے رہنا آج کی صحافت ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کے پورا ملک وبائی مرض کورونا سے لڑ رہا ہے ۔ روزانہ اس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ان سنگین حالات میں ہمارے ملک کے گودی میڈیاکا موجودہ رویہ اور ان کی حرکتوں پر سوائے سرپیٹنے کے اور کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا۔مستقبل میں یہ ایک تحقیق کا موضوع ہوگا کہ جب دنیا کے اکثر ممالک کورونا سے لڑ رہے تھے، تمام ممالک اپنے ملک پر آئی اس وباء کو لے کر فکر مند تھے ۔ لیکن ہندوستان واحد ملک تھا جہاں کا میڈیا کورونا کو بھی مذہبی رنگ دینے میں مصروف تھا۔ محقق جب اس کا تجزیہ کرے گا تو یقینا اس کاخون کے آنسو روئے گا۔لیکن یہ ایک سچ اور اس سچ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اپنے اسی مضمون میں ڈاکٹر امیڈکر نے لارڈ سیلسبری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’لارڈ سیسبری نے نارتھ کلف کی صحافت کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ دفترکے بابوئوں کے لیے دفتر کے بابوئوں کے ذریعہ لکھی جاتی ہے۔ہندوستانی صحافت میں بھی یہ سب ہے لیکن اس میں یہ اضافہ بھی کرنا ہوگا کہ وہ ڈھول بجانے والے لڑکوں کے ذریعہ اپنے ہیروں کی تعریف کرنے لیے لکھی جاتی ہے‘‘۔نارتھ کلف نے جمہوریت کی اور جمہوریت کے لیے صحافت کی جگہ جمہوریت کے حقوق کا استعمال کرکے مالکوں کے مفاد کی صحافت کا ماڈل تیار کیا تھا۔ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈ کر کی یہ تمام باتیں ہندوستان کے آج کے سیاسی ماحول اور حالات سے بھرپور میل کھاتی ہیں۔
’’اسٹار آف میسور‘‘ کرناٹک سے شام میںشائع ہونے والاایک روزنامہ ہے۔ گذشتہ ۶؍اپریل کو اس اخبار میں اداریہ بعنوان ’’Bad Apples in the Basket‘‘ (ٹوکری میں خراب سیب)شائع ہوا ۔اس اداریہ میںکورونا وائرس وبائی مرض کے پھیلائو کو لے کر ملک کی مسلم آبادی کو ’’خراب سیب‘‘ کہا گیا ہے اور معاشرے سے عملی طور پر اس کے خاتمہ کے لیے مطالبہ کیا گیا ہے ۔نازیوں کے طرز کی نسل کشی کو بھڑکانے والے اس مضمون میں مسلمانوں کی ۱۸؍فیصد آبادی کو پریشان کن اور سڑے ہوئے سیب سے تعبیر کیا نیزیہ بھی لکھا ہے کہ ’’سڑے ہوئے سیبوں کے ذریعہ پیدا کردہ مسئلے کا مثالی حل ، ان سے چھٹکارا پانا ہے جیسا کے سنگا پور کے سابق رہنما نے کچھ دہائیوں قبل کیا تھااور اس وقت اسرائیل کی قیادت یہی کام کر رہی ہے‘‘۔
اخبار کو اس کستاخانہ مضمون کی اشاعت کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ لوگوں نے اخبار کے مدیر اور انتظامیہ کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔ شدید رد عمل کا سامنا کرنے کے ایک دن بعد نے اخبار میں ایک معافی نامہ شائع کیااور ہٹ دھرمی کی انتہا کردی۔اس نے بڑی آسانی سے لکھ دیا کہ ’’۶؍اپریل کے صفحہ ۲؍پر اسٹار آف میسور میں ’’ٹوکری میں خراب سیب‘‘ کے عنوان سے ادارتی اشاعت کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے کچھ قارئین کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اس میں بنیادی طور پر کوویڈ ۱۹؍کے پھیلائو پر توجہ دی گئی تھی۔ اگر اس نے ہمارے معزز قارئین کے جذبات اور احساسات کو ٹھیس پہنچائی ہے تو ہمیں اس کا افسوس ہے اور ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں‘‘۔اخبار نے جب تک اس اداریہ کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹایا تب تک یہ ذمہ دار قارئین کے غیرذمہ دارانہ جذبات کو بھڑکا چکا ہوگا۔لیکن افسوس ! اخبار کے ایڈیٹر اور اس کی انتظامیہ پر کسی قوم کی نسل کشی کی بات لکھنے پر بھی ابھی تک کسی قانونی کاروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کہیں نہ کہیں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات حکومت، میڈیااور انتظامیہ کی ایک سوچی سمجھی پری پلانڈ سازش ہے، جسے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔
معروف ناول نگار و سماجی کارکن اروندھتی رائے نے ملک کے موجودہ حالات اور میڈیا کے رویہ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اکثریتی ہندوئوں اور اقلیتی مسلمانوں کے مابین کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی صورت حال نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ڈی ڈبلیو نیوز نے جب اروندھتی رائے سے سوال کیا کہ اس وقت آپ کے ملک میں کیا ہورہا ہے تو اس کے جواب میں انھوں نے کہا ’’ہندوستان میں کوویڈ19کا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا۔ اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے ، اسی سبب دہلی میں قتل عام بھی ہوا تھا۔ یہ قتل عام جو اس بات کا نتیجہ تھا کہ لوگ شہریت سے متعلق مسلم مخالف قانون کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔اس وقت بھی جب ہم یہ گفتگو کررہے ہیں ، کورونا وائرس کی وبا کی آڑ میں حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہے ۔مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔‘‘ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ آر ایس ایس نامی پوری تنظم جس سے وزیر اعظم کا بھی تعلق ہے اور جو بی جے پی کے پیچھے فعال اصل طاقت ہے، وہ تو عرصے سے یہ کہتی رہی ہے کہ ہندوستان کو ایک ہندوریاست ہونا چاہئے۔۔۔
جس طرح ہندوستان میں کورونا وائرس کی آڑ میں ملک میں نفرت اور فرقہ پرستی کا ماحول تیار کیاجارہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔یہ ملک اور عوام دونوں کے لیے خطرناک ہے۔ تبلیغی جماعت کی جانب سے ہوئی غلطیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کا سہارا لے کر حکومت مسلمانوں کو معتوب کرے اور میڈیا مسلمانوں کے خلاف مہم چلائے۔ موجودہ حالات میں میڈیا کورونا جیسا ہی خطرناک وائرس ہے ، جس سے بچنے کی تدابیر اب ہم کو اختیار کرنا ہونگی۔کورونا کی وباء اگر کچھ دن اور کھنچ گئی تو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے میڈیا ہائوسیز میں تالے پڑ جائیں گے۔اشتہارات کی تشہیر کے حکومت پر عربوں روپئے بقایہ ہیں ، خزانہ خالی ہوچکا ہے ، اس وقت یہ ادائیگی ممکن نہیں لہذا بہت جلد یہ چینل پبلک سیکٹر سے اپنے رشتے استوار کرنے کی کوشش کریں گے، اس کی شروعات ہوتی نظر آرہی ہے ۔ صحافت جو پیشہ تھی اسے ملک کے مجودہ میڈیانے تجارت بنادیا ۔ وقت آگیا ہے کہ آپ بھی ہاتھوں میں سینی ٹائزر لے کر بیٹھیںاور پیشہ ور تاجر بن جائیں۔٭٭