’’صادقہ نواب سحرکی ناول نگاری ـ : ’’جس دن سے …!‘ کے تناظر میںـ‘‘

0
402

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

ڈاکٹر نشاں زیدی 

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

صادقہ نواب سحر ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں وہ بہت لکھتی ہیں اور خوب لکھتی ہیں۔شاعری بھی کرتی ہیں ،ناول،افسانے ڈرامے بھی لکھتی ہیں۔اس کے علاوہ تنقیدی اور تحقیقی مضامین بھی اکثر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے ادب کو اپنی تخلیق سے مالامال کر رہی ہیں۔ سماج میںپھیلی ہوئی برائی پر ان کی گہری نظر ہے ۔’’کہانی کوئی سناؤ متاشا‘‘میں جہاں انہوںنے عورت کی نبض ٹٹول کر اس کے دکھ درد کو بڑی چابک دستی سے اجا گر کیا ہے ، وہیں ناول ’’جس دن سے … ‘‘ میں والدین کے درمیان ہونے والے جھگڑے سے بچوں کے اوپر کیااثر پڑتا ہے اور خاندان کس طرح بکھرتا ہے ،کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مصنفہ نے بہت سے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ناول کا اہم کردار جیتیش ہے جس کو سب جیتو کہتے ہیں۔جیتو کے ماں باپ آپس میں بہت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور جب جھگڑا زیادہ بڑھ جا تا ہے۔ جیتو کی ماں اپنے مائیکے چلی جا تی ہے اور کچھ دن کے بعد جیتو کی خاطرواپس آ جاتی ہے لیکن یہ جھگڑا ایک دن اتنابڑھ جاتا ہے، پھر وہ واپس نہیں آتی۔جب جیتو کے ڈیڈی شہر میں ہونے والے الیکشن میں قدم رکھ رہے تھے تو جیتو کی ماں نے منع کیا اوراس بات پر جھگڑا اتنا بڑا کہ جیتو کی ماں ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ کر چلی گئی اور یہ گھر پوری طرح سے برباد ہو گیا۔جیتو کا بڑابھائی نکھل ماں کے ساتھ چلا جاتا ہے اور جیتوباپ کے پاس رہ جاتاہے ۔جیتو کا باپ اپنی بیوی سے اتنی نفرت کرتا ہے کہ جیتو کو پی سی او پر لے جا کر ماں کو گالیاں دلواتا ہے۔اس صورتحال کو مصنفہ اس طرح سے بیا ن کرتی ہیں:
’’اور پھر میری زندگی میں وہ دن بھی آ گئے جب رات کے وقت ڈیڈی مجھے پی سی او لے جاتے،’’ماں کو گالیاں دے۔‘‘پبلک فون کا رسیور زور سے میرے کان پر دبا دیتے،’’تیری ماں نے …ایسا کیاویسا کیا…تو اس کو گالیاں دے‘‘،وہ شراب کے نشہ میں ہوتے۔ مجھے جھنجھوڑتے …پیٹتے میں آپ ہی ماں کو گالیاں دیتا اور روتا…مما سے کہہ نہیں پاتا کہ یہ الفاظ میرے نہیں۔‘‘ (ص۳۵)
جیتو پل پل تڑپتا رہتا ہے دوسرے بچوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کاش! میری زندگی بھی ایسی ہوتی لیکن اس کی یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہوتی ۔با پ جیتو کی ماں کو چھوڑنے کے بعد دو اور شادیاں کرلیتا ہے۔ سوتیلی ماں اسے بہت پریشان کرتی ہے اور جب وہ شکایت کرتا ہے تو اسے باپ کی مار کھانی پڑتی ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جیتو کے دل میں ماں باپ کے لیے نفرت کا زہر بھر جاتا ہے:
’’مجھے اکثر لگتا ہے ۔ماں ،ماں نہیں۔صرف ذریعہ ہے،دنیا میں لانے کا۔میری ماں’مدر نیچر‘۔’میری ماں قدرت ہے‘…کیوں کہ اسی نے مجھے جینا سکھایا ہے…زندگی میں بہت کچھ سوچتا ہوں،’ایسا کرنا ہے۔،’’ممی ڈیڈی ہیں ہی نہیں۔‘‘میں چاہتا تھا کہ عام لوگوں کی طرح رہوں۔دوسرے گھروں کی طرح جہا ںسب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوں۔‘‘(ص۴۱)
سوتیلی ماںجیتو کو جب زیادہ پریشان کرتی ہے تو جیتو کے ڈیڈی اس کو اپنے بھائی کے یہاں رکھ دیتے ہیں اور اس کو رکھنے کے لیے بھائی کو پچاس ہزار روپے بھی دیتے ہیں۔اس کے باوجود بھی وہاں اس کے تایا گھر کا سارا کام کراتے ہیں۔جب وہ کچھ کہتا ہے تو اس کو مارلگائی جاتی ہے۔یہاں تک ایک دن اس کے اوپر چوری کا الزام لگا کر پورے دن سزا دی جاتی ہے ۔جیتو کے ڈیڈی کو جب پتہ چلتا ہے تو وہ اس کو لینے کے لیے آجاتے ہیںلیکن جیتو سوتیلی ماںکے پاس جانے سے انکار کر دیتا ہے اور اس کے ڈیڈی اس کو الگ فلیٹ میں شفٹ کر دیتے ہیں ۔لیکن جیتو کو سکون حاصل نہیں ہو پاتا ۔اس کا پڑھائی میں بالکل دل نہیں لگتا۔ وہ ماں باپ کے بارے میں سوچتارہتا ہے ۔اپنے ڈیڈ سے بہت زیادہ نفرت کرتا ہے۔ نفرت تو وہ ماں سے بھی کرتا ہے لیکن ماں کے لیے اس کے دل میں ایک نرم گوشہ ضرور تھااور وہ اکیلے میں سوچتا کہ اس کی ماں نے کتنی مار جھیلی۔
’’سوچتا ہوں مما کا بھی کیا قصور تھا!مجھے وہ دن یاد آ گیا جب مما کو ڈیڈی نے بیلن منھ میں ڈال کر،دیوارسے سٹا کر اٹھایا تھاکبھی کبھی وہ انہیں ڈائننگ چیئر سے مارتے ۔‘‘(ص۵۵)
ایک ایک واقعہ اس کے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے۔لیکن جب اس کی ماں بھی چودھری سے دوسری شادی کر لیتی ہے ۔تو ماں کے اوپر بھی اسے بہت غصہ آتا ہے ۔چودھری وہ شخص ہے جس نے ان دونوں کے جھگڑے میں جیتو کی ماں کا بہت ساتھ دیا تھا،اس کی بیوی مر گئی تھی۔ اس کے چار بچے تھے۔ جیتو چودھری کو اپنی زندگی کی سب سے بھدی چیز گردانتا تھا۔وہ جب ماں کو چودھری کے ساتھ دیکھتا تو اس کا خون کھول جاتاہے اور جب وہ ماں کے پرس میں ایک چٹھی دیکھتا ہے تو اس کی عجیب سی کیفیت ہو جاتی ہے۔مصنفہ نے جیتو کی ذہنی کیفیت کو اس طرح بیان کیا ہے:
’’اگلے دن مما کے پرس میں ایک چٹھی دیکھی۔ مراٹھی میں لکھا تھا: ’’تمہارے سوا میرا کوئی نہیں!تم ہی مجھے سمجھ سکتے ہو۔میرے اپنے بیٹے بھی مجھے نہیں سمجھ پاتے۔تمہارے سوا میری دنیانہیں۔تم نے میرا ساتھ دیا۔‘‘میرے دماغ میں لکیر سی بن کر رہ گئی!‘‘ (ص۷۴)
جیتو کی سب سے بڑی پریشانی یہ تھی کہ جب وہ باپ کے پاس جاتا تو وہ ماں کو الزام دیتے اور جب وہ ماں کے قریب ہوتا تو وہ اس کے باپ کو برا کہتیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے دل میں تلخی بھر جاتی وہ اس تلخی کو جتنا بھی نکالنا چاہتا وہ دور نہیں ہو پاتی۔وہ سوچتا ہے:
’’میں مما کو بری طرح جواب دیتا ہوں۔تمیز سے بات نہیں کرتا۔ اکثراس بات کا افسوس نہیں کرتا…مگر کبھی افسوس بھی ہوتا ہے۔پھر بھی جب مما کی آواز سنتا ہوںخود بخود کچھ لہجہ میں آ جاتا ہے…ایسامیرے آس پاس والے کہتے ہیں۔‘‘
ًٓ’’باپ پر گیاہے،اسی کی سائڈ لیتا ہے!مما کہتی ہیں…مگر آج اس و قت ایسا محسوس ہو رہاہے کہ میں ماں سے دس گنا زیادہ اپنے باپ سے نفرت کرتا ہوں۔‘‘
ماںباپ کے جھگڑوں کا جیتو پر اتنا اثر ہوا کہ وہ ایک ایک کلاس میں کئی کئی بار فیل ہوا۔جب وہ پڑھنے بیٹھتا تو اس کا دل کتابوںمیں بالکل نہیں لگتا ۔ایک ایک واقعہ اس کے سامنے آجاتا اور اس کا دل پڑھائی میں بالکل نہیں لگتا۔مصنفہ نے اس کا احاطہ اس طرح کیا ہے:
’’مگر اب میری زندگی کے دو بڑے ڈر تھے۔پہلا ڈر ڈراپ لگنے کا… یعنی امتحان میں فیل ہونے کا۔ساتویں،مما اور ڈیڈی کے جھگڑنے کا سال تھا۔میں فیل ہو گیا…بارہویں میں بھی ایک بار ڈراپ لگا۔جب نیرول کے ڈی وائے پاٹل لاء کالج میںداخلہ لیاپہلے سال ہی ڈراپ لگ گیا۔چھ میں سے تین پیپروں سے جان چھوٹی!دو برسوںمیں تو فرسٹ ایئرسے باہر آیا۔اب پانچ سال ہو گئے لائجوائن کیے ہوئے!ساتھ والے فائنل ائیر میں چلے گئے میں ابھی سیکنڈ ایئر میں ہوں۔‘‘(ص۷۳)
مصنفہ نے جیتو کے کردار کے ذریعہ یہ بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ والدین کے آپس کے جھگڑے کا بچوں پر اس طر ح اثر پڑھتا ہے کہ انہیں سماج میں بھی عزت نہیں مل پاتی۔کچھ تو بچارا کہہ کر پکارتے ہیں اور کچھ دوسری طرح سے ذلیل کرتے ہیں۔ساحل جیتو کا بچپن کا دوست ہے جیتو ساحل کو اپنے دل کا ہر راز بتاتا ہے ۔جیتو ایک دن جب اپنے دوست کے گھر جاتا ہے تو وہاں پر اس کی زبردست پٹائی ہوتی ہے:
’’میرے بیٹے کو تونے بگاڑا ہے!‘‘ ’’باپ ایسا!…توبھی ایسا!‘‘ساحل کی ماںچپ بیٹھی تھیں۔پتہ تھا کہ ماں باپ کا بیک اپ ہوتا،ڈیڈ ساتھ ہوتے یا وہ عام آدمیوں جیسے ہوتے…تووشنو کا ہاتھ اکھاڑکر پھینک دیتے…ڈیڈ سے کہا نہیں…کہ اس نے مجھے ماراتھا،سر سوج گیا تھا،میں چپ چاپ مار کھا رہا تھا۔(ص ۸۶)
زندگی قدم قدم پر جیتو کاامتحان لیتی ہے۔اس کو دلی سکون کسی حال میں نہیں ملتا، اگر کوئی خوشی ملتی بھی ہے تووہ اس کے ماضی کی تلخی اس کے حال پر غالب آجاتی ہے۔ اس کی زندگی میں چار لڑکیاں آتی ہیں۔لیکن سچی محبت حاصل نہیں ہو پاتی۔اسی طرح تعلیم میں بھی ناکامی ہاتھ لگتی ہے اور کئی سال فیل ہونے کے بعد لاء میں پاس ہوتا ہے۔اور جب یہ خوشی اپنے ڈیڈ سے بانٹنے جاتا ہے تو اس کے ڈیڈ الٹا جواب دیتے ہیں:
’’ڈیڈی میں پاس ہو گیا،وکیل بن گیا۔‘‘
’’کتنے سال میں ہوا۔کون کتا آئے گا تیرے پاس؟پانچ سال کی پڑھائی کو دس سال لگا دیے۔‘‘
لیکن جیتواپنی ساری تلخیاں بھول کر ایک کامیاب انسان بننے کی کوشش کرتا ہے اور جب اس کی پرانی گرل فرینڈ اس سے جسمانی تعلقات بنانا چاہتی ہے تو وہ اس کوجھڑک دیتا ہے اور کہتا ہے:
’’اور…ڈیڈ اور مام کی زندگی کو دہرانا نہیں چاہتا ،مہک!‘‘میں نے اسے پرے ڈھکیل دیا۔’’ڈیڈ اورمام کی زندگی کو دہرانا نہیں چاہتا‘‘میں بڑ بڑاتا چلا گیا،۔‘‘ (ص۳۵۱ )
اس طرح ناول اپنے اختتام کو پہنچتاہے اور آخرمیں یہ بات بھی محسوس ہوتی ہے کہ جیتو کی زندگی پر والدین کے جھگڑے کا تو اثر بہت پڑا لیکن جب اس کو کامیابی ملی تو وہ اپنے ماضی کی تلخیوں کو بالکل بھلانا بھی چاہتا ہے۔اور اپنے والدین کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھنا بھی چاہتا ہے۔پورا ناول جیتو کی زندگی کو لے کر بنا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے کردار ہیں جو ناول کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ناول بہت دلچسپ انداز میں لکھا گیاہے ،اسلوب سادہ ہے۔ مراٹھی اور انگریزی کے الفاظ کا استعمال بھی کثرت سے ملتا ہے۔ممبئی اور اطراف میںبولی جانے والی بولی کو بڑی خوبی کے ساتھ برتاہے اور وہاںکی رسموں اور پوجاپاٹھ سے بھی روشناس کرایا ہے۔ ناول شروع سے آخر تک قاری کو باندھے رکھتا ہے ۔دور حاضر کے مشہور فکشن نگار رتن سنگھ ناول کی کامیابی کی ضمانت اس طرح دیتے ہیں۔
’’گٹھے ہوئے واقعات،چست جملے نفسیاتی اعتبار سے حقیقی تجزیہ اور فطری سطح پر مکمل کہانی،صرف جیتوکی داستان ہی نہیں رہ جاتی بلکہ یہ داستان اس ملک کے لاکھوں کروڑوں گھروںکی داستان بن جاتی ہے،جہاں زندگی اسی قسم کے بدنماحالات کا شکار ہو کر اندھیروںمیںبھٹکتی رہ جاتی ہے۔‘‘
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے صادقہ نواب سحر کا یہ ناول ایک کامیاب ناول ہے جس میں ایک اہم سماجی مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔
ضضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here