ایک بہت بڑے گھرانے کی بہت بڑی ادیبہ نے ایک محفل میں کہا کہ وقار صاحب عزاداروں کو عزاداری کا حق نہیں کیونکہ عزداری تو ظلم کے خلاف احتجاج ہے اور آج عزاداروں میں ہوڑ ہے کہ وہ کس طرح سے ظالم حکومت کی خوشنودی حاصل کر لیں، لیکن شیعہ قوم کی عزت آبرو کو بنائے رکھنے کے لئے میں نے کہا نہیں نہیں ابھی کل ہی ہمارے جناب نے نہ صرف اس خبر کی تردید کی جس میں ان کے نام سے ایک امیدوار کی تائید چھپی تھی بلکہ ان کے چاہنے والوں نے ہمیں اور ہمارے اخبار کو دل بھر کر گالیاں بھی دیں کہ جناب نے ان کے بارے میں ایسا کوئی اعلان نہیں کیا پھر میں نے کل کے ہی اخبار میں ان کے ایک شیدائی کی خبر شائع کر دی جس میں انھوں نے سوال اٹھایا تھا کہ ایک امیدوار کے شیعہ علما سے ہی ملنے پر کیوں سوال اٹھائے جاتے ہیں جب کہ وہ امیدوار تو عید گاہ بھی جاتے ہیں اور ندوہ بھی؟ لیکن جناب نے کلارک اودھ جیسے مہنگے ہوٹل میں آج انھیں امیدوار کی حمایت میں اعلان کر کے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا اور واضح کر دیا کہ اودھ نامہ نے جو پہلے دن خبر شائع کی تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی۔
سوال ایک امیدوار کے اچھے ہونے کا نہیں ہے بلکہ وہ امیدوار نمائندگی کس پارٹی کی کر رہا ہے یہ اس سے زیادہ اہم سوال ہے کیونکہ اسی پارٹی کی نمائندگی پرگیہ ٹھاکر بھی کر رہی ہیں، ظاہر ہے اسی پاٹی میں ساکشی مہاراج بھی ہیں اور اسی پارـٹی میں اوما بھارتی بھی، اسی پارٹی میں گری راج بھی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں برا تو دور اگر کوئی سوال بھی کر لیا تو آپ ’دیش دروہی‘ قرار پائیں گے اور ظاہر ہے یہ سب کے سب اچھے ہوتے تو اس پارٹی میں کیونکر ہوتے، تو ہم اس پارٹی میں کسی ایک اپنی پسند کے امیدوار کوووٹ دے کر پوری پارٹی کو مضبوط کرتے ہیں ناکہ کسی ایک امیدوار کو ۔ یہ امیدوار جن کی حمایت کا آج اعلان کیاگیا اچھے ہیں بہت اچھے ہیں مگر تب جب صاحب اختیار ہوں۔ خود وزیراعظم ہوں ورنہ کیا پتہ یہ بھی اگلی لوک سبھا میں ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کی طرح مجلس مشاورت کا حصہ ہوں گے۔ ایسے میں آپ کا اور آپ کے خانوادے کی مددگار تو یہ پارٹی ایک عرصہ سے ہے لیکن یہ آپ کے مددگار کتنے ثابت ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
شرم سے مر بھی جائیں تو کم ہے
Also read