9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
۶۴ برس کی یادیں
عارف نقوی
والد کی وفات کے بعدمیری پرورش بڑے چچا سید مصباح الدین نقوی کے زیر سایہ نمبر ایک چکبست روڈ لکھنئو میں ہوئی۔گھر کے دو بڑے پھاٹک تھے۔ ایک چکبست روڈ کے نکڑ پر جہاں املی کا ایک نہایت ہی گھنا پیڑلوگوں کی آرام گاہ ہوا کرتا تھا۔ دوسرا راجہ نواب علی روڈ پر ناری شکھشا نکیتن نامی لڑکیوں کے ایک اسکول کے سامنے۔ جہاں کی خوبصورت لڑکیاں اکثر ہمارے بیرونی چمن سے پھول چرایا کرتی تھیں اور میں ان کی شوخیاں دیکھ کر محظوظ ہوتا تھا۔چکبست روڈ کے ایک سرے پر بلرام پور اسپتال (جہاں اسرار الحق مجاز نے آخری سانس لی تھی)کی چڑھائی شروع ہوتی ہے۔ دوسرے سرے پر سفید بارہ دری کے عقب میں ایک بڑا تاریخی پھاٹک ہے جس کے دائیں اور بائیںسلیم پور ہائوس اور محمودآباد ہائوس جیسی شاہانِ اودھ کی مشہور یادگار عمارتیں ہیں۔ محمود آباد ہائوس کی اوپری منزل پر ایک چھوٹاسا کمرہ ، بلکہ ڈھابلی نما کوٹھری تھی جس
میں میرے کلاس فیلو دوست ذکی شیرازی، احراز نقوی، اشہد رضوی اور شاہد رضوی پڑھائی کے زمانے میں آکر ٹھہرا کرتے تھے۔میرا گھر کیونکہ وہاں سے ایک یادو فرلانگ کے فاصلہ پر تھا اس لئے روز یونیورسٹی جانے سے قبل سائکل سے وہاں پہنچ جایا کرتا تھااور عمارت کے عقب میں جہاں علی احمد نامی ایک شخص کا ڈاھابہ تھا وہاں جاکر کبھی آواز لگا کر اور کبھی اینٹ پھینک کر اطلاع دیتا اور وہ لوگ اپنی ڈھابلی کی کھڑکی کھول کر اوراس میں سے گردن باہر نکال کر دیر تک گفتگوکیا کرتے اور ہم لوگ یونیورسٹی کی طرف چل دیتے۔
آج میرا یونیورسٹی میں سنسکرت کا امتحان تھا۔ نئے رولس کے مطابق یہ امتحان ہم بی اے پارٹ ون میں یا بی اے پارٹ ٹو میں پاس کر سکتے تھے۔یہ مضمون میں نے شامت اعمال آسانی کے لئے لے لیا تھا۔سنا تھا کہ اس میں نمبر اچھے ملتے ہیں۔اب جب امتحان سر پر کھڑا تھا تو ہواس باختہ تھے اورمیں سٹپٹایا ہوا تھا۔ لیکن ایک دن ذکی اور احراز نے بتایا کہ ایک لڑکا سنسکرت میں بہت تیز ہے وہ اس کے گھر پر امتحان کے لئے پریکٹس کرنے جا رہے ہیں۔ بات کچھ مضحکہ خیز لگی۔ بھلاایک مسلمان لڑکا سنسکرت کا ماہر کیسے ہو سکتا ہے۔ مجھے اس وقت اس کا نام یاد نہیں آرہا ہے۔ پھر بھی میں نے سوچا چلو چل کر دیکھتے ہیں ۔ ویسے میں ایک سال بعد بھی امتحان دے سکتا ہوں ۔ تب پہلے سے محنت کر لوں گا۔ پھر سوچاکم سے کم دوستوں کا ساتھ تو رہے گا۔ وہاں چلنے میں کیا حرج ہے۔ وہ لڑکا دیکھنے میںدُبلا پتلا ، ٹھنگنا سا ضرور لگتا تھا لیکن تھا ہم سب سے زیادہ ذہین، بلکہ رٹّو تھا۔ یہ سمجھئے میں اس کے کمرے میں آرام سے چار پائی پر لیٹ گیا اور ذکی، احرازاور اشہدکو بچوں کی طرح سنسکرت کی مشق کرتے اور رٹتے ہوئے دیکھ کر محظوظ ہوتا رہا۔ دوسرے دن جب میں یونیورسٹی جانے کے لئے سائکل سے محمودآباد کے عقب میں پہنچا اور آواز دی تو ڈھابلی کی کھڑکی میں سے شارب ردولوی کا چہرہ باہر آیا۔شارب کیونکہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سلیم پور ہائوس میں رہتے تھے،اس لئے اکثر وہ ذکی اور احراز کے وہاں بھی چلے جایا کرتے تھے۔
شارب نے بتایا کہ ذکی، احراز اور اشہد سنسکرت کا امتحان دینے کے لئے یونیورسٹی چلے گئے ہیں اور پھر اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے جملہ کسا: ’’تم ابھی نہیں گئے؟ ہاں بھائی کیا تیاری ہے؟‘‘
’’ یار امتحان تو مجھے بھی دینا ہے۔ اس سال یا اگلے سال۔ اس سال تو تیاری کچھ بھی نہیں کی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا، جائوں یا نہ جائوں۔ لکھوں گا کیا؟
’’ارے بھئی کچھ نہ سمجھ میں آئے ، تو رادھا کمل، رادھا کمل، رادھا کمل لکھ دینا۔ کاپی بھر جائے گی۔ ‘‘شارب نے ہنستے ہوئے فرمایا۔ رادھا کمل لکھنئو یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اور ہم لوگ اکثر ان پر جملے کسا کرتے تھے۔
شارب میں نہ جانے کون سی خوبی ہے کہ وہ بات کچھ اس انداز سے کہہ جاتے ہیں کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے مشورے پر عمل کر بیٹھیں گے۔ چنانچہ میں بھی یونیورسٹی جاکرامتحان دینے کے لئے بیٹھ گیا ۔ اس یقین کے ساتھ کہ سنسکرت کے امتحان میں اس سال فیل تو ہونا ہی ہے، اگلے سال پاس کر سکتا ہوں۔ چلو کچھ تجربہ ہو جائے گا۔اس کے بعد جب مجھے کاپی پکڑائی گئی اور پرچہ دیا گیا تو نہ جانے کیوں سب کچھ آسان لگنے لگا اور میں صفحات بھرتا گیا۔ بعد میں جب امتحانات کے نتائج سامنے آئے تو میرے بعض قریبی دوست فیل ہو چکے تھے اور میں نہ جانے کیوں کامیاب طلباء کی فہرست میں تھا۔شاید اس لئے کہ جو چیزیں دوسرے ساتھی رٹتے رہے تھے وہ میں پلنگ پر لیٹا لیٹا سنتا اور محظوظ ہوتا رہا تھا۔
ایسی ہی نہ جانے کتنی یادیں ہیں، جو اس وقت کلبلا رہی ہیں۔
ہم دونوں کے درمیان دو باتیں بہت ہی مشترکہ ہیں : مختلف مسائل پر ہمارا سوچنے کا انداز ، ترقی پسند نظریہ اور دوسرے یہ احساس کہ اب ہمارے دور کے چند ہی ستارے باقی رہ گئے ہیں۔جنہیں دیکھ کر پرانی یادیں پھر سے تازہ ہو جاتی ہیں۔ مثلاً
لکھنئو میں حفیظ نعمانی، ولایت جعفری،وکرم رائو پاکستان میں عالیہ امام (عسکری) صوفیہ اور ابصار عبد العلی یا ہمارے جونئیرساتھی ڈاکٹرعمار رضوی۔ حسن کمال ، صہبا فریدوغیرہ۔
شارب کے ساتھ میری دوستی کو تقریباً۶۴ برس ہو گئے ہیں۔ اور لاتعداد یادیں وابستہ ہیں۔ وہ عمر میں مجھ سے غالباً
ایک سال چھوٹے ہیں، لیکن ادبی میدان میں، خصوصاًاردو تنقید میں مجھ سے ہی کیا اپنے بہت سے سینئیر استادوں سے کہیں آگے نکل گئے ہیں، کہ ہمیں ان پر فخر ہوتا ہے۔میں تو خیر مختلف میدانوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا ہوں۔ کوئی سمجھتا ہے کہ میں ڈرامہ نگار اور اداکار ہوں، کو ئی افسانہ نگار اور شاعر، کوئی مضمون نگار ، کسی کی نظر میں آج بھی میں سیاسی کارکن اور اسٹوڈنٹ لیڈر ہوں، حالانکہ عملی سیاست سے عرصے سے ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔ بعض ادیب اپنی کتابیں اور مسودے اس امید میں میرے پاس بھیجتے ہیں کہ میں ان پر تعریفی مضامین، تبصرے یا پیش لفظ لکھ دوں گا، لیکن جب میں ان سے کہتا ہوں کہ اللہ تعلی نے مجھے اس ہنر سے محروم رکھا ہے۔میرے پاس نہ لڈّو ہیں، نہ مرچیں نہ چھریاں، تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ البتّہ شارب میں یہ خوبی ہے کہ وہ اردو تحقیق اور تنقید کے میدان میں مستقل مزاجی کے ساتھ کامیابی سے بڑھتے گئے ہیں کہ میرے جیسے ان کے دوست ان پر فخر کرتے ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اس وقت حقیقت پسند ،ترقی پسنداردو تنقید کے ایک نہایت ہی روشن ستارے کی طرح آسمانِ اردو ادب پر جگمگا رہے ہیں۔
وہ ایک ایسے ترقی پسند یا دوسرے الفاظ میں انسانیت پسند نقاد ہیں جن کے مضامین میں علم کا خزانہ ہوتا ہے، یکطرفہ یا
سطحی نہیں ہوتے۔ وہ ہر تحریر کا گہرائی میں جا کر ہر پہلو سے جائزہ لے کر، فنی اور تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اور مصنف کی نفسیات اور اس کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنی را ئے کا اظہار کرتے ہیں ۔نہ ہی یک طرفہ تعریف کرتے ہیں نہ یک طرفہ مذمت، بلکہ یہ دیکھے بغیر کہ
مصنف کون ہے اور اس کا درجہ یا اس کا نظریہ کیا ہے وہ اس کے اندر انسان کو ڈھونڈھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی اگر کمزوریاں نظر آتی ہیں تو ان میں بھی تخلیق کے جوہر کو کرید کرید کر نکالتے ہیں۔یوں سمجھئے کہ شارب کی ذات میںایک مثبت یونیورسل نقاد موجود ہے۔
نہ جانے کتنی بار ایسا ہوا کہ جب میں نے انہیں برلن سے فون کیا، تو شارب نے بتا یا کہ انہیں کسی سیمینار یا جلسے میں مضمون پڑھنا ہے۔انہیں وقت نہیں مل رہا ہے اور اگر وہ مطمعین نہیں ہوئے تو مضمون نہیں پڑھیں گے۔وہ گھسی پِٹی باتوں کو دوہرانا نہیں چاہتے۔
کتنی ایمانداری اور سنجیدگی تھی ان الفاظ میں۔ مجھے امید ہے کہ شارب کی تنقیدی خوبیوں کے بارے میں ان کے سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے شاگرد اور اردو کے دیگر نقاد پوری طرح روشنی ڈالیں گے۔
تنقید نگاری کا معیار بعض لوگوں کی نظر میں بس اتنا ہی رہ گیا ہے۔ دن رات نئی نئی کتابیں شائع ہوتی ہیں اور نقاد بیچارے کو
تعریف میں قلمطرازی کرنا پڑتی ہے، چاہے اس نے کتاب کا بخوبی مطالعہ کیا ہو یا نہیں۔ اور پھر وہ بے چارہ اپنے ضمیر پر جبر کر کے
دوسرے کی د ل جوئی کے لئے محنت کرتا ہے، یہ سوچ کر کہ کتاب میں صرف اسی کا مضمون ہوگا۔ مگر جب وہ کتاب منظر عام پر آتی ہے ،
تو اس میںمصنف کی عبارتوں سے زیادہ مداحوں کی قلم طرازیاں ہوتی ہیں اور اس کے مضمون سے زیادہ صرف مداحی کرنے والوں کے مضامین کو نمائش حاصل ہوتی ہے اور وہ بے چارہ تنقید نگار جو ایک مستند تنقید نگار ہے اپنا سر پیٹ لیتا ہے۔ نقادوں کی ایک دوسری قسم ایسی
بھی ہوتی ہے جو ایمانداری کے ساتھ مضامین میں صرف خوبیاں دیکھتے ہیں یا صرف عیب اور ہر چیز کو محض اپنے اونچے معیار پرپر کھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ہی مصنف کی تحریروں کا ہر پہلو سے جائزہ لینے اور ان پر رائے ظاہر کرنے کے بجائے تنقید نگاری کے بارے میں انھوں نے اب تک جو پڑھا اور سیکھا ہے اس کا بکھان شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دوسری قسم ایسے نقادوں کی بھی ہے جن کے اپنے پختہ فلسفیانہ، نظریاتی، سیاسی اور اخلاقی معیار ہیں اور اگر مصنف کی تحریں ان کی کسوٹی کے مطابق ہوتی ہیں تو اس کی تعریف میں پل باندھ دیتے ہیں، ورنہ اس کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیتے ہیں۔یہ بات میں اس لئے آزادی سے کہہ سکتا ہوں، کیونکہ میں پیشہ ور نقاد نہیں ہوں۔ میں تو صرف اپنے مشاہدات اور تاثرات کا اظہار کر سکتا ہوں۔
لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض ایسے نقاد بھی ہیں،جو ان سب کمزوریوں سے بلند اٹھ کر ایمانداری سے مضمون کی تہہ میں پہنچ کر، مصنف
کی تحریر، اس کے خیالات، جذبات، ماحول ، تاریخی پس منظر ، فنی پہلوئوں، اور افادیت کی گہرائیوں میں جا کر اور ہر پہلو سے تحریر کا جائزہ لے کر تبصرہ کرتے ہیں۔ ایسے ہی بلند پایہ نقادوں میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر شارب ردولوی ہیں۔
لیکن میری نظروں میں شارب کی عظمت ان کے فن تنقید سے بھی زیادہ بلند ان کی انسانی شخصیت میں پنہاں ہے۔
یہ میں اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ میرے بہترین دوست ہیں اوربہت سے کاموں میں ہمسفر رہے ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ۶۴ برس کی دوستی کے دوران میں نے انھیں اچھی طرح دیکھا ہے اور ان کی ذات میں وہ تمام خوبیاں پائی ہیں، جو میری نظرمیں ایک سچے انسان کی صفات ہیں۔ وہ محض بڑے نقاد ہی نہیں ایک درد مند ، دوست نواز، دوسروں کی مدد کرنے والے، غریب بچوں میں علم کی کرنیں پھلانے والے اور دوسروں میں نیک جذبات پیدا کرنے والے انسان ہیں۔ شارب اور ان کی رفیقہء حیات مرحومہ شمیم نکہت اگر چاہتے تو اپنے تخلیقی کاموں اور شہرت کے لئے اور بہت کچھ کر سکتے تھے لیکن ان دونوں نے اپنی ساری زندگی شعاع فاطمہ گرلس کالج کے بچّوںکی خدمت اور علم کے لئے وقف دی۔ مجھے معلوم ہے کہ شارب کتنے مضامین وقت پر صرف اس لئے نہیںلکھ سکے اور کتنی کانفرنسوں میں صرف اس لئے شرکت نہیں کر سکے کہ انھیںاپنے کالج اور وہاں کے بچوں کی ذمے داریاں پوری کرنا تھیں۔ اس وقت ان کے ذہن کی کیا حالت ہوتی تھی میں اسے محسوس کرسکتا تھا۔
ان کے پاس علم تھا، لکھنے کے لئے مواد تھا، ذہن میں خاکہ تھا، قلم چلبلا رہا تھا۔ ذہن بے چین کر رہا تھا، لیکن ان کے
سامنے کالج کی ذمے داریاں تھیں۔ کبھی امتحانات سر پر ہوتے تھے، کبھی کوئی اور ذمے داری۔ انھوں نے کالج کے بچوں اورٹیچروں کے دلوں میں جو کھڑکیاں شعائوں کے لئے کھولی تھیں انھیں وہ بند نہیں کرنا چاہتے تھے۔ پھر بھی شارب کے بے شمارقابل قدر تنقیدی مضامین اور کتابیں اردو ادب کا مایہ ناز سرمایہ بن گئی ہیں۔
میں نے اور برلن میں ہماری اردو انجمن نے انھیں کئی بار سیمیناروں میں شرکت کے لئے مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا ہے، لیکن انھیںاپنے کالج کے بچّے زیادہ عزیز ہیں۔ان کی ادبی اور سماجی خدمات کے احترام میں ۲۰۱۵ء میںاردو انجمن برلن نے انھیں’’ اعزاز اردو انجمن‘‘ کا ایوارڈ دیا تھا۔ حالانکہ وہ اعزازوں سے کہیں بلند ہستی ہیں۔ ایسے انسان
بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ قابل، مبارکبادہے ردولی کی سرزمیں جہاں انہوں نے پرورش پائی ہے اور گنگا جمنی آب و ہوا کا وہ شہر لکھنئوجہاں وہ اردو ادب کی آبیاری کر رہے ہیں۔اور وہ دوست احباب جن کے درمیان وہ روشن ستارے کی طرح جگمگا رہے ہیں۔قابل مبارکباد ہیں دلی یونیورسٹی اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کی وہ فضائیں جنہیں شارب اور ان کی اہلیہ نے اردو کی خوشبو سے معطر کیا تھا۔
شارب کی بے شمار مطبوعات منظر عام پر آ چکی ہیں، انعامات و اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے ہندوستان کے بہت سے اہم علمی اداروںکے رکن رہے ہیں اور ہیں۔ مصر، سیریا، لبنان، عراق، کویت، کنیڈا، امریکہ، انگلستان ، پاکستان اور دوبئی وغیرہ میں اور ہندوستان کے دور دراز مقامات پر جاکر ادبی و تحقیقی لکچر دے چکے ہیں اور دیتے رہتے ہیںہیں۔
بہر حال اس سب کے بارے میں تو بہت سے حضرات لکھیں گے۔ مجھے تو وہ دن یاد آرہے ہیں جب ۵۴ ۱۹ء میںمجھے ایک
دبلا پتلالمبے قد کا خوبصورت نوجوان ، سفید کرتہ پائجامہ پہنے ، ہاتھ میں کاپی دبائے ،لکھنئو یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی میں نظر آیا تھا۔ اس وقت
وہ غالباً بی اے آنرز کا طالبعلم تھا ۔ معلوم ہوا کہ یہ حضرت شاعری بھی کرتے ہیں۔ اور دیواں شریف کے مشاعرہ کی نظامت بھی ۔ پھرجب گفتگو کی نوبت آئی تو اندازہ ہوا کہ ان کے خیالات بھی کافی حد تک ترقی پسند ہیں۔ میں کیونکہ ان دنوں اشتراکی خیالات سے بہت زیادہ متاثر تھا اور اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا سرگرم کارکن تھا اور ہر ادیب و شاعر میں ترقی پسند عناصر کی کھوج میں رہتا تھا اس لئے میری دلچسپی ان حضرت میں پیدا ہوئی اور آپ ہی آپ ہماری ملاقاتیں بڑھتی گئیں۔ اسی زمانے میں میں نے شعبہء اردو فارسی کی سوسائٹی’ بزم ادب‘ کی صدارت کے لئے الکشن لڑا تو اس میں بھی شارب ردولوی کی حمایت حاصل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شارب، عارف، ذکی شیرازی، احراز نقوی ، شاہد، اشہد وغیرہ چند طالبعلموں کا ایک ایسا حلقہ بن گیا جویونیورسٹی کی ہر ادبی سرگرمی میں آگے آگے رہتا تھا، جبکہ اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں میرے ساتھ عبد المنان، ابن حسن اور حیدر عباس، انل گپتا، شہیرالحسن وغیرہ اور ینگ سوشلسٹ لیگ میں ہمارے ساتھی وکرم رائو کی طرح ذکی، شاہد، اشہد وغیرہ سرگرم تھے۔ شارب سیاسی ہنگامہ آرئیوں میں خود تو شریک نہیں ہوتے تھے مگر ہم سے ہمدردی رکھتے تھے اور ایک طرح سے دونوں گروپوں کے بیچ میں کڑی بھی تھے۔ انھیں اس زمانے میں ایک ہفتہ وار ’’ پاسبان‘‘ نکالنے کا بھی شوق پیدا ہوا تھا اور ان کے کہنے سے ہم یعنی شارب کے ساتھ عارف نقوی، ذکی شیرازی، احراز نقوی، اشہد رضوی اور شاہد رضوی بھی ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر ہو گئے تھے۔
شارب کا ہمارے شعبے کی لڑکیاں بہت احترام کرتی تھیں۔ اس کی وجہ ان کا خوبصورت مسکین چہرہ تھا ، نرم سنجیدہ لہجہ یا خرام ناز سے چلنے کا انداز ، یہ تو وہی بتا سکتی ہیں یا شمیم نکہت جو بعد میں ان کی شریک حیات بن گئیں۔ البتہ وہ لڑکیوں میں شارب بھائی بن کر رہ گئے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب اتر پردیش میں اردو کو مٹانے کی کوششیں ہو رہی تھیں اور بعض ترقی پسند حضرات تک اس وہم کا شکار ہوگئے تھے کہ
اردوزبان اب ہندوستان میں زیادہ دن زندہ نہیں رہے گی۔ چنانچہ اردو کے دلدادہ بہت سے نوجوان، جن میں ہمارا چھوٹا سا گروپ جس
میں عالیہ عسکری (عالیہ امام )، شارب ردولوی ، عارف نقوی ، ذکی شیرازی ، احراز نقوی ، اشہد رضوی ، اور شاہد رضوی کے ساتھ ابن ِ حسن ،
حیدر عباس رضا ، عبد المنان وغیرہ بھی شامل ہو گئے تھے پیش پیش تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اردو کی حفاظت کے لئے طلباء کی تحریک چلائی جائے اور ایک کانفرنس بلا کر اردو کی بقاء کے لئے طلبہ کی ایک کانفرنس منعقد کی جائے۔ کانفرنس کے ساتھ ایک آل انڈیا مشاعرہ اور ایک سیمینار بھی منعقد کیا جائے۔ چنانچہ اس کی تیاری کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی، جس کی تیاری کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی اورعالیہ عسکری (اب عالیہ امام ہیں) اور شارب ردولوی کے ساتھ عارف نقوی، ذکی شیرازی، احراز نقوی، اشہد رضوی ، حیدر عباس رضا (جو بعد میں جسٹس ہوگئے) وغیر ہ نے مل کر تیاری شروع کر دی۔ ابتداء میں ہمیں خود امید نہیں تھی کہ یہ کانفرنس کامیاب ہو گی۔ہمارے بہت سے کرم فرما اسے لڑکوں کا کھیل سمجھ رہے تھے اورہمارے جوش کو دیکھ کر پیٹھ ٹھونکتے تھے۔ ہمارے شعبے کے تقریباً سبھی استاد اور طلباء ہماری ہمت افزائی کر رہے تھے ۔ عالیہ عسکری ،صوفیہ فرید، نشاط حیدر، عطیہ شاہد ( اب عطیہ خان ہیں) اور بہت سی دوسری لڑکیاں فوج بنا کر چندے جمع کرنے کے لئے نکل پڑیں۔ ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجّاد ظہیر نے (جو تازہ تازہ پاکستان کی جیل سے چھوٹ کر ہندوستان آئے تھے) بہت سے چوٹی کے ترقی پسندشاعروں اور ادیبوں کو خطوط لکھ دئے اور وہ ہمارے پروگرام میں شرکت کے لئے اپنے خرچے سے پہنچ گئے۔ ۳ دسمبر ۱۹۵۵ء کو لکھنئو کی تاریخی سفید بارہ دری میں یو پی کے گورنر کے ایم منشی نے ہمارے مشاعرہ کا افتتاح کیا، ساحر لدھیانوی، سردار جعفری، وامق جونپوری وغیرہ سارے ہندوستان کے مشہور شعراء نے اپنے کلام سنائے۔ اسرار الحق مجاز نے اپنی غزل پڑھی:
زمانے سے آگے تو بڑھئے مجاز زمانے کو آگے بڑھانا بھی ہے
اور اپنا بُھولا ہوا قطعہ برسوں کے بعد یاد کرکے ہمارے رونگٹے کھڑے کر دئے:
زندگی ساز دے رہی ہے مجھے
سحر و اعجاز دے رہی ہے مجھے
اور بہت دور آسمانوں سے
موت آواز دے رہی ہے مجھے
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس مشاعرے کی نظامت شارب نے ہی کی تھی۔
دوسرے دن ہم نے شہر کے مرکز میں امین آباد بازار کے گنگا پرشاد میموریل ہال میں سیمینار کیا اور تیسرے دن وہیں پر ہماری کانفرنس ہو ئی ، جس میں انجمن پاسبان اردو تعلیم کے نام سے ایک تنظیم قائم کی گئی ، جس کا مجھے جنرل سکریٹری چنا گیا۔ شام کو ہمار آخری سیشن چل ہی رہا تھا کہ صوفیہ فرید نے آکر بتایا کہ مجاز ؔکی حالت خراب ہے۔اور پھر علی سردار جعفری گھبرائے ہوئے وہاں پہنچے۔ ’’ ارے بھئی یہ سب بند کرو مجاز کی حالت خراب ہے ۔ وہ بلرام پور اسپتال میں ہیں۔‘‘
مجاز ۴ اور ۵ دسمبر کی درمیانی رات کو لال باغ میںایک کھلی شراب کی بھٹی میں الائو کے سامنے شراب پیتے رہے تھے۔ ان کے ساتھی انھیںسردی میں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تھے اور انھیں ہیمریج ہو گیا تھا۔۵ دسمبر۱۹۵۵ء کی رات کو لکھنئو کے بلرام پور اسپتال میں ہماری آنکھوں کے سامنے مجاز نے اپنی آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند کر لیں۔
ان واقعات کے بعد اردو کی بقاء کے لئے ہمارے گروپ کی سرگرمیاں اور تیز ہو گئیں۔ لکھنئو یونیورسٹی میں اور شہر میں ایسی کوئی
ادبی تقریب نہیں ہوتی تھی جس میں یہ چند سر پھرے نوجوان پیش پیش نہ رہتے ہوں۔
لکھنئو کی انجمن ترقی پسند مصنفین نے۲۱ دسمبر ۱۹۵۷ء کو میر تقی میرؔ پر ایک ڈرامہ کھیلنے کا فیصلہ کیا تو اس میں بھی ہم پیش پیش رہے۔
اس کا ذکر شارب نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح کیا ہے:
’’ ایک بار ہم لوگوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام یوم میرؔ منانے کا پروگرام بنایا۔ میرؔ پر یہ پہلا بڑا پروگرام تھا جو لکھنئو میں ہونے جا رہا تھا، ترقی پسند مصنفین کی طرف سے۔ شہر میں طرح طرح کی چہ می گوئیاں ہو رہی تھیں۔ عارف نے تجویز رکھی کہ میرؔ پر ایک ڈرامہ بھی کیا جائے۔ سوال یہ تھا کہ ڈرامہ لکھے کون؟ ڈاکٹر محمد حسن جو ہم لوگوں کے سینئر تھے اور دوست ہونے کی شہ بھی انھوں نے دے رکھی تھی، ان سے کہا گیا کہ وہ میر پر ڈرامہ لکھیں۔ انھوں نے بہت جی لگا کر میر کی زندگی پر ڈرامہ لکھا اور ہم لوگوں نے تیاری شروع کر دی۔ آغا سہیل (پروفیسر آغاسہیل پنجاب یو نیورسٹی، لاہور) اس کے ڈائریکٹر بنے۔۔۔عارف نقوی اس کے ہیرو تھے یعنی میرؔ کا اصل رول عارف نقوی کا تھا۔اب تلاش ہوئی ہیروئن کی ۔ میرؔ کی محبوبہ کون بنے؟ پھر وہ ایسی ہو جو چاند سے اترے تو چاند والی لگے۔ جاننے والی لڑکیوں کی خوشامد شروع ہوئی۔ بھلا لکھنئو کی کوئی مسلمان لڑکی ڈرامے میں کام کس طرح کر سکتی تھی اس لئے ہر جگہ سے مایوسی ہوئی۔ پھر عارف ہی کی تگ ودو سے ایک لڑکی متھلیش تیار ہو گئی۔ اب مسئلہ تھا ’شین قاف‘ کا ۔ ڈرامے میں ہیروئن جہاں کہیں میر کو مخاطب کرتی تھی تو ’تقی‘ کہہ کر بلاتی تھی۔ لیکن ہیروئن ’تکی‘ کہے یہ ممکن نہیں تھا۔ سارے ڈرامے پر ہی پانی پھر جاتا۔ پہلے کوشش کی گئی کہ متھلیش کو تقی کہنے کی مشق کرائی جائے۔ لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو میں نے اسکرپٹ میں ہر جگہ تقی کو میر کر دیا۔ جسے دیکھنے والوں نے محسو س بھی نہیں کیا اور مشکل بھی حل ہو گئی۔ میرا کام تمام انتظامات کی دیکھ بھال تھا اور یوں بھی میں ڈرامے میں کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ لیکن ڈرامے سے چند روز پہلے یہ محسوس ہوا کہ امان اللہ (درویش) کا کردار کوئی نہیں کر پا رہا ہے اس لئے کہ ان کے مکالمے مشکل اور طویل ہیں۔ عارف نے مجبور کیا کہ وہ رول میں کروں۔ ان کا خیال تھا کہ ڈرامے کا یہ پہلا سین ہے اور پہلے سین کی کامیابی پر ڈرامے کی کامیابی منحصر ہوتی ہے۔مجبوراً مجھے ان کی بات ماننی پڑی۔ یہ ڈرامہ اس وقت تک ، شہر کی تاریخ کا سب سے اچھا اردو ڈرامہ تھا۔ شاعر، ادیب، دانشور، سیاست داں، صحافی، شہر کا شایدہی کوئی اہم فرد ایسا رہا ہو گا جو اس ڈرامے کو دیکھنے نہ آیا ہو۔‘‘ شارب ردولوی (پیش لفظ یادوں کے چراغ)
کچھ عرصے کے بعد حفیظ نعمانی اور شارب کے ذہن میں اردو کا ایک روزنامہ ’’ تحریک ‘‘ نکالنے کا خیال پیدا ہوا اور وہ بھی بغیر پیسوں کے، بس حفیظ کا تنویر پریس اور کاغذ کا وعدہ تھا اور ہم چند سرپھرے طلباء عارف ، منان ، ابن حسن، حیدر عباس وغیرہ کا عملی تعاون اور بغیر کسی اجرت کے دن رات کی محنت تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تقریباً تین مہینوں تک’تحریک‘ دھوم سے نکلا مگر جب اس کا سرکو لیشن بڑھ گیا تو ہمارے پاس اسے چلانے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ طیب یعنی حفیظ نعمانی کے پاس کاغذ بھی نہیں رہا اور اخبار بند ہوگیا۔ تحریک کے شوق میں ہفتہ وار پاسبان بھی بند ہو گیا تھا۔لیکن اردو کے لئے ہمارے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ ۱۹۵۸ء میں آغا سہیل مجھے انجمن ترقی پسند مصنفین لکھنئو کی سکریٹری شپ کی ذمے داری سونپ کر پاکستان چلے گئے۔ ان دنوں میں یو پی کی اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا جنرل سکریٹری بھی تھا۔
اس دور کا ذکر ڈاکٹر شمیم نکہت مرحومہ نے بھی ان الفاظ سے کیا ہے:
’’ یہ وہ زمانہ تھا جب لکھنئو یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ یونین شباب پر تھی اور یو پی کی سیاست پر اس کا بہت دبائو رہتا تھا۔ شارب ردولوی، عارف نقوی، اشہد رضوی، شاہد رضوی، ابنِ حسن، حسن عابد، احمد جمال پاشا، احراز نقوی، ذکی شیرازی، حیدر عباس اور آغا سہیل کاایک بڑا گروپ چھایا رہتا تھا۔ یہ پورا گروپ ہی ترقی پسند تحریک سے متاثر تھا اور شاید سرپھرا تھا۔۔۔ لیکن اس گروپ کا نام لئے بغیراس عہد کی کوئی اہمیت ہی نہ رہ جاتی۔ ان میں سے کچھ لوگوں سے ہماری بات چیت ہوتی۔ کبھی کبھی چائے اور مِلک بار کے چکر بھی لگتے۔ ادبی بحث ومباحثے بھی ہوتے۔ شعر تو یہ سارے لوگ کہتے تھے۔ مضامین بھی لکھے جاتے اور کہاں چھپے اس کی بھی فکر رہتی ۔اس پورے گروپ کی ایک قدرِ مشترک تھی کہ یہ سارے احتشام صاحب کے شیدائی تھے۔‘‘ ڈاکٹر شمیم نکہت (پیش لفظ نقوشِ آوارہ)۔
۱۹۵۹ء میں ایم اے کا امتحان دینے کے بعد نتیجے کا انتظار کر ہی رہا تھا ، کہ دہلی سے مجھے بنے بھائی (سجاد ظہیر) کے ساتھ مل کر ہفتہ وار ’’ عوامی دور‘‘ کو آصف علی روڈ نمبر ۷ سے نکالنے کے لئے بلا لیا گیا۔ اور میں نے بنے بھائی کے نائب کی حیثیت سے ادارتی ذمے داری کو سنبھال لیا ۔ دہلی جانے کے بعد میں نے ۱۱؍ مارچ ۱۹۶۰ء کوبنے بھائی، غلام ربّانی تاباں، شیو دان سنگھ چوہان ، نروتم ناگر اور دیگر لوگوں کی مدد سے منشی نکیتن آصف علی روڈ پر اردو ، ہندی اور پنجابی کے ادیبوں کا ایک جلسہ بلایا ، جس کی صدارت شیو دان سنگھ چوہان نے کی۔ جلسے میں سب نے مل کر دہلی اسٹیٹ پرو گریسیو رائٹرس ایسوسی ایشن کو پھر سے قائم کیا اور بنّے بھائی اور غلام ربّانی تاباں اور نروتم ناگر کی تجویز پر مجھے (عارف نقوی) کو جنرل سکریٹری اور ہندی ادیب نول پوری کو اسسٹنٹ اسکریٹری منتخب کیا۔ اس کے دو ہفتے بعد ہم نے انٹر نیشنل پیس کونسل کی میٹنگ کے دوران ، جس میں کئی بیرونی شعراء شریک تھے رام لیلا گرائونڈ پر ایک عالمی مشاعرہ اور دربار ہال میں کل ہندشام افسانہ کے زوردار پرو گرام منعقد کئے۔ان ساری سرگرمیوں کے دوران لکھنئو یو نیورسٹی اور اپنے گروپ کے لوگوں سے میرا رابطہ قائم رہا۔ اس مقام پر میں شارب ردولوی کی ہی تحریر کا حوالہ دینا چاہوں گا ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ یہ دیوانگی کا زمانہ کہاں بہت دنوں ساتھ دیتاہے۔ پہلے حسن عابد اور آغا سہیل اچانک غائب ہوگئے اور بہت دنوں کے بعد
لاہور اور کراچی سے ان کی خیریت معلوم ہوئی۔ پھر بنے بھائی نے عارف کو دہلی بلالیا اس لئے کہ وہ وہاں سے ہفت روزہ ’’عوامی دور‘‘
نکال رہے تھے۔ شہر کی زندگی میں ان سب کے اِدھر اُدھر ہو جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کچھ دن سب ذکر کرتے رہے پھر سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے۔ لیکن میرے لئے بہت بڑا فرق پڑا اور میری زندگی کا ہنگامہ خیزی کا دور ان کے ساتھ ختم ہو گیا۔‘‘ شارب آگے لکھتے ہیں:
’’۱۹۶۰ء کی بات ہے کہ اچانک ایک تار ملا کہ دہلی کے ایک کالج میں اردو لکچرر کے لئے انٹرویو ہے اور مجھے اس میں بلایا گیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ نوکری کہاں ملتی ہے میں دہلی کے لئے روانہ ہو گیا۔ صبح سویرے ٹرین دہلی پہنچی۔ اس وقت میں نہ دہلی سے واقف تھااور نہ دہلی والوں سے۔ اسٹیشن پر اترا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد رکشہ کرکے پی ایچ کیو (پارٹی ہیڈ کوارٹر، آصف علی روڈ) پہنچ گیا۔ عارف نقوی کو دریافت کیا تو ایک ’کامریڈ‘ نے دوسری منزل کی طرف رہنمائی کی۔ اوپر پہنچا تو دو ڈھائی فٹ چوڑی ایک بنچ پر عارف سو رہے تھے اور دوسری بنچ پر مصلح احمد (جو بعد میں مشہور آرٹسٹ ہوئے اور جن کی پینٹنگس کی نمائش کا افتاح پنڈت نہرو نے کیا)۔ میری آواز سن کر دونوں اٹھ گئے ۔ انھیں تعجب تھا کہ میں یہاں کیسے پہنچ گیا۔ عارف نے بتایا کہ دوسرے کمرے میں بننے بھائی ہیں اور نیچے کی منزل پر ایک کمرے میں بی ٹی آر ( بی ٹی رندیوے) اور دوسرے کمرے میں پی سی جوشی ہیں۔ میں نے عارف کو آنے کا سبب بتایا تو بہت خوش ہوئے۔ جلدی جلدی تیار ہوئے۔ میں بھی تیار ہوا۔ عمارتوں کے اس سلسلے میں کرشنا ریسٹورنٹ تھا۔ عارف مجھے لے کر پہلی با ر وہاں آئے اور پہلی بار میں نے سانبھر اور اڈلی کا ناشتہ کیا۔وہاں سے ان کے ساتھ دیال سنگھ کالج گیا ۔ اس وقت یہ کالج رائوز ایونیو پر جی سی کی عمارت سے ملحق تھا۔ اب وہاں دیال سنگھ پبلک لائبریری ہے۔ بہت سے امیدوار وہاں جمع تھے۔ بعض کے ناموں سے میں واقف تھا لیکن زیادہ تر لوگوں کو نہیں جانتا تھا۔ انٹرویو ہوا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ میرا تقرر ہو گیا۔ وہاں سے واپس ہم لوگ بننے بھائی (سجاد ظہیر) کے پاس آئے اور انھیں یہ خبر سنائی۔ بہت خوش ہوئے۔ رات ہی کی ٹرین سے لکھنئو کے لئے روانہ ہو گیا اس لئے کہ فوراً اپنا سامان لا کر کالج جوائن کرنا تھا۔‘‘ ’’ تقرر کے بعد میں نے قرول باغ میں ایک کمرہ اپنے رہنے کے لئے لے لیا اور عارف بھی تقریباً وہیں رہنے لگے۔۔۔‘‘
دہلی میںمیں نے شارب اور ڈی پی وشست کے ساتھ مل کر اردو کا ایک سہ ماہی رسالہ ’’رنگ و بو‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے رجسٹریشن کا اجازت نامہ بھی حاصل کر لیا، لیکن انہیں دنوں میں برلن سے میرا دعوت نامہ آگیا۔ شارب اور وشست نے یقین دلایا کہ وہ میری غیر موجودگی میں بھی رسالہ نکالتے رہیں گے ۔ میں اطمینان سے جانے کی تیاری کروں۔ ایک دوسری مشکل یہ تھی کہ میں نے پی ڈبلو اے کی طرف سے ’’نسلی امتیاز، فرقہ واریت اور فاشزم کے خلاف‘‘ ایک نمائش شنکر مارکیٹ میں کرنے کا اعلان کر دیا تھا اور تصاویر وغیرہ جمع کر لی تھیں۔چنانچہ ۱۲؍ سے ۱۸؍ نومبر ۱۹۶۱ء تک یہ نمائش کرنے کے بعد اسی رات کو میں لکھنئو میل سے رشتے داروں کو خدا حافظ کہنے کے لئے لکھنئوگیا اور پھر وہاں سے لوٹ کر ۲۴؍ نومبر کی رات کو برلن کے لئے روانہ ہوگیا۔ پالم ہوائی اڈّے تک جاتے ہوئے ایر انڈیا کی بس میںبنّے بھائی (سجّاد ظہیر، شارب ردولوی ، ڈی پی وشست اور ڈرامہ آرٹسٹ ستیو میرے ساتھ تھے۔ بنے بھائی مجھے کانٹے چھری سے کھانے کا سلیقہ بتا رہے رتھے اور یہ لوگ ان کی سنجیدگی اور معصومیت سے محظوظ ہو رہے تھے۔
شارب اور ان کی پوری فیملی سے میرے تعلقات جرمنی آنے کے بعد بھی قائم رہے۔ میں جب بھی دہلی آتا تھا گھنٹوں ہم لوگ
پرانی یادوں، خصوصاً دو ستوں کو یاد کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی میں نے ان کے گھر پر ماڈل ٹائون میں قیام بھی کیا ، ایک بار تو میری اہلیہ اور بیٹی
بھی ساتھ تھیں اور شارب، شمیم اور ان کی پیاری بیٹی شعاع کے خلوص و محبت سے متاثر تھیں اور آج بھی یاد کرتی ہیں۔
اب بھی جب میں جرمنی سے آتا ہوں تو شارب کے گھر پر بیٹھ کر ہملوگ پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں ، خصوصاً ہمارے بزرگوں بنے بھائی (سجاد ظہیر)، احتشام حسین اور دوستوں ذکی شیرازی، احراز نقوی ، حسن عابد وغیرہ کی یادیں ہمارے دلوں کو تڑپا دیتی ہیں۔ ان کے سینے میں ایک درد مند دل ہے ، جو کمزوروں اور دردمندوں کے لئے تڑپتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوتی ہے، کہ علم و فہم کی جو روشنی انھوں نے خود حاصل کی ہے اس کی شعاعیں اب شعافاطمہ اسکول کے کمروں میں منور ہیں۔ اور نہ جانے کتنے غریب بچوں کے والدین کے دلوں سے ان کے لئے دعائیں نکل رہی ہیں۔ سادگی ، انکساری ، محبت یہ ان کی ذات میں پنہاں ہیں۔ وہ کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ وہ ایک بڑے نقاد اور پروفیسر ہیں۔ ان کے کمروں میںچاروں طرف اردو کی نئی پرانی کتابیں، اخبارات اور کاغذات بھرے رہتے ہیں مگر کہیں بھی وہ سندیں اور طمغے و میمنٹوسجے ہوئے نہیں ملیں گے، جو ان کی علمی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے سارے ہندوستان میں انھیں پیش کئے گئے ہیں۔ انھیں ظاہرداری اور نمائش پسند نہیں ہے۔
شارب کے مضامین اور تنقیدوں میں بھی ہمیں یک طرفہ پن یا سطحی پن نظر نہیں آتا۔ وہ ہر تحریرکا گہرائی میں جا کر، ہر پہلو سے جائزہ لے کر، فنی پہلوئوں اور تاریخی، سماجی پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے اور مصنف کی نفسیات اور اس کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنی
رائے کاایمانداری سے اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی یک طرفہ تعریف کرتے ہیں نہ یک طرفہ مذمت۔
مجھے یقین ہے کہ اس کتاب میں شارب کی تنقید نگاری پر بہت سے سند یافتہ نقاد قلم اٹھائیں گے۔ اس لئے میں خود اس پہلو سے کچھ نہیں کہوں گا۔ جدید اردو تنقیداصول و نظریات، مرثیہ نگاری، مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر، جگر کا فن اور شخصیت وغیرہ لاتعداد موضوعات پر شارب نے جو بیش بہا کام کئے ہیں ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ مجھے تو اس وقت ان کا وہ مقالہ یاد آرہا ہے جوسجّاد ظہیر( بنے بھائی) کی سینٹینری پر جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے سیمینار میں انھوں نے ہم لوگوں کو سنایا تھا۔ جس میں ترقی پسند تحریک کا ایمانداری سے سب پہلوئوں سے جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا:
’’ ترقی پسند تحریک اپنی ابتداء سے ایک نظریاتی تحریک رہی ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا مثبت اور منفی پہلو ہے۔ اس لئے کہ
نظریاتی تحریک ہونے کی وجہہ سے وہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی زندہ ہے اور ایک دقیع ادبی سرمایہ اس سے منسوب ہے۔ منفی پہلو یہ ہے کہ
اپنی ابتداء سے آج تک سوالات اور اعتراضات کی زد میں ہے۔ ترقی پسند تحریک جن نظریات کی نمائند گی کرتی رہی ہے یا کررہی ہے اس میں گزشتہ سترسال میں مختلف زمانوں میں نظریات کا دبائو ) stress ( تبدیل ہوتا رہا ہے۔ آج جس ترقی پسند تحریک کا ذکر کیا جاتا ہے
اس کا سلسہ تو وہی ہے لیکن نظریاتی اعتبا سے اس کی تین تہیں ہیں۔‘‘
شارب نے خوبصورتی کے ساتھ ان تینوں تہوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی ثابت کیا کہ ترقی پسند تحریک میں ہوئی بعض غلطیوں کا بہانا لے کر اس پر لگائے جانے والے بہت سے الزامات حقیقت پر مبنی نہیں تھے۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔سجاد ظہیر نے سکہ بند ترقی پسندوں کی اصلاح کی جو ادب اور آرٹ کو پارٹی لائن پر چلانے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔‘‘
شارب اس مقام پر سجاد ظہیر کے ان الفاظ کا حوالہ دیتے ہیں:
’’ تخلیق انسانی ذہن اور روح کا بلند ترین مظاہرہ ہے تخلیق حکم دے کر یا کسی دوسرے کی مرضی پوری کر نے کے لئے نہیں کی جا سکتی۔ تخلیق بیورو کریسی کے طور طریقے، گھٹیا سرپرستانہ برتائو یا فوجی قسم کی گروہ بندی برداشت نہیں کر سکتی۔‘ ‘‘
ترقی پسندی کے بارے میں اپنے خیالات کو شارب ان الفاظ سے واضح کر یتے ہیں:
’’۔۔۔ اس دور میں بھی وہ بنیاد پرستی، جارحیت اور انتہا پسندی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ جمہوریت، سماجی انصاف، امن اور
انسان دوستی کی بات کرتی ہے۔ یہ کمٹمنٹ بھی آج کے عہد میں بہت ہے جبکہ مذہبی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا سایہ بڑھتا جا رہا ہے اور
ایسا لگتا ہے کہ دنیا آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف چلنے لگی ہے۔‘‘
شارب کے اس مقالے کو سن کر مجھے ان کا ایک دوسرا مضمون یاد آ گیا تھا جس میں انھوں نے لکھا تھا:
’’رومانی عقلیت کی تحریک کے بعد جو سب سے اہم تحریک اردو ادب میں ملتی ہے وہ ترقی پسند تحریک ہے جس نے اردو ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔۔۔‘‘
ادب میں مختلف نظریات اور تحریکیں ہوں، تنقید کا سماجی و تاریخی پس منظر ہو، تنقید کے مختلف اسالیب ہوں سب پرشارب نے
ایمانداری سے مستند رائے ظاہر کی ہے، جو موجودہ نسل کے لئے یقیناً مشعل راہ ہے اور ہم جیسے دوستوں کے لئے باعثِ مسرت اور قابلِ فخر۔
شارب کی تخلیقات میں حال میں مجھے جن چیزوں نے خاص طور سے زیاد متاثر کیا( ضخامت کے اعتبار سے نہیں بلکہ افادیت کے اعتبار سے) ان میں ان کا مضمون ’جنگ آزادی کے غیر معروف شعرا‘ شامل ہے۔ یہ مضمون آج کے حالات میں، جبکہ نفرت و وحشت کے بادل ہر طرف منڈلا رہے ہیں اور اردو زبان و ادب کی اہمیت اور ملک کی آزادی، خوشحالی ، سا لمیت اور قومی اتحاد کے لئے اردو شاعروں اور مصنفوں کی خدمات اور قربانیوں کو نظر انداز ہی نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ جھٹلایا جا رہا ہے، لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے ایک بڑی کاوش ہے۔اور ثابت کر دیتا ہے کہ آزادی کی تحریک میں اردو ادب کسی سے پیچھے نہیں تھا۔مثلاً یہ اردو شاعر ہی تھے جنھوں نے کہا تھا:
’’سر فروشی کی تمنا پھر ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے(بسملؔ)
شارب لکھتے ہیں:
’’ یہ آوازیں تحریک آزادی کے ساتھ تیز تر ہوتی گئیں اور جہاں صرف ماتم اور تباہی کا ذکر تھا وہاں انقلاب کی تمنائیں
کروٹیں لینے لگیں۔ اردو شعرا نے اپنی شاعری کو کارزار آزادی کا ترجمان بنا دیا اور ایک ایسی حکومت مخالف یا انگریز مخالف فضا پیدا کر دی
جو کہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں معاون ہوئی ۔ اردو شاعری نے تحریک آزادی کو جوش اور سرفروشی کی تمنا سے بھر دیا۔ ان میں
کتنے شعرا ایسے ہیں جنھیں بے خطا موت کی سزا ملی، کتنے ایسے ہیں جنھیں قید اور عبور دریائے شور کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں لیکن
کسی وقت ان کے جذبہء حب الوطنی، آزادی کی تمنّا اور ملک کو خوش حال دیکھنے کی خواہش میں کمی نہیں آئی۔‘‘ شارب کہتے ہیں:
’’ اس شاعری کی تاریخی اہمیت ہے اور تاریخ صرف قصّے اور واقعات کا بیان نہیں ہے۔ اس کے اندر ایک عہد سانس لیتا ہے۔
اس میں اس عہد اور وقت پر اثر انداز ہونے والے کردار ہوتے ہیں اور وہ جنون ہوتا ہے جس کے آگے زندگی بھی ہیچ نظر آنے لگتی ہے۔ اور یہ تاریخ ادب کے اوراق میں سانس لیتی ہے۔ اس لئے اگر اس عہد کے شعرا کو دیکھا جائے تو ان کے کلام میں قدم قدم پر اس تاریخ کے نقوش نظر آئیں گے۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس تاریخ کو رقم کرنے میں اردو شعرا پیش پیش رہے ہیں۔ انھوں نے صرف قلم سے نہیں میدان میں آکر دوسروں کے شانہ بشانہ اس جنگ میں حصّہ لیا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں شارب نے لاتعداد اردو شعرا اور ان کے حب الوطنی، آزادی اور قومی اتحاد کی تڑپ اور انقلابی جذبات
سے بھر پور کلام کی مثالیں دے کر اردو ادب کے ہراول رول کو واضح کردیا ہے۔ یہ مثالیں جو اردو زبان و ادب کی اہمیت کو نظر انداز
کرنے والوں کی آنکھیں کھول دیتی ہیں۔ مثلا نوبہار صابر ؔ کا یہ شعر جس کا حوالہ شارب نے دیا ہے:
پلا قاتل کہ ہم جامِ شہادت کو ترستے ہیںاسی مے کو پیا کرتے ہیں بادہ خوارِ آزادی
ذرا ٹھہرو مجھے پھانسی کا پھندا چوم لینے دویہی تو ہے شہیدوں کے گلے کا ہارِ آزادی
(نوبہار صابرؔ ٹوہانوی)
شارب لکھتے ہیں:
’’ جس قدر انگریزوں کے مظالم بڑھ رہے تھے اسی قدر مجاہدینِ آزادی میں جذبہء جانثاری زور پکڑتا جا رہا تھا۔
آزادی کی ان نظموں نے ایثار و قربانی کے جذبہ کو اور بڑھایا۔ چونکہ یہ نظمیں اور غزلیں عوامی ترانے بن گئے تھے اور ہر جگہ گائے
جاتے تھے ۔ ان نظموں نے سب سے بڑا کام یہی کیا کہ لوگوں میں غیرتِ قومی کو بیدار کیا اور انھیں مذہب، ذات پات ،
علاقہ، عالم و جاہل، کسان و مزدور، سارے فرق سے بلند کر کے ایک جگہ جمع کردیا۔ اس طرح اردو شعرا نے تمنّاے آزادی کا ایسا مضبوط قلعہ تعمیر کردیا جسے انگریزوں کے بڑے سے بڑے مظالم بھی نہیں توڑ سکے اور جوشِ آزادی عوام کی آواز بن کر پھیلتا ہی گیا۔ ان شعرا
سے کوئی واقف نہیں نہ ہمارے تذکروں اور کتابوں میں چند کو چھوڑ کر کسی کا ذکر ملتا ہے لیکن ان کے الفاظ آج بھی آزادی کی دستاویز پر درج ہیں۔‘‘ مثلاً کنور ہری سنگھ جری ؔ کے یہ اشعار جن کا حوالہ شارب نے دیا ہے:
اٹھو اے نوجوانوں جوشِ رحمت کی گھٹا ہو کر
جگا دو غافلانِ ہند کو بانگِ درا ہو کر
تمھاری منتظر ہے شوکت و توقیرِ مستقبل
امر ہو جائو آزادیء بھارت پر فدا ہو کر
کوئی بھی حد ہے آخر جور و استبداد کی صاحب
کوئی کب تک رہے خاموش مجبورِ جفا ہوکر
اگر احساس ہے کچھ تم کو زندانِ غلامی کا
تو زنجیرِ غلامی توڑ دو نکلو رہا ہوکر
اور مرزا دبنگ کے یہ اشعار جن کا حوالہ شارب نے دیا ہے:
اشہبِ فکر انگیز تیز گام ہے آجسیفِ مضمون بے نیام ہے آج
انقلاب آ رہا ہے بھارت میںدعوتِ انقلاب عام ہے آج
صفِ ماتم بچھی ہے مغرب میںجشنِ مشرق کا اہتمام ہے آج
(مرزا دبنگ)
آج کے اس دور میں جب کہ ساری دنیا ، خصوصاً بر صغیر میں تنگ نظری، فرقہ واریت، دہشت پسندی،
نفرت و وحشت، رجعت پرستی کی قوتیں سر اٹھا رہی ہیں اور قوموں کو پستی کی دلدل میں پھینک دینا چاہتی ہیں۔ہر زبان کے ترقی پسند شعراء و ادیب پست ہمت و مرجھائے مرجھائے سے لگ رہے ہیں۔ زبانیں بند ہوئی جا رہی ہیں، شارب جیسے اردو شعرا اور ان کے فہم و ادراک اور ترقی پسندانہ قلم کی ضرورت اور اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ شارب نے اپنے طلباء اور ہمعصروں میں ایسے شعور کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ جو حالات کو تاریخی تجربات، وقت کی ضرورت اور اپنے ضمیر اور روشن شعور کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے انسانیت، شرافت، امن اوررفاقت کے چراغوں کو روشن رکھیں گے۔
محترم وقار رضوی صاحب کے لئے
عارف نقوی
۲؍ مئی ۲۰۱۸ء
Arif Naqvi
Rudolf-Seiffert-Str. 58, 10369 Berlin (Germany),
Phone: 0049-30-9725036
Also read