سماج کی بنیادی ضروریات کی طرف توجہ دینا میڈیا کا فرض

0
106

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ جب بھی کسی قوم ،سماج اور معاشرے کی ترقی اور اس کی فتحیابی کی راہیں مسدود و مصلوب کرنی ہوتی ہیں یا اسے ذلیل و رسوا کرنا ہو تو سیاسی طاقتیں ، یا مفاد پرست افراد اپنی مشنریوں، ایجنسیوں کے ذریعے ، بڑی ہوشیاری اور دانشمندی سے ، اس معاشرے کو ذہنی اور فکری طور پر مفلوج و اپاہج کرنے کی پرزور سعی کرتی ہیں۔ پھرایسی کمیونٹی کے خلاف منصوبہ بند سازشیں کی جاتی ہیں۔ ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے خلاف زمینی حالات اس طور پر تیار کئے جاتے ہیں کہ اس معاشرے کے افراد مایوسی و افسردگی کے شکار ہونے لگتے ہیں۔ حتی کہ معاشرے کا دوسرا طبقہ نفرت و تعصب کا رویہ دانستہ طور پر اپنا تا ہے۔ گویا جورو ستم اور سماجی عدم برابری بھی کہیں نہ کہیں حکومتوں کے ایما و اشاروں پر ہوتی ہے۔ اگر ہندوستان کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ آ ج مسلم کمیونٹی کی صورت حال بھی نہایت پتلی اور افسوسناک ہے۔ مسلم کمیونٹی کی اس حالت کا ذمہ دار اولا تو جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا ہے۔ مسلم کمیونٹی کے خلاف میڈیا میں چلائے جانے والے لگاتار منفی پروگرام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی مخصوص سازش کا حصہ ہے۔ اس کے پس پردہ فسطائیت اور تخریبی ذہنیت کی حامل ایجنسیاں اور پر اسرار طاقتیں کام کررہی ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہیکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے نمائندے اپنی عزت افزائی اور عقل مندی مسلم کمیونٹی کی تنقیص و توہین اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول بپا کرنے میں ہی محسوس کرتے ہیں۔شاید انہیں یقین ہے کہ جس قدر مسلم کمیونٹی کو کوسا جائے گا ، ان کے خلاف سازشیں کی جائیں گی، تبھی ان کے مصنوعی آ قا خوش ہوں گے۔ میڈیا میں چلائے جانے والے فرضی اور نفرت آ میز پروپیگنڈہ نے جہاں مسلمانوں کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہے۔ وہیں مسلم کمیونٹی کو احساس کمتری میں بھی مبتلا کر رکھا ہے۔ ادھر عالمی تناظر میں ذرائع ابلاغ کے شعبوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے تعلق سے عالمی میڈیا کا کردار بھی حق و انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ ان تمام احوال کی روشنی سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ مسلم کمیونٹی کو منصوبہ بند سازش کے تحت کمزور و بے بس کیا جارہا ہے۔ اور انہیں جان بوجھ کر خوف و وحشت کے سائے میں رکھا جارہا ہے۔ تاکہ وہ ہندوستان میں تو رہیں لیکن ،سیاسی، معاشی اور اقتصادی طور پر بری طرح کمزور ہوجائیں۔ تعلیم و تدریس اور اصلاح و تربیت کے تعمیری راستہ سے مسلم اقلیت کو برگشتہ کرنا آ سان ہوجائے۔ اس کی واضح علامتیں آ یے دن ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ جان بوجھ کر بنیادی حقوق کا ضیاع ، دل آزاری،عصمت و عفت کی پامالی، مذہبی ،تاریخی و تہذیبی یادگاروں سے خرد برد کے واقعات نے مسلم کمیونٹی کے خلاف سازشوں کوبے نقاب کردیا ہے۔ آ ج امت مسلمہ کا المیہ یہ ہیکہ اس قوم کی قیادت و سیادت کرنے کے دعویدار تو ان گنت مل جائیں گے مگر ان دعووں اور ان کی نمائندگی و عملی کار کردگی میں کتنی سچائی ہے ۔یہ سب بخوبی جانتے ہیں۔ شرمناک بات یہ ہیکہ یہ دعوے نہ صرف کھوکھلے اور بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات ایسے نام نہاد لیڈروں اور قائدین کی وجہ سے امت بری طرح شرمسار بھی ہوجاتی ہے۔
اس وقت ہندوستان میں سب سے زیادہ منافرت و مغائرت کا وائرس میڈیا اور فرقہ پرست ذہنیتوں کی طرف سے بڑی تیزی سے چلایا جارہا ہے۔ نفرت و تشدد۔ اور زیادتی و تعدی کا یہ وائرس جہاں موجودہ معاشرے کو اپنی بھیانک لپیٹ میں لے رہا ہے وہیں اس بات کا غالب گمان ہے کہ اس کا گندہ اثر آ نے والی نسلوں کو بھی متاثر کرے گا ۔ اس لئے ملک کے انصاف پسند اور جمہوری اقدار کے پاسبان افراد کو آ گے آ نا ہوگا اور سنجیدگی و حکمت و دانائی سے موجودہ حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ نیز نفرت سے معمور اس سماج کو محبت وامن اور ایثار و غمگساری وہمدردی کے پاکیزہ زیور سے مات دینی ہوگی۔ ہندوستانی میڈیا کے جانبدار رویہ کی تازہ صورت حال مرکز نظام الدین کے حوالے سے سامنے آ ئی۔ اس معاملہ میں میڈیا نے کس قدر ہمارے معاشرے میں زہر افشانی کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ مسلم کمیونٹی کا ایک مذہبی گروہ اس جانبدار میڈیا کے مباحثے میں اپنی شرکت درج کراکے آ خر وہ کس کو فایدہ پہنچا رہا ؟ ان کی اس شرکت کا کیا معنی و مفہوم اخذ کیا جائے۔ حتی کہ بعض اوقات دیکھنے میں آ یا ہیکہ نیوز اینکر ان مسلموں کو نہایت بری طرح سے ڈانتے ہیں۔ بے عزت ورسوا کرتے ہیں۔ اس کے علاؤہ ان کی کاوش یہ رہتی ہے کہ جو میڈیا یا نیوز چینل کا ایجنڈہ ہے بس اسی کی حمایت مسلم مباحثین سے بھی کرائی جائے۔ نیوز اینکر اپنی بات اور اپنے مخصوص ایجنڈے کو مسلم مباحثین کے منھ میں ٹھونس دیتا ہے۔ یہ مسلم کمیونٹی کی نمائندگی کرنے کے بجائے دانستہ یا غیر دانستہ وہی اگلتے ہیں جو ان کے منھ میں ٹھونسا جاتا ہے۔ اگر خواہش یہ ہیکہ ذرائع ابلاغ مسلم کمیونٹی کے خلاف کسی بھی طرح کی نفرت اور تعصب کا راگ نہ الاپے تو ضروری ہے کہ نیوز چینلوں پر جو نام نہاد مذہبی گروہ مسلم کمیونٹی کی نمائندگی و ترجمانی کرتے نظر آ تے ہیں انہیں اپنے اس اقدام سے فوری طور پر رک جانا چاہیے۔
میڈیا نے ملک میں نفرت کا کھیل ایسے وقت میں کھیلا ہے جب پوری دنیا ،کورونا جیسی بھیانک اور خطرناک بیماری سے کشتم کشتا ہے۔ حکومتیں ہر روز اس تباہ کن بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اور احتیاطی اقدامات اٹھارہی ہیں۔ مگر ہمارے ملک کا میڈیا حسب سابق ملک میں تفریق و تقسیم اور انتشار و خلفشار کو نہ صرف پروان چڑھا رہا ہے بلکہ اس کی پرورش بھی کررہا ہے۔ یہی وجہ ہیکہ جب سے میڈیا نے کورونا جہاد، اور اس جیسے نازیبا کلمات کو مسلم کمیونٹی کے ساتھ جوڑا ہے تو ملک کی اکثریت کے دل و دماغ میں نفرت اور تشدد و تخریب کاری کا بھی اضافہ ہونے لگا ہے۔ اس کا عملی نمونہ بھی ملک کے منظر نامے پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ابھی حالیہ واقعہ ویانا میں پیش آ یا جہاں ایک محبوب نام کے شخص کو گاؤں کے کچھ سر پھرے کھیتوں میں لے گئے اور اس کو اس وجہ سے شدت کے ساتھ زدو کوب کیا کہ یہ کورونا پھیلا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور واقعے ابھی حال ہی میں نظر آئے ہیں ، اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس کو میڈیا اسی طرح سے دکھائے گا جس طرح سے مرکز نظام الدین کے معاملے کو اچھالا تھا؟ یہ خبر” ستے ہندی ڈاٹ کام” یوٹیوب چینل نے بتائی ہے۔ جبکہ جو قومی نیوز چینل ہیں انہیں بھی اس طرح کی خبروں کی چھان پھٹک کرکے منظرعام پر لانا چاہئے۔ آ ج سب سے بڑی دکھ کی بات یہ ہیکہ ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا اور اہم طبقہ محدود مفادات کا قیدی اور خود ساختہ مصلحتوں کا اسیر ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کا جوفرض اور ذمہ داری ہے وہ اب بالکل عنقاء ہوچکی ہے۔ حتی کہ حکومتوں کے ایماء پر رقص کرنے کو میڈیا اپنی سعادت سمجھ رہا ہے۔ اسی پر بس نہیں جب سے میڈیا میں جانبداری اور طرفداری کا رجحان بڑھا تب سے نہ صرف حکومت بے لگا ہوئی ہے بلکہ ہندو مسلم منافرت کا ماحول بھی پنپا ہے۔ اس وقت یا ہمیشہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں اس بات کی شدید ضرورت رہتی ہے کہ باہم اقوام و ملل کے تعلقات صالح خطوط پر استوار کرایے جائیں۔ احترام ادیان کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی سماجی و معاشرتی ضروریات کی تکمیل کے لئے سبھی بے لوث آ گے آ ئیں ۔جس طرح سے صبح سے شام تک ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد ہندو مسلم کی مالا جپتے ہیں ۔ اگر وہ اتنا وقت ملک اور سماج کی تعمیر و ترقی کے لئے نکال لیں تو یقینا سماج و معاشرے کی تصویروہی ہوگی جس کی ضرورت ہے۔
ذرائع ابلاغ کو سوچنا ہوگا کہ وہ جس سماج کو خبریں دکھاتے ہیں وہیں نفرت آ میز پروگرام چلا کر سماج میں کس طرح کا ماحول بنانا چاہتےہیں۔ اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے میڈیا سے وابستہ افراد اس سماج کے ہمدرد،خیر خواہ یا سماج کو بیدار نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ سماج کو نفرت کے گہرے گار میں دھکیل رہے ہیں جس میں گرنے کے بعد برسہا برس انسان کو سیدھا ہونے میں وقت لگے گا۔ میڈیا کی اس کرشماتی کارستانی سے سماج کو پوری طرح محفوظ رہنے کی ضروت ہے۔ نوع انسانی کی اس وقت ضرورت ہے ملک اور سماج کو مستحکم کرنے کی۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم ہر طرح کا بھید بھاؤ مٹا کر صرف اور صرف انسانیت کی بنیاد پر رشتوں کو قائم کریں۔ اگر زرخرید میڈیا کے بہکاوے میں سماج کا کوئی بھی فرد آ یا تو یقین جانئے کہ ہم نہ صرف اپنے سماج کے لئے برا کررہے ہیں بلکہ انسانیت کے لئے بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی،علیگڑہ
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here