[email protected]
موسی رضا۔۔ 9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
پروفیسر ماہ رخ مرزا
وائس چانسلر، خواجہ معین الدین
چشتی اردو، عربی -فارسی یونیورسٹی
سر سید احمد خاں ۱۷؍ اکتوبر۱۸۱۷ عیسوی کو پیداہوئے آپکی زندگی اور کارنامے آپکی یوم پیدائش پر ہمارے لئے بہت اہم اور خاص ہو جاتے ہیں۔آج ان پر غور کرنے کا دن ہے۔سر سید احمد خاں ہندوستان کی عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں ذہنی ، فکری اور علمی انقلاب کے موجد اگر کوئی کسی کو کہا جا سکتا ہے تو وہ سر سید احمد خاں ہیں آپ دانشور ہی نہیں بلکہ نباضِ ضرورت اور امراض سماجی کے طبیب بھی تھے۔ آپ کی سب سے بڑی خوبی کسی بھی اہم کام کو انجام دینے کے لئے اسے مشن کی شکل دیتے تھے اور تنقید و اعتراض کے تمام پہروں کو اپنے بلند حوصلہ لشکروں سے توڑ دیتے تھے۔ آپنے قرآن کریم کی تفسیر جدید زاویہ اور سائنسی نکتۂ نظر سے کی جو اُس وقت کے علماء اسلام کی فکر و دانش کے خلا ف تھی۔ جس پر آپ کو کفر کا فتویٰ بھی دیا گیا اور زبردست مخالفت ہوئی۔ یہ بلند ہمت مرد کی شجاعت ہی ہو سکتی ہے ۔جس نے اس وقت جدید تعلیم اور قرآن کریم کی تفسیر تقاضۂ وقت کے تحت کی۔ جس وقت دقیا نوسی سوچ کی حکومت تھی اور لوگ دائرہ شریعت سے باہر نکلنا گناہ سمجھتے تھے انہوں نے غربت کی زندگی اور اپنی محدود فکر کو شریعت کا نام دے دیا تھااور یہ خیال کرتے تھے کہ اس دنیا میں غربت کی زندگی کے عوض انہیں آخرت میں جنت نصیب ہوگی اس تنگ فکری اور غلط نظریہ کو آپنے جدید علوم کی اہمیت کو قرآن سے ثابت اور واضح کیا۔ کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ہر ’’خشک و تر ‘‘ اس کتاب میں موجود ہے اس روشنی میں کسی بھی علم سے وابستگی حقائق کائنات تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور جو صداقتِ قرآن پر محکم دلیل بھی ہے۔سرسید نے سائنسی علوم کو قرآنی علم کا حصہ قرار دیکر ان ذہنوں کو خاموش کر دیا جو قرآن کو جدید علوم سے الگ سمجھتے تھے حضرت علی جو دین اسلام کی عظیم ہستی اور مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ہیں نے مجمع عام میں فرمایا کہ ’’جو پوچھنا ہو پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تہمارے درمیان نہ رہوں‘‘سے واضح ہے کہ حضرت علی فقط شریعت کی بات نہیں کر رہے بلکہ دنیائے عالم میں تمام علوم پر روشنی ڈال رہے ہیں اور یہ با ت اس وقت مزید پایۂ ثبوت کو پہونچ جاتی ہے جب آپنے فرمایہ کہ ’’میں زمین سے زیادہ آسمانی راہوں سے واقف ہوں‘‘ اس فکر کو سر سید احمد خاں نے کافی برس پہلے پیش کیا تھا جس فکر کے پیرو کار آج پیدا ہو رہے ہیں ۔ ایران کے بڑے مفکر اور عالم آغائے مطہری نے فرمایا تھا کہ آج تفسیر قرآن Modern Perspectiveمیں کیے جانے کی ضرورت ہے۔کیونکہ قرآن وہ آخری کتاب ہے جو کبھی نہیں بدلے گی اور زمانے اپنے ترقیوں کے ساتھ بدلتے رہیں گے ۔یہ کتاب ہر زمانہ کے تقاضوں کو پورا اور عصری ہمہ ہنگی کے ساتھ زمانہ کی امامت کرتی رہے گی۔ سر سید احمد کی مخالفت کی وجہ جہالت نہیں تھی بلکہ اس زمانہ کے Intellect Levelسے بلند فکر کو آپ نے پیش کر دیا تھا۔ آپ علم و بصیرت کے وہ آفتاب ہیں جو کبھی غروب نہیں ہوتے۔وہ کل بھی روشن تھے،آج بھی نیر تاباں ہیں کل بھی منبع نور رہینگے۔لیکن استفادہ اور حصول فیض کے لئے لازمی ہے کہ حرم عقل کے دروازے کھلے ہوں کیونکہ بے بصیرت اندھیروں کو علم وشعور کا طالع آفتاب بھی دور نہیں کر سکتا۔آپکی خدمت گزار زندگی میںنظریاتی اختلاف بہت دکھائی دیتے ہیں جو سر سید کی اہمیت سے ناواقفیت کے بنا پر ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کے شہرت یافتہ مفکراحمد جاوید تعلیمات و افکار سر سید احمد خان کو اسلامی معاشرے کے لئے نقصان دہ تصور کرتے ہیں۔اور ان کے خلاف آواز بلند کرنے میں ان کا مقصد مسلم ذہنوں کو افکار سرسید کے خلاف تیار کرنا ہے۔
اس موقع پر میں ضرور کہونگا کہ ہمارے ملک کی پاک زمین پر محبت و اخوت کی آبیاری کرنے والے رہنما کردار کے خلاف ماحول سازی کی کوشش تخریبی ذہنیت کی عکاس نظر آتی ہے۔کیونکہ ہمارے ملک کے یہ وہ نگینے ہے جن میں اتحاد کی چمک ہے،نفاق و افتراق کا اندھیرانہیںیہ وہICONSہے جو تقسیم ملک کے تصور سے پرے ہیں جنھوں نے محبان وطن کی ذہنی زمین کو اپنی ہمت کی فضا بخشی ہے،فکرکے ہل سے زمین محبت کو زرخیز بنایا ہے اور شعور کے آنسووں کی بارش سے فصلوں کو تیار کیا ہے۔تب اتحاد ،شجاعت،اخوت اور الفت کے ثمر تیار ہوئے ہیں۔ہمیں ایسی پاکستانی آلودہ فکر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو نفرت اوربغض کی تخریب کاری فصلیں تیار کرتی ہو۔سر سید احمد خاں اس بلند صفات شخصیت کا نام ہے جس کا نعرہ تھا ’’علم ہر پریشانی کا حل ہے‘‘یہی وجہ ہے کہ سماجی مشکلات کا اجتماعی حل، جسے آپ پہلے ہی تلاش کر چکے تھے تعلیمی ادارے کی شکل میں پیش کردیا۔ آپ کا قائم کردہ تعلیمی ادارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وہ شجر سایہ دار ہے۔ جہاں علم دوست تکانِ زندگی سے بری ہوکر نئی تازگی حاصل کرتے ہیں اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتے ہیں ۔ تاریخ کا وہ دور جب انگریزی حکومت قائم ہو چکی تھی اور عیسائیت ’’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘‘کے فارمولے پر کام کر رہی تھی اس وقت سرسید احمد خاں کے طائر پرواز نے سمجھ لیا تھا کہ اگر اسلامی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیمی کی جانب قوم و ملت کو متوجہ نہیں کیا گیا تو غلامی کی زنجیروں کو توڑ پانا ہمارے جوانوں کے لئے بہت مشکل ہو جائے گا ۔ جس طرح انگریزوںنے اپنی حکومت کی سلامتی کے لئے اُردو زبان کو سیکھنا ضروری سمجھا تھاجس کے لئے انہوں نے فورٹ ولیم کالج ،کولکاتا میں انگریزوں کو اردو کی تعلیم دلوائی اسی طرح سر سید احمد خاں بھی سمجھ چکے تھے کہ انقلاب کا طوفان علم جدید کے سمندروں میں ہی برپا کیا جاسکتا ہے اور اپنے ملکی جوانوں کی ترقی کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے حالانکہ سر سید سمجھ رہے تھے کہ ان کے خلاف آندھیاں انہی کی سرزمین سے اٹھیں گی کیونکہ لوگ انگریزی تعلیم سے سخت نفرت کرتے تھے اور انگریزی زبان کو وہ گناہ کے مترادف سمجھتے تھے۔لیکن جو طوفان کا حوصلہ لئے ہو وہ آندھیوں سے نہیں گھبراتا۔
سر سید احمد خاں نے کوئی پرواہ کئے بغیر اس محدود ذہنیت کی کمر توڑنے کے لئے اپنی کمر کس لی اور آپ نے اپنی کوشش کو مشن کی شکل دے دی اور اس مشن کی کامیاب سعی مختلف علوم کے اردو ترجموںکو اردو داں طبقہ تک پہنچا کر پورا کیا۔ انہوں نے بذات خود برطانیہ جا کر انگریزی طرز معاشرت، ثقافت اور تعلیمی انداز فکر کا جائزہ لیا اور ان کے مفید عناصر کو اپنے عمل کا حصہ بنایا۔Statesmanاورspectatorکے طرز و معیار پر اایک اخبار بعنوان ’’تہذیب الاخلاق‘‘ نکالا اس اخبار نے عوام کی ذہن سازی ، کردارسازی، اور بلندیٔ فکر و شعور میں اہم کردار ادا کیا جس سے سائنسی علوم کے متعلق لوگوں میں بیداری پیدا ہوئی اور لوگ اسکولوں اور کالجوں کی جانب متوجہ ہونے لگے۔ لوگوں کا ذوق و شوق جدید تعلیم کی جانب بڑھتے دیکھ سر سید احمد خاںنے بھی اپنے مشن کی ہر کامیابی کا دروازہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی شکل میں کھول دیا۔سر سید احمد خاں کی تعمیری فکر کو عثمان علی خاں نظام حیدر آباد نے قوت بخشی جب سر سید احمد خاں کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ۵؍لاکھ روپیہ عنایت فرمائے آپ کی سیکولر شخصیت اس وقت اُبھر کر سامنے آتی ہے جب بنارس ہندو یونیورسٹی کو ۱۰؍لاکھ روپیہ عطا کیا تاکہ تعلیمی امور کی سرگرمیوں میں اضافہ کا سبب ہو۔
سر سید کے تعمیری کاموں کی فہرست طویل ہے سائنٹفک سوسائٹی ، غازی پور اور علی گڑھ میں تعلیمی اداروں کا قیام آپ کے قومی درد کا غماز ہے ۔ ’’سر سید احمد خاں‘‘نے اپنی زندگی کا نصب العین قومی ترقی اور پرواز فکر کی وسعت کو بنایااور یہ اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک تمام فرقوں اور مذاہب کے نظریات و عقائد کا احترام نہ کیا جائے اور نگاہوں کے مطلع کو تعصب کے کہرے سے صاف نہ رکھا جائے۔رفقائے سر سید کی فہرست میں ہر فرقہ اور رنگ و نسل کے لوگ اس طرح گتھے ہوئے تھے جیسے تمام رنگوں اور خوشبوئوں کے پھول ایک محبت کے دھاگے میں سمٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں تو ’’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس اور سب کا وشواس‘‘میں بھی سر سید کے افکار کی گونج محسوس کرتا ہوں۔ حضرت علی نے علم اور دین کے رشتے کے حوالہ سے فرمایا ہے کہ علم اور دین کا ایک ساتھ رہنا امن و آشتی کا پیغام ہے اور دور رہنا فساد کی علامت ہے اس آئینہ میں اگر کوئی تعلیمی ادارہ نظر آتا ہے تو وہ ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ ہے ’’جہاں جدید تعلیم کے سائنسی شعبوں کے ساتھ دینیات کے شعبے بھی ہیں۔‘‘ہمارے مدارس کو بھی اس جانب متوجہ ہونا چاہئے اور علم ودین کے ساتھ بچوں کو جدید اور عصری علوم سے بہر ہ مند کرنے کی طرف قدم بڑھانا چاہئے تاکہ زمانہ کی ترقیوں میںقدم سے قدم ملاکر چل سکیں۔میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ سر سید احمد خاں کا فکری اور ظاہری وجود علم اور دین دونوں سے آراستہ تھا سر سید اپنی ہیئت میں تعمیری عناصر کا وہ امتزاجِ کُل تھے جن میں قیادت کے تخلیقی اورخُلقی تمام صفات دکھائی دیتے ہیں ۔سر سیدکی وضع و قطع دیگر دانشوروں سے جدا تھی جو ان کی فکر کی عکاس ہے۔آج علم کے متوالے اور شیدائی مطابقِ ظرف کسب فیض کر رہے ہیں جنکی ترقیاں سر سید احمد خاں کی مرہون منت ہیں ’’میں چونکہ تعلیم سے وابسطہ ہوں اور اس وقت ایک دانشگاہ کا شیخ الجامعہ بھی ہوںاس موقع پر فخر سے کہہ سکتا ہوں کی ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کا طالب علم بھی رہا ہوں تو میرا پہلا فرض ہے کہ میں اپنے میں سر سید کے علمی و فکری رجحانات کو جذب کروں جسکی چمک اور جھلک سماج میں دکھائی دے۔ اسی جذبہ کے ساتھ میں اپنی دانشگاہ کا ماحول اُردو، عربی اور فارسی زبانوں کے ساتھ سائنسی علوم سے آراستہ کر رہا ہوں۔ مختلف سائنسی شعبوں کا قیام عمل میں آ چکا ہے اور مزید کے لئے کوشاں ہوں تاکہ میں اپنی یونیورسٹی کو ایک بے مثل و بے نظیر یونیورسٹی بنا سکوں تاکہ لوگوں کے دلوں میں علم و ہنر کے حصول کا جذبہ پیدا ہو۔ہم ملکی ترقی اور جوانوں کے روشن مستقبل کی راہ میں مختلف پروگراموں کے ذریعہ قدم بڑھا چکے ہیں ہماری یونیورسٹی ہر طبقہ کی ترقی میں شانہ بہ شانہ کھڑی ہے اور ہم تمام نسلی ، مذہبی ، فکری ، عقائدی، اختلافات سے اوپر اٹھ کر ہر کس و نا کس کے استقبال میں آمادہ اور تیار ہیں ۔ہم اپنے ملک کے جوانوں کوتعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔لہٰذا آزادیٔ رائے کی فضا ہم نیء اپنی دانشگاہ میں قائم کر رکھی ہے جو ذہنی کشادگی کی فضا پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے جسکا مظاہرہ مختلف عصری موضوعات پر ہوتا رہتا ہے جن کی خبروں سے آپ باخبر بھی رہتے ہیں۔
اختتامی کلام میں بس اتنا کہہ کر اپنی بات کو روکنا چاہو نگا کہ سر سید لازم و ملزوم کی صورت ضرور ہیں لیکن اس سے سر سید کی شخصیت محدود ہو جاتی ہے اور اس خدشہ میں مزید اضافہ اس وقت ہو جاتا ہے جب ۱۷؍اکتوبر کو فقط علیگ ہی سر سید ڈے مناتے ہیں ۔ سر سید ہر طالب علم اور ہر تعلیمی ادارے کے ہیں ان کی شخصیت محدود نہیں ہے اور نہ کی جانی چاہئے۔’’وہ سب کے ہیں اور ہم سب ان کے ہیں ‘‘ اس فکر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ہردوئی سیتا پورروڈ بائی پاس
نزدآئی آئی ایم ، لکھنؤ-226013