9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
نورالصباح
اگر ہم حال کا محاسبہ کرتے ہوئے ماضی کے دریچے میں جھانک کر 1857 کے ان سیاہ اوراق کو پلٹتے ہیں تو مسلمانان ہند کی حالت کسی بھی صورت عہد رفتہ کے مسلمانوں سے کم نہیں جو تخت و تاج سے محروم کردیے گئے، جن کے لیے دارورسن سجائے گئے، جن کے لیے معیشت تنگ کردی گئی، جن کے لیے نان شبینہ کو روکا گیا،جن کی رعیت کو نیست و نابود کردیا گیا، جن کے تعلیم یافتہ طبقے کو صلیب دار کیا گیا، جن کے حیات زندگانی کے سارے راستے مسدود کردیے گئے، جن کی زبان تہذیب و تمدن اور روایات کو مسخ کرکے انھیں معاشی، معاشرتی اور سیاسی ہر لحاظ سے کمزور کردیا گیا تھا۔اس وقت قوم کو ایک ایسے مسیحا کی ضرورت تھی جو اقوام مسلم کو اس ظلمت کدہ سے نکال کر ضیا پاشی کا ہمنوا اور درد کا درماں بناسکے ۔ایسے دور میں سرسید جیسا مفکر،مدبر، مصلح قوم ماہ کامل کی صورت طلوع ہوا، جو ان پژمردہ،افسردہ اورگرداب میں پھنسی قوم کو ساحل سے لگانے میں کامیاب ہوا، جبکہ وہ تارا ملعون و مطعون، ملحدوکافر اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا گیا، لیکن سرسید ہی کی شخصیت ایسی حوصلہ مند اور تابدار تھی کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مسلسل جدوجہد کی اور ان کے خاردار راہوں کے کانٹے اپنی عقل و دانش سے دور کرنے کی کوشش کی۔
سقوط دہلی اور قوم کی ابتر حالت نے ان کومضطرب کردیا تھا۔جس سے ان کی فکری وعملی زندگی میں تلاطم برپا ہوگیا کہ قوم کی فکر میں وقت سے قبل ہی ان کے بالوں کی سیاہی پر سفیدی غالب آنے لگی۔ابتداء میں وہ قومی سطح پر استعماریت کے چنگل سے آزادی کی تدابیر کرتے رہے مگر ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوؤں کے متعصبانہ رویوں سے ان کے فکری دھارا کا رخ محض مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف ہوگیا۔
1869 میں انگلستان کے سفر نے کیمبرج کے طرز پر ہندوستان میں بھی تعلیمی ادارہ کے قیام کی فکر کو مہمیز کیا اور اسپکٹیٹر جیسے اخبار سے متاثر ہوکر مسلمانوں کے فرسودہ نظریات کو تبدیل کرنے کے لیے”تہذیب الاخلاق”کے اجرا کا بھی ارادہ کیا۔
کیوں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی حالت بغاوت سے نہیں بلکہ علم کی روشنی سے مضبوط ہوسکتی ہے اس لیے انھوں نے مسلمانوں کے تشخص اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے انھیں عیار حکمرانوں کے اقدامات کو اپنایا اور زہر سے زہر کو کاٹنے کی کوشش کی، اس لیے سائنٹفک سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا جس کی توسیع علی گڑھ تحریک ہے۔”تہذیب الاخلاق” کے ذریعہ اپنی فکر اور نظریات کو مسلمانوں تک پہونچایا انھیں جدیدسائنسی علوم کی ترغیب دی۔مسلمانوں کے خلاف ڈبلیوڈبلیو ہنٹر کی متعصبانہ خیالات پھیلانے والی کتاب”our Indian Muslim”کے جواب میں “اسباب بغاوت ہند”لکھ کر مکمل استدلالی مدافعت پیش کرتے ہوئے انگریزوں کی کدورت و تلخی کو دور کیا۔
وہ محجوبانہ خواب میں محو،اپنے عظمت رفتہ کے ماتم میں مصروف سرد پڑتے جذبات کی اس قوم سے افسردہ خاطر تھے جو جہالت کی تاریکی میں اپنا وجود کھو کرمغربی استعماریت کی اسیری سے آزادی کے ناممکنات خواب میں بدمست تھی۔انھوں نےاس کے خوابیدہ حواس اور مدہوش خیالات کو بیدار کرنے کے لیے انھیں سیاست سے دور کرکے پہلے جدید علوم کی طرف راغب کیا۔وہ چاہتے تھے کہ مسلم اقوام کی نسل نو کے دائیں ہاتھ میں حکمت وفلسفہ کے جواہرات، بائیں ہاتھ میں سائنسی تکنیکی علوم کے نوادرات اور سر پر کلمہ طیبہ کا تاج ہو۔اس طرح انھوں نے مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مغربی استعماریت سے ان ہتھیاروں کے بغیر مقابلہ آرائی نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ برطانیہ کی ترقی سے آگاہ ہوگئے تھے۔وہ ان کے ترقی علم و فن کے کمالات سے واقف ہوگئے تھے وہ یہ بات سمجھ گیے تھے کہ مسلمان اپنے زنگ آلود ہتھیار سےان جدید آلات کے سامنے دیر تک نہیں ٹھہر سکتے ان کی پسپائی یقینی ہے۔وہ تعلیم سے متعلق فرماتے ہیں۔ :
“ہر طالب علم اس نتیجے پر پہونچے گا کہ حق کثیرالعباد سے اور یہ کہ دنیا اس کے فرقہ، جماعت اور معاشرے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔جہالت ہماری سب سے بڑی دشمن ہے۔اگر ہندوستان کے باشندوں کو انگلستان کی عظیم طاقت کا اندازہ ہوتا تو 1857 کے ناخوشگوار حالات کبھی رونما نہ ہوتے”
اس قول کی روشنی میں ہمیں خود کا جائزہ لینے کی، محاسبہ کرنے کی اور اس بات پر غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اس جہالت کی تاریکیوں سے نکل پائے ہیں؟ کیا ہم ان کے نظریہ کو قائم رکھ سکے ہیں؟ کیا ہمارے اندر تعلیمی جوہرشناسی پیدا ہورہی ہے؟ کیا ہمارے تعلیمی ادارے سرسید تحریک کا گہوارہ ہیں؟ کیا ہمارے اندر تعلیمی لیاقت پیدا ہورہی ہے؟ کیا ہم تعیری کردار ادا کر رہے ہیں؟ کیا حقانیت کا تتبع ہورہا ہے؟ یہ سارے سوالات ہماری نام نہاد شخصیات پر ایک تازیانہ بن کر برس رہے ہیں جو خود میں الجھے ہوئے ہیں۔جنھیں اپنے ذاتی مفاد کے علاوہ قوم کی تنزلی نظر نہیں آرہی۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری قوم دوسری اقوام سے پیچھے ہے اگر سرسید نہ ہوتے تو آج مسلم قوم جوتے چپل پالش کر رہی ہوتی اور اس کی حالت شدروں سے بھی بدتر ہوتی۔مسلم قوم بذات خود پستی میں گرتی جارہی ہے۔ہم ظلمت کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں اور جہالت کی ان تاریک گلیوں کواس وقت تک عبور نہیں کرسکتے جب تک کہ سرسید کے نظریات کو ازسر نو زندہ نہ کیا جائے اور اس کی روشنی میں خود کے اندر ایک رہنما نہ تیار کیا جائے کیوں کہ اگردنیا کے ہرخطےسے رہنمایان قوم کو اکٹھا کرلیا جائے تو ان کی رہنمائی اس وقت تک کام نہیں آسکتی جب تک کہ خود کے اندر تلاش و جستجو اور کچھ کرگزرنے کا جذبہ بیدار نہ ہو۔
ریسرچ اسکالر دہلی