9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عالم نقوی
ہم پروفیسر سید اقبال کو ۱۹۸۹ سے جانتے ہیں جب ان کے دوست روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر پروفیسر فضیل جعفری نے اُن کے جڑواں انقلابی کالموں’سائنس اور سماج ‘ اور ’ڈائری‘ سے اخبار کے معیار اور وقار دونوں کو دَہ چند کر دیا تھا ۔ہم اُس وقت اخبار میں نیوز ایڈیٹر اور نائٹ شفٹ انچارج کی دوہری ذمہ داریاں ادا کرنے پر معمورتھے ۔اِن تیس برسوں میں پروفیسر اقبال نے قریب تین ہزار کالم لکھے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی الحمد للہ بند نہیں ہوا ہے۔ اس خزانے کو بعد کی نسلوں کے لیے محفوظ کرنے کی غرض سےکم از کم تیس کتابیں تو لازماً درکار ہیں۔ لیکن احباب اور شاگردوں کے غیر معمولی اصرار اور عزیزی سید خالد کی بلا شبہ کسی جادوئی کوشش کے نتیجے میں، سائنس اور سماج کے پندرہ سو میں سے محض پچاس کالموں پر مشتمل ، پہلا مجموعہ گزشتہ ماہ فروری ۲۰۲۰ میں شایع ہو گیا ہے جو یقیناً کسی عجوبے سے کم نہیں ۔ ان کے مخلص دوست فضیل جعفری تو اِس کی حسرت لیے ملک عدم سدھار چکے ہیں ۔ عزیزی شاہد لطیف نے صد فیصد درست لکھا ہے کہ وہ حیات ہوتے تو یقیناً ان کا قیمتی مضمون ہی کتاب کا پیش نامہ ہوتا۔شکر ہے کہ کتاب کا انتساب فضیل صاحب مرحوم ہی کے نام ہے ۔ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ مخلص احباب کی مسلسل دل شکنی کرتے رہنے کے پروفیسر اقبال کے گناہ کو بخش دے ۔
بلا شبہ مرتب سید خالد کو پندرہ سو میں سے صرف پچاس مضامین کے انتخاب میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہوگا ۔جو لوگ پروفیسر اقبال کے دونوں ویکلی کالم(سائنس اور سماج اور ڈائری ) پابندی سے پڑھتے رہے ہیں وہ تو اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں لیکن جو قارئین پہلی بار زیر تبصرہ کتاب ’سائنس اور سماج ‘میں شامل یہ پچاس منتخب مضامین پڑھیں گے وہ بھی ہماری تائید کریں گے کہ اِس کا ہر مضمون اپنی جگہ اتنا اہم ہے کہ اس کے تعارف اور اس کی اہمیت اور خوبیوں کے اعتراف میں ایک کالم لکھا جا سکتا ہے ۔ البتہ اچھا ہوتا کہ مرتب نے ہر مضمون کے آخر میں اس کی تاریخ اشاعت بھی درج کر دی ہوتی ۔
سید اقبال صحیح معنی ٰ میں ’نُدرتِ بیان ‘اور افکار کے ’نادر اظہار ‘ پرغیر معمولی دسترس ہی نہیں، کامل قدرت رکھنے والے اہل قلم ہیں ،بلا شبہاین سعادت بزور بازو نیست۔۔تا نہ بخشد خدائے بخشندہ صحافی اور قلمکار عدیل اختر نے سوشل میڈیا پر۲۶ مارچ ۲۰۲۰کو شایع اپنے ایک مضمون میں مرتد بنگلہ دیشی ادیبہ تسلیمہ نسرین کے ’کرونا وائرس کی وبا ‘ کے تعلق سے لکھے گئے ایک حالیہ مضمون کا حوالہ دیا ہے ۔ اُس نے لکھا ہے کہ معا ذاللہ ’’خدا ایک افواہ ہے اور سائنس ایک حقیقت ۔کیونکہ خدا کی عبادت کے گھر بند ہو گئے ہیں اور خدا کو پوجنے والوں کی امیدیں سائنس پر آکر ٹک گئی ہیں ‘‘۔
پروفیسر سید اقبال کی یہ کتاب بلکہ اُن کے کئی ہزار مضامین میں سے کوئی بھی مضمون ’سائنس پرستی ‘ کے تسلیمہ ٹائپ گمراہ کن اور باطل نظریے پر مبنی نہیں۔وہ اللہ جل شانہ ملائکہ ،انبیا ء قیامت حساب و کتاب ،جنت و دوزخ اور قرآن سمیت سبھی کتب سماوی و کلام الٰہی پر ایمان رکھنے والے ایک سچے اور با کردار مسلمان ہیں۔ان کی حمایت سائنس اُس علم و حکمت کی تبلیغ و تائید پر مشتمل ہے ۔ وہ علم و حکمت کی تعلیم پر مامور معلم حقیقی نبی آخر الزماں کے سچے امتی اور خود قرآن کی تعلیم کردہ علم میں اضافے کی دعا (رب زدنی علماً ) عامل ہیں ۔
سترہ برس قبل (سن ۲۰۰۲ میں ) پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن کی قائم کردہ ابن سینا اکیڈمی، علی گڑھ نے محترمہ آفرینہ رضوی کی ایک انگریزی کتاب بعنوان ’سائنس فار دی ماسز ‘ شایع کی تھی جس کا بنیادی مقصد وہی تھا جو فروغ علم و حکمت کے سر سید جیسے حامیوں کا مقصد تھا ۔پروفیسر سید اقبال کے تمام مضامین کا مقصد اصلی بھی یہی ہے ۔
کتاب کی نہایت بلیغ و حَسِین تقریظ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی نے صحیح لکھا ہے کہ علوم کی فراوانی اور فنون کی شادابی جان و مال اور راحت و آرام کی بڑی بڑی قربانیوں کی مرہون منت ہے ۔علم کی عمات یونہی تعمیر نہیں ہوئی ۔اس راہ میں صرف ہاتھ ہی نہیں سر بھی قلم ہوئے ۔عظیم یونانی فلسفی سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ اس لیے نہیں کہ وہ ڈاکو یا قاتل تھا ۔صرف اس لیے کہ اس کے افکار و خیالات میں نُدرت تھی اور اس کی باتوں میں نیا پن ۔وہ ایتھنز شہر کی گلیوں میں کہتا پھرتا تھا کہ لوگ نیکی کرتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ نیکی فی الواقع ہے کیا چیز ؟ برے کام کرتے ہیں مگر نہیں جانتے برائی پیدا کن چیزوں سے ہوتی ہے ؟ اس وقت یونان میں دیوتاؤں کے تصور والا جو مذہبی تصور تھا اسے سقراط نے کبھی قبول نہیں کیا ۔جب ستّر برس کی عمر میں اُسے موت کی سزا سنائی گئی تو اُس نے کہا کہ ’’ میں معافی نہیں مانگوں گا ۔۔میں تمہارا حکم ماننے سے انکار کرتا ہوں ۔۔جب تک میری جان میں جان ہے میں دنیا کو یہ بتاتا رہوں گا کہ سچائی کیا ہے ۔میں ہر اُس شخص کو ملامت کرتا رہوں گا جو نیک نہیں ہے مگر نیکی کا دعوی کرتا ہے ۔۔میں اپنے مؤقف سے ہر گز پیچھے نہیں ہٹوں گا چاہے مجھے سو بار اپنی زندگی قربان کر نی پڑے ۔‘‘ علم ہی کا ایک شعبہ سائنس ہے جس کے سماجی سروکار پر مبنی پروفیسر سید اقبال کے مضامین علم کی تابانی ،ظرافت کی چاشنی اور طرز و ادا کی سادگی سے مملو ہیں ۔وہ ایک لائق مدرس ،اچھے مقرر اور نہایت محنتی انسان ہیں ۔انہوں نے ۳۶ برس برہانی کالج (ممبئی ) سماجیات ( سوشیالوجی ) کی تعلیم دی ہے اور اس طویل عرصے میں کبھی کالج سے چھٹی نہیں لی ! وہ گزشتہ تیس برس سے مسلسل لکھ رہے ہیں ۔۔یہ علم و قلم سے عشق کی نشانی ہے اور عشق ہے پیارے کھیل نہیں ۔۔عشق ہے کار ِ شیشہ و آہن یہ سعادت ہر کس و ناکس کے حصے میں نہیں آتی یہ رتبہ ءِبلند ملا جس کو مل گیا ۔۔ہر مُدّعی کے واسطے دارو رسن کہاں ہم مولانا کی اِس دُعا پر بصدق ِدل آمین کہتے ہیں کہ رَبّ کریم اِس کتاب کو شرف ِقبولیت عطا کرے اور ا س کے مصنف اور مرتب کو مزید خدمات کی توفیق دے ۔
دو سو چھیاسی صفحات اور ڈھائی سو روپئے قیمت کی علم و عمل کو مہمیز کرنے والی یہ کتاب درج ذیل فون نمبرات پر رابطہ کر کے حاصل کی جاسکتی ہے۔
7666715958
8956890163
7721877941
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔