ریزرویشن : ماسٹر اسٹروک یا انتخابی جملہ

0
307

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

مودی حکومت نے اعلیٰ ذات کے اقتصادی طور پر کمزور لوگوں کو تعلیم اور سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن دینے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے، جبکہ لوک سبھا انتخابات محض تین ماہ دور ہیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بھاجپا نے اپنے روایتی ووٹ بنک کو پھسلنے سے بچانے کیلئے یہ چھکاّ مارا ہے۔ انتخابات آنے تک شاید ملک اس طرح کے چونکانے والے کئی اور فیصلوں کا گواہ بنے گا۔ جبکہ 2015 میں انتخابی ریلی کے دوران خود نریندرمودی 50 فیصد کے بعد اضافی ریزرویشن کو گمراہ کرنے والا بتا چکے ہیں لیکن ان پر اعلیٰ ذاتوں کی ناراضگی کو دور کرنے کا دباؤ بنا ہوا تھا جس کی وجہ سے پانچ ریاستوں میں بی جے پی کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ وہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، بڑھتی بے روزگاری، مہنگائی اور ایس سی، ایس ٹی معاملہ پر حکومت کے رویہ سے نہ صرف ناراض تھے بلکہ بطور رائے دہندگان انہوں نے بھاجپا سے فاصلہ بھی بنا لیاتھا۔ بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں کسی طرح کا جوکھم اٹھانا نہیں چاہتی۔ اس لئے وہ ہر داؤ سوچ سمجھ کر کھیل رہی ہے۔
آئین میں پسماندہ اور کمزور طبقات کیلئے ریزرویشن کا نظم کیا گیا ہے تاکہ ترقی کی دوڑ میںوہ شامل ہو سکیں۔ آئین ساز کمیٹی میں طویل بحث کے بعد پسماندگی کی بنیاد سماجی و تعلیمی بدحالی قرارپائی تھی، اس میں معاشی زمرہ شامل نہیں تھی کیونکہ سماجی طور پر پچھڑے طبقات ہی تعلیمی پسماندگی اور نابرابری کا شکار ہوئے تھے۔ صدیوں سے ان کی حالت جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔ ان کے سماجی انصاف، معاشی مساوات اور تعلیمی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا گیاتھا۔ ریزرویشن کے فوائد کو دیکھ کر ہی اعلیٰ ذاتوں کی جانب سے اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینے کی مانگ اٹھنا شروع ہوئی۔ اس کی وجہ کھیتی میں نقصان اور روزگار کی کمی بھی ہے۔ اسی بناء پر اعلیٰ طبقہ کی جانب سے صوبائی سرکاروں پر ریزرویشن دینے کا دباؤ بنایا گیا۔ کئی مرتبہ ریاستی حکومتوں نے احتجاج کے دباؤ میں اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینے کے فیصلے کئے، لیکن سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ نے انہیں خارج کردیا۔
پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے 1991 میں اعلیٰ ذات کو اقتصادی بنیاد پر 10 فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا جسے سپریم کورٹ کی نو ججوں والی آئنی بینچ نے اندرا ساہنی بنام بھارت سرکار کیس کے فیصلے میں یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ ریزرویشن کی بنیاد آمدنی و پراپرٹی کو نہیں ماناجا سکتا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھاکہ آئین کی شق 16(4) میں ریزرویشن گروپ کو ہے، شخص کو نہیں۔ معاشی بنیاد پر ریزرویشن دیا جانا برابری کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح 2008 میں کیرالہ، 2015 میں بھاجپا کی راجستھان حکومت نے اور 2017 میں گجرات اسمبلی میں اونچی ذاتوں کے اقتصادی طور پر کمزور لوگوں کیلئے دس فیصد ریزرویشن دینے کا بل پاس ہوا تھا۔ جسے عدالتوں نے خارج کر دیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آئینی دائرہ سے ہٹ کر ریزرویشن فراہمی کی کوششیں پہلے ناکام ہو چکی ہیں، لیکن پھر بھی مودی حکومت نے آئین میں 124 ویں ترمیمی بل کے ذریعہ ریزرویشن کے جن کو بوتل سے باہر نکالا ہے، کیوں؟ حکومت کو ہریانہ میں جاٹوں، راجستھان میں گوجروں اور گجرات میں پاٹیداروں کو بھی اب جواب دینا ہوگا کہ ان کی مانگ کیوں نہیں مانی گئی تھی۔
پارلیمنٹ میں ریزرویشن بل پر ہو رہی بحث کے دوران دلچسپ نظارہ دیکھنے کو ملا۔ آنے والے لوک سبھا انتخابات میں ووٹ بنک کو دیکھتے ہوئے این ڈی اے مخالف پارٹیوں نے بل کی خامیوں کی نشاندہی تو کی، لیکن اس کی حمایت میں ووٹنگ بھی کی۔ کمیونسٹوں نے بل کی حمایت کرتے ہوئے انتخاب میں فائدہ کیلئے مودی حکومت کا ہڑ بڑی میں اٹھایا گیا قدم بتایا۔ سماج وادی پارٹی، بی ایس پی، آر جے ڈی سمیت کئی پارٹیوں نے اپنے ووٹ بنک کو دھیان میں رکھ کر اپنا رخ طے کیا۔ مثلاً سماج وادی پارٹی نے اعلیٰ ذاتوں کو ریزرویشن دینے اور او بی سی کا کوٹہ 54 فیصد کرنے کی بات کہی۔ وزیر قانون ارون جیٹلی کے مطابق اس ریزرویشن میں سبھی طبقہ کے لوگ شامل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ریزرویشن کیلئے 50 فیصد کی جو حد مقرر کر رکھی ہے، وہ ذات کی بنیاد پر ملنے والے ریزرویشن کیلئے ہے۔ کانگریس نے بھی اپنے 2014 کے انتخابی منشور میں سب کو ریزرویشن دینے کی بات کہی تھی۔ کانگریس کے دیپندر ہڈا نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہریانہ میں بھاجپا نے کانگریس کے اسی قدم کی مخالفت کی تھی۔ رام ولاس پاسوان نے بل کی حمایت کرتے ہوئے نجی زمرے میں ریزرویشن دینے اور اسے آئین کے نویں شیڈول میں ڈالنے کی تجویز پیش کی، تاکہ سپریم کورٹ میں بل کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔ شیو سینا نے کہا کہ ریزرویشن تو تب ملے گا جب نوکریاں ہوں گی۔ گزشتہ سال1.1 کروڑ نوکریاں ختم ہوئی ہیں۔
بہرحال صدر جمہوریہ ہند نے بل پر اپنی منظوری کی مہر تو ثبت کر دی ہے لیکن اس کے لاگو ہونے کا راستہ ابھی صاف نہیں ہوا ہے کیونکہ یوتھ فار ایکیو لٹی نام کی این جی او نے بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے قانون بننے میں ابھی روڑا اٹک سکتا ہے۔ یہ پہلی حکومت ہے جو آئین سے الگ نیا فارمولا لائی ہے۔ اس نے آئین کی رو کے خلاف’اقتصادی پسماندگی‘ کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کا اعلان کیا ہے۔ 1973 میں’کیشوانند بھارتی بنام اسٹیٹ‘ کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سناذتے ہوئے کہا تھا کہ’’پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا حق ہے، مگر ترمیم کے نام پر وہ آئین کے بنیادی خیال یا ڈھانچہ کو نہیں بدل سکتی‘‘۔ دراصل بھاجپا اس فیصلے کے ذریعہ وقتی فائدہ تو چاہتی ہی ہے ساتھ ہی اس کی نظر اس کے دور رس نتائج پر بھی ہے۔ جس میں آئین کے بنیادی کردار میں تبدیلی لانا اور کمزوروں کو حاشیہ پرڈھکیلنا بھی شامل ہے، جو آر ایس ایس کی سوچ کے عین مطابق ہے۔
بہار کے صوبائی انتخابات سے پہلے موہن بھاگوت نے ریزرویشن پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی بات کہی تھی۔ اس بیان کی روشنی میں موجودہ فیصلہ کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں اس فیصلے کو اپنے انتخابی چشمے سے دیکھ رہی ہیں۔ وہ اعلیٰ ذاتوں کی ناراضگی کا جوکھم نہیں لینا چاہتیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اب تک جتنے سروے اور طبقاتی تجزیے سامنے آئے ہیں، ان میں صاف طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی حالت سب سے زیادہ قابل رحم ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے تو صاف کر دیا تھا کہ مسلمان تعلیمی، سماجی اور اقتصادی طور پر دلتوں سے بھی بدتر حالت میں ہیں۔ ووٹ کی سیاست نے حکومت کو اعلیٰ ذات کے غریبوں کی طرف تو متوجہ کیا لیکن مستحق اس سے محروم رہے جبکہ سچر کمیٹی اور مشرا کمیشن نے مسلمانوں کو ریزرویشن دیئے جانے کو ناگزیر قرار دیاتھا۔ عجیب بات ہے کہ جب بھی مسلمانوں کو ریزرویشن دینے بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ مذہبی اکائیوں کو ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس ملک میں ریزرویشن کا کھیل ذات پات کی آڑ میں مذہب کے نام سے ہی ہو رہا ہے۔ اگر آپ ہندو ہیں، سکھ یا بودھ ہیں تو ایس سی کے تحت ریزرویشن کے مستحق ہیں لیکن اگر آپ نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا اور مسلمان یا عیسائی ہو گئے تو پھر آپ اس حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دھوبی، بنکر، نائی، گوجر، گڈرئے کو وہ حق حاصل نہیں ہے جو ہندو کو ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب بدلنے سے ذات نہیں بدلتی۔
جائزہ اس کا لیا جانا چاہئے کہ آئین میں 14 سال کے بچوں کی مفت لازمی تعلیم کی جو بات کہی گئی ہے، بھاجپا گزشتہ پانچ سالوں میں اس کی طرف کتنی آگے بڑھ سکی ہے۔ بچوں کو معیاری تعلیم ملے گی تبھی تو وہ ریزرویشن کا فائدہ حاصل کر سکیں گے۔ اگر یہ ریزرویشن لاگو ہو جاتا ہے جس کا ابھی امکان کم ہے تو اس کا اونچی ذات کے غریبوں کو کتنا فائدہ ہوگا؟ کیا ریزرویشن سے بے روزگاری جس کی شرح 7.4 فیصد ہے اس سے نجات پائی جا سکتی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ان ذاتوں میں بے روزگاروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جنہیں ریزرویشن ملتا آ رہا ہے ؟ حکومتیں ایس سی، ایس ٹی اور قبائلیوں کی ترقی کیلئے تو غور کرتی ہیں لیکن جن کی حالت واقعتاًً دلتوں سے بھی بدتر ہے، ان توجہ کیوں نہیں دیتیں ؟ سوال یہ ہے کہ اونچی ذات کے کمزوروں کو ریزرویشن کا فائدہ دینا ہے تو اسے سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں تک محدود کیوں رکھا گیا ہے، جہاں روزگار ہیں ہی نہیں،اور جو ہیں بھی ان کا حصول آئین کی دفعہ 15 و 16 میں تبدیلی کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔ جو آسان نہیں ہے یہ بات بی جے پی بھی جانتی ہے۔ اگر واقعی تمام طبقات کے غریبوں کے چہرے پر مسکان لانی تھی تو انہیں نجی تعلیمی اداروں اور کارپوریٹ سیکٹر کی ملازمتوں سے دور کیوں رکھا گیا۔ اب ریزرویشن کے شگوفہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی یہ طے کرے گا کہ ریزرویشن کا اعلان بھاجپا کیلئے ماسٹر اسٹروک ثابت ہوگا یا پھر انتخابی جملہ۔
ضضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here