رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت

0
721

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 


 

محمداویس سنبھلی

رمضان المبارک ہی وہ مقدس مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمائی جو قیامت تک آنے والے لوگوں کیلئے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ قرآن پاک کو اس مہینہ سے خاص مناسبت ہے۔(شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن)(البقرۃ۲:۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا‘‘۔یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا مہینہ ہے ۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو اس مبارک و مقدس مہینہ میں روزہ و عبادت کے ذریعہ خدا کو راضی کرنے کی توفیق ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کی طرح نبی کریم ؐ کی امت پر بھی روزے فرض کیے تاکہ یہ اس کے ذریعہ تقویٰ و پرہیز گاری حاصل کرے۔
رمضان وہ مبارک مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب کم از کم ستر گنا بڑھا دیتے ہیں، اس مہینہ میں امت محمدیہؐ کیلئے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ سرکش شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور روزہ وہ مبارک عمل ہے کہ جس کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اپنے بندہ کو اس کا اجر دونگا۔ روزہ ہی و ہ مبارک عمل ہے کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے ذہنی و قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے، خواہشاتِ نفس دب جاتی ہیں، دل کا زنگ دور ہو جاتا ہے، انسان گناہوں اور بے ہودہ باتوں سے بچ جاتا ہے اور روزہ کے ذریعہ مساکین و غرباء سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔
قرآن مجید اور احادیث نبوی ؐمیں رمضان المبارک کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کے ثمرات و برکات سے محروم نہ رہ جائیں۔یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے فضائل اور اس کی خصوصیات کے بیان کا اہتمام فرماتے تھے۔حضرت سلمان فارسیؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے عمومی طور پر ایک تقریر کی، جس میں آپ نے فرمایا :۔
’’اے لوگوں! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔ اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے(یعنی ترایح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابراس کا ثواب ملے گااور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ۷۰؍فرضوںکے برابر ہوگا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو(اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایاتو اس کے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔۔۔۔۔۔۔آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہؐ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا(تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ : اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دارکا روزہ افطار کرادے ۔اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض(یعنی حوض کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تاانکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔اس کے بعد آپؐ نے فرمایا : اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے۔اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا‘‘۔
مذکورہ بالا خطبہ سے رمضان المبارک کی اہمیت، اس کی فضیلت و عظمت واضح ہوجاتی ہے۔اس کے آخری حصہ میں رمضان کے تین عشروں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے ، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا وقت ہے۔ مشہور داعی اور محدث کبیر مولانامحمد منظور نعمانیؒ نے حضرت سلمان فارسی ؓ سے منقول اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’۔۔۔۔۔ رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے والے بندے تین طرح کے ہوسکتے ہیں۔ ایک وہ اصحاب صلاح و تقویٰ جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام رکھتے ہیں اور جب کبھی ان سے کوئی خطا اور لغزش ہوجاتی ہے تو اسی وقت توبہ و استغفار سے اس کی صفائی اور تلافی کرلیتے ہیں، تو ان بندوں پر تو شروع مہینہ سے ہی بلکہ اس کی پہلی رات سے اللہ کی رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو ایسے متقی اور پرہیزگار تو نہیں ہیں لیکن اس لحاظ سے بالکل گئے گزرے بھی نہیں ہیں، تو ایسے لوگ جب رمضان کے ابتدائی حصہ میں روزوں اور دوسرے اعمال خیر اور توبہ استغفار کے ذریعہ اپنے حال کو بہتر اور اپنے کو رحمت و مغفرت کے لائق بنالیتے ہیں، تو درمیانی حصہ میں ان کی بھی مغفرت اور معافی کا فیصلہ فرما دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اور تیسر ا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اپنے نفسوں پر بہت ظلم کرچکے ہیں، اور ان کا حال بڑا ابتر رہا ہے اور اپنی بداعمالیوں سے وہ گویا دوزخ کے پورے پورے مستحق ہوچکے ہیں ۔وہ بھی جب رمضان کے پہلے اور درمیانی حصہ میں عام مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کے اور توبہ و استغفار کرکے اپنی سیاہ کاریوں کی کچھ صفائی اور تلافی کرلیتے ہیں تو اخیر عشرہ میں (جودریائے رحمت کے جوش کا عشرہ ہے) اللہ تعالیٰ دوذخ سے ان کی بھی نجات اور رہائی کا فیصلہ فرما دیتا ہے‘‘۔
ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا ہے کہ میری امت کو رمضان المبارک کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملی ہیں (۱) روزہ دار کے منہ کی (روزہ کی وجہ سے) بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے (۲) روزہ دار کیلئے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں (۳) جنت ہر روز ان (روزہ دار)کیلئے آراستہ کی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ جل شانہ‘ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں پھینک کر تیری طرف آئیں (۴) اس میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک میں روزہ دار کو ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں (۵) رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کیلئے مغفرت کی جاتی ہے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا شبِ مغفرت، شب قدر ہے؟ فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے، ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک آتا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا، اور نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب ہو جاتا تھا۔
حضرت ابن مسعودؓ سے ایک روایت ہے کہ رمضان المبارک کی ہر رات میں ایک منادی (فرشتہ) پکارتا ہے کہ اے خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہو اور آگے بڑھ اور اے برائی کے طلب گار بس کراور آنکھیں کھول … منادی کہتا ہے کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے، کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے، کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن حارثؓ ایک صحابیؓ سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اس وقت آپؐ سحری نوش فرما رہے تھے، آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ ایک برکت کی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو عطاء فرمائی ہے اس کو مت چھوڑنا… حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن بھی رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو رمضان کے علاوہ وہ پوری زندگی بھی روزے رکھے وہ اس کا بدل نہیں ہو سکتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے بدلہ میں سوائے بھوکا رہنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہ ملا… یعنی اس کے غیبت و چغلی کے ذریعہ اور حرام مال کے ساتھ اس کو افطار کر کے اس کے ثواب سے محروم ہو گیا…
سب زمانے اور سارے دن رات اللہ کے ہیں لیکن جو ایام اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود مقدس قرار دیے ہیں ان میں رمضان المبارک سرفہرست ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:’’یہ ہمارا مہینہ ہے‘‘، اسی لیے توان دنوں میں اللہ کی رحمت کی گھٹائیں خوب برستی ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل واعلیٰ ہے ،جب یہ آتا ہے تو رحمت اور برکت لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو بخشش دے کر جاتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ شیطان کو جکڑ دو تاکہ کوئی اس کے وسوسوں کا شکار ہو کر، برکتوں سے محروم نہ ہو جائے۔لیکن اگر کوئی بندہ اس کے باوجود اپنے نفس پر ضبط نہ کرپائے اوراپنی مغفرت نہ کرا سکے تو اس سے بڑھ کر اس کی بدقسمتی اور کیا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس مبارک مہینہ میں عبادت و ریاضت کے ذریعہ اس کا حق ادا کرنے اور اپنے لیے بخشش و مغفرت اور آخرت میں جنت کا مستحق بننے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
اس سال رمضان المبارک ایسے حالات میں سایہ فگن ہو رہاہے کہ پوری دنیامیں کوروناوائرس کا ایک خوف ہے۔ لاکھوں انسان اس سے متاثر ہوچکے ہیں اور ہزاروں لقمہء اجل بن گئے۔ کروڑوں کے کاروبار کا نقصان ہوا۔اس کرونا وائرس کی بدولت ساری دنیا کوبھولا ہوا سبق تازہ ہوگیا ہے کہ یہ دنیا کچھ بھی نہیں ہے ساری انسانی ترقیاں بے بس ہوگئی ہیں۔ تحفظ کی ساری تدابیر بیکارہوگئیں ہیں۔ معیار زندگی میں جو سب سے بلندتر تھے وہ موت کاترنوالہ بن رہے ہیں۔ انسان کی زندگی کاکوئی بھروسہ نہیں ہے۔ پس التجائیں اور دعائیں ہیں، جواپنے رب سے مانگ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ ماہ مبارک خیر و عافیت سے ساتھ گزر جائے اور ہمیںمضان کی ساعتوں سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے! آمین۔
کورونا وائرس کے پیش نظر رمضان المبارک کے مہینے میں بھی ہر نوعیت کی سرگرمی کے حوالے سے مکمل احتیاط کی جائے کہ جو ہدایات محکمہ صحت اور سرکاری اداروں کی طرف سے جاری کی گئی ہیں۔ ان پر مکمل پابندی کی جائے۔ تاکہ آپ بھی محفوظ رہیں اور آپ کے اپنے بھی۔ جب تک کورونا کا دنیا سے خاتمہ نہیں ہوتاہمیں کورونا کے ساتھ رہنے کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی۔ اللہ ہمیں دنیا وآخرت کی ساری بھلائیاں عطافرمائے،آمین۔٭٭٭
رابطہ:9794593055

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here