رشید احمد صدیقی کا نثری امتیاز

0
2798

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

داؤداحمد
         رشید احمد صدیقی کی شخصیت اردو ادب میں ناقابل فراموش ہے۔ان کی نثر میں تخلیقی شان پائی جاتی ہے۔وہ بیک وقت انشا پرداز،تنقید نگار،ظرافت وطنزومزاح نگار اور ادیب و دانشور،اپنے ہر رنگ اور ہر روپ میںایک پختہ کار اور مشاق فنکار کی حیثیت سے اپنا مخصوص امتیاز برقرار رکھتے ہیں۔رشید صاحب نے جس صنف اور جس اسلوب میں بھی اپنا اظہار کیا اس صنف اور اس اسلوب کے ضوابط کی پابندی سے زیادہ انھوں نے صنفی اور اسلوبیاتی ضابطوں کو اپنے ذاتی پیرایۂ اظہار کا پابند رکھا۔یہی سبب ہے کہ ان کے ظریفانہ مضامین ہوںیا طنز و مزاح پر مبنی انشائیے،دوستوں اور بزرگوں پر لکھے ہوئے ان کے شخصی خاکے ہوں یا غالب اور اقبال کی شخصیت اور شاعری کے جائزے ،ہر جگہ رشید صاحب اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں اور ہر موضوع میں اپنے رچے ہوئے مذاق ،اخلاقی اقدار اور بذلہ سنج طبیعت کی افتاد کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔
رشید صاحب کو تصنیف و تالیف کا شوق ابتدا ہی سے تھا ۔علی گڑھ کے قیام اور اہل علم و حضرات کی صحبت نے اس شوق کو اور جلا بخشی۔زمانہ طالب علمی ہی سے کوئی معیاری رسالہ جاری کرنے کا اشتیاق بھی ان کے دل میں موجزن تھا ۔ان کے اس شوق کی تکمیل  ۱۹۲۶؁ء میں ہوئی جبکہ ’’سہیل‘‘ نام کا رسالہ انجمن اردو مسلم یونیورسٹی کے سہ ماہی آرگن کی شکل میں جاری ہوا لیکن مالی پریشانیوں کے سبب یہ رسالہ جلد ہی بند ہوگیا۔ اردو میں طنز و مزاح کی روایت کو رشید صاحب نے فروغ و استحکام بخشا ہے۔وہ باضابطہ نقاد تو نہ تھے لیکن چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑے پتے کی بات کہہ گئے ہیں۔مثال کے طور پر ان کا جملہ’’غزل اردو شاعری کی آبرو ہے‘‘ ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔  ۱۹۶۳؁ء میں حکومت ہند نے آپ کو پدم شری کے اعزاز سے نوازا۔  ۱۹۷۱؁ء میں رشید صاحب کو ان کی کتاب ’’غالب کی شخصیت اور شاعری‘‘پر ساہتیہ اکادمی سے انعام ملا۔  ۱۹۷۶؁ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی اور جامعہ اردو نے بھی اسی سال دکتور ادب کی ڈگری سے نوازا۔
رشید احمد صدیقی ۲۴؍دسمبر  ۱۸۹۲؁ء کو جون پور کے قصبہ مڑیاہوں میں پیدا ہوئے۔مڑیاہوں میں حضرت پیر زکریا دادا کا مزار بہت مشہور ہے ۔یہ حضرت پیر زکریا دادا رشید احمد صدیقی کے مورث اعلیٰ ہیں۔یہ لوگ تبلیغ دین کے لئے ترکستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے۔ہندوستان کے مختلف شہروں میں ٹھہرتے ہوئے جون پور پہنچے اور یہاں کے قصبہ مڑیاہوں میں مستقل طور پر سکونت اختیار کر لی۔ابتدائی تعلیم جون پور میں حاصل کی ۔بعد ازاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے علی گڑھ گئے۔  ۱۹۱۵؁ء سے   ۱۹۲۱؁ء تک علی گڑھ میں زیر تعلیم رہے۔دسمبر  ۱۹۲۱؁ء میں علی گڑھ کالج میں صرف تین مہینے کے لئے اردو کے استاد مقرر ہوئے ۔پھر جب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو آپ اس میں اردو کے عارضی لکچرر مقرر ہوئے۔  ۱۹۲۶؁ء میں آپ کی ملازمت مستقل ہوئی ۔ ۱۹۳۵؁ء میں ریڈر بنائے گئے۔  ۱۹۵۴؁ء میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔یکم مئی ۱۹۵۸؁ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔رٹائرمنٹ کے بعد علی گڑھ میں مستقل طور پر سکونت اختیار کرلی۔ ۱۵؍ جنوری ۱۹۷۷؁ء کو علی گڑھ میں انتقال ہوا اور یہیں مدفون ہوئے۔
رشید صاحب کا ادبی سفر علی گڑھ سے شروع ہوا ،اس شہر کا دوسرا نام ان کے نزدیک ’اردو‘ بھی تھا۔ اردو کے توسط سے علی گڑھ نے جس ذہن و فکر کی آبیاری کی اوریہاں سے جو دل و دماغ پیدا ہوئے ،رشید صاحب ان کے معترف اور مداح ہی نہیں،ان کی خدمات کو عام کرنا بھی ملک اور قوم کی ایک بڑی خدمت متصور کرتے تھے ،ان کے خیال میں علی گڑھ نے روشن ضمیری ،تعقل پسندی اور اقتضائے زمانہ سے ہم آہنگ رہنے کا جو پیغام دیا،اس کا مقصد زندگی اور سماج کی بہتری اور اچھے اور بڑے انسانوں کو ظہور میں لانا تھا،یہی سبب ہے کہ علی گڑھ تحریک میں ایک مقدس سنجیدگی تھی اور اس کا ادب دل سے زیادہ دماغ کو متاثر کرتا ہے۔
رشید صاحب کے لئے علی گڑھ ایک مقام، ایک درسگاہ اور محض ایک چھوٹا سا قصبہ نما شہر نہیں ،علی گڑھ ان کے لئے ایک علامت ہے ۔وہ علی گڑھ کو تہذیب و سائستگی ، شعر و ادب اور مغل ہند تمدن کی ایک ایسی علامت سمجھتے ہیں جس کی نشوونما میں گزشتہ کئی سو سال کی روایت اور ریاضت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔رشید احمد صدیقی کو یوں تو ہر شائستہ آدمی علی گڑھ کا تعلیم یافتہ اور ہر نستعلیق شخصیت علی گڑھ کی پروردہ دکھائی دیتی ہے لیکن اس رویے میں ان کی علی گڑھ پرستی سے کہیں زیادہ ایک مخصوص تہذیب و ثقافت اور آداب زندگی کی دل داد گی پوشیدہ ہے ۔اس طرح رشید صاحب کے اس زاویہ نگاہ کا رشتہ تہذیبی اقدار اور شعر و ادب کے پروردہ  مذاق سے جا ملتا ہے۔رشید احمد صدیقی نہ تو محض تنقید نگار ہیں اور نہ محض مزاح نگار ،وہ دراصل شعر و ادب پر صرف تنقید نہیں کرتے بلکہ شعر و ادب کے وسیلے سے تہذیب و تمدن کی اقدار کا تعین کرتے ہیں ،وہ اپنے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین سے صرف طنز و مزاح کی کیفیت کو نہیں ابھارتے ہیں بلکہ اخلاقی اقدار کے عدم توازن کی نشاندہی کرتے ہیں ۔اسی وجہ سے ان کے مضامین میں زیر بحث آنے والی شخصیات ہی نہیں بلکہ شعر و ادب سے متعلق موضوعات بھی ایک ایسا سیاق و سباق اختیار کر لیتے ہیں کہ ہم ان کے موضوعات کو ثقافتی ابتری و زوال آمادگی پر اظہار خیال کا وسیلہ سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔رشید صاحب جب کسی شخص کے بارے میں کوئی طنزیہ جملہ لکھتے ہیں تو وہ طنزیہ جملہ ایک شخص کی ذاتیات تک محدود نہیں رہتا ،بلکہ اس سے کسی قومی یا اجتماعی نوعیت کے ایسے نقص کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے جس کی نمائندگی کے لئے ایک آدمی کو محض موضوع بنا لیا گیا ہے ۔اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ رشید صاحب چھوٹے چھوٹے مسائل و موضوعات اور حقیر سے حقیر آدمی میں پورے پورے معاشرہ کا مشاہدہ کر لیتے ہیں۔
رشید احمد صدیقی نے ’آشفتہ بیانی میری‘ کے نام سے خود نوشت سوانح بھی لکھی ہے۔’خنداں‘ اور ’مضامین رشید‘ میں اپنی زندہ دلی اور بذلہ سنجی کے جوہر بھی دکھلائے ہیں ۔’گنج ہائے گراں مایہ‘ اور ’ہم نفسان رفتہ‘ کے عنوانات سے خاکہ نویسی بھی کی ہے اور غالب،اقبال،جدید غزل اور طنزیات و مضحکات جیسے موضوعات پر تنقیدی اور تحقیقی کتابیں بھی لکھی ہیں،مگر اپنے ہر موضوع اور ہر طرز اظہار میںرشید صاحب پہلے ایک انشا پرداز اور ممتاز ترین اسلوب نگارش کے مالک نثر نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت کراتے ہیں اور اس کے بعد اپنے موضوع کی مناسبت سے موضوعاتی یا صنفی تقاضوں سے عہدہ برا ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوئی موضوع کبھی ان پر غالب نہیں ہو پاتا۔
رشید صاحب کی ظرافت میں شگفتگی اور زندہ دلی کا مظاہرہ تو یقیناً ہوتا ہے مگر ان کا ہر ظریفانہ جملہ کسی نہ کسی سنجیدہ مقصد کے بطن سے جنم لیتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ ان کی بذلہ سنجی کبھی پھکڑ پن یا بے جا تضحیک کا روپ نہیں اختیار کرتی ۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ رشید صاحب کی ہر تحریر داخلی سنجیدگی اور خارجی شگفتگی کا مرکب ہوتی ہے۔وہ مزاح اور ظرافت کی تخلیق کے لئے کبھی Paradoxکا طریقہ اختیار کرتے ہیں کبھی غیر متعلق اور بے ربط حقائق میں رشتہ ڈھونڈ لیتے ہیں ،کبھی تضاد کی صنعت سے مزاح کا عنصر پیدا کرتے ہیں اور کبھی اشعار کے بر محل استعمال یا ان میں لفظوں کی تحریف سے کوئی نیا جہان معنی روشن کردیتے ہیں اور کبھی رمزیت اور ایمائیت کا انداز اختیار کرکے بظاہر مضحک مگر در حقیقت بہت دور رس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
رشید صاحب اردو ادب کے ایک مایہ ناز طنز و مزاح نگار ہیں۔ان کے انشائیوں اور خاکوں میں طنز و مزاح کی ایک لطیف سی کیفیت موجود ہے جس کے دائرے اس قدر وسیع ہیں کہ ہر جملہ جہان معنی بن گیا ہے۔جس سے ان کی ذہانت ،ذکاوت اور غیر معمولی طباعی کا پتہ چلتا ہے ۔یہی چیزیں ایک مختلف دانش کے ساتھ ان کی تنقید کی بھی شناخت قائم کرتی ہیں ۔جس سے ان کی تنقید کا وزن وقار بھی بڑھا ہے اور اس کی مطالعیت (Readability) میں بھی اضافہ ہوا ہے۔پروفیسر محمود الٰہی نے درست لکھا ہے کہ :
’’ ان کی کتاب ’’جدید غزل‘‘ تنقیدات عالیہ کا بہترین نمونہ ہے۔جو باتیں دوسرے نقادوں نے متعدد مضامین میں لکھیں،وہ رشید صاحب کے چند جملوں میں سما گئیں… مطالعہ ادب سے متعلق ہر باشعور انسان کو ان کے انتقادی تصورات سے ضرور سروکار ہے کیوں کہ ان میں تخلیق و تنقید کے باہمی رشتوں کو ایک دوسرے کے لئے ملزوم قرار دیا گیا ہے اور دونوں کی تقدیس پر ایقان کی مہر ثبت کی گئی ہے… رشید صاحب کی تنقیدی آرا کو جو اہمیت حاصل ہے اس سے اغماض نہیں برتا جاسکتا بلکہ اب تو یہی سکۂ رائج الوقت ہے۔ان سے بھی بڑھ کر تنقید کو جو فکری تاب کاری رشید صاحب نے دی وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔مدتوں کے غور و فکر کا حاصل ان کے وہ معروف جملے ہیں جو تنقیدی محاورے کی حیثیت سے مستعمل ہیں ۔بڑے سے بڑے مقالے اور مباحثے ان جملوں کے عنوان سے مزین ہوسکتے ہیں اور شرح و بسط کے ساتھ ان پر گفتگو کی جاسکتی ہے ۔انتقادی گمرہی کے مروجہ حالات میں رشید صاحب نے تنقیدی فکر و نظر کا ایسا قندیل روشن کیا ہے جو خیر گی نہیں نور و نظر ،بصیرت و بصارت سب کو عرفان بخشتا ہے۔‘‘
طنز و مزاح اور جملہ سازی کے فن کو رشید صاحب نے جس نہج تک پہنچایا تھا اس میں اضافہ کرنے والے ساذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔طنز و مزاح سے کام لینے والے تو سیکڑوں ہیں لیکن رشید صاحب کے آرٹ سے مقابلہ کرنے والی دھن اب سنائی نہیں دیتی ۔اس امر سے آپ ہم سب واقف ہیں کہ طنز(Satire)  اور قول محال(Paradox)  رشید صاحب کو بے حد عزیز تھے ۔اس لئے ان دونوں کا استعمال ان کی تحریروں میں جا بجا ملتا ہے۔قول محال ایک بلیغ صنعت ہے جو انگریزی ادب سے ہمارے یہاں آئی ہے ۔قول محال ایسے بیان کو کہتے ہیں جو مسلمہ حقیقت کے برعکس ہو یعنی اس میں دو یا دو سے زیادہ متضاد الفاظ کو اس طرح بیان کا حصہ بنایا جاتا ہے کہ دونوں بظاہر ایک دوسرے کی ضد معلوم ہوںلیکن حقیقتاً ان میں مماثلت ہو ۔صنعت تضاد اور قول محال میں نمایاں فرق یہ ہے کہ صنعت تضاد میں الفاظ صرف اپنی ضد ظاہر کرتے ہیں جبکہ قول محال میں ضد کے علاوہ ایک قسم کا طنز بھی پوشیدہ ہوتا ہے ۔دو یا دو سے زیادہ منفیوں کو مثبت میں بدل دینا ہی قول محال کا اصل جوہر ہے ۔نثر میں اس کی مختلف صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔رشید صاحب کے یہاں اس کا خوب استعمال ہوا ہے :
’’ چارپائی اور مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ ’ہم کو چارپائی پر اتنا ہی اعتماد ہے جتنا برطانیہ کو آئی۔سی۔ایس پر۔‘ شاعر کو قافیہ پر یا طالب علم کو غل غپاڑے پر!‘‘
’’چارپائی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے ،ہم اسی پر دوا کھاتے ہیں ،دعا اور بھیک مانگتے ہیں ،کبھی فکر قوم ،اکثر فاقہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے!‘‘
’’چار پائی ہندوستانیوں کی آخری جائے پناہ ہے،فتح ہو یا شکست ،وہ رخ کرے گا ہمیشہ چارپائی کی طرف !‘‘
’’ ارہر کا کھیت دیہات کی زنانہ پارلیمنٹ ہے ،کونسل اور اسمبلی کا تصور یہیں سے لیا گیا ہے۔‘‘
’’کرسمس کا زمانہ تھا جب انگریز کیک اور ہندوستانی سردی کھاتا تھا‘‘
’’اس زمانہ میں مولانا شاعری کرتے تھے ۔یونین کے الیکشن لڑاتے تھے اور معجون کھاتے تھے۔اب مقدمہ لڑاتے ہیں اور بچے پیدا کرتے ہیں ۔جس کی ابتدا ایسی ہو اس کا انجام یہ کیوں نہ ہو۔‘‘
’’جوانی کھونے کے ہندوستان میں دو بڑے جانے پہچانے مقام تھے،شہر کی گلیاں اور ارہر کے کھیت! اب ان میں یونیورسٹیوں اور کارخانوں کا بھی اضافہ کر لیا گیا ہے ۔یہاں کے بھٹکے  یار اندہ و درماندہ یا تو شفا خانے پہنچتے ہیں یا جیل خانے۔‘‘
’’حاجی صاحب شعر کہتے ہیں اور  بسکٹ بیچتے ہیں ،شعر اور  بسکٹ دونوں خستہ ۔حاجی صاحب جس خلوص کے ساتھ شعر کہتے ہیں اس سے زیادہ مہنگے  بسکٹ بیچتے ہیں۔‘‘
’’تجسس عورت کی فطرت ہے اور پاسبانی اس کی عادت،اس حقیقت کا سر راہ نہ پردہ ہے نہ پیانو،اسے یہ فکر نہیں کہ مرد روپے کیسے کماتا ہے وہ دیکھتی ہے کہ خرچ کہاں اور کیوں کرتا ہے۔‘‘
’’شباب اور مفلسی کا اجتماع اتنا ہی بے کیف ہے جتنا بے مرچوں کا سالن یا بے تمباکو کا پان۔‘‘
طنز (Satire)  ایک قسم کا آلہ ہے جس سے طنز نگار زوال آمادہ معاشرہ یا اس کی بد ہیئتی یا ہیئت کذائیوں کو اجاگر کرتا ہے ۔طنز کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں اور اس کی اہمیت اور افادیت پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔جان ۔بولٹ نے اپنی کتاب “Suift and the anatomy of satire” میں اس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اسے ’ادبی تنقید‘ سے موسوم کیا ہے ۔وہ اسے ایک موثر ’ عدالت‘ بھی کہتا ہے۔اس کا خیال ہے کہ طنز سے انسان کی اخلاقی حس جاگ جاتی ہے اور وہ اخلاقی ذمہ داری سے آشنا ہوجاتا ہے۔
طنز رشید صاحب کا پہلا عشق ہے اور اس عاشق کا اثر ان کی تمام تحریروں میں جلوہ گر ہے ۔انشائیوں ،خاکوں اور دیگر تحریروں کے علاوہ تنقید میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں۔تنقید میں طنز کا در آنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا تاہم اگر نقاد کا طرز احساس اخلاقی ہے اور وہ ادیب یا ادب پارے کا تہذیبی سیاق میں تجزیہ کرتا ہے اور پھر اسے ان کے معیار میں کسی قسم کی خامی یا اخلاقی پستی کا سائبہ ہوتا ہے تو اس کے تنقیدی عمل پر طنز کا غالب آجانا عین ممکن ہے۔رشید صاحب مغربی تنقیدی اصولوں کے منکر نہیں ہیں لیکن ان کا یہ خیال ہے کہ ہمیں اپنے ادب کی جانچ پڑتال میں صرف مغربی اصولوں پر ہی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمارا ادب جس ماحول اور فضا کی پیداوار ہے اس کے پس منظر میں اس کی تنقید کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں انھوں نے بہت واضح اور طنزیہ انداز میں اپنے خیال اظہار کیا ہے :
’’ میں کسی ایسی تنقید کا قائل نہیں ہوں جس کے سانچے ڈھلے ڈھلائے پہلے سے موجود ہوں ۔بنے بنائے اصول باہر سے کمیشن پر منگوانا اور کام نکل جانے پر کارخانہ کو واپس کر دینا تنقید نہیں نا لائقی ہے… شاعری مشینی عمل نہیں ہے ۔شخصی کردار ہے جس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے تنقید کے اصول  اتنے ضروری نہیں ہوتے جتنا خود شاعر کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
رشید صاحب تنقید کے سکہ بند اصولوں کے قائل نہیں ہیں بلکہ آزاد زندگی کی طرح آزاد تنقید کے قائل ہیں ۔ان کی تنقید مغربی اصولوں کے جبر کی پیداوار نہیں ہے ۔ہم رشید صاحب کے تنقیدی خیالات سے متفق ہوں یا نہ ہوں مگر ان کے مطالعہ ،سوجھ بوجھ اور گہرے تجربے و مشاہدے سے انکار نہیں کرسکتے۔رشید صاحب نے اخلاقی اقدار کے تحفظ کی بساط اپنی تحریروں میں بچھائی تھی ،الٹتی بساط کو دیکھ کر شدید رد عمل کا اظہار اپنی تنقید میں کیا اور طنز کا وہ حربہ جسے اپنی دیگر تحریروں کے لئے مختص کر رکھا تھا اسے تنقید میں بھی استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے اور یہیں سے تنقید میں طنز کی ایک نئی طرح رشید صاحب نے ڈالی۔انھوں نے تنقید میں طنز کی آمیزش سے جو ایک نیا راستہ نکالا ہے وہ ان سے قبل ،ان کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی ،کسی کے یہاں نظر نہیں آتا ۔رشید صاحب کے اس تنقیدی اسلوب پر خواہ کتنی بھی تنقید کی جائے لیکن ان کے معنی خیز جملوں کی تہوں میں پوشیدہ حقائق سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔
رشید صاحب کی دنیا آزاد اور خود مختار ہے ،جو تیر چبھتا ہے اس سے لذت ملتی ہے ،عناصر کی کیفیت اور لفظوں کی مناسب اور غیر مناسب ترتیب کی وجہ سے اسلوب میں نئی لطافت ملتی رہتی ہے،شوخیٔ گفتار کا جادو کم و بیش ہر جگہ ہے ،ریڈیو،امتحانات،بابو،سفر،دعوت،لیڈر،بیرا،شراب کی ممانعت ،باغ وغیرہ بھی ان کے اہم مختصر مضامین ہیں۔ایک جگہ کہتے ہیں’’ آج کل اخبار نویسی کو اس اصول پر چلنا چاہیے کہ اخبار سے کسی کو فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے اخبار کو برابر فائدہ پہنچتا رہے۔‘‘ یہ بھی سنیے :
’’ اخبار نویسی شروع اس طرح کرنی چاہیے جیسے دین خطرے میں ہے ،قوم فنا ہو رہی ہے ،حکومت نا شدنی اور گردن زدنی ہے،لیکن ختم یوں کرو گویا تم نے دین کی خاطر یا قوم کی حمایت میں یا حکومت کی مخالفت میں اخبار کو بند کر دیا اور بنک میں حساب کھول دیا‘‘۔
اس جملے پر غور فرمائیے :
’’ خاموش لیڈر گفتگو نہیں کرتے صرف انٹر ویو کرتے ہیں!‘‘
رشید صاحب ان لوگوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں جو اپنی نیک بخت کو’’حالی کی مسدس‘‘  اور دوسروں کی جواں بخت کو حافظ کی غزل سمجھتے ہیں جو اپنی غزلیں اس طرح پڑھتے ہیں گویاغزل کے معنی عورتوں سے باتیں کرنے کے نہیں ان عورتوں کو نہایت دلچسپی سے تکتے ہیں جو پان کھاتی ہیں اور شوہر کو گالیاں دیتی ہیں اور میکے والوں کی پرورش کرتی ہیں،شوہر ان کی خدمت کرتے ہیں اور وہ قوم کی خدمت کرتی ہیں کسی واعظ یا خطیب کی آمد کی تصویر اس طرح پیش کرتے ہیں ،ہم کسی واعظ یا خطیب کو بلاتے ہیں تو اسٹیشن پر ایک ہجوم ہوتا ہے ،نعرے لگائے جاتے ہیں ،پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں ،پھول برسائے جاتے ہیں ،کچھ لوگ بزرگ خطیب کا ہاتھ چومتے ہیں ،کچھ روتے ہیں ،کوئی شعر پڑھتا ہے ،کوئی ایک زبردست نعرہ لگاتا ہے ،کوئی اسٹیشن ماسٹر پر دھول جمادیتا ہے اور کوئی قلی کی پگڑی چھین لیتا ہے اور کوئی مہمان کی جیب پر ہاتھ صاف کر دیتا ہے۔
رشید احمد صدیقی کو پروفیسر احتشام حسین نے اس دور کا سب سے بڑا مزاح نگار تسلیم کیا ہے لیکن یہ اعتراف بھی ضروری ہے کہ وہ بہت بڑے طنز نگار بھی ہیں ۔طنز نگاری ایک نازک فن ہے ۔ذرا قلم کو لغزش ہوئی اور کسی نہ کسی کی دل آزاری کا پہلو نکل آیا۔ مگر ان کا قلم ہمیشہ اس الزام سے بری رہا۔یوں تو رشید صاحب نے خاکے،انشائیے،علمی مضامین سبھی کچھ لکھا مگر ان کی شہرت کا مدار طنز و ظرافت پر ہے۔ان کے قلم سے جو تحریر بھی نکلی اس میں مزاح موج تہ نشیں کی طرح کارفرماہے۔علمی مضامین میں اس کی گنجائش کم ہے مگر ان کی شگفتہ مزاجی یہاں بھی اپنا کرشمہ دکھائے بغیر نہیں رہتی۔رشید صاحب کا مطالعہ وسیع ہے ۔یہ علمیت ان کے ظریفانہ مضامین سے بھی نمایاں ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام تحریروں میں تفکر کی کارفرمائی ہے۔ہنسانے کے پہلو بہ پہلو وہ قاری کو غور و فکر پر بھی مجبور کرتے ہیں۔یہ ان کی عظمت کی دلیل ہے ۔ زبان پر انھیں بے پناہ قدرت حاصل ہے ۔لفظ ان کے ہاتھوں میں آکر موم کی طرح نرم ہوجاتے ہیں اور وہ جس شکل میں انھیں ڈھالنا چاہتے ہیں بہ آسانی ڈھال لیتے ہیں۔
بلا شبہ پروفیسر رشید احمد صدیقی ایک صاحب طرز فنکار اور طنز و مزاح کی رمزیت و ایمائیت کے منفرد تخلیق کار ہیں۔
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here