ذہن سنجیدہ مسائل سے ہٹانے کے لیے ،روز یہ شیخ و برہمن کا تماشا نہ کرو…

0
77

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

صالحہ صدیقی

حفیظ میرٹھی کا یہ شعر کرونا وائرس جیسی مہاماری میں ملک کے موجودہ صورت حالات کی بخوبی ترجمانی کرتا ہے ۔حکومت کے اچانک ملک کو لاک ڈاؤن کرنے کے بعدمزدور طبقہ روڈ پر آگیا اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گیا ،لوگ بھوک اور پیاس سے مرنے لگے ،پیدل اپنے گھروں کی طرف روانگی کی خبر عام ہونے کے بعد بسوں سے بغیر حفاظتی انتظام کے دوسرے صوبوں میں بھیجے جانے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی۔ تقریبا 5 لاکھ لوگ گھر جانے کے لیے سڑکوں پر آگئے، جس نے اس بیماری کو پھیلنے کا خطرہ بڑھا دیا ۔ایسے میںسرکار کی ناکامی اور اس بیماری سے نہ لڑ پانے کی حقیقت ،بے انتظامی اور سیاست دانوں کے غیر ذمہ دارانہ رویوں نے نہ صرف پورے ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی موجودہ سرکار کی ناکامی کی پول کھول کر رکھ دی۔ جس کی خبریں سوشل میڈیا ،اخبارات ،اور نیوز چینلوں میںچھانے لگی ۔ہر طرف سرکار کی مذمت ہونے لگی ۔ایسے میں مزدوروں ،غریبوں کی آواز دبا کر ،ان کو سہولتیں دینے میںاپنی ناکامی چھپانے کے لیے ہندو مسلم کارڈ ایک بار پھر بڑی چالاکی سے کھیلا گیا ۔ نتیجہ ایسی صورت حال میں دہلی نظام الدین مرکز میں اچانک لاک ڈاؤن کے سبب پھنسے تبلیغی جماعت کے ملک و بیرون ممالک کے لوگوں کو حکومت ،پولیس اور میڈیا نے عوام کا ذہن منتقل کرنے کے لیے ان لوگوں کو اپنانشانہ بنایا اور ایک بار پھر قدیم نسخہ اپناتے ہوئے شیخ اور برہمن کو ایک دوسرے کے سامنے لاکر کھڑا کر دیا ۔میڈیا،سرکار اور پولیس نے جہاں مرکز میں پھنسے لوگوں کو بیماری پھیلانے کا خطرہ اور گنہگار بناکر پورے ملک میں پیش کیا وہیں دوسری طرف مندر میں پھنسے لوگوں کو مجبور و محکوم اور بے بس بتاکر ان کا انتظام اور سہولتیں مہیا کرانے کی خبر عام کی ،اس سے عوام میں بے اطمینانی اور تفرقہ پیدا ہونے لگا اور سرکار بڑی ہوشیاری سے اصل مسئلے کرونا وائرس سے نہ لڑپانے اور اپنی ناکامی کو چھپانے میں ایک بار پھر کامیاب ہوگئی ۔اس طرح عوام کا ذہن پوری طرح سرکار اور اس کی ناکامیوں سے ہٹا کر شیخ و برہمن میں لگا دیا گیا ،جس میں ایک خاص طبقے کو فروغ دینے والے نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔
واضح رہے کہ تبلیغی جماعت کی اصلاحی تحریک کا عالمی سینٹر مرکز نظام الدین ہے ،ایسے میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہاں موجود تبلیغی جماعت کے لوگ پھنس گئے ،حالانکہ اس موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں نے امانت داری اور حکومت سے تعاون کا ثبوت دیتے ہوئے نظام الدین مرکزکی طرف سے دہلی حکومت اور ایڈمنسٹریشن کو خط بھی لکھا اور یہ اپیل بھی کی گئی کہ مرکز میں پھنسے لوگوں کو منتقل کرنے کا انتظام کیا جائے ۔انھوں نے 17گاڑیوں کا کرفیوں پاس مانگا تھا لیکن حکومت نے کوئی کاروائی نہیں کی اور ان کی مانگ کو پوری طرح نظر انداز کر دیا ،اس لیے مجبورا ان تبلیغی جماعت کے لوگوں کو مرکز میںہی رکنا پڑا ۔25مارچ کو ایک سازش کے تحت جب مرکز کے لوگوںکو تحصیل دار اور میڈیکل ٹیم جانچ کے لیے لے گئی تو ان میں سے 24لوگوں کو کرونا وائرس کے مریض بتائے گئے جب کہ مرکز انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ تمام لوگ بالکل صحت مند اور صحیح تھے ان میں کوئی بھی کرونا کے اثرات نہیں تھے پھر رپورٹ میں کیسے آ سکتا ہیں مرکز نے سرکار اور ڈاکٹرس پر سوال اٹھائے ہیں ،وہیں ایک خبر اور بھی پھیل رہی ہیں کہ تبلیغی جماعت میں شامل ایک شخص جو اپنے گھر جا رہا تھا کرونا اثرات سے اس کی موت ہو گئی ،سوشل میڈیا میں پر ان کی تعداد کم زیادہ بتائی جارہی ہیں جب کہ مرکز ذمہ دران کا کہنا ہے کہ اس شخص کی موت فطری طور پر ہوئی ہے ۔فی الوقت جو خبریں میڈیا اموات کی نشر کر رہا ہے ان دو لوگوں میں سے ایک شخص جو تمل ناڈسے تعلق رکھتے تھے طبعی طور پر ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوا جب کہ ایک وادیٔ کشمیر کے اشرف گذشتہ کافی دنوں سے علیل ہونے کی وجہ سے انتقال فرما گئے۔ اس دونوں کی اموات کرونا سے نہیں ہوئیں ۔
مرکز نظام الدین کے خلاف میڈیا کی شر انگیزی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے عالم دین اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ یہ سارا کھیل فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی ہے ،میڈیا کو تو اس پر بحث کرنی چاہیے تھی کہ گورمنٹ نے اچانک لاک ڈاؤن کیسے کر دیا ۔کم سے کم اسے 24یا 48 گھنٹے کا موقع ملتا ،پھر لاک ڈاؤن شروع ہوتا ۔اسی وجہ سے پورے ملک میں جو مزدور ہیں وہ اس وقت سخت پریشانی میں مبتلا ہیں حکومت اگر چہ ان کے لئے سہولتوں کا اعلان کر رہی ہے ،لیکن واقعتا یہ سہولتیں ان تک نہیں پہنچ رہی ہیں ،اس پس منظر میں تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ اس وقت مسلکی اور تنظیمی اختلافات سے اوپر اٹھ کر مرکز نظام الدین کی حمایت کریں اور ان کے موقف کو طاقت پہنچائیں ،اور ایسے نازک موقع پر باہمی اختلافات پر مبنی تنقید و تبصرہ سے گریز کریں ۔وہیں دوسری طرف ملک کے حالات میڈیا کے زہر افشانی بیانات پر امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ تبلیغی جماعت اور مرکز نظام الدین کے خلاف جاری میڈیا اور سوشل میڈیا مہم انسانی گراوٹ کی انتہا ہے ۔اتنے عظیم انسانی بحران کو گندی سیاست کے لیے اور فرقہ وارانہ تفریق کی خاطر استعمال کرنا بذات خود ایک شرمناک جرم ہے ۔تبلیغی جماعت کے زیر بحث پروگرام کے وقت اور اس کے بعد ملک کے ہر گوشے میں اس سے کہیں بڑے مذہبی اور غیر مذہبی پروگرام ہوئے اور بام ور سیاست دانوں کی سرپرستی میں ہوئے ۔ان سب کو نظر انداز کر کے جس طرح مرکز نظام الدین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ،اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری بحثوں کا معیار کس حد تک پست ہو چکا ہے ۔اس شرمناک مہم کی سختی سے مذمت ہونی چاہیے ۔اگر مرکز نظام الدین کے کسی عہدے دار کے خلاف اس مسئلے کی وجہ سے ایف آئی آر ہو سکتی ہے تو اس سے پہلے مرکزی اور ریاستی حکومت کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر ہونی چاہیے جن کی بد نظمی کی وجہ سے لاکھوں مزدور آممد وہار اور دیگر جگہوں پر لاک ڈاؤن کے باقاعدہ آرڈر کے بعد جمع ہوئے ۔اسی طرح ان عہدہ داروں کے خلاف ایف آئی آر زیادہ ضروری ہے جو رپورٹوں کے مطابق تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کے متعدد خطوط کے جواب میں خاموش بیٹھے رہے ۔ہم اس میڈیا مہم کی مذمت کرتے ہیں ۔ہم سب تبلیغی جماعت اور مرکز نظام الدین کے ساتھ ہیں ۔سید سعادت اللہ حسینی نے بھی اس خبر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تبلیغی جماعت کو نشانہ بنانااور بڑے غیر ذمہ دارانہ اجتماعات کو نظر انداز کرنا اور صحت کے اس بڑے بحران پر کمیو نل پولرائزیشن کی گندی سیاست کرنا ،عوامی سطح پر شرمناک حد تک نچلی سطح کی عکاسی کرتا ہے ،آئیے ہم زیادہ ذمہ دار بنیں اور کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے کے لئے متحدہ ہو کر کام کریں ۔
بہر حال کرونا وائرس سے نپٹ نہ پانے میں سر کار کی لاچاری اور ناکامی ایک بار پھر مرکز کو نشانہ بنانے اور ذہن منتقل کرنے کی سازش سے سامنے آگئی ۔ہندستان لاک ڈاؤن کے بعد بھی سرکار خود ہی قانون توڑ کر لوگو ں کو سڑکوں پر لا کھڑا کر دیا ۔ایسے میں اپنے غیر ذمہ دارانہ رویے کی مذمت اور بیماری کے پھیلنے کے خطرات اور عوام کے سوالوں کو برداشت نہیں کر پائی اور نتیجہ ہندو مسلم کھیل شروع کر دیاگیا۔بہر حال یہ سیاست سمجھنے کی ضرورت ہیں ۔
(رسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ)
ضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here