دیش بھکتی، آستھا اور دھرم کی جیت

0
383
9415018288

الیکشن بھی ایک سائنس ہے ایک مینجمنٹ ہے اور اسی کی مثال پیش کی مودی جی اور امت شاہ کی ٹیم نے، انہوں نے بتایا کہ اپنی طاقتوں اور اپنے اختیارات کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے، عوام کے دل کو کیسے چھوا جاتا ہے، عوام سے اپنے دل کی بات کیسے کی جاتی ہے اور اپنی بات عوام کے دل میں کیسے اتاری جاتی ہے، انہوں نے تبایا کہ کون سی بات نوجوان طبقہ سے کرنی چاہئے اور کون سی بات خواتین سے، کون سی بات کسانوں سے کرنی چاہئے اور کون سی بات کاروباریوں سے، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب میں کیا کہناہے اور راجستھان میں کیا، بنگال میں ممتا کے خلاف کیا کرنا ہے اور کرناٹک میں کیا مدعے اٹھانے ہیں انہوں نے دیش بھکتی اور دھرم کی آستھا میں پورے ملک کو ایسا سرابور کیا کہ ہر کوئی ان کے آگے سربسجود ہوگیا اور سبھی ذاتی حدبندیاں ڈھیر۔
ایسا نہیں کہ گذشتہ پانچ سال میں عوام کے لئے کوئی کام نہیں ہوا، اجولہ، ٹوائلٹ، آیوشمان، پردھان منتری آواس یوجنا، کسانوں کے کھاتے میں دو دو ہزار روپئے جیسی تمام اسکیمیں آئیں اور اس سے سبھی مذاہب کے لوگ بلاتفریق مستفیض بھی ہوئے جس سے یہ طے تھا کہ جس نے بھی ان اسکیموں کا فائدہ اٹھایا ہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو، ووٹ تو مودی جی کو ہی دے گا لیکن مودی جی اور ان کے چنائو گرو امت شاہ جی بہت اچھی طرح سے جانتے تھے کہ اگر ترقی پر کوئی چنائو جیتا جاتا تو اٹل بہاری باجپئی اور لال کرشن اڈوانی کی جوڑی انڈیا شائننگ کا نعرہ دینے کے بعد کبھی نہ ہارتی۔ لوگ اپنا علاج ایمس، سنجے گاندھی میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور رام منوہر لوہیا میں کراتے لیکن کہتےیہی کہ گذشتہ 50 برسوں میں کچھ نہیں ہوا۔ اس لئے انہوں نے اسے اچھی طرح سے سمجھا کہ الیکشن صرف ایک الیکشن نہیں بلکہ ایک سائنس ہے ایک مینجمنٹ ہے اور اسی کے تحت انہوں نے ایک الیکشن ختم ہوتے ہی دوسرے الیکشن کی تیاری بوتھ لیول پر اسی دن سے شروع کردی جس دن پہلا الیکشن ختم ہوا۔ اترپردیش میں جب اتحاد ہوا اور یہ طے ہوگیا کہ ذاتی حدبندی کے تحت بی جے پی تقریباً اپنی 60 سیٹیں ہار جائے گی تو انہوں نےذات پات کی اہمیت کو ختم کرنے کیلئے دیش بھکتی، آستھا اور دھرم کا سہارا لیا اور اپنی پوری الیکشن کمپین اسی کے ارد گرد کردی۔چینلوں سے کہہ دیا گیا کہ جب چوبیس گھنٹے پہلے تشہیر بند ہوجائے تب بھی چینل سے مودی جی کی تصویر ہٹنی نہیںچاہئے، پرانے ریکارڈیڈ سیاسی اور غیر سیاسی انٹرویو اتنی بار دکھائے جائیں کہ ملک کی عوام کو مودجی کے 60 سال پورے ایک کورس کی طرح یاد ہوجائیں پھر یہی نہیں جب الیکشن کے سبھی مرحلے ختم ہوگئے اور مودی جی گپھائوں میں تہنائی کیلئے چلے تو بھی کیمروں کو ساتھ لے کر چلے جس سے کوئی بھی بھکت کسی بھی لمحہ ان کے درشن سے محروم نہ رہے۔ یہ بری بات نہیں، یہ ایک مینجمنٹ کا حصہ جو اپوزشن نہیں کرسکا۔اس کے علاوہ مودی جی اور امت شاہ نے سب سے پہلے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ اپنی شخصیت کو پارٹی سے بڑا بنا دیا۔ اب کانگریس کا مقابلہ بی جے پی سے نہیں تھا بلکہ مودی جی سے تھا اور ان کے سامنے نیشنل لیول پر تھے راہل گاندھی جنہیں میڈیا نے ان کے کہیں آس پاس بھی ٹھہرنے نہیں دیا اسی لئے جب انہوں نے چوکیدار چور کہا تو یہ نعرہ ان کے برعکس گیا اور جب ایسا ہوا تو سب کے سب ان کے سامنے بہت بونے نظر آنے لگے اور الیکشن میں اپنے وجود کے لئے ہی جدوجہد کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ممتا بنرجی نے جدوجہد کی تو امت شاہ نے اپنے روڈشو میں رامائن کے سارے کردار مذہبی لباس میں نہ صرف اتار دیئے بلکہ جے شری رام کو ایک مدعا بنا دیا۔ اس طرح انہوں نےذات پات کی حدبندی کو ختم کرنے کیلئے یادوئوں کو بتایا کہ تم پہلے ہندو ہو اور پھر یادو، پسماندہ اور بیحد پسماندہ ذاتوں کو سمجھایا کہ پہلے تم ہندو ہو پھر کوئی اور، اسی کو سمجھانے کیلئے انہوں نے گوڈسے کی حمایتی، مالے گائوں بلاسٹ میں دہشت گردانہ واقعہ کے الزام میں آٹھ سال جیل کاٹ چکی پرگیہ ٹھاکر کو بھوپال سے اتار دیا اور میڈیا نے اسے نیشنل لیول پر پروجیکٹ کیا جس کا انہیں خوب فائدہ ملا۔ جو ہندوتوا کے جھانسے میں نہیں آیا اسے دیش بھکتی پر ووٹ دینے کے لئے مجبور کردیا، انہوں نے ہی بتایا کہ پاکستان کی مخالفت ہی دیش بھکتی ہے چین نارتھ ایسٹ جو چاہے کرے لیکن اس کے خلاف دیش بھکتی کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے پچھلے پانچ برسوں میں ایک ایسا ماحول پیدا کردیا جس سے لگا کہ یہ کوئی مسلم مخالف حکومت ہے جبکہ نہ اردو کونسل کا بجٹ کم کیا نہ اردو اکادمی کا اور نہ حج پر جانے والوں کے لئے کسی سہولت میں کوئی کمی کی بلکہ مدرسوں کی تجدیدکاری اس مقصد سے کرنے کو کہا کہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور ایک ہاتھ میں لیپ ٹاپ، اپنی بیوی کو ملک کے لئے چھوڑ دیا لیکن تین طلاق میں مسلم عورتوں کے زخموں پر مرہم رکھا، ایسے میں ان کو معلوم تھا کہ مسلم ووٹ بھی ملنا ہی ہے لیکن ہندو اور مسلم میں ایک ایسی درار پیدا کردیا کہ اگر ووٹوں کی تقسیم ہو تو شرح فیصد80اور20کی ہو۔ گویا الیکشن جیتنے کے جتنے بھی طریقے ہوسکتے تھے ان سب کا استعمال بخوبی کیا اور کیا بھی جانا چاہئے کیونکہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے اور یہی مینجمنٹ ہے اور یہی الیکشن جیتنے کا گرومنتر بھی۔
دوسری طرف کانگریس صرف واویلا کررہی تھی توپ کے مقابلے میں جنگ، لاٹھی کے سہارے لڑرہی تھی، دوسروں کو جوڑنا تو دور اپنوں کو ساتھ نہیں رکھ پارہی تھی، اتنے سلو موشن میں تھی کہ پرچہ نامزدگی سے ایک دن پہلے اپنے امیدوار کا اعلان کررہی تھی، پرینکا گاندھی کے لڑنے پر آخری دن تک تذبذب تھا اور راہل گاندھی کہہ رہے تھے کہ کچھ تذبذب اچھے ہوتے ہیں اب یہ جو نتیجے آئے ہیں یہ تذبذب ان کے لئے کتنے اچھے ہیں یہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔ 2024 ء میں اگر مودی جی سے مقابلہ کرنا ہے تو اچھا ہے کہ فوراً شادی کرلیں اور پھر 2024 ء میں چھوڑدیں جس سے کم از کم ایک چیز میں تو ان کے برابر ہوجائیں گے۔ اب وقت آگیا کہ ڈاکٹر عمار رضوی جیسے پرانے کانگریسیوں کی بہت دن سے کہی جارہی کم از کم ایک بات تو مان لینی چاہئے کہ مسلمانوں کو سبھی پارٹیوں میں کھل کر ہونا چاہئے ایسا ہونے سے مسلم خوشامد پسندی پر جہاں روک لگے گی وہیں کوئی بھی پارٹی کبھی مسلمانوں کو نظرانداز چاہ کر بھی نہیں کرسکے گی۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here