خود کشی

0
183

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

شہاب اللہ خان

مسّرت اور شادمانی کے ابلتے ہوئے جذبہ نے وقت کی طوالت کو مزید طول دیتے ہوئے ہمیں صبر و استقامت کے دامن کو مثبت امید کے
ہا تھوںسے پکڑنے کی تلقین کر رکھی تھی ۔لیکن ہم بھی انسان کو عجلت پسندی کے پتلے موسوم کرنے میں لگے تھے اور ہماری یہ کو شش و امید بہت جلد ایک انسانی شکل اختیار کر نے والی تھی ۔ہاسپٹل کے سفید دیواروں کے ساتھ ساتھ وہاں مو جودہ جاندار اور غیر جاندار اشیا ء بھی میرے ساتھ میری ہم نوا تھی ۔ہر طرف ایک انتظاری خوشی کا ما حول رواں دواں تھا وہاں مو جودہ ہر انسان اس شئے اور جاندار کے مستقبل کی پیشن
گوئی میں منہمک تھا جسکی آمد میں ابھی کچھ وقت باقی تھا ۔اور جس نے دنیا کے تصّور کو ابھی تصّور بھی نہ سمجھا تھا ۔
میرا پوتا تو ڈاکٹر بنے گا ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انتظاری جم غفیر سے آنے والی آواز شاید میری ماں کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہنے دو خا موش رہو مجھے تو بیٹی درکار ہے میرے والد نے لسانِ مسّرت سے اظہارِخواہش کیا ۔ویسے تو میں نے بھی قوّتِ تفہیم کو صرف کر تے ہوئے اس پیکر عارضی کو اپنی خوابی ہیئت نذر کرنے کی کو شش کی تھی ۔لیکن وقت کے تقاضے اور آئین کے بااختیار ہونے نے مجھے اس سے باز رکھا ہوا تھا کہ میں اپنی خواہشات کے پہاڑ میری ننھی سی آنے والی جان کے کمزور شانو کے روبرو کروں ۔ان با اختیار تذکرے و بحث و مبا حثہ کے کچھ ہی لمحہ بعد وہ رونے کی آواز آئی جس کو صرف ایک بار ہی خوشی وا انبساط کا ضا من مانا جا تا ہے ۔
مبا رک ہو لڑکا ہوا ہے۔۔۔نرس کے اس ایک جملہ نے ایسی خوش اطمنانی بخشی تھی جس نے قلب کے تہ خانوں میں لگی بغض و عداوت کی زنگ کو دھو کر پھینک دیا تھا ۔۔۔دنیا میں مو جود ہر چیز مجھے میری رقیب نظر آ رہی تھی ۔اس ننھے سے مہمان کی آ مد نے چا روں طرف چراغِ فر حت کو برپا کر دیا تھا جس کی بدولت ہما را غریب خانہ بھی اس بات کی شہا دت بڑے فا خرانہ انداز میں پیش کر رہا تھا کہ اب اس گھر میں
خا مو شی نامی ضلالت اور سون سان نامی خوف کبھی سر نہ اٹھائے گا ۔اور عنقریب ہمارا خاندان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو تے ہوئے
امتِ محمدیہ کے لئے باعثِ فخر بنے گا ۔
میری شادی کو دس سال ہو چکے ہیں میری والدہ (آمنہ بی) اور میرے والد (شوکت علی)مجھ سے اکثر اپنے وارث اور چراغِ نصب
کاتقا ضہ کر تے لیکن میں بار بار اللہ کی مشیئت کو قصور وار قرار دیتے ہوئے ان کو عارضی تسلی دے دیتا ۔۔اور کہتا کہ بابا انتظار کرو اللہ ضرور ہمیں صا حب اولاد بنا ئے گا ۔میرے والدین کے اس فوری تقاضہ نے میری بی بی صدری پر ذہنی دبائو بنا رکھا تھا ۔ جس کی عبث وہ بیچا ری بہت روتی اور اپنے آب کو لعنت و ملامت کر تی رہتی اور کبھی کبھار اپنا آپا کھو کر مجھ سے کہتی کہ سنئے جی آپ دوسری شادی کر لیجئے ۔لیکن میں اس کو اس بشری تقاضہ اور عدم یقین کے خلاف جاتے ہوئے اس امید کے ساتھ اس کو ہمّت دیتا جس کا ملنا خود میرے دل میں محال تھا ۔
مجھے بخوبی یاد ہے جب انس پیٹ میں تھا تبھی سے صدری نے زندگی سے الفت دکھائی تھی اور تبھی سے اس نے جینے کا ارادہ کیا تھا ورنہ
تو بیچاری کہتی رہتی کہ جی اس دنیا میں نہ تو کوئی میرا وجود ہے اور نہ کوئی حقیقت ہمیں تو اوپر والے نے ہوں ہی پیدا کر دیا ہے ہمارے ہو نے سے اس دنیا میں کوئی فرق نہ پڑے ہے تو جانے سے کیا پڑے گا ۔
صدری نے ہمیشہ سے ہمارے گھر میں مختلف النوع کر دار نبھائے کبھی ماں کو سہارا دینے کے لئے بیٹی بنی تو کبھی گھر کے کاموں کو بخوبی انجام دینے کے لئے مہترانی ، کبھی لعنت و ملامت اور غصہ کو بر داشت کے لئے گھر کی بہو کہلائی اور کبھی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے
بیوی کا کردار ادا کیا ۔اس کی اس ادائے فرائضگی نے ہمارے ذہنوں اور قلوب پر ایسی چھاپ چھوڑی تھی کہ ہم اس کے فرائض کی ادا سء اتنے مر عوب ہو گئے تھے کہ کبھی یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ بھی ایک انسان ہے اس کے بھی کچھ تقاضے ہیں اور وہ بھی خواہشات رکھتی ہے ۔
صدری جب شادی کر کے گھر آئی تھی اس کے کچھ مہینے بعد ہی اس کے بابا کا ایک سڑک حا دثہ میں انتقال ہو گیا اور حادثہ اتنا خطرناک تھا کہ پو ری کی پوری بس کھائی میں گر گئی اور ملحقین کو کسی کی شکل بھی نصیب نہ ہو ئی ۔بیچاری بس ایک آس اور ایک کرنِ امید پر زندہ تھی کی میری اولاد ، میری اولاد اور میری اولاد ۔۔۔۔
مجھ سے محبت تو کر تی تھی بہت لیکن میں نے ہی اپنے رشتہ پر محبت اور رحم پر فرائض اور اختیارات کو فو قیت دے رکھی تھی جس نے ہما رے مابین ایک ایسی دیوار اور باب کو تشکیل کر دیا تھا جس کا کھلنا صرف اور صرف ضرورت اور خواہشات پر منحصر کرتا تھا۔
ہسپتال سے ملنے والی خوشی وامانت اتنی پرُسکون اور پرُکیف تھی کہ ہم میں سے کسی نے بھی یہ خیال نہ کیا کہ ہمارے درمیان بھی صدری مو جود ہے ۔میرے شیرینی کے ساتھ ہسپتال لوٹ نے کے بعد مجھ پر ظا ہر ہونے والے منا ظر ایسے تھے جنھوں نے مجھ پر زمین اور آسمان کو تنگ کر دیا ، میری نظروں کی بصیرت چھین لی میری عقل اور دانائی کو ہیج کر دیا اورمیری زبان کو ادائے کلام سے معذور بنا دیا ۔افسوس ہائے افسوس ڈکٹر کے اس جملہ نے کہ سوری ہم صدری کو نہیں بچا پائے نے میری خوش فہمی کی دنیا میں آگ لگا دی ۔۔۔۔بیٹے بیٹے۔۔ مت رو مختلف طرح کی تسلّی بھری آوازوں کو سما عت کر نے کے بعد میرے کا نوں نے بھی مجھ سے بے وفائی دکھا دی ۔
بیٹے۔۔بیٹے ہمّت رکھ تسلّی رکھ ۔۔۔۔صبر کر۔۔ ایسے جملوں نے میری کم ظرفی کو ایسی چوٹ ما ری کہ جس نے میری اس مر دانیت کو سلب
کر لیا تھا جو کہ صدری کے حیات کے وقت صدری مجھ میں مو جو د ہوا کر تی تھی ۔
اس ہولناکی اور قیامتی منظر سے تھوڑا ابھرا تھا کہ ڈاکٹروں سے میری بیوی کے متعلق گلہ شکوہ کرکے اپنے دل سے بوجھ ہلکا کرتا لیکن افسوس کہ صدری کے ساتھ میری قسمت نے بھی مجھ سے منھ پھیر لیا تھا۔یہ بات مجھ پر بہت شاق گزری کہ صدری نے اپنی جان کو سستا سمجھتے ہوئے صرف میرے والدین اور میرے ان بے جا تبصروں کو غیر معمولی سمجھا اور ان محض باتونی اولادی تقاضوں کے سامنے اپنی جان قربان کر دی ۔
جو شاید ہمیں اور کہیں سے بھی حا صل ہو سکتی تھی ۔

ڈاکٹروں کے اس پرُظلمت تبصروں نے مجھے ایک زندہ نعش کے ما نند کر دیا تھا جس کے سر پر خو د اپنی بیوی کے قتل کا الزام تا حیات رہنا تھا ۔
لیکن ایک بات کی تسلّی تھی کہ صدری کے روپ میں میرے پاس آج ایک بیٹا تھا ۔اور میرے دل میں نعمتِ ازالہ کے بعد ہو نے والا احساس اور محبت ۔
پا پا پاپا اُٹھئے۔۔اسکول کو دیر ہو رہی ہے ۔کا نوں میں پڑنے والی آواز میرے بیٹے انس کی تھی۔۔اُٹھئیے میں تیار ہو گیا ہوں مجھے
اسکول چھوڑ دئیے ۔۔۔۔ہاں بیٹا اٹھ گیا ۔
آج میرا بیٹا انس ۱۶سال کا ہو گیا ہے اور بالکل اپنی ماں پر گیا ہے اس کی ضرورتوں کا خیال خود مجھے رکھنا پڑتا ہے ۔کم گو ، حساس شا ید دوسروں
بچوں سے مختلف ۔ صدری کے جانے کے بعد ایک وہی میرا پُرسان حال اور مونس تھا جس کو دیکھ کر اور سمجھا کر میں نے زندگی کے ۱۶ سال کاٹے تھے ۔صدری کی کمی زندگی میں رہی میرے لئے بھی اور انس کے لئے بھی میں کبھی کبھی سوچتا تھا کہ ایک ماں کی محبت و تربیت ایک
بیٹے کے لئے کتنی ضروری ہے ؟ کہیں بار انس کو پریشان دیکھتا تو مجھے فکر لاحق ہو تی اور سوچتا کہ شاید میں باپ کے ساتھ ایک اچھے ماں کا کردار ادا کر پایا کہ نہیں ؟
ارے یہ کیا ہوا ؟ تمھاری آنکھیں اتنی موٹی اور سوج کیوں رہیں ہیں ؟ میں نے فکری لہجہ میں پو چھا ۔۔۔پاپامیں امتحان کی خوف کی وجہ سے رات بھر نہیں سو پایا ۔۔۔۔انس نے معذرت بھری آواز میں جواب دیا ۔۔۔۔ارے بیٹا اس طرح گھبراتے نہیں ہیں تم ضرور اچھے نمبرات سے کامیاب ہو گے اور پھر تمھارا انتخابی امتحان بھی تو ہے اعلی تعلیم کے لئے ؟۔۔۔۔جی پاپا چلو پھر آجائو جلدی میں اسکول
چھوڑ دیتا ہوں۔
ہمیں اپنے چراغ سے بہت امیدیں ہیں ایسا میرے والدین اکثر مجھ سے اور انس سے کہتے تھے ۔میں بھی اپنی محبت کو امید کے سپرد کر کے اپنے بیٹے سے اکثر جلدی اور بڑی کامیابی کی امید لگا بیٹھا تھا ۔لیکن مجھے قطعاً اس بات کا ذرا بھی احساس نہ تھا کہ میں انس کے بچپن کے محل کو جلا کر اپنی امید نامی گھر کی تعمیر کر رہا ہوتھا۔
صدری کے جانے کے بعد نہ جانے ۱۶ سال کس انتظا ر میں گذر گئے بالکل پتہ نہ چلا انس کب دیکھتے دیکھتے بڑا ہوگیا اس کا احساس بھی نہ ہوا
آج وہ وقت آچلا ہے جب انس اپنی اعلی تعلیم کے لئے گھر چھوڑ کر ولایت اور پرائے دیس جا رہا ہے ۔
ارے بیٹے انس سامان پیک ہوا ؟ میرے والد نے انس سے دریافت کیا ۔جی دادا۔ انس نے ڈرتی اور سہمی آواز میں جواب دیا ۔۔
شاید ہم سے دور ہو نے کی وجہ سے بہت رنجیدہ تھا ؟۔ارے میرا بیٹا خاموش اور اتنا غم زدہ کیوں ہے ۔دادی نے محبت بھرے لہجہ میں پو چھا ۔
شاید ہم سے دور ہونے اور بچھڑنے کی وجہ سے پریشان ہے ۔میں نے تسلّی بخش انداز میں جواب دیا ۔امتحان میں انتخاب ہو نے کی
ذمہ داری اور اپنوں سے دور ہو نے کا غم شاید انھی دونوں چیزوں کی وجہ سے انس بیت پریشان تھا ۔اس دن وہ اپنی ماں کو یاد کر تے ہوئے بہت رویا تھا اور مجھے سینے سے لگا کر بولا پاپا مجھے امی کیوں چھوٹ کر چلی گئیں ؟ بیٹا امی آپ کو دیکھ رہی ہیں اور وہ ہمارے درمیان مو جود ہیں
میں نے عارضی تسلّی دیتے ہوئے انس کو چوما اور ذمہ داریوں کے احساس کو اجاگر کر تے ہوئے اس کو خا مو ش کیا ۔۔ شاید میری یہ تسلّی مثبت نہیں ری اس کا احساس مجھے جلد ہو گیا ۔میرے سمجھانے سے انس خاموش تو ہو گیا لیکن شاید اس کے دل میں ایک ناامیدی کا طوفان زور مار
رہا تھا ۔جس کے پیچھے خود اس کے اپنے کار فرما تھے ۔
چلو بیٹا ٹرین کا ٹائم ہو گیا ہے ۔ میں نے انس سے محبت بھرے انداز میں کہا ۔ہاں پاپا بس ہو گیا چلئے ۔کامیاب ہو کر لو ٹو خوش رہو اورخاندان کا نام روشن کرہو۔انس کی حوصلہ افزائی کر تے ہوئے دادااور دادی نے کہا۔اور ہم دونوں نے گھر کو رخصت کر اسٹیشن کا رُخ لیا ۔
نہ جانے کیا عجیب منظر تھا شہر میں مو جودہ ہر چیز خاموش تھی ۔ایسا نہیں تھا کہ سڑکوں پر ٹریفک نہیں تھا ۔لیکن پھر بھی ہر چیز سڑکوں پر خا موشی کا علم لئے ہوئے گردش کر رہی تھی اور ایک طوفان سے قبل والی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ویسے تو اسٹیشن ہمارے گھر سے محض ۱۵ منٹ کی دوری پر واقع تھا لیکن اس دن فا صلہ کچھ ایسا ہو گیا تھا کہ چاہتے ہوئے بھی طے نہ ہو پا رہا تھا ۔۔انس میرے برابر میں بیٹھے ہوئے خاموشی اور انتظاری دنیا میں گم تھا ۔ شاید وہی دنیا جس دنیا میں صدری رہا کر تی تھی ۔وہی دنیا جس کے مستقبل کے لئے حال کو پا مال کیا گیا تھا ہاں شاید وہی دنیا جس میں تقاضوں کو زندگیوں سے زیادہ آنکا جاتا ہے ۔ہاں وہی دنیا جس میں حال کی کوئی حقیقت نہیںہو تی ۔
وہی دنیا جس میں چند تعریفی کلمات کے لئے بچپن کو سپردِ خاک کیا جاتا ہے ۔
ٹرین کی آخری آواز کے ساتھ میں نے اپنے بیٹے کو رخصت کیا اور اس کی اس رخصتی کا احساس مجھے ایک مہینے کے بعد ہوا جس میں لکھا تھا سوری پاپا،دادااور دادی میں امّی کے پاس جا رہا ہوں ۔
علیگڑھ۔یوپی 9058676937

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here