خواتین قلمکاروں کی کہانی خودنوشتوں کا مطالعہ

0
611

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

صالحہ صدیقی

مرد قلمکاروں کی طرح عورتوں نے بھی دیگر صنف سخن کی طرح خود نوشتیں بھی لکھی ہے ،جو صرف ان کی آتم کتھا ہی نہیں بلکہ تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ان خود نوشتوں میں اس عہد کی سیاسی ،سماجی ،معاشی ،معاشرتی ،تہذیبی ،ثقافتی اور روز مرہ کی زندگی کا عکس صاف دکھائی دیتا ہے ۔ان خواتین قلمکاروں کی ایک طویل فہرست ہمیں ابتدأ ہی سے نظرآتی ہیں۔اگر ابتدائی دورکی بات کی جائے تو سابق ریاست بھوپال کی حکمراں نواب سلطان جہاں بیگم حیاؔ(۱۸۵۸ء؁ تا ۱۸۳۰ء؁)کے خودنوشت حالات زندگی مانی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے حالات چار جلدوں میں تحریر کئے ہیں۔ (۱) تزک سلطانی۔ اس میں ان کی پیدائش ۱۸۵۸ء؁ سے مسند نشینی ۱۹۰۱ء؁ تک حالات و کوائف درج ہیں۔ (۲) گوہراقبال(۱۹۱۳ء؁)میں مسند نشینی ۱۹۰۱ء؁ سے ۱۹۰۸ء؁ سالہ دور حکومت کے حالات ہیں۔ اختراقبال(۱۹۱۴ء؁ ) میں ۱۹۰۹ء؁ سے ۱۹۱۴ء؁ تک کے حالات ہیں اور (۴) ضیاء اقبال ( جو شائع نہ ہوسکی) اس میں ۱۹۱۴ء؁ کے بعد کے حالات ہیں۔اس کے بعد خواتین کی آپ بتیاں بیسویں صدی میں نظر آئیں، صغریٰ بیگم ہمایوں مرزاؔ ( ۱۸۸۴ ء؁ تا ۱۹۵۹ء؁) نذر سجاد حیدر(۱۸۹۴ء؁ تا ۱۹۶۷ء؁) اور حجاب امتیازعلی (۱۹۰۳ء؁ ) نے اپنے کچھ حالات زندگی تحریر کئے جو رسائل میں شائع ہوئے۔ ان کی کوئی مستقل خود نوشت شائع نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۴۲ء؁ میں پنچاب کی ایک خاتون وزیر سلطان کی خود نوشت، نیرگئی بخت( ناشر ذکاء اللہ حسین جالندھر) منظر عام پر آئی ۔ یہ کوئی مشہور ادبی شخصیت نہیں ہوئی یہ ہندوستان کی دیگر عورتوں کی طرح ایک عام گھریلو خاتون تھی جن کی زندگی نہایت مصائب و پریشانیوں میں گزری ان کا تعلق کابل کے شاہی خاندان سے تھا۔ ان کی شادی ایک نوجوان سے ہوئی لیکن وہ خوشگوار ثابت نہ ہوسکی۔ سسرال اور خاوند کے ظلم و ستم کے باعث ان کو عدالت کا دروازہ کھٹکٹھانا پڑا۔ ان کی یہ کہانی بڑی دلدوز ہے ، اسی سال ۱۹۴۲ء؁ میں پنچاب کی ایک مشہور ایکڑیس بملا کماری جس کا نام پریما تھا ان کی خود نوشت ایک ایکڑیس کی آپ بیتی کے نام سے نرائن دت سہگل لاہور نے شائع کیا۔ اس طرح آزادی تک اور کچھ خواتین نے بھی اپنی مختصر آپ بیتیاں لکھی ہوں گی جو مشہور نہ ہوسکیں۔اردو میں خواتین کی آپ بیتی نگاری پر آزادی بر صغیر ۱۹۴۷ء؁ کے بعد بہار آئی اور ۱۹۴۷ء؁ تا ۲۰۰۰ء؁ ( اور اکیسویں صدی کے اوائل میں بھی) کئی خواتین نے اپنی مختصر یا طویل آپ بیتیاں تحریر کیں شائع کیں، کئی غیر زبانوں کی خواتین کی خود نوشتوں کے تراجم بھی ہوئے۔ ان میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کی آپ بیتیا ں کافی اہم ہیں۔آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو میں متعدد مرد و خواتین کی چھوٹی بڑی آپ بیتیاں شائع ہوئی ہیں۔جن میں عہد حاضر کی مشہور اردو شاعرہ عزیز جہاں بدایونی ، المتخلص بہ اداؔ کی نوشت انفرادی و امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ اداؔ جعفری کا نام عزیز جہاں تھا۔ شادی سے قبل ادؔا بدایونی کے نام سے مشہور تھی۔ نورالحسن جعفری صاحب سے شادی کے بعد ادا جعفری نام اختیار کر لیا۔ وہ ۱۹۲۴ء؁ میں اترپردیش کے مردم خیز شہر بدایوں میں ایک مغرز گھرانے میں پیدا ہوئی۔ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے بعد۔ ۱۹۴۰ء؁ میں انٹرنس پاس کیا۔ شاعری کا شوق تھا۔ ۱۹۳۶ء؁ میں پہلے اختر شیرانی سے مشورہ سخن کیا پھر نواب جعفرعلی خاں اثرؔسے اصلاح سخن لی، وہ غزل نظم دونوں پر قدرت رکھتی ہیں کلام جرائد میں بکثرت شائع ہوئے۔کلام کے مجموعے میں ساز ڈھونڈتی رہی۔ شہر درد، غزالاں تم تو واقف ہو۔ سازسخن بہانہ، اور انتخاب کلام ساز سخن شائع ہوئے۔اپنی خودنوشت میں ادا جعفری نے اپنی توجہ کا مرکز صرف اپنی ذات کو ہی نہیں بلکہ عہدو ماحول کو بھی بنایا ہے۔ اسمیں دو تصویریں ہیں۔ پہلی بدایوں کی الجھے بال والی کمسن لڑکی جس کی دنیا اس پھاٹک کے اندر تھی جسے ٹونک والوں کا پھاٹک کہا جاتا تھا۔ جہاں زنجیرتک کو دستک کی اجازت نہ تھی۔ اس کے آنچل میں تنہائی اور اداسی تھی۔ زندگی کی مسرتیں نہ تھیں۔ دوسرے تصویر جس میں اسے زندگی کی مسرتیں ملیں جسے اس نے دوسرے جنم کا نام دیا ہے۔
اداؔ نے اپنے حالات زندگی ایک ڈائری میں محفوظ کر لئے تھے جو ۱۹۴۷ء؁ کے خونریز فسادات اور تباہی و بربادی میں برباد ہوگئے۔ لیکن اداؔ جعفری نے اپنے وقت کے تمام حالات کوائف حادثات واقعات شخصیات سے حاصل کردہ تاثرات کو مخصوص دلکش انداز میں محفوظ کر لیا۔
اردو خودنوشت نگاروں میں ایک اور اہم نام بیگم انیس قدوائی کاہے جن کی خودنوشت’’آزادی کی چھاؤں میں ‘‘قومی ایکتا ٹرسٹ نئی دہلی نے ۱۹۷۵ء میں شائع کیا۔ وہ اردو کے مشہورومعروف مزاح نگار و لایت علی بمبوق ؔکی بیٹی تھی۔ ان کی شادی شفیع احمد قدوائی سے ہوئی۔ وہ ان کے ساتھ دہلی آکر رہیں۔ آزادی ۱۹۴۷ء؁ کے فسادات کے دوران ۔ان کے شوہر شفیع احمد قدوائی قیام امن کی کوششوں کے دوران، مسوری میں شرپسندوں کے ہاتھوں شہید کر دئے گئے تھے۔ فسادات کے دوران انیس قدوائی نے حالات کی خرابی دور کرنے۔ فساد زدگان کی امداد کرنے، پناہ گزینوں کے کیمپ لگانے، ان کی مدد کرنے انہیں بچانے، ان کی حفاظت اور ان کی بازآبادکاری کے لئے عملی طور پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے ان روح فرسا حالات اور انسانوں کی تباہی و بربادی کو اپنی نظروں سے دیکھا۔ان کے اثرات محسوس کئے اور اپنے تاثرات کو ایک کتاب کی شکل میں قلمبند کیا۔ یہ ان کی یادنگاری (MEMOIRS) کی طرز کی خودنوشت ہے۔ اس میں ۱۹۴۷ء؁ ملک کے اردگرد کے حالات و کوائف ، ذاتی تجربات و مشاہدات بڑے دلدوزو انصاف پسندانہ انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ نہایت غیر جانبداری و معروضی انداز میں انہیں پیش کیا گیا ہے۔
آ دارِفانی سے کو چ کر گیئں پر آپ بیتی مکمل نہ ہوسکی۔ اس کا مسودہ ان کی بیٹی کشورؔ کے پاس تھا اے انور صدیقی کی پیش گفتار کے ساتھ ۱۹۸۳ٗء؁ میں شائع کیا گیا۔
اسی طرح بانو سرتاج نے اپنی باقاعدہ مکمل و مفصل سرگزشت ابھی تو قلمبند نہیں کی، لیکن انہوں نے اپنے حالات مختصراً کسی کسی جگہ ضرور تحریر فرمائے ہیں جیسے رسالہ پاکیزہ آنچل کے ایک شمارے میں یا رسالہ شاعر کے شمارہ نومبر ۲۰۰۶ء؁ میں یا ڈاکڑ محمد سعداللہ صاحب کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( جلگائوں بلڈانہ) کے تحقیقی کاموں کے سلسلے میں وغیرہ۔ان کے ذریعے ان کے حالات و کوائف معلوم ہوتے ہیں۔ یہ تحریریں ان کی آپ بیتی نگاری کا نمونہ کہی جاسکتی ہیں۔اس سے ان کی زندگی کے حالات و کوائف ، سروس اور ادبی سرگرمیوں پر روشن پڑتی ہے لیکن عہدو ماحول ، سماج و معاشرت کے سماجی سیاسی معاشرتی حالات و شخصیات وغیرہ پر روشنی نہیں پڑتی ۔
اردو کے مشہور ادیب اختر حسین رائے پوری(۱۲،جون ۱۹۱۲ء؁ ہم سفر ۱۰،اپریل ۱۹۹۲ء؁ ) کی اہلیہ بیگم حمیدہ اختر کوئی ادبی شخصیت نہیں رہیں لیکن انہوں نے اپنی خودنوشت’’ ہم سفر ‘‘کے عنوان سے لکھ کر اپنی ایک ادبی یا دگار ضرور چھوڑی ہے۔ اسے اردو آپ بتیانہ ادب اور خواتین کی آپ بیتی نگاری میں ایک قابلِ قدر اضافہ قرار دیا گیا ہے۔
اختر حسین رائے پوری نے ۱۹۳۵ء؁ میں مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم،اے اور ۱۹۴۰ء؁ میں پیرس یونیورسٹی سے ہندقدیم کی تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ۱۹۳۵ء؁ تا ۱۹۳۷ء؁ میں انجمن ترقی اردو میں معاون رہے پھر آل انڈیا ریڈیو میں رہے اور آزادی کے بعد پاکستان چلے گئے تھے۔ یونیسکو میں بھی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۹۲ء؁ میں انتقال کیا۔
بیگم حمیدہ اختر بھی ان کے ہمراہ رہیں۔ ہندوستان میں پاکستان میں بھی ان کی یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ یہاں عموماً دستیاب نہیں۔ بیگم حمیدہ اختر کی یہ خود نوشت (Memoris) کا رنگ لئے ہوئے ہے۔اسے انہوں نے یادوں کے سہارے ترتیب دیا ہے۔ بڑی سادگی سچائی ایمانداری کے ساتھ عام بول چال کی سادہ شیریں زبان میں اپنی زندگی کی تلخ و شیریں یادوں کو سمویا ہے۔ اختر حسین اپنے عہد کے ممتاز و معروف ادیب نقاد ، صحافی و مترجم تھے ۔ ان کے تعلقات اپنے عہد کے ممتاز ادباو شعر صحافیوں و افسران ِ حکومت و سیاسی رہنمائوں سے رہے۔
ان کے ادب پر جدید تصورات و رحجانات کا گہرا اثر تھا۔ آپ بیتی میں مہاتماگاندھی، جواہر لال نہرو، سروجنی نائیڈو، گووندب ولبھ پنتھ، جیسی سیاسی شخصیتوں کے ساتھ مولوی عبدالحق، قاضی عبدالغفار اور کئی مقتدر ادبی شخصیات کے تعلقات و تاثرات کا بے تصنع انداز میں تذکرہ کیا گیاہے۔
جیلانی بانو کا شمار عہد حاضر کی مشہور و معتبر خواتین ادباء، افسانہ و ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔وہ مشہور شاعر علامہ سید حسن حیرت ؔبدایونی ( ۱۸۹۶ء؁ ۔ ۱۹۷۵ء؁) کی صاحب زادی اور ڈاکڑ انور معظم ( سابق صدر شعبئہ اسلامک اسٹڈیز عثمانیہ یونیورسٹی) کی اہلیہ ہیں۔ ۱۴،جولائی ۱۹۳۶ء؁ کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے اردو میں ایم اے کیا۔ حیدرآباد میں مقیم ہوئیں۔ ۱۹۵۳ء؁ سے افسانے لکھ رہی ہیں۔
ان کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان کے ناول ایوان غزل، نغمے کا سفر، وغیرہ مشہور ہوئے ۔ انہیں کئی اعزازات و انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔
جیلانی بانو نے اپنی مختصر آپ بیتی تحریر کی ہے۔جو رسالہ فن و شخصیت کے آپ بیتی نمبر میں بھی شائع ہوئی تھی۔ یہ آپ بیتی کم اور یادوں کا مرقع زیادہ ہے۔ اس میں ان کی کچھ بچپن کی یادیں ہیں کچھ جوانی کی۔ کچھ ذات سے متعلق ہیں کچھ عہد و ماحول و معاشرات سے تعلق رکھتی ہیں۔ دو ھیال ننھیا ل دونوں کا تعلق اترپردیش سے ہے۔ والد بسلسلہ ملازمت حیدرآباد آگئے تھے۔ وہ وہیں پید ا ہوئیں ہیں۔ لیکن حیدرآباد یوں کے نزدیک ملکی نہیں۔ اس رویہ کا انہیں بڑا احساس ہے۔ بچپن کے ذکر میں لکھا ہے کہ وہ سات بھائی بہن تھے۔ ان کا بچپن ولڑکپن سہیلیوں ، گھر کے لوگوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے گزرا ، اسکیچ بنانا، پینٹیگ ، مشاعرے ، ناٹک ان کے مشاغل تھے۔ مصوری ڈراما ان کے شوق ہیں۔ اگر چہ ان کے والد شاعر تھے مگر وہ شاعری کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں، افسانوی ادب، افسانہ و ناول نگاری کو پسند کیا۔ہائی اسکول کے زمانے میں انہوں نے دنیا کے عظیم افسانہ نویسوں گورکی، موپاساں،چیخوف، عصمت، کرشن چندر، منٹو، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین وغیرہ کے افسانے پڑھ ڈالے تھے۔اور بہت کچھ سیکھا تھا۔ کہانی نویسی ان کی فطرت کے عین مطابق نکلی ۔جیلانی بانو کی یہ آپ بیتی مکمل نہیں۔ اگروہ اسے مکمل کرلیں تو بلاشبہ یہ اردو آپ بیتانہ ادب کے سرمایے میں ایک گراں قدر اضافہ ثابت ہوگی۔
آزادی (۱۹۴۷ء؁) کے بعد اردو میں ایک کے بعد ایک کئی اچھی آپ بیتیاں لکھی اور شائع کی گئی ہیں۔ان میں کچھ خواتین کی آپ بیتیاں بھی ہیں۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ایک معرکتہ الآرا آپ بیتی حمیدہ سالم کی شورش دوراں ہے۔ جو اردو ادب ، ارد و نسائی ادب اور اردو آپ بیتیانہ ادب کا ایک گوہر بے بہا سمجھی گئی ہے۔
اردو کی معروف فکشن نگار (افسانہ و ناول نویسی) خاتون خدیجہ مستور لکھنو میں ۱۹۲۷ء؁ میں پیدا ہوئی اور ۱۹۸۲ء؁ میں لندن میں انتقال کر گئی ۔ آزادی سے قبل افسانہ نویسی میں شہرت حاصل کی ، آزادی کے بعد پاکستان جا کر لاہور میں مقیم ہوگی۔ ان کی بہن ہاجرہ مسرورؔ(۱۹۲۹ء؁۔ ۲۰۱۰ء؁) بھی مشہور افسانہ نویس گذری ہیں ۔ خدیجہ کے کئی افسانوی مجموعے اور دو ناول آنگن اور زمین شائع ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی خود نوشت تحریر کرکے پاکستان میں شائع کروائی ہے۔ لیکن اس کی رسائی ممکن نہ ہو سکی۔ انہوں نے مدیر نقوش محمدطفیل کی فرمائش پر نقوش کے آپ بیتی نمبر کے لئے جو مختصرآپ بیتی لکھی تھی۔ وہی ان کی خود نوشت کا نمونہ ہے۔ ( اسے بعد میں فن و شخصیت آپ بیتی نمبر میں شامل کیا گیا۔)
خدیجہ مستور نے اپنی بچپن کے حالات میں کھیل کود ، آٹھ سال کی عمر میں قرآن ختم کرلینے کا ذکر کیا۔ ۱۹۳۶ء؁ میں شوکت تھانوی نے انہیں افسانہ لکھنے کی ترغیب دی۔ ۱۹۳۷ء؁ میں ان کے والد کا انتقال ہوا وہ سات بچوں کے لئے کچھ چھوڑ کر نہیں گئے۔
ان کو سوتیلے والد سوتیلی ماں سوتیلے بھائی سے سابقہ پڑا لیکن وہ ان کی محبت و ایثار کا ہی ذکر کرتی ہیں۔ انہوں نے ماموں نانا کو بھی یاد کیا۔ تقسیم کے بعد ان کے نانا اپنا گھر کوڑیوں کے مول بیچ کر ان لوگوں کو لے کر پاکستان آگئے۔ وہاں احمد ندیمؔ قاسمی نے ان کی سرپرستی کی۔ ان کی کہانیاں ۱۹۴۲ء؁ میں شائع ہونے لگی تھیں۔ انہوں نے اپنے چار مجموعوں کا ذکر کیا۔ ان کے ناول پر ابلیس آدم جی انعام ملا تھا۔ ۱۹۵۰ء؁ میں ان کی شادی ظہیر بابر سے ہوئی تھی و ہ ایک بیٹے کی ماں ہیں۔ ۱۹۸۰ء؁ میں وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سکریڑی بنی تھیں۔ انہوں نے سی آئی ڈی کے ہاتھوں پریشانیوں کا ذکر کیا۔ بہن ہاجرہ کے کراچی جانے کا ذکر کیا ہے۔ بعد میں اپنے علاج کے لئے ۱۹۸۲ء؁ میں لندن گئیں۔ جہاں ۲۴جولائی کو ان کا انتقال ہوگیا۔ میت لاہور لا کر دفن کی گئی۔
خورشید نکہت مہاراشٹر کی مشہور افسانہ و ناول نگار خاتون ہیں۔ وہ چوپڑہ ضلع جلگائوں میں پیدا ہوئیں۔جلگائوں میں تعلیم حاصل کی ۔پونا مین پیشئہ تدریس و تعلیم سے منسلک ہوئیں۔ افسانہ نویسی کا شوق تھا۔ ان کے رومانی سماجی معاشراتی افسانے رسالہ بیسویں صدی وغیرہ میں شائع ہوئے۔ ان کے چھ ناول اور چار ناولوں کے ترجمے اور ۱۱۹ کے قریب افسانے جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے مختصر حالات زندگی رسالہ بیسویں صدی دہلی اور پونے میں اردو افسانہ از نذیر فتح پوری میں تحریر کئے ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف واقعات خاندان ، وطن، پیدائش، تعلیم ، سروس، ادبی مصروفیات تحریر کئے۔ عہد و ماحول کے سماجی و معاشرتی حالات و شخصیات پر ان کی توجہ کم ہی رہی ۔ انہوں نے اشارۃً بتایا کہ ان کی زندگی مسلسل جدو جہد اور حادثات کا شکار رہی۔ زندگی کے المیہ کی تفصیل انہوں نے نہیں لکھی نہ ازدواجی زندگی کے جانب کوئی اشارہ کیا ہے۔ وہ ریٹائرڈ ہو کر پونا میں زندگی گزاررہی ہیں۔ اور لکھا ہے کہ والدین و بھائی بہنوں کے ساتھ رہتی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے شادی نہیں کی زبان و اسلوب کی دلکش اور ندرت اور نم ناک فضا کے باعث یہ آپ بیتی دلکش ہے۔
ایک خود نوشت سوانح عمری ایک خاتون سعیدہ بانواحمد نے ڈگر سے ہٹ کر عنوان سے لکھی ہے۔ سعیدہ بانو احمد پروفیشنل ادیبہ نہیںوہ آل انڈیا ریڈیو میں اردو نیوزریڈر اور پھر اردو سروس سے منسلک رہیں۔انہوں نے اپنی زندگی کی کہانی ایک ایسی عورت کی حیثیت سے لکھی جس کی زندگی مختلف نشیب و فراز پر گزری اور جسے زندگی میں بڑے نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
مشہور ادیب و نقادو افسانہ نگار ڈاکڑ اختر اورینوی کی اہلیہ شکیلہ اختر بھی اچھی ادیبہ اور افسانہ نویس تھیں۔ ضلع گیا ،بہار کے قصبے اردل میں پیدا ہوئی تھیں۔ اختر اورینوی سے شادی ہوئی وہ ۱۹۷۷ء؁ میں فوت ہوگئے۔ شکیلہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ ان کے افسانے اور ناولٹ وغیرہ شائع ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی مختصر آپ بیتی لکھی ہے۔ اس میں ارول قصبہ میں اپنی پیدائش اپنے والدین کے پڑھنے لکھنے کا شوق ۔ اپنی مدرسہ کی تعلیم۔ اور افسانہ نویسی کے شوق کا ذکر کیا ہے۔
مشہور ترقی پسند شاعر کیفیؔ اعظمی کی بیگم شوکت ؔکیفی بھی ایک آرٹسٹ تھیں۔ کیفی اعظم گڑھ میں ۱۴، جنوری ۱۹۲۴ء؁ کو پیدا ہوئے بمبئی آکر بس گئے۔ ۱۰، مئی ۲۰۰۲ء؁ کو نتقال کیا۔ شوکتؔ کیفی حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ڈرامہ کا شوق تھا۔ کیفیؔ سے ملاقات کے بعد دونوں محبت میں مبتلا ہوئے۔شادی کرلی۔ شبانہ اعظمی ، اور ان کے بھائی بابا اعظمی ۔ ان کی اولاد ہیں۔ شوکت ؔکیفی ایک پڑھی لکھی ۔باصلاحیت فن کا رہ ہیں۔ بحیثیت ادیبہ وہ مشہور نہیں۔ انہوں نے اپنی خود نوشت کی رہ گزر کے نام سے لکھی ہے۔ یہ ان کی بچپن جوانی اور کہولت کی یادوں کا مرقع ہے یہ یاد نگاری ( میمائرس) قسم کی خود نوشت ہے ۔ اس میں انہوں نے اپنے بچپن کے جاگیردارانہ ماحول اس کی حد بندیوں اور اپنی باغیانہ و متحرقانہ خیالات کا ذکر کیا۔ پھر کیفی ؔسے شادی اور بمبئی آمد اور وہاں کی ادبی ثقافتی معاشرتی، فلمی ، تھیڑ یکل سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ ایک باصلاحیت، ذہن، باوقار خوش سلیقہ باحوصلہ خاتون تھیں۔ڈرامہ میں اداکاری ، فلموں میں اداکاری کرتی رہیں۔ کیفیؔ کے ساتھ عسرت سے دولت تک کا سفر خوشی خوشی طے کیا۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی میں اپنی زندگی کو قید کردیا ہے۔ اس میں حسین ترین لمحے بھی ہیں۔ اور الجھنیں و پریشانیاں بھی ۔ ان کے عشق کا بیان بھی ہے اور ازدواجی زندگی کی پریشانیاں بچوں کی پرورش پرداخت کے مسائل بھی۔ وہ اپنا( انڈین پیوپلس تھیڑ ایسوسی ایشن) اور فلم دونوں سے وابستہ رہیں۔ اپنے شوہر اپنے بیٹے اور بیٹی سے والہانہ محبت اور ان کے ساتھ گذاری زندگی کا دلکش و دلچسپ و موثر بیان اس میں ملتا ہے۔ نجی گھریلو خاندانی زندگی کے ساتھ انہوں نے بیرونی سماجی ، معاشرتی فلمی، ادبی زندگی کے حالات کوائف اور شخصیات کو بھی انہوں نے اپنے نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔ یہ خود نوشت بڑی ہی خوبصورت ، شگفتہ و شائستہ زبان و اسلوب میں تحریر کی گئی ہے۔ ہم مصنفہ کے ساتھ ساتھ اس میں خود کو موجود پاتے ہیں۔
عہد حاضر کی معروف ادبیہ فکشن نگار صالحہ عابد حسین خانوادئہ حالیؔ سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کا اصلی نام مصداق فاطمہ تھا وہ خواجہ حالیؔ کی پر نواسی ۔ خواجہ غلام الثقلین کی بیٹی ، غلام السیدین کی بہن اور ڈاکڑ سید عابد حسین کی اہلیہ تھیں۔ ۱۸،اگست ۱۹۱۳ء؁ کو پانی پت میں پیدا ہوئیں۔ ۱۹۳۳ء؁ میں سید عابد حسین سے شادی کے بعد دہلی آگیئں ۔۸،جنوری ۱۹۸۸ء؁ کو انتقال کیا وہ بڑی فعال ادیبہ تھیں۔ انہوں نے کئی افسانے، ڈرامے، اور ناول لکھے۔ انہوں نے اپنی خود نوشت سلسلئہ روزو شب کے عنوان سے لکھی ہے۔ یہ ناول کی تکنیک میں وسیع کینوس پر لکھی گئی ہے۔ اس میں ان کی زندگی ، خاندان، اقرباو احباب ، شعر و ادب سے تعلق رکھنے والی۔ سیاسی و سماجی مذہبی شخصیات اور عصری حالات و کوائف کی عکاسی سبھی کچھ موجود ہے۔ اس میں ان کا کردار کی جگہ نمایاں ہے۔
روزو شب کا یہ سلسلہ ۱۹۱۳ء؁ میں مصنفہ کی پانی پت میں پیدائش سے شروع ہوتا ہے۔ پھر علی گڑھ، داعی پور ، میرٹھ اور پھر یورپ ، جرمنی ، امریکہ کا سفر طے کرتا ہے۔ خاندانی زندگی، حالیؔ کا گھرانہ ، عابدحسین جیسے عالم سے رشتہ ، ادبی دلچسپی سرگرمیاں ، ناول افسانہ ڈرامہ ، خاکہ ، تقاریر علمی ادبی کتب کی تصنیف و ترجمہ کا سلسلہ ، سماجی سرگرمیاں خانگی حالات ، شوہر سسرال کے حالات، پریشانیاں میں بیماریاں، ایثار قربانیاں ، اولاد نہ ہونے کا غم ، زندگی کی جدو جہد وغیرہ وغیرہ کے بیانات جا بجا بکھرے ملتے ہیں۔کتاب سے صالحہ کی دلاویز محبت بھری، مخلص، انسان دوست شخصیت ابھرتی ہے۔ خوشیوں و غموں کی زندگی ۔ کامیابیوں کے ساتھ نا کامیابیوں کا ذکر، دلی کیفیتوں کا اظہار سبھی کو بے تکلفی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ وہ فنی سطح سے نیچے نہیں اتریں۔ یہ ان کی ۷۱ سالہ زندگی اور ۶۲ سالہ ادبی زندگی اور عہد و ماحول کی کہانی ہے۔ اردو خود نوشت میں ایک پیش بہا اضافہ ہے۔
صغریٰ مہدی کا شمار عصر حاضر کی مقتدر ادبی شخصیات میں ہوتا ہینہوں نے اپنی خود نوشت حکایت ہستی کے عنوان سے لکھی ہے جو ۲۰۰۶ء؁ میں شائع ہوئی۔یہ آپ بیتی اگر ایک طرف مصنفہ کی زندگی، حالات و کوائف عصری معاشرتی کی ایک ریکارڈ ہے تو دوسری طرف ان کے خاندان، عہد و ماحول و تہذیب و معاشرت اور شخصیات کی عکاسی بھی ہے۔یہ آپ بیتی ، مصنفہ کی نجی زندگی انفرادی و اجتماعی شہری و دیہاتی زندگی ، معاشرت اور عصری حالات و کوائف و شخصیات کو پیش کرتی ہے۔ اسے تانیثی ادب میں اضافہ قرار دیا گیا ہے۔مشہور ادبیہ عصمت چغتائی نے اپنی خود نوشت ایک آپ بیتیانہ ناول (Auto Biographical Novel) کی طرز میں لکھی ہے۔ یہ پہلے رسالہ آج کل دہلی میں ۱۹۷۰ء؁ ۔ ۱۹۸۰ء؁ میں کئی قسطوں میں شائع ہوئی ۔ اسے وہ مکمل نہ کرسکیں۔ یہ ادھوری رہ گئی۔ بعد میں اے وارث علوی کے دیباچے کے ساتھ شائع کیا گیا۔ نقادانِ فن کا خیال ہے کہ عصمت ؔکو اپنی اس طرح کی آپ بیتی لکھنے کا خیال قرۃالعین ؔحیدر کی خود نوشت ، کا ر جہاں دراز ہے کی اشاعت اور مقبولیت سے آیا ہوگا۔عصمتؔ نے اپنی مختصر آپ بیتیاں کئی جگہ لکھیں جیسے رسالہ نقوش کے آپ بیتی نمبر میں (جون ۱۹۶۴ء؁ ) فن و شخصیت کے آپ بیتی نمبر (مارچ ۱۹۸۰ء؁ ) یا رسالہ آج کل میں غبارکارواں کے عنوان سے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ خود نوشت ان کی عمر کے ایک حصے پر مشتمل ہے۔یہ مربوط ، مسلسل ، یا مکمل نہ ہونے کے باوجود ایک منفرد خود نوشت کہی جاسکتی ہے۔
عظیم فکشن نگار قرۃ العین حیدر نے ایک انوکھی خود نوشت جو ان کی فیملی ساگا ( داستان خاندان) اور آپ بیتیانہ ناول و آپ بیتی ہے آپ بیتی اور فکشن کا نادر امتزاج ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے منفرد ، دلکش و دلچسپ انداز میں اپنے خاندان ، اپنے والدین اور خود کی زندگی کے حالات و کوائف کی کہانی سنائی ہے۔ اس کی ابتدائی دو جلدیں تو مربوط و مسلسل تاریخی ترتیب رکھتی ہیں۔ لیکن تیسری جلد شاہراہ وحریر مختلف موضوعات پر تحریروں کا مجموعہ ہے۔ اس کو انہوں نے نہایت وسیع کینوس پر طول زمانی و مکانی میں پیش کیا ہے۔ پہلی جلد میں انہوں نے اپنے بعید ترین اسلاف ، آباوجداد کی تاریخ بیان کی ہے۔ واقعہء کربلا کے بعد جب آلِ حسین بکھرے تو ان کے ایک فرد و سط اشیاء ہوتے ہوئے وارد ہند ہوئے اور پھر ان کا خاندان دو شاخوں میں تقسیم ہوگیا۔ جو بعد میں ان کے والد اور والدہ کے اجداد بنے۔ اور ان کے میل کی صورت میں پھر ان کی یکجائی ہوئی ۔ قرۃالعین نے یہ آپ بیتی پرانی یاد داشتوں، مسودوں ، خطوط، مطبوعہ کتب و رسائل کی مدد سے مرتب کی ہے۔ صدیوں پر محیط یہ کہانی ان کی والدہ و والد کے حالات، ان کی پیدائش ، تعلیم تربیت والد کی وفات، پھر آزادی، اور پاکستان ہجرت کے بیان پر محیط ہے۔دوسری جلد میں مصنفہ نے پاکستان کے قیام کے حالات، مصروفیات، سروس ، شخصیات ، غیر ممالک کے سفر اور مختلف سرگرمیوں کا ذکر کیاہے۔ مولانا آزادؔ کے مشورے پر واپس اور بمبئی آجانے کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد کے حالات وہ تسلسل سے لکھ نہ سکیں۔ تیسری جلد ۳۸ متفرق ابواب کا مجموعہ ہے۔ جن کے موضوعات اور بیانات مختلف النوع ہیں۔ ان میں صرف اتنا ربط ہے کہ ان میں مصنفہ کی ذات موجودہے۔ یہ حالات و واقعات ان کو پیش آئے ہیں۔ پرستان تھیڑ ، رسالہ گل آباد، بیگم کا رسیا، کشکول عنقا شاہ قوم فقیر، اسنوبری کے شگوفے، سیر کہسار، گمنام طائر حرم لیک سلام لیک، ایک عہد ساز اداکارہ وغیرہ کئی عنوانات کے تحت مختلف حالات واقعات کوائف نگینوں کی طرح جڑے گئے ہیں۔ پوری تحریر ایک عجیب سحر انگیز دنیا کی سیر کراتی ہے۔
اس طرح اردو میں بے شمارخواتین قلمکاروں نے خودنوشتیں لکھی جن میں سے چند کاذکریہاں کیا گیا۔اس مختصرمقالے میں تمام کا احاطہ کرنا اور اس پر تفصیلی گفتگو کرنا یقینا ممکن نہیں ۔انھیں کلمات کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتی ہوں ۔
(رسرچ اسکالر شعبہ ٔ اردوجامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here