خبر لیجے دہن بگڑا

0
238

حفیظ نعمانی

جموں اور کشمیر کی تاریخ یہ ہے کہ پہلے راجہ حکومت کرتا تھا تو جموں والے اسے اپنی حکومت سمجھتے تھے اور کشمیر والے شکایتوں کے پلندے لئے گھوما کرتے تھے۔ ملک کی آزادی کے بعد ریاست ختم ہوئی تو اکثریت کی بناء پر کشمیر والوں کی حکومت ہوگئی اور انہوں نے نام کے لئے ایک وزیر جموں کے ہندو کو بنالیا۔ 2014 ء میں جب وزیراعظم نریندر بھائی مودی بن گئے تو صوبائی الیکشن کے بعد سیٹوں کی تقسیم کچھ اس طرح ہوئی کہ مفتی سعید کی پارٹی نمبر ایک اور بی جے پی نمبر دو ہوگئی۔ اب اگر مفتی صاحب عمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد کو ساتھ لے کر حکومت بناتے تو آرام سے بن سکتی تھی لیکن جن پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف پوری طاقت جھونک دی ہو اُن کا ملاپ سانپ اور نیولے کا ملاپ بن جاتا۔ اور بی جے پی کے 25  ممبر عذاب بن جاتے۔
مفتی صاحب نے بہت سوچ سمجھ کر بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنالی۔ ہوسکتا ہے کہ انہیں یہ خوش فہمی ہو کہ وہ سب کا دل جیت لیں گے۔ لیکن جب مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہو اور ایسی حکومت ہو کہ اسے کسی پارٹی کی حمایت بھی درکار نہ ہو تو پھر سب کے تیور تلوار بن جانا حیرت کی بات نہیں ہے۔ اب یہ کشمیر کی بدقسمتی ہے کہ مفتی صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ان کی بیٹی نے حکومت بنانے سے انکار کردیا اس لئے کہ وہ جانتی تھیں کہ جموں اور کشمیر ایک نہیں ہوسکتے لیکن وہ یہ بھی محسوس کررہی تھیں کہ اگر وہ کنارے بیٹھ گئیں تو پارٹی بکھر جائے گی۔ اس لئے کافی کشمکش کے بعد انہوں نے وزیراعلیٰ کا حلف لے لیا۔
اب یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہے کہ ان کی حکومت جموں کے ہندوئوں نے گرائی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھی اس فیصلہ سے خوش ہے۔ جموں کے کھٹوعہ عصمت دری حادثہ کے بعد جموں میں بی جے پی بھاجپا نہیں رہی وہ ہندو ایکتا منچ بن گئی اور انہوں نے جو ننگا ناچ ناچا ہے اور سب سے زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کسی نے نہیں کہا کہ تم کیا کررہے ہو؟ پولیس کی کرائم برانچ نے جو اس حادثہ کی تفتیش کرکے جانچ کرکے چارج شیٹ تیار کی تو ہندو ایکتا منچ نے پورے جموں کو کیسری جھنڈوں سے زعفرانی بنا دیا اور حکومت کے وزیر اور جموں کے وکیل بھی ایکتا ہندو منچ کی آواز پر باہر آگئے اور کرائم برانچ نے جن لوگوں کو مجرم بنایا ان کے بے قصور ہونے کی دہائی دینے لگے۔ انتہا یہ ہے کہ انہوں نے عدالت کو گھیر لیا اور اعلان کردیا کہ وہ چارج شیٹ داخل نہیں کرنے دیں گے۔ یہی نہیں وہ لوگ جو کشمیر کے ممتاز صحافی شجاعت بخاری کی شہادت کے بعد اب جس نے تمام صحافیوں کو دھمکی دی ہے کہ وہ اپنی ایک حد متعین کرلیں جس کے آگے نہ بڑھیں اور ایک لائن کھینچ لیں جو لکشمن ریکھا ہوگی۔ یہ ان بدنام وزیروں میں سے ایک ہیں جن کی نااہلی کی بناء پر ان سے استعفیٰ لے لیا گیا تھا۔ چودھری لال سنگھ نے کہا ہے کہ کشمیر کے صحافیوں نے ایک غلط ماحول پیدا کردیا تھا۔ ابء یعنی گورنر راج ہوجانے کے بعد اپنی حد مقرر کرلیں۔
چودھری لال سنگھ شاید کسی گائوں کے چودھری ہیں وہ صحافت کو اس سے زیادہ نہیں جانتے کہ جموں میں ایک اخبار تیار ہوا وہ چھپا اور جو بچا وہ ردّی ہوگیا اور پنجاب والوں کو نہیں معلوم کہ کیا چھپا اور کس پر جھگڑا ہوا؟ ہم خود تو اپنے کو صحافی نہ کہتے ہیں نہ مانتے ہیں لیکن اخبار سے لگے ہوئے ہیں۔ جو مضمون ہم نے آج لکھنؤ میںلکھا ہے اور وہ لکھنؤ میں چھپا ہے وہی مضمون کل کو جموں سے نکلنے والے اخبار اُڑان میں چھپے گا اور وہی حیدر آباد کے منصف اور بنگلور کے سالار میں چھپے گا وہی بہار کے قومی تنظیم میں چھپے گا اور وہی کلکتہ کے اخبار مشرق میں چھپے گا۔ اور نہ جانے کہاں کہاں؟ اب چودھری لال سنگھ بتائیں کہ وہ کس کس صحافی سے حد اور لائن کھنچوائیں گے؟ لال سنگھ اتفاق سے وزیر ریاست بن گئے تھے وہ اب سابق ہوگئے وہ جن صحافیوں کو دھمکی دے رہے ہیں وہ اس وقت تک صحافی رہیں گے جب تک ان کے ہاتھ میں قلم ہے۔ اس لئے وہ ان کے منھ نہ لگیں اس کے بجائے اپنی حد کھینچ لیں۔
کھٹوعہ معاملہ میں بی جے پی اور اس کے تمام کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ اس کیس کی سی بی آئی انکوائری کرائی جائے۔ انہیں یہ بدگمانی تھی کہ کرائم برانچ نے ان لوگوں کو مجرم بنایا ہے جن کے بارے میں محبوبہ مفتی کے آدمیوں نے کہا اور سی بی آئی انکوائری کراکے وہ حکومت کے دبائو سے ان ملزموں کو جو ذمہ دار ہیں نکال لیں گے۔ محبوبہ ہندو ایکتا منچ کے اس مطالبہ کو کہ سی بی آئی کے سپرد کیا جائے سخت خلاف تھیں ان کا کہنا تھا کہ کرائم برانچ کے جن افسروں نے چارج شیٹ تیار کی ہے وہ بہت قابل اور ایماندار افسر ہیں۔
مفتی حکومت کے گرنے اور گورنر راج کے بعد اب بی جے پی کے ہندو یکتا منچ والے کہہ رہے ہیں کہ ہم گورنر سے سی بی آئی انکوائری کرالیں گے۔ اب یہ وہ جانیں یا گورنر صاحب۔ لیکن میڈیا کے تمام بڑوں نے لال سنگھ کے بیان پر زبردست احتجاج کیا ہے۔ انڈین دمن پریس کور۔ پریس کلب آف انڈیا۔ پریس ایسوسی ایشن اور فیڈریشن آف پریس کلب نے بی جے پی ممبر اسمبلی جموں کشمیر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ میڈیا تنظیموں نے کہا ہے کہ لال سنگھ کا بیان پریس کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔ یاد رہے کہ عمر عبداللہ نے بھی شجاعت بخاری کے قتل پر لال سنگھ کے بیان پر سخت ناگواری ظاہر کی ہے۔
Mobile No. 9984247500
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here