حیدرآبادی شادی

0
292

مہتاب عالم فیضانی

بھئی لفظ شادی بہت ہی خوبصورت حسین و جمیل اور پُر معنیٰ لفظ ہے۔کان کے پردوں پر جیسے ہی یہ لفظ دستک دیتا ہے تو دماغ میں طرح طرح کے ا نواع و اقسام کی مرغن اور لذیذ غذاؤں کا خیال ذہن کی ترنگوں میں حرکت پیدا کردیتا ہے۔اس کے علاوہ شادی میں صنفِ قوی اور خاص طور پر صنفِ لاغر کی موجو د گی قابلِ دید ہوتی ہے۔ میں تفصیلاً نہیں بیان کرنا چاہوںگا آپ خو د ہی سمجھ جائیے۔کیا صاحب اگر سارا کچھ میں ہی بیان کردوں تو آپ کے دماغ کو نہ سوچنے کی وجہ سے زنگ لگ جائے گا۔ وہاں جو حسین و جمیل پری رخساراور حسن کے دلدادہ وقدرداں موجو د ہوں گے اور شادی کی محفل میں کیا کر رہے ہوں گے اس کو بیان کرنا میرے خیال سے وقت ضائع کرنا ہوگا ۔ کیونکہ شادی میں یا شادی خانے میں ہونے والے خوش کُن حالات اور پُر مست فضاؤں سے تو آپ بخوبی واقف ہوں گے۔
یہاں میں شادی سے متعلق گفتگو کر رہا تھا۔ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر شہر،گاؤں اور ملک میں یہاں تک کہ مذہب و ملت کے اعتبار سے شادی کے رسم و رواج الگ الگ ہو تے ہیں ۔شادی میں ایک رسم یہ ہے کہ جس دن شادی ہوئی ہے اس رات دلہن دلہے کے ساتھ نہ رہ کردلہے کی ماں اور گھر کے دوسری عورتوں کے ساتھ وقت بتائے گی۔میں نے جب یہ بات ایک دوست کے سامنے کہی جس کی کچھ دنوں بعد شادی تھی توبھبھک کر کہنے لگا یار یہ تو ظلم ہے۔ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ یہ بھی کوئی رسم ہے؟جب میں نے اسے بتایا کہ یہ رسم ہمارے ہندوبھائیوں کے وہاں ہے تب اس کی جان میں جان آئی۔
اسی طرح ایک جگہ کی شادی کے بارے میں سنا کہ وہاں شادی ہو نے کے بعد لڑکا لڑکی ازراہِ تفنن ایک دوسرے کو چھڑ ی سے مارتے ہیں۔محفل میں اس قسم کی شادی کی بات چل رہی تھی کہ پاشا بھائی نے میری بات کو مزید مدلل بنانے کے لیے ایک ویڈیو دکھادی جس میں وہی چھڑی مارنے والی رسم نبھائی جارہی تھی۔ پہلے لڑکے نے بڑے ہی نازکی سے لڑکی کو چھڑ ی سے مارا تاکہ دلہن کو چوٹ نہ لگے ۔مگر دلہن نے دلہے کی اس نرمی کا پاس نہ رکھا اور کسی قدر زور سے دُلہے کو ایک چھڑی جَڑ دی۔دو سری بار دُلہے نے نرمی کا مظا ہرہ کیا اور دلہن نے سختی کو بر قرار رکھا۔تیسری بار بھی دلہے نے اپنے غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے آہستہ سے چھڑی ماری۔پردلہن نے دلہے کی اس نرمی کی کوئی مروت نہ رکھی اوردُلہے کی کمر پر کَس کے چھڑی جڑدی۔ اب کیا تھا دلہا پہلے سے غصے میں لا ل پیلاہوکر منتظر تھاکہ اب اگررسم میں رسمیت باقی نہ رکھی گئی تو برُا ہوگا۔ اس نے جو چھڑی اٹھائی تو دُلہن کی اچھی خاصی دُھلائی کردی۔رسم و رواج کس طرح اداکیے جاتے ہیں لوگوں نے خوب دیکھا ۔
تو شادی میں اس طرح کے عجیب و غریب رسم و رواج ہو تے ہیں کسی میں دُلہے کوتڑپنا پڑتا ہے تو کسی میں دُلہن کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔میرے دل میں شادی پر لکھنے خیال اس وقت آیا جب میںنے حیدرآباد کی دو مختلف قسم کی شادیوں میں شرکت کی اورخاص طور پران شادیوں میں اطعام و طعام کا نظم ونسق اور فراوانی سے رو برو ہوا۔آپ حضرات کو بتا دوں اس مضمون کوبرسرِ عام خصوصاً حیدرآبادی عوام کے سامنے پڑھناخود پر حیدرآباد ی شادیوں میں شرکت کو حرام کرنے کے برابر ہوگا۔ چونکہ ہو سکتا ہے میرے اس مضمون کو پڑھنے کے بعدمیرا کوئی بھی حیدرآبادی دوست اپنے وہاں شادی میں مدعو نہیں کرے گا۔لیکن مجھے اس بات کا تیقن بھی ہے تواضع ومہمان نوازی کی جو صفت یہاں کے لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے ،ضرور وہ صفت میرے اس مضمون سے پیدا ہو نے والی کدورت پر غالب آجائے گی۔
بہر حال میں تو حیدرآباد ی شادی کے بارے میں گفتگو کرنے کھڑا ہو ا ہوں۔مجھے امید ہے کہ آپ نے حیدرآباد میں کسی نہ کسی شادی میں ضرورشرکت کی ہوگی۔ اگر نہیں بھی کی ہے توکوئی افسوس کی بات نہیں ۔ میںآپ تمام کو مُفت میں مشورہ دینا چاہوں گا، کہ جلدی از جلد کسی حیدرآبادی سے دوستی کیجئے اور زبردستی شادی میں شرکت کا شرف حاصل کریئے،اور ساتھ ہی وہاں کے خوش نما اور دلچسپ منظر سے لطف اندوز ہو ئیے۔حیدرآبادی شادی پرروشنی تو ڈالنا چاہتا ہوں لیکن تفصیلی روشنی ڈلنا بہت مشکل ہے۔کیوں یہاں کی شادیوںپر لکھنا گویا ’’فسانئہ آزاد‘‘کو للکارنااور اس کی ضخامت کو ہلکے میں لینا ہوگا۔باالفرض اگر تفصیلی روشنی میں نے ڈال بھی لی ،تو اس بات کا پُختہ یقین ہو جائے گا کہ میں نے سمندر کو کوزے میں سمیٹ لیا ہے۔اس لئے میں نے سوچا کہ ابھی بس سرسری طور پران احوال کو بتاتا چلوںگاجو میں نے خو داپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے۔
میٹرو فنکشن ہال کا نام تو آپ نے سنا ہوگا ۔وہی جوشمس آباد جاتے ہوئے آرام گڑھ کے پڑوس میں واقع ہے۔ایک شادی کے لیے اس کا کرایہ اندازاً تین سے چار لاکھ روپئے ہیں۔اسی میں ہمارے نئے دوست کی ہمشیرہ کی شادی تھی۔ان دنو سمجھ لیجئے ہماری قسمت کا تالا کھلا ہوا تھا کچھ دن پہلے ہوٹل پارک میںدو ہفتے گزارے تھے، جس میں بارہ لاکھ روپئے ہمنے اڑائے اورپھر اتنی مہنگی شادی میں شرکت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔جب ہم شادی ہال میں قدم رنجا ہوئے تو تمام لوگ اس سوچ میں پڑ گئے کہ ہم کووں کے درمیان یہ سفید کبوتر کہاں سے آگئے؟کیوں کہ سارے لوگ کالی شیروانی میں قید تھے۔قید اس لیے کہ اس وقت حیدرآباد میں دھوپ کالے نے دھوم مچا رکھی تھی۔ اور ہم کھُلے ہوادارکُرتے پاجامے میں ملبوس تھے۔
ہم کو دیکھتے ہی عزیزدوست اسٹیج سے دوڑتا ہوا نیچے آیا۔ اس درمیان اسٹیج پر کھڑے حضرات ڈر گئے کہ کہیں زلزلہ تو نہیں آگیا۔چونکہ ہمارے میزبان دوست اپنے ایک کوینٹل وزن کے ساتھ ا پنے والد کی دولت مندی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔اب ظاہر ہے اگر اتنا لحیم شحیم ،موٹا تازہ،بھاری بھرکم،دیو ہیکل،عظیم الجثہ انسان چھوٹے سے اسٹیج پر دوڑے گا تو زلزلے کا خدشہ تو ہوگا ہی۔ملاقات سے ابھی فارغ ہوئے تھے کہ وہ گھڑی آگئی جس کے لیے ہمیں بلایا گیا تھا اور جس کے لیے ہم آئے تھے یعنی کھانے لیے آواز دی گئی۔تو اصل بات یہاں سے شروع ہوتی ہے غور سے سنئے گا۔
ماشا اللہ کھانے کا ٹیبل انواع و اقسام کے لذیذ، مزیداراور مرغن غذائوں سے صر بھرا ہو اہی نہیں بلکہ پَٹا ہوا تھا۔اور اس قدر پٹا ہوا تھا کہ ہمیںٹیبل کا اوپری حصہ ٹھیک سے نظربھی نہیں آ رہا تھا۔ایک طرف تندوری چکن ،چکن مسالہ،چکن کڑھائی،چکن قورما،اور چکن بریانی تھی تو دوسری طرف مٹن مسالہ،بھُنا ہوا مٹن،شاہی مٹن اور مٹن بریانی تھی اور میرے داہنے طرف مسالے دار تلی ہوئی مچھلی اور شوربے والی مچھلی کا پیالہ رکھا تھا ،تو بائیں طرف نہاری پائے نان روٹی کے ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ درمیان میں کئی قسم کے میٹھے مثلاً خوبانی کا میٹھا،ڈبل کا میٹھا، کسٹڈ، آئس کریم کیک اوررس ملائی ہمیں کھانے کو للچا رہی تھیں۔سچ پوچھئے تو ہمیں لگا آج تو ٹوٹ کر کھائیں گے ۔مگر کبھی کبھی ایسا ہو تا ہے کہ کھا نا اتنا لذیذاور خوش نما ہو تا ہے کہ چند لقمے میں ہی پیٹ بھرجاتا ہے۔ویسے بھی ہم مدرسے میں رہ کر سادے کھانے کے عادی ہو گئے تھے۔ اس لیے ہم جلد ہی کھانے سے فارغ ہو گئے۔
ویٹر اتنا پھرتیلا تھا کہ جیسے ہی دیکھتاکہ فلاں ڈش کو تمام نے ایک ایک بار کھالی تو فوراً ایک نئی ڈش لا کر رکھ دیتا۔مجھے خیال آیا کہ یہ بچے ہوئے کھانے کا کیا کرتا ہے تو لگتے ہاتھ میں نے پوچھ ہی لیا۔بھئی سُنئے۔یہ جو بچا ہوا کھانا ہے آپ اس کا کیا کرتے ہیں؟اس کے جواب سے میں سکتے میں پڑ گیا۔ کہتا ہے گٹر میں جاتا ہے۔سارا کھانا گٹر میں جاتا ہے کسی غریب کو نہیں دیتے ہو ۔ہاں سب گٹر میں ڈال دیا جاتا ہے۔چونکہ میں دوسال سے حیدرآباد کی سڑکوں پر بھوکے مسلم فقیروںکو دیکھتا آ رہا تھا اس لیے مجھے اس بات نے حیرت زدہ کردیا کہ سارا کھانا گٹر میں ڈال دیا جاتا ہے۔اچانک مجھے اس بچے کا خیال آگیا جو فلک نما اسٹیشن کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ایک میلی کچیلی روٹی اپنے گندے کپڑے سے صاف کرکے کھا رہا تھا۔اور اس وقت مجھے احساس ہواکہ حیدرآباد میں صرف ایک لڑکی کی معمولی سطح کی شادی میں چار سے پانچ لاکھ روپیہ کیسے خرچ ہو تا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور دلچسپ شادی میں شرکت کرنے کا مجھے شرف حاصل ہوا۔ہوایوں کہ میرے ہر دل نہایت عزیز دوست کی شادی تھی۔ شادی ہال میں گھُستے ہی میں نے دیکھا کہ ہال مکمل کھچا کھچ بھرا ہے۔اور دولہے حیدرآباد کی خاص زبان میں نوشہ کو لوگ گھیرے کھڑے تھے۔ جو گھیرے کھڑے تھے ان میں زیادہ تر معمر حضرات تھے۔ اب یہ معلوم نہیں ہو پایاتھاکہ وہ سارے بوڑھے لوگ مبارکبادی دے رہے ہیں یا آنے والی مصیبت سے آگاہ کر رہے ہیں۔
’’آگاہ اپنی بیگم سے کئی بشر نہیں،،
اس کے علاوہ’’ دِل مِلے نہ سینہ ملائے جاؤ‘‘کی رسم بھی ادا کررہے تھے۔اتنی عقیدت!! میِں نے اس سے پہلے کسی دولہے کے ساتھ نہیں دیکھی تھی،کہ ایک لمبی قطار لگی ہے لوگ مصافحہ کر رہے ہیں اور گلے بھی مِل رہے ہیں۔دولہے کے شادی شُدہ دوست نوشہ سے گلے ملتے ہوئے گویا زبانِ حال سے کہے جا رہے تھے ’’بیٹا بہت ہنستا تھانا اب دیکھتے ہیں تو کیسے ہنستا ہے۔اب تو بھی ہماری فہرست میں آگیاہے۔بلکہ تُو توسرِ فہرست ہے۔
میں نے دیکھا کہ مسلسل کھڑے رہ کرملنے والی تھکان سے دولہے کی بری حالت ہوگئی تھی۔ پھربھی چہرے پرزبردستی کی مسکراہٹ لیے ملے جا رہاہے۔ملے جار ہا ہے ۔آپ سوچئے اگر کوئی مسلسل پچاس لوگوں سے مصافحہ کرے گلے ملے تو اس کی کیا حالت ہوگی اور یہاں تو سوپچاس کی بات ہی نہیںتھی۔مزید ظلم بالائے ظلم یہ کہ ایک بار گلے لگا کر کسی کا دل مطمئن نہیں ہو رہا تھااس لیے تین تین بار دُلہے کو کندھے سے پکڑ کے اپنے سینے سے ٹکرائے جا رہے ہیں۔ ٹکرائے جار رہے ہیں۔یہ سب میں دیکھ رہاتھااور چونکہ اس وقت کچھ دن پہلے ہی میری سگائی ہو ئی تھی تو میںشادی کے اس منظر کو دیکھ کروحشت سے کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔اچانک فون کی گھنٹی نے مجھے فکر کی گہرائی سے آزاد کیا اور میں ہال سے باہر چلا گیا۔
واپس آکر کیا دیکھتا ہوں کہ پوراہال خالی ہے۔کافی دیر تک میں حیران و پریشان وہاں کھڑا رہا۔اس درمیان میں نے پلیٹ ،چمچ ،شیشش، چھِ چھِچ ،بھائی ذرہ ادھر بڑھا نااور او ہلو بھائی کی آوازیں سُنی ۔پوچھنے پر معلوم ہو اکہ یہ آوازیں پردے کے پیچھے سے آ رہی ہیں۔اورسارے لوگ میدانِ طعام میں اپنی اپنی آستینیں چڑھاکر اتر چکے ہیں۔صرف دو لوگ دولہے کے ارد گر د بیٹھے ہیں ان کے چہرے سے یہ لگ رہا تھا کہ وہ بھی زبر دستی بیٹھے ہیں۔اکیلا تو میں پڑ ہی گیا تھامگر ’ہمت مرداں تو مدد خد‘ا پر عمل کرتے ہوئے میں نے اپنی بھی آستین چڑھائی اور میدانِ طعام میں جا گھُسا۔ دس منٹ چاروطرف طواف کے بعد بڑ ی مشکل سے جگہ مِلی۔اب جیسے ہی کُرسی پر بیٹھا اس ٹیبل پر بیٹھے تمام لوگ میری طرف نظر جماکر دیکھنے لگے۔وہ آپس میں ایک دوسرے کواس طرح سے دیکھنے لگے گویا ایک دوسرے سے یہ سوال کرنا چاہتے ہوں’’ارے یاریہ کہاں سے آگیا‘‘ابھی یہ کباب اٹھالیگا۔ابھی یہ تندوری چکن کھاجائے گا۔ابھی یہ لیگ پیس بھی نہیں چھوڑ ے گا۔
بہر حال تاخیرکا خمیازہ تو بھگت ہی رہا تھاپھر بھی میںبریانی کی نئی پلیٹ کے انتظارمیںصابر و شاکربیٹھا رہا یہ سوچ کرکہ اس میں سے تھوڑی بوٹی ووٹی مل جائے گی ۔لیکن میری ساری امیدوں پر ایک بڑے میا ںنے پانی کی پوری ٹنکی ہی اُنڈھیل دی۔جیسے ہی بریانی ٹیبل پر آئی انہوں نے ایسا ہاتھ مارا کے مٹن بریانی ’’بگھاراکھانے‘‘میں تبدیل ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پلیٹ میںصرف گنی چنی ہڈیاں او رکچھ ادھ جلے چاول ہی بچے۔پھر میں نے میٹھے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو ایک صاحب نے ڈبل کے میٹھے پر ایسا ہاتھ صاف کیا کہ وہ سِنگل کا میٹھا بن گیا۔میں بیچارا نو سیکھیا ان ماہرینِ میدان کے سامنے کیا کرتا ۔مجھے غصہ آیا میں نے سوچ لیا اب تو مجھے نہیں کھانا ہے۔ یونیورسٹی جا کر مست چکن کھاؤں گا۔مگرجب گھڑی پر نظر پڑی توہمت پست ہو گئی اور میرے ذہن میں یہ محاورہ گردش کرنے لگا’’دھوبی کا کتا گھر کانہ گھاٹ کا،،والی حالت نہ ہوجائے۔ میںنے اپنی بھلائی اسی میں سمجھی کہ چُپ چاپ جو مل رہا ہے وہ کھاکریہاں سے نکلو ورنہ بھوکے پیٹ ہی یہاںسے روانگی ہو جائے گی۔
شادی ہال میں جس دوست کا فون آیا تھااس کی میں اچھی خبر لی او رصا ف صاف کہہ دیا دیکھ یار دوستی ووستی سب اپنی جگہ لیکن اگلی بار سے تو کبھی دس بجے کے بعد مجھے ہرگزفون نہیں کرے گا ۔ میں نے اسے اُلٹا سیدھا بہت کچھ سنا دیا۔وہ کہنے لگا میرے بھائی کیا ہوا اتنا غصے میں کیوں ہے۔ اب میں کیا بتا تااسے کہ کل شادی میں کیا ہوا میرے ساتھ آخر مجھے بھی تو اپنی عزت پیاری تھی۔کچھ مہینوں بعد پھر ایک دوست کی شادی ہونے والی تھی۔میں نے سوچ لیا تھا اس بار تو میں پوری تیاری سے جاؤں گا تاکہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here