عالم نقوی
کل کیا ہونے والا ہے یہ تو بے شک بس اللہ تبارک و تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ،لیکن مستقبل قریب اپنے جلو میں ایک ایسا طوفان بلا خیز ضرور لا سکتا ہے جس کے مقابلے کی تیاری قرآنی ہدایت(انفال ۶۰) اور رسولﷺ کی سنت کے مطابق اگر نہ کی گئی تو ناقابل تصور نقصان ہمارا منتظر ہے ۔اس لیے کہ تاریخ کبھی عذر قبول نہیں کرتی ۔
عباسی خلیفہ معتصم آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا ۔ہلاکو نے اس کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے جواہرات رکھ دیے ۔اور معتصم سے کہا کہ ۔۔کھاؤ ! وہ بولا میں اسے کیسے کھا سکتا ہوں ؟ پھر تم نے یہ سب جمع کیوں کیا تھا ؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کے بجائے اپنے سپاہیوں کو معقول معاوضہ کیوں نہ دیا کہ وہ دلیری اور جانبازی سے میری فوجوں کا مقابلہ کرتے ؟ اس نے محل کی مضبوط جالیوں اور آہنی دروازوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ تم نے ان آہنی جالیوں کو پگھلاکر اپنی فوجوں کے لیے تیر و تبر کیوں نہ بنائے ؟معتصم نے بے بسی سے کہا کہ اللہ کی یہی مرضی تھی ۔ہلاکو نے کڑک کر جواب دیا کہ پھر جو تمہارے ساتھ ہونے والا ہے وہ بھی اللہ ہی کی مرضی ہوگی ۔ پھر ہلاکو نے مسرف ،مترف اور ظالم خلیفہ کو ایک مخصوص موٹے کپڑے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا ۔ ہلاکو نے بغداد کو قبرستان بنا دیا اور بغداد کبھی اپنی گمشدہ شان و شوکت حاصل نہ کر سکا ۔
تاریخ فتوحات گنتی ہے ،محل ،لباس ،پہیرے جواہرات اور انواع و اقسام کے لذیز کھانے نہیں !
تصور کریں جب یورپ میں سائنسی تجربہ گاہیں،یونیورسٹیاں ،میڈیکل کالج اور مختلف علوم و فنون کے تحقیقی مراکز قائم ہورہے تھے ہندستان کے بادشاہ تاج محل اور لال قلعے بنوا رہے تھے !جو اُن کے اِقتدار کو محفوظ رکھنے کے کام نہ آسکے ۔کیونکہ تاریخ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی ۔شہنشاہوں کے تاج میں کوہ نور ہے یا سمندر کا موتی !تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ کبھی عذر قبول نہیں کرتی !
بقول علی سردار جعفری :
یہ دامان و گریباں اب سلامت رہ نہیں سکتے
ابھی تک کچھ نہیں بگڑا ہےتم دیوانوں میں آجاؤ!
یہ کب تک سرد لاشیں بے حسی کے برف خانوں میں
چراغ درد سے روشن شبستانوں میں آجاؤ!
کبھی شبنم کا قطرہ بن کے چمکو لالہ و گل پر
کبھی دریاؤں کی صورت بیابانوں میں آجاؤ !
زمانہ کر رہا ہے اہتمام جشن بے داری
گریباں چاک کر کے شعلہ دامانوں میں آجاؤ !!
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں ربی اسحٰق شاپرہ اور ربی یوسف الیزر کی کتاب ’دی کنگس تورا ہ‘(۲۰۰۹) کا تذکرہ کیا تھا جنہوں نے سبھی غیر یہودیوں کے لیے ’گولم اور جنٹائل ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔اوکسفورڈ ڈکشنری (مرتب و مترجم شان ا لحق حقی ) مطبوعہ ۲۰۰۳ میں جنٹائل کے معنی ہی غیر یہودی اور ’بد دین ‘ دئے ہوئے ہیں ۔شاپرہ الیزر لکھتے ہیں کہ غیر یہودی گولم اور جنٹائل چاہے بے گناہ ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کو نقصان پہنچانے یہانتک کہ قتل کر دینے میں کوئی یہودی مفاد ہے تو وہ یہودی دینیات کے مطابق جائز اور حلال ہے ! اگر کسی غیر یہودی کی موجودگی یا اس کی زندگی کسی یہودی کی زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہو تو اُسے بلا اِکراہ قتل کر دینا چاہئیے ۔ یہی حکم غیر یہودی لڑکوں اور نو زائیدہ بچوں کا بھی ہے جو بڑے ہوکر یہودیوں کے لیے خطرہ بننے والے ہوں !
لیکن ،ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اب بھی خواب غفلت میں ہیں ۔نہ منزل کا پتہ ہے نہ راستے کا تعین ۔لیکن۔۔۔جو گر کے اٹھتے رہیں ان کا ہارنا مشکل ۔۔جو سر سے باندھیں کفن ان کو مارنا مشکل !
اس لیے کل خواہ کچھ بھی ہو ،ہمیں اتنا یقین ہے کہ آخری فتح تو اہل قدس ہی کی ہونا ہے وہ جنہیں قرآن اہل ایمان کہتا ہے اور جنہیں پہلے ہی خبر دار کیا جا چکا ہے کہ ’’الیہود والذین اشرکو ا‘‘ ان کے دائمی دشمن ہیں ! (المائدہ ۸۲) اور یہ کہ اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں پر اپنی ہیبت قائم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ’اپنی اپنی استطاعت بھر ہر اہل ایمان قوت حاصل کرے ‘‘(انفال ۶۰)
یہ تو فی ا لواقع طالوت اور جالوت کا مقابلہ ہے اور ’’ایسا کئی بار (پہلے بھی ) ہوا ہے کہ اللہ کے اِذن سے اقلیت ،اپنے مقابل اکثریت پر غالب آگئی ہے ‘‘اور تاریخ اپنے کو دہراتی ضرور ہے۔انشااللہ