9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں
مولانا سید فرید الحسن
جنت البقیع الغرقد مدینے کا پہلا اور قدیم اسلامی قبرستان ہے اسلام سے پہلے یہ جگہ حجاز کے شہر یثرب کے اطراف میں ایک باغ پر مشتمل زمین تھی پہلی صدی ہجری سے مسلمانوں نے یہاں اپنے اموات کو دفنانا شروع کیا اور اسلام کی اہم اور بزرگ شخصیات یہاں مدفون ہیں۔ من جملہ ان میں حضرت فاطمہؐ دختر رسول اکرؐم چار ائمہ اور پیغمبراکرؐم کے بعض رشتہ دار اور ازواج اصحاب انصار شامل ہیں مختلف حکمرانوں کے دَور میں بعض قبور پر گنبد اور مقبرے تعمیر کئے گئے لیکن حجاز پر وہابیوں کے قبضے کے بعد انہوں نے ان تمام مقبروں کو مسمار کردیا اس وقت بقیع مسجد نبوی کے نزدیک ایک ہموار زمین کی شکل میں موجود ہے جہاں قبور کی نشاندہی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے بقیع کا لفظ ایسی زمین کیلئے استعمال ہوتا ہے جس میں جھاڑیوں کے مختلف پودے اُگتے ہوں بقیع اندبیر بقیع الخیل یثرب کے ان ہی باغات میں سے تھے چنانچہ بقیع الغرقد اس زمین کو کہا جاتا تھا جو غرقد کے درخت کے پودے اور دوسری جڑی بوٹیوں سے ڈھکا ہو ظہور اسلام کے بعد یہ باغ بطور قبرستان استعمال ہونے لگا۔ 1269 ھ میں بنایا گیا مدینہ کا نقشہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے۔ مسلمانوں کا قدیم ترین قبرستان مسجد نبوی کے قریب اور شہر کے اطراف میںتھا لیکن آج مسجد نبوی اور قبرستان بقیع دونوں میں توسیع کی وجہ سے آپس میں متصل ہوچکے ہین اور مدینہ شہر کے درمیان میں ہے اسلام سے پہلے بقیع نامی کسی قبرستان کے بارے میںکوئی سند یا روایات موجود نہیں اس بارے میں سب سے قدیمی ادبی اثر عمرو بن النعمان البیاضی کا شعر ہے۔
این الذین عہد تہھم فی غطۃ
بین العقیق الی بقیع الغرقد
جو قبیلہ خزرج اور انصار میں سے تھا مدینہ سے دس میل کے فاصلے پر واقع عقیق نامی باغ اور اپنے دوستوں کے قتل کے بارے میں لکھا ہے ابن اثیر نے بھی یوم البقیع کے لفظ کے ذیل میں اس مقام پر اوس اور خزرج کی لڑائی کا تذکرہ کیا ہے الغرقد کے نام سے موسوم کرنے کا سلسلہ ظہور اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت سے شروع ہوا تاریخ کامل میں بقیع الغرقد کا ذکر ملتا ہے۔ بیاضی نے جو شعر کہے ان کو فیروز آبادی نے درج کیا ہے۔ حماسہ کے مولف ابوتمام نے بھی تبصرہ کیا ہے۔ صدر اسلام پیغمبر اکرؐم کی مدینہ ہجرت مسلمانوں کے لئے ایک قبرستان کی ضرورت تھی اور یہ جگہ پیغمبر اکرؐم نے معین کی مہاجرین میں سب سے پہلے صحابی جو مدفون ہوئے عثمان بن مظعون بیت الاحزان بھی بقیع میں تھا جسے امیرالمومنین مولا علی ؑ نے بنت رسول اکرؐم کو عزاداری کرنے کے لئے بنایا تھا ابن بطوطہ نے جو کچھ دیکھا وہ یوں ہے ابراہیم بن محمد کی قبر پر سفید رنگ کا گنبد تھا ازواج رسول اور امام حسن ؑ مستحکم گنبد تعمیر تھے۔ عثمانی حکومت کا د ور1337 ھ بہت سے افراد نے اپنے اپنے مشاہدات بیان کئے ہیں چاروں ائمہ کی قبروں پر ایک بڑا قبہ بنا ہوا تھا حضرت فاطمہ دختر رسول اکرؐم کی قبر مبارک پر ریشمی کپڑے کی چادر جس پر سونے چاندی کے تاروں سے پھولوں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ مغربی مشرف جان لوئیس نے وہابیوں کے برسراقتدار آنے کے بعد حجاز کا سفر کیا بقیع کا آنکھوں دیکھا حال لکھا بقیع مشرقی دنیا کے حقیر ترین قبرستان کی شکل اختیار کرگیا ہے یہ قبرستان احد میں مقبرہ جناب حمزہ یا قبا کے مقام پر اسلام کی پہلی مسجد مسجد قبا کی طرح مقدس ہے اور ان مقامات مقدسہ میں شمار ہوتا ہے جن کی زیارت کو حجاج اپنے عبادتی اعمال میں شمار کرتے ہیں۔ اولیاء الٰہی سے توسل اور قبور کی زیارت کو شرک قرار دیتے ہوئے قبور کو مسمار کرنا تاریخی اعتبار سے اگرچہ وہابی افکار میں پہلے سے ملتا بھی ہے ابن تیمیہ اور اس کے بعد عبدالوہاب نجدی نے اس کو اور زیادہ پروان چڑھایا حجاز کے وہابیوں نے 1220 ہجری کو مدینہ پر پہلا حملہ کیا جنہیں نابود کرنے کیلئے عثمانی حکومت کے حکمران سلطان محمود دوم نے انہیںنابود کرنے کیلئے مصر کے گورنر محمد علی پاشا کو حکم دیا اور آخرکار وہابی فتنے کو خاموش کیا گیا مسمار شدہ آثار کو دوبارہ تعمیر کیا گیا کچھ وقت گذر جانے کے بعد وہابیوں نے مدینہ پر ایک بار پھر سے حملہ کیا اور قبروں پر مزار بنانے اور زیارت پڑھنے کو بدعت قرار دیتے ہوئے مذہبی مقامات کو منہدم کرنے لگے اس کے خلاف تمام اسلامی ممالک نے شدید احتجاج کیا۔ وہابی قاضی الفصات عبداللہ بن سلیمان بن بلید خود مکہ سے مدینہ پہنچا مقبروں کو منہدم کرنے کے لئے اس فتوے کے تحت آٹھ شوال 1344 ھ کو بقیع کے مقبرے منہدم ہوگئے۔ آٹھ شوال 1344 ھ کو بقیع مسمار ہونے کے بعد یہ دن یوم الانہدام سے مشہور ہوا مسلمانوں نے حج پر جانے سے انکار کیا لیکن شیخ عبدالرحیم فصولی حائری اس سال یا دوسرے سال شیعوں کے ایک گروہ کے ساتھ شام کے راستے سے حج کے سفر پر نکلے۔ عبدالعزیز بن عبدالرحمان بن سعود نے بڑا استقبال کیا۔ آپ نے اس موقع پرانہدام بقیع پر اعتراض کیا عبد العزیز نے بھی ظاہر ی طور پر اس کام کی مذمت کی منقول ہے عبد العزیز نے انہدام کو عرب جاہل بدوئوں کی طرف نسبت دی خود کو اس سے بری جانا شیخ عبدالرحیم فصولی نے ایک تجویز دی کہ سنگ مرمر کے چبوترے بنادیئے جائیں جو قبروں پر ہو، ایک ایسے نیچے جہاں زائرین کھڑے ہوکر زیارت پڑھ سکیں۔ 1371 ھ کو اسلامی جلسہ منعقد ہوا آیت اللہ بروجردیؒ کے نمائندہ حجۃ الاسلام شریعت زادہ اصفہانی نے بقیع کی عمارتوں کا مسئلہ اٹھایا دیگر شیعہ علماء نے اس پر آواز اُٹھائی آیت اللہ کاشف العظماء فلسطین کے مفتی اعظم حاجی سید امین الدین الحسین اور سید العراقین طہرانی کے دور میں ایک وفد تشکیل ہوا جو حجاز کی حکومت سے مذاکرات کریں ان مذاکرات کے نتیجے میں بھی کوئی عملی کام حجاز کی حکومت نے نہیںکیا صرف ائمہ بقیع کی قبروں کے اردگرد پتھر لگائے زائرین کے لئے آمد و رفت کے لئے پکا راستہ بن گیا آیت اللہ موسیٰ صدر نے بھی ایک خط کے ذریعہ عبدالعزیز کو تعمیر بقیع کی یاد دہانی کرائی اور لکھنؤ کے بزرگ ترین علمائے کرام نے انہدام بقیع پر جلسہ کیا اور یہ دن یوم الانہدام بقیع سے مشہور ہوا اور آج تک ساری دنیا مذمت کررہی ہے۔ ہم بھی مذمت کرتے ہیں انہدام جنت بقیع کی اور دعا کرتے ہیں جلد تعمیر ہو۔ جنت البقیع کی۔
��