تصور عبادت و بندگی ۔۔۔۔نہج البلاغہ کے تناظر میں

0
919

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

سید امین حیدر حسینی
(استاد جامعہ ایمانیہ،بنارس)

عبد و معبود کے درمیان پاک و پاکیزہ رشتے کوبرقرار رکھنے کا نام عبادت و بندگی ہے۔عبادت و بندگی جس اعلیٰ پیمانے پر ہوگی عبد کا اپنے معبود سے رابطہ بھی اسی معیار کا ہوگا۔ اللہ کی عبادت و بندگی اسی وقت اوج کمال تک پہنچے گی جب بندوںکو اس کی حقیقی معرفت حاصل ہو۔چنانچہ جیسے جیسے پروردگارکی شناخت و معرفت میں اضافہ ہوگا انسان اپنے معبود سے قر یب سے قریب تر ہوتا چلا جائے گا۔عبادت و بندگی وہ عظیم نعمت ہے جس کے ذریعہ انسان اللہ کا محبوب بن سکتا ہے،وہ لائحہ عمل ہے جس پر عمل پیرا ہو کر پروردگار عالم کی رضایت حاصل کی جا سکتی ہے،وہ بلند وسیلہ ہے جس کی مدد سے انسان خود بھی ہدایت یافتہ ہو سکتا ہے اور دوسروں کو بھی راہ راست پر لا سکتا ہے،وہ اطمینان بخش اورسکون آور دوا ہے جس کے سبب ذہنی و قلبی پریشانیوں سے نجات مل سکتی ہے،لہذا ایسی نایاب نعمت اور مقد س عمل کو گلے لگانا او ر اس پر عمل پیرا ہونا ارباب عقل و شعوراور صا حبان فکر و نظر کا کام ہے جس کی تائید عقل بھی کرتی ہے اور شریعت بھی۔
کسی بھی لفظ کی اہمیت و فادیت کا اندازہ اس کے استعمال سے بہ آ سانی لگایا جا سکتا ہے۔جب یہ معلوم ہو جا ئے کہ استعمال کرنے والا کون ہے اور کس کے لئے استعمال کر رہا ہے تو اس لفظ کی عظمت و اہمیت خو د بخود واضح و آشکار ہوجائے گی۔ پروردگار عالم نے جب قرآن میں سب سے عظیم بلندی کا ذکر کیا تو اس میں رسول اکرم ؑ کو ’’عبد ‘‘جیسے لفظ سے یاد کرکے مذکورہ لفظ کو تقدس عطا کر دیا ۔ ’’عبد ‘‘اس پاک و پاکیزہ لفظ کا نام ہے جو قرآن میں رسول اکرم ؑ اور انبیائے کرام جیسی معصوم ہستیوں کے لئے استعمال ہو ا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی(اسرا؍۱)،ترجمہ: پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک لے گئی‘‘۔ قرآن حکیم میں حضرت عیسیؑ جیسے عظیم نبی کی نبوت اور آسمانی کتاب سے پہلے ان کے عبد ہونے کا اعلان ہورہا ہے جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ حضرت عیسیؑ کو منصب نبوت جیسی عظیم نعمت ان کی عبادت و بندگی کے سبب ملی۔
ؑ اقسام عبادت:نہج البلاغہ میں مولائے کائنات حضرت علی ؑ نے عبادت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے جس کے ذریعہ عبادت کے صحیح معنی و مفہوم تک پہنچا جا سکتا ہے اور حقیقی عبادت گذاروں کی شناخت ہو سکتی ہے ،البتہ عبادت کی مذکورہ تینوں قسمیں بارگاہ ایزدی میں قابل قبول ہیں لیکن آخری قسم ’’عبادۃ الاحرار‘‘ سب سے اعلیٰ درجے کی عبادت ہے، مولا علی ؑ ارشادفرماتے ہیں:انّ قوماً عبد وا اللہ رغبۃً فتلک عبادۃ التجار،انّ قوماً عبد وا اللہ رھبۃً فتلک عبادۃ العبید،انّ قوماً عبد وا اللہ شکراً فتلک عبادۃ الاحرار(حکمت؍ ۲۳۷)ـ،ترجمہ :’’ایک قوم ثواب کی لالچ میں عبادت کرتی ہے تو یہ تاجروں کی عبادت ہے ،اور ایک قوم عذاب کے خوف سے عبادت کرتی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے ،اصل وہ قوم ہے جو شکر خدا کے عنوان سے عبادت کرتی ہے اور یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے‘‘۔
(۱) تاجروں کی عباد ت: اسلام کی نگاہ میں تجارت ایک پسندیدہ اور مستحسن عمل ہے جس کے فوائد سے صاحبان عقل و شعور بخوبی واقف ہیں۔ انسان اس لئے تجارت کرتا ہے تاکہ فائدہ حاصل ہو سکے اور مال و دولت میں اضافہ ہو تا رہے ۔چنانچہ اگر اللہ کی عبادت بھی اسی نوعیت کی ہوگی تووہ تاجروں کی عبادت کہی جائے گی جو اجر و ثواب کے حصول کے لئے انجام دی جا رہی ہے۔ایسے مقام پر انسان اللہ کی عظمت و منزلت کو درکنار کر اپنے فائد ے کو پیش نظر رکھ کر عبادت پروردگارانجام دیتا ہے ۔اسی قسم کی عبادت کی طرف مولا ؑ ارشاد فرما رہے ہیں:انّ قوماً عبد وا اللہ رغبۃً فتلک عبادۃ التجار(حکمت ؍۲۳۷)؛ایک قوم ثواب کی لالچ میں عبادت کرتی ہے تو یہ تاجروں کی عبادت ہے۔
(۲) غلاموں کی عبادت:جس طرح ایک غلام اپنے مالک کے خوف سے اس کی اطاعت و پیروی کرتا ہے تاکہ مالک اس کی سرزنش نہ کرے نیز بعض بندگان خدا بھی اللہ کے خوف سے اس کی عبادت و بندگی کرتے ہیں تاکہ عذاب خدا سے محفوظ رہ سکیں،اس مقام پر بھی انسان خداوند عالم کی عظمت وبزرگی، جلالت و منزلت اور شان و شوکت کو فراموش کرکے اپنی عبادت کو عذاب سے بچنے کی سپر قرار دیتا ہے، ’’انّ قوماً عبد وا اللہ رھبۃً فتلک عبادۃ العبید(حکمت ۲۳۷)؛اور ایک قوم عذاب کے خوف سے عبادت کرتی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے ‘‘۔
۳) آزاد لوگوں کی عبادت:عبادت و بندگی یعنی اللہ کی بغیر چون و چرا اطاعت و پیروی کرنا بالفاظ دیگر اس کے بنائے ہوئے احکام و قوانین کے آگے تسلیم محض ہو جانا ۔یہ امر اسی وقت مرحلہ عمل میں آئے گا جب انسان اللہ کی عبادت و بندگی نہ اس کے عذاب کے خوف سے کرتا ہو اور نہ ثواب کی لالچ میں بلکہ پروردگار کو عبادت کا مستحق سمجھ کر اس کی بندگی کرتا ہو تو یہ آزاد لوگوں کی عبادت ہوگی ۔جیسا کہ امیر المومنین حضرت علیؑ ارشاد فرما رہے ہیں:انّ قوماً عبد وا اللہ شکراً فتلک عبادۃ الاحرار(حکمت ؍۲۳۷)؛’’اصل وہ قوم ہے جو شکرخدا کے عنوان سے عبادت کرتی ہے اور یہی آزاد لوگوں کی عبادت ہے‘‘ـ۔عبادت کی مذکورہ قسم حقیقی معنی میں عبادت کہی جانے کی مستحق ہے جس پر عمل پیرا ہونا ناممکن تو نہیں لیکن بے حد سخت مرحلہ ہے۔ حضرت علی ؑ ایک دوسرے مقام پر اپنی پسندیدہ عبادت کاتذکرہ کر رہے ہیں جس کا شمار بیان شدہ عبادت میں ہوتا ہے: ’’الھی ما عبدتک طمعاً فی جنتک ولا خوفاً من نارک بل وجدتک اھلاً للعبادۃ فعبدتک؛(ارشاد القلوب ،ترجمہ مسترحمی،ج ۲،ص ۲۹۲)؛پروردگارا: میں نے تیری عبادت نہ جنت کی لالچ میں انجام دی ہے اور نہ ہی جہنم کے خوف سے بلکہ تجھے لائق عبادت پایا اس لئے تیری عبادت کی ہے‘‘۔
عبادت اور خشوع وخضوع: قبولیت عبادت کے شرائط میں سے ایک اہم شرط خشوع و خضوع ہے جسے عبادت کی روح و جان کہا جاتا ہے ۔ خشوع کے لغوی معنی خضوع، تواضع ،انکساری ،خاکساری وغیرہ کے ہیں۔بارگاہ خداوندی میں قلب کا تواضع و انکساری کے ساتھ قرار پانے اور تسلیم حق ہو جانے کو خشوع کہا جاتا ہے۔ خشوع، معمولاً قلبی وباطنی انکساری وتواضع کے لئے استعمال ہوتا ہے اگرچہ ظاہری اعضاء و جوارح کے لئے بھی استعمال ہو اہے جبکہ خضوع ،ظاہری تواضع اور انکساری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مولائے متقیا ن ؑ نے نہج البلاغہ میں متقیوں کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ صاحبان تقوی اپنی عبادتوں کو خشوع و خضوع کے ہمراہ انجام دیتے ہیں :و خشوعاً فی عبادۃ،اور عبادت میں خشوع قلب(خطبہ ۱۹۳؍ ۱۷)۔امیرالمومنین ؑ نے اپنی گفتگو میں ــ’’عبادت‘‘ کا لفظ ا ستعمال کرکے یہ واضح کر دیا کہ خشوع فقط نماز ہی کے لئے شرط نہیں بلکہ تمام عباتوں کے لئے ضروری ہے۔خشوع و خضوع کے بغیر نہ ہی عباد ت کی حقیقت و فضیلت تک پہنچا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے لطف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
عبادت اور ترک شرک:عبادت فقط اللہ سے مخصوص ہے لہذا اگر اس میں غیر اللہ شریک ہو گیا تو وہ عمل عبادت نہیں شرک ہوگا ۔لہذا شرک جیسے گناہ کبیرہ سے پرہیزنہ صرف فائدے کا سودا ہوگا بلکہ دنیا و آخرت میں بھی عزت و وقار اور کامیابی و کامرانی کا سبب قرار پائے گا۔قرآن میں بھی شرک سے پرہیز کے سلسلے میں بے شمار آیات موجود ہیں اور احادیث میں بھی بے حد تاکید آئی ہے۔اگر انسان اپنے نیک کاموں میں اخلا ص و للہیت کو پیش نظر رکھے گا تو وہ شرک جیسے بڑے گناہ سے محفوظ رہ سکتا ہے، ارشاد خداوندی ہوتا ہے:واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئاً(نساء ؍۳۶) ترجمہ:’’اللہ کی عبادت کرو اور کسی شیٔ کو اس کا شریک نہ بناؤ‘‘۔
امیرالمومنین حضرت علی ؑ بھی شرک جیسے بڑے گناہ کے متعلق خطبہ نمبر ۱۵۳ میں بیان فرماتے ہیں کہ انسان اس دنیا میں کسی قدر محنت کیوں نہ کرے اور کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو جائے اگر دنیا سے نکل کر اللہ کی بارگاہ میں جانا چاہے اور مذکورہ خصلتوں سے توبہ نہ کرے تو اسے یہ جد و جہد اور اخلاص عمل کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، ان میں سے ایک خصلت عبادت خدا میں کسی کو شریک قرار دینا ہے :ان یشرک باللہ فیما افترض علیہ بن عبادتہ (خطبہ؍۱۵۳؍۱۰)، ترجمہ:’’ (انسان) عبادت الہی میں کسی کو شریک قرار دیدے‘‘ درحقیقت اللہ کا حقیقی اور مخلص بندہ بننے کے لئے شرک جلی ہو یا شرک خفی دونوں کو ترک کرنا ہوگا تاکہ اللہ کی عبودیت و بندگی کا حق ادا ہو سکے اور اس کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں۔
عبادت اورآزمائش الہی: امتحان وآزمائش، پروردگار عالم کے اس طریقہ کار کا نام ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو مقام و مرتبہ اور عزت و وقارعطا کرتا ہے۔خدائے کریم مختلف طریقوں اور متعددچیزوں کے ذریعہ اپنے بندوں کا امتحان لیتاہے جس سے کسی کو بھی فرار نہیں ہے۔ کوئی ایسی معصوم ہستی نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا انسان ہے جس کا اللہ نے امتحان نہ لیا ہو۔ویسے تو قرآن میں متعدد مقامات پر الہی امتحانات کا ذکر آیا ہے لیکن اختصار کے پیش نظر صرف ایک مقام کا ذکر کیا جا رہا ہے:ولنبلونکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات و بشر الصابرین(بقرہ؍۱۵۵)،ترجمہ:’’اور ہم یقیناً تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں‘‘۔
امتحان جس قدر سخت ہوگا اس کا اجر و ثواب اورامتیاز بھی اسی قدرزیادہ ہوگا ۔ عبادت بھی ایک قسم کی آزمائش ہے جس کے ذریعہ پرور دگار اپنے بندو ں کو آزماتا ہے تاکہ وہ امتحان میں کامیاب ہوکر کمال کے سب سے اعلی درجے پر فائض ہو جائیں۔اسی اہم امرکی طرف حضرت علیؑ نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:ولکنّ اللہ یختبرعبادہ بانواع الشدائد و یتعبّدھم بانواع المجاھد(خطبہ۱۹۲؍ ۶۴)،ترجمہ:’’لیکن پروردگار اپنے بندوں کو سخت ترین حالات سے آزمانا چاہتا ہے اور ان سے سنگین ترین
مشقتوں کے ذریعہ بندگی کرانا چاہتا ہے‘‘۔بے شک اللہ کی عبادت میں مشقت و سختی پائی جاتی ہے اور پروردگار بھی اس چیز کو پیش نظر رکھتے ہوئے اجر و ثواب عطا کرتا ہے۔حقیقی بندگی کا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب انسان اللہ کی عبادت ،ذوق و شوق اور خلوص نیت کے ساتھ انجام دے۔
عبادت اور اجر و ثواب:پوری کائنات پروردگار حکیم کے عدل و انصاف کے تحت چل رہی ہے ۔ ایک طرف اس نے انسانوں کی ہدایت وسعادت کے لئے احکام و قوانین بنائے تو دوسری طرف عقل و شعور اور اختیار وارادہ عطا کرکے ہدایت وگمراہی خود اس کے اختیار میں دیدی کہ ہدایت کا راستہ اختیار کر لے یا ضلالت و گمراہی کے دریا میں غرق ہو جائے ۔ خداوند کریم کے عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اس کے اعمال وافعال کے مطابق اجر و ثواب اور سزا و جزا معین کر ے۔چنانچہ عبادات و معاملات ہوں یا دیگر اعمال و افعال، اللہ کی جانب سے سب کے لئے اجر و ثواب معین ہیں وہ کسی کے اجر و ثواب کو ضائع نہیں کرتا۔
اجر وثواب سے متعلق بطور نمونہ چند قرآنی آیات کو پیش کیا جا رہا ہے جو مذکورہ موضوع کو سمجھنے میں بے حد مددگار ثا بت ہوںگی : ثواباًمن عند اللہ واللہ عندہ حُسن الثواب (آل عمران؍۱۹۵)ترجمہ:’’خدا کی طرف سے ثواب ہے اور اس کے پاس بہترین ثواب ہے‘‘، انّ الذین آمنوا و عملوا الصالحات و اقامواالصلاۃ و آتواالزکاۃ لھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون(بقرہ؍۲۷۷) ترجمہ :’’جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک عمل کئے نماز قائم کی زکات ادا کی ان کے لئے پروردگار کے یہاں اجر ہے اور ان کے لئے کسی طرح کا خوف یا حزن نہیں ہے‘‘،و لا نضیع اجرالمحسنین(یوسف؍۵۶)ترجمہ: ’’اور کسی نیک کردار کے اجر کو ضائع نہیں کرتے‘‘، واَنّ اللہ لا یضیع اجر المومنین(آل عمران؍۱۷۱)ترجمہ :’’بے شک ا للہ صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا‘‘۔
میرالمومنین حضرت علی ؑ بھی اسی موضوع کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں: انّ اللہ سبحانہ وضع الثواب علی طاعتہ ،والعقاب علی معصیتہ،ذیادۃً لعبادہ عن نقمتہ وحیاشۃً لھم الی جنتہ(حکمت؍۳۶۸)،ترجمہ:’’پروردگار عالم نے اطاعت پر ثواب اور معصیت پر عقاب اسی لئے رکھا ہے تاکہ بندوں کو اپنے غضب سے دور رکھ سکے اور انہیں گھیر کر جنت کی طرف لے آئے‘‘۔ ظاہر سی بات ہے اجر و ثواب کا تعلق اللہ کی اطاعت و پیروی سے ہے جس میں عبادت و بندگی بھی شامل ہے ۔عبادت کی تو فیق ہر انسان کے شامل حال نہیں ہوتی لہذا عبادت کے لئے میسر لمحات و اوقات کو غنیمت شمار کرنا چاہئے اور اخلاص و للہیت کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں سر نیا ز خم کرنا چاہئے جو نہ صرف خوشنودی خدا اور حصول بہشت کا سبب قرار پائے گا بلکہ دنیا میں بھی عزت و وقار اور کامیابی و کامرانی نصیب ہوگی۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here