تراویح میں قرآن عظیم سے کھلواڑ- حفیظؔ نعمانی
سید دُرُّالحسن رضوی اخترؔ اعظمی
مندرجہ بالا عنوان کے تحت بزرگ و محترم حفیظؔ نعمانی صاحب نے تراویح سے متعلق چند قابل تفکر حقائق بیان کرکے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا ہے اور عامتہ المسلمین کو ’’قرآن عظیم سے کھلواڑ‘‘ نہ کرکے گناہِ عظیم سے بچنے کا سجھائو دیا ہے۔ ان کے سجھائو، ترغیب اور تنبیہ میں کتنا دم ہے یہ تو مستقبل بتائے گا۔
تراویح کب، کیوں اور کس نے رائج کی یہ ایک تلخ موضوع ہے۔ اس پر گذشتہ سال تفصیلی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ محترم نعمانیؔ صاحب نے بہرحال جو چند باتیں تسلیم کی ہیں، وہ یہ ہیں اور قابل صد ستائش ہیں:
۱۔ ’’حضور اکرمؐ کے بعد حضرت ابوبکر کے زمانے تک بھی تراویح کے نام سے کوئی نماز نہیں تھی۔‘‘
۲۔ ’’تراویح میں پورا قرآن پڑھنا نہ فرض ہے نہ واجب نہ سنت…‘‘
۳۔ ’’اگر کسی مسجد میںپورے رمضان میں آدھا قرآن بھی نہ ہو تو گناہ نہیں ہے۔‘‘
۴۔ ’’(رمضان المبارک کا) پہلا عشرہ رحمت ہے، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ سے نجات ہے۔‘‘ کاش مسلمان ان عشروں سے بذریعہ تلاوت قرآن و عبادت فائدہ حاصل کریں۔
۵۔ ’’جو کوئی (قرآن) اس طرح پڑھے کہ ہر حرف سننے والے کی سمجھ میں آئے تو ایک پارہ پڑھنے میں 20 منٹ لگتے ہیں۔ (صحیح مخرج اور صحیح قرأت کی ادائیگی کے ساتھ) تو اور زیادہ وقت لگے گا۔‘‘ (کم از کم 30 منٹ لگے گا۔ دُرُّالحسن)
۶۔ ’’وہ مسلمان جنہوں نے چھ پارے سنے ہیں (یا سنتے رہتے ہیں) ان کے بارے میں وہی بتائیں گے جو تلاوت کرتے اور سنتے رہتے ہیں لیکن وہ جو مدرسہ کی بات ہے تو یہ مدرسہ کی آمدنی کا تقاضہ ہے جس نے ایک قاری کو قرآن قربان کرنے کی ہمت دی۔ انہوں نے کم سے کم یعنی قرآن عظیم کوپانچ دن میں اسلئے ختم کردیا کہ پانچ پارے سننے والے میری دُکان پر آجائیں…… مدرسہ کی ضرورتوں نے ہی یہ گناہ کرنے پر آمادہ کیا۔‘‘ (لمحۂ فکریہ ہے کہ اس گناہ میں مدرسہ فرقانیہ اور ندوہ شریف تو شریک نہیں ہے؟)
۷۔ ’’(شیطان) قرآن میںملاوٹ کرنے میں ناکام ہوگیا تو اس نے دوسرا طریقہ اپنایا (یعنی تراویح کے ذریعہ) قرآن ایسا پڑھا جائے کہ وہ قرآن عظیم نہ معلوم ہو۔ یہ بھی شیطان کی تعلیم ہے کہ رمضان میں بس ایک قرآن کے نام پر ’’یالمون تالمون‘‘ سن لو (یعلمون اور تعلمون کی جگہ پر) اور بخشش ہوجائے گی۔ جبکہ خدا کی قسم سب کو عبرتناک سزا دی جائے گی۔‘‘
۸۔ ’’جو حافظ سے جلدی پڑھنے کے لئے کہے وہ خود شیطان ہے کہ اللہ کے حکم کے خلاف کرنے کا حکم دے رہاہے۔‘‘ (قرآن میں ہے رتل القرآن ترتیلا۔ قرآن ٹھہر ٹھہرکر پڑھو)
۹۔ حفاظ ندوۃ العلماء: محترم حفیظؔ نعمانی صاحب ندوہ سے نکلنے والے حفاظ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’(حافظ اقبال صاحب سے) معلوم کیا کہ آپ کے شاگرد بھی اب ایسا پڑھ رہے ہیں کہ ہم حافظ ہوتے ہوئے بھی یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ امام قرآن پڑھ رہاہے یا کوئی ملتی جلتی دوسری کتاب سنا رہا ہے۔ حافظ اقبال صاحب نے بڑے دُکھ کے ساتھ بتایا کہ میں نے ندوہ (چھوڑ دیا ہے۔ دو مدرس حفظ قرآن کے لئے رکھے گئے) دو چار دن کے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہ دونوں تو میری ساری محنت پر پانی پھیر دیں گے۔ میں نے اشاروں میں انہیں سمجھایا کہ ندوہ کا حفظ قران میں بھی امتیاز رہنا چاہئے۔ بچوں کو تیز پڑھنے سے روکئے۔ پھر میںنے دیکھا کہ اب ندوہ کے زیادہ بچے اتنا ہی تیز پڑھنے لگے کہ یالمون تالمون کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہ آئے۔‘‘
۱۰۔ ’’بعض جگہ (محترم! بعض جگہ نہیں بلکہ کم و بیش سبھی جگہ) تراویح کو قرآن میں اس طرح پڑھا جاتا ہے کہ یہ کسی عالم سے پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ اس طرح قرآن سننے سے زیادہ گناہ ہوگا یا فلم دیکھنے سے زیادہ گناہ ہوگا۔‘‘
یہ ہے بزرگ و محترم حفیظؔ نعمانی صاحب کے دو مضامین سے اقتباس۔ اب غور و فکر و تدبر سے کام لے کر قارئین کرام فیصلہ کریں کہ ’’نماز تراویح‘‘ پڑھنا چاہئے کہ نہیں جسے خود پیغمبر اسلامؐ نے اور حضرت ابوبکر نے بھی نہیں پڑھا۔ مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں میں تو بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ جب شیطان قرآن کریم میں ایک نقطہ کی بھی تبدیلی نہ کراسکا تو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ’’نماز تراویح‘‘ کو ذریعہ بنا لیا۔ عجب نہیں کہ اپنی کامیابی پر وہ مسکرا رہا ہو۔ واخر دعوانا الحمد لللہ رب العٰلمین۔
خخخ